تازہ ترین

جامعہ روحانیت کے تحت قم میں “علمی تحقیقی نشست” منعقد

شعبہ تحقیقات جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے مرحلہ وار برگزار ہونے والے علمی تحقیقاتی نشستوں کے سلسلے کی پہلی نشست بروز جمعہ ۲ دسمتر ۲۰۲۲ کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں برگزار ہوئی۔
شئیر
99 بازدید
مطالب کا کوڈ: 7936

روحانیت نیوز، شعبہ تحقیقات جامعہ روحانیت بلتستان کی جانب سے مرحلہ وار برگزار ہونے والے علمی تحقیقاتی نشستوں کے سلسلے کی پہلی نشست بروز جمعہ ۲ دسمتر ۲۰۲۲ کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں برگزار ہوئی۔

اس علمی نشست میں حجۃ الاسلام ڈاکٹر موسی عرفانی صاحب نے اپنے ڈاکٹریٹ کی تهیسیز کا scientific process بیان کیا۔

ان کی تھیسز کا موضوع « ائمه علیہم السلام کے سماجی اخلاقیات کے متعلق موجود رپورٹوں کا قران کے سماجی اخلاقیاتی اصولوں کی روشنی میں تجزیه و تحلیل» تھا۔

انہوں نے اپنی علمی کاوش کے متعلق اظہار خیال کرنے کا موقع فراہم کرنے پر جامعه روحانیت کے صدر محترم اور شعبہ تحقیقات اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اس طرح کی علمی نشستوں کی افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باقی علماء اور محققین کو اپنی علمی تحقیقات بھی ان جیسی علمی نشستوں میں پیش کرنے کی تاکید کی۔

انہوں نے اپنے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ اگرچہ احادیث معصومینؑ کو قرآن پر پرکھنے کی روایت صدیون سے ہمارے فقهاء کرام کا علمی شیوه رہا ہے، لیکن سیرت اور تاریخ کی رپورٹوں کے متعلق ایسا کوئی مؤثر قدم اب تک نہیں اٹهایا گیا ہے۔ جس کے باعث نہ فقط قدیم شیعه امامیه مصنفین کی کتابوں میں موجود سماجی اخلاقیات کی سینکڑوں غیر متعارف رپورٹس بلا تکلیف ره گئیں بلکہ خود اس شعبے کا علمی قافلہ بہت سارے مسائل میں اختلاف کا شکار ہوتا رہا اور ذوق کے آئینے میں سیرت کی ان گزارشات کا خود پسند تفسیر یا تأول کرتے رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نا ہماہنگ ماحول کے خاتمے کی راه تلاش کرتے ہوئے وه اس نتیجے پر پہنچے که فقہی روایات کے برعکس، اخلاقی رپورٹس کو ڈائریکٹ قران کی جداگانہ آیات پر نہیں پرکھا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنے سے مزید پچیدگیوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ فقہی روایات اور تاریخی اور سیرت کے روایات میں کیا فرق ہے کہ ایک کو ڈائریکٹ قرآنی آیات پر پرکھا جا سکے اور دوسرے کو نہ پرکھ سکے؟ کہاکہ ان دونوں میں فرق یه ہے که غالبا فقہی احکام کے مصالح یا مفاسد یعنی نفع اور نقصان هم سےپوشیده ہیں، جبکه اخلاقی احکام کے مصالح اور مفاسد سب پر عیان ہیں۔

اپنے مراحل تحقیق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے معاصر کچھ نامور علمائے کرام (شهید باقر الصدر، شهید مطهری وغیره) کے نظریات سے الهام لیتے ہوئے قرآن کی آیات الاخلاق کو استخراج کرکے ان آیات کی باہمی روابط سے کچھ أصول استنباط کیا جو سماجی اخلاقیات کے قرآنی اصول کہلائیں گے۔ تاکہ ان اصول کو معیار قرار دیکر سیرت اہل بیت ع سے متعلق تاریخی روایات کو ان اصولون پر پرکھ سکیں۔

ڈاکٹر موسی عرفانی صاحب نے اپنے تحقیقاتی مراحل کے کامیاب نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ بالآخر ہم نے تاریخ و سیرت اہل بیت سے متعلق ان روایات کا راہ حل نکال دیا جو اگرچہ بظاہر معتبر کتاب میں نقل ہوئی ہیں، سند بھی صحیح ہے اور عقل سے بھی متصادم نہیں ہے لیکن اہل بیت کی سیرت کے متعلق دیگر روایات سے متصادم ہیں یا پھر عدالت و عصمت اہل بیت سے ٹکراتی ہیں۔

انہوں نے اس راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی روایات کو ان اصولوں پر پرکھیں گے جب کو قرآن سے استخراج اور استنباط کیا ہے۔ اگر ان اصولوں سے متصادم ہے تو ہم ان تاریخی روایات کو قبول نہیں کریں گے اگرچہ وہ روایات، قبولیت کے ظاہری معیاروں کے مطابق ہی کیوں نہ ہوں۔

وہ اہم ترین قرآنی سماجی اخلاقیات کے اصول جو انہوں نے استنباط کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ عدل و انصاف کی رعایت
۲۔انسانی کرامت کا تحفظ
۳۔ سماجی وحدت و اتحاد

انہوں نے یہ اصول قران کی 277 آیات الاخلاق سے استنباط کیا ہے اور انہی أصولوں کی روشنی میں ہی اہل بیت کی سیرت سے متلق ان متعدد روایات کا تجزیہ کیا ہے۔ جو یا تو دیگر روایات سے متصادم ہیں یا پھر عصمت اہل بیت کے خلاف ہیں۔

انہوں نے ان تمام process کی بهترین مثالوں کے ساتھ وضاحت دی اور آخر میں شرکاء کے سوالات کا بهی تفصیلی جواب دیا.

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *