جناب صعصعہ بن صوحان (س)
تحریر: افتخار حسین میر
مقدمہ :
خداوند متعال نے انسانوں کی ھدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو بھیجا اور بشر کو تب بھی خدا کی خدائی پر یقین نا ہوا اور کہنے لگے اگر یہ لوگ سچ بولتے ہیں تو ایسا کام کرے جو عام انسان قادر نہیں ہے تو انبیاء انھیں اپنے معجزوں کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے رب اور خالق سے نزدیک کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زمانے کے لوگوں نے خدا کے ان مقدس ھستیوں کو نہ فقط جھٹلایا بلکہ ان کو مختلف طریقوں سے مسخرہ کرنے لگے، نہ صرف مسخرے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نعوذبااللہ ان کو ساحر، دیوانہ.. کہنے لگے اچھا ہوتا اگر چہ انھی الفاظ پر اکتفا کرتے، نہ، بلکہ انکو درختوں کے درمیان ڈال کر انکے جسم کے ٹکڑے کر ڈالتے تھے
اگر چہ تکالیف روحی، تکالیف جسمی سے زیادہ سخت اور تکلیف دہ ہے اور انبیاء نے ان ساری مشکلات کو برداشت کیں دین کی راہ میں، اور انبیاء جب اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان کے بعد ایسے لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو انبیاء کی طرح ہو اسی لئے خداوند عالم نے اپنے دین کو اسلام قرار دیا ہے (ان الدین عند اللہ الاسلام) اسکی حفاظت کے لئے وارث انبیاء کو بھیجا جن کے اندر یہ تمام خصوصیات بطور آتم و اکمل موجود تھیں ان ہستیوں میں سے سب سے پہلی ہستی، شمس المشرقین، یعسوب الدین، حبل اللہ المتین، امام المتقین، قاتل الغر المحجلین امیر المؤمنین علي ابن ابیطالب علیہ صلوات اللہ و السلامہ علیہ کی ذات گرامی ہے اور آپ کی انہی صفات اور خصوصیات کی بنا پر سارے وہ لوگ جن کے دل میں خدا کی نسبت کوئی شک و شبہہ نہیں ہے وہ سب آپ کے گرد (جس طرح پروانہ شمع کے گرد گھومتا ہے) گھومتے پھرتے تھے انہی پروانوں میں سے ایک پروانہ جناب صعصعہ بن صوحان رضوان اللہ ہے،
آپ کا تعلق قبیلہ قیس سے تھا اور آیکی ولادت کوفہ میں ہوئی،
علی علیہ السلام، صعصعہ کی نگاہ میں :
زينت الخلافة و ما زانتك وما رفعتها وما رفعتك و هي إليك أحوج منك إليها، يعقوبي ج ٢ ص ١٧٩
جناب صعصعہ، امیر المومنین علیہ السلام کو خلافت کے حقدار سمجھتے تھے اور کہتے ہیں کہ علی کو خلافت کو ارزش بخشی ہے اور علی ع نے ہی خلافت کو مقام و منزلت دی ہے اور علی ع کو خلافت کی ضرورت نہیں تھی بلکہ خلافت کو علی ع کی ضرورت تھی،
جنگ جمل میں شرکت :
جنگ جمل میں آپ کے بھائی خناب صیحان پرچمدار قبیلہ عبد القيس تھے جناب صیحان کی شھادت کے بعد آپ کے دوسرے بھائی جناب زید پرچمدار بنے اور جناب زید کی شھادت کے بعد جناب صعصعہ پرچمدار بنے، اور آپ نے امیر المؤمنین کے دیگر اصحاب کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر جنگ لڑی.
جنگ صفین میں شرکت :
جنگ صفین میں جناب صعصعہ پرچمدار اور سپہ سالار قبیلہ عبد القيس تھے، جنگ شروع ہونے سے پہلے معاویہ کی فوج نے پانی پر قبضہ کیا تھا علی ع کی فوج کو پانی پینے سے روک دیا تھا اس وقت علی ع نے معاویہ سے مذاکرہ کے لئے جناب صعصعہ بن صوحان کو بھیجا،
جنگ نهروان میں شرکت :
جنگ نھروان میں بھی أمير المؤمنين ع نے خوارج سے مذاکرات اور نصیحت کے لئے جناب صعصعہ کو بھیجا، اور انھوں نے اس گفتگو میں خوارج کو امیر المومنین ع کی پیروی کی تاکید کی، جنگ نھروان میں جناب صعصعہ کی گفتگو کتاب الاختصاص شیخ مفید رح میں متن کے ساتھ زکر ہوئی ہے،
جناب صعصعہ امام صادق ع کی نگاہ میں:
امام صادق آل محمد ص فرماتے ہیں، جناب صعصعہ، امیر المومنین علی ع کے انگشت شمار افراد میں سے تھے اور صعصعہ نے علی ع کو اس طرح پہچانا جس طرح علی ع شائستہ تھے اور مولا کی شناخت رکھتے تھے،
صعصعہ بزرگان کی نگاہ میں :
شیخ مفید علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جناب صعصعہ، علی ع کے بڑے اصحاب میں شمار ہوتے تھے،
ابن قتیبہ عالم قرن سوم قمری نے، جناب صعصعہ کے نام کو مشہور شیعہ افراد کی لسٹ اور فہرست میں ذکر کیا ہے،
مسعودی نے مروج الذھب میں لکھا ہے کہ امیر المومنین ع نے جناب صعصعہ بن صوحان کو بزرگان عرب اور اپنے درجہ اول کے اصحاب میں سے معرفی کی ہے،خناب کلینی رحمۃاللہ علیہ کی روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام علی ع نے جناب صعصعہ بن صوحان کو اپنی وصیت میں گواہ قرار دیا ہے،
جناب صعصعہ کی خصوصیات :
1_ اصحاب خاص امير المؤمنين ع ميں سے تھے،
امام صادق ع فرماتے ہیں کہ کسی نے بھی علی ع کے حق کو نہیں پہچانا سوای صعصعہ اور یاران صعصعہ کے،
2_ ماھر خطیب تھے،
وہ جس کے بارے میں ساری کائنات کہے فوق كلام المخلوق و دون كلام الخالق،
اور علمای فصاحت و بلاغت جسے میزان فصاحت و بلاغت کہتے ہو جس کا خطبہ متقین، خطبہ ھمام سے معروف ہوا جس خطبے کی وجہ سے لوگوں کی روح پرواز کر جاتی ہے جس کی فصاحت و بلاغت کے قصیدے دنیا میں پڑھے جاتے ہو وہ اگر کسی کو ھذا الخطيب الشحشح کہے تو عام انسان اس کلام کو سمجھنے سے شاید قاصر ہو،
علماء تاریخ اور رجال نے جناب صعصعہ کو فصاحت اور بلاغت میں استاد معرفی کیا ہے،
امیر المؤمنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں، هذا الخطيب الشحشح… یہ ماھر خطیب اور وسعت بیان والا خطیب ہے،
ابن ابی الحدید معتزلی کہتا ہے:
و كفى صعصعة بها فخرا ان يكون مثل علي ع يثني عليه بالمهارة و فصاحة اللسان،
صعصعہ بن صوحان کے لئے علی ع کی یہ عبارے کافی ہے،
3_ شاعر تھے،
اور اپنے مولا اور مقتدا کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں، ان میں سے بعض کا ترجمہ عرض ہے،
میرے بھائی میں تیرے بعد کس سے انس لوں اور درد دل کروں؟؟
میرے سارے غم ایک کے بعد دوسرے تیری گرد جمع ہوتے رہے اور اب تیرے جانے کے بعد وہ سارا غم پھیل گئے ہیں
اگر موت بات کرنے کی اجازت دے تو میں اپنی مشکلات کی خبر دیتا
اور اپنی آنکھیں بھر بھر کر تجھ پر آنسو بھاتا اگر چہ میرے آنسو بہانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
میرے لئے یہی غم کافی ہے کہ تیری قبر کی مٹی کو ہاتھ میں گھماتا ہوں
جس وقت تم زندہ تھے میرے لئے وعظ و نصیحت رکھتے تھے اور ابھی میرے لئے وعظ نصیحت زیادہ ہے
میں اس قدر مشتاق ہوں کہ ایک لحظہ کےلیے میرے پاس لوٹ آؤ
آیا قبر، علی ع کے زائرین کے لئے خبر دیگی کہ انکی آنکھوں کے نور کو اپنی آغوش میں آٹھائی ہے،
اے موت : مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ جس سے ڈرتا تھا وہ ہوگیا،
اے موت اگر میرا فدا ہونا قبول کرتے ہو تو اپنی جان کو امیر المومنین ع پر قربان کردوں…
4_ شجاعت :
بعض لوگوں کے انحراف کے مقابلے میں مقاومت کی، جیسے معاویہ،
تینوں جنگوں میں شرکت کی کھبی جنگ میں ایک طرف کی سپہ سالاری ان کے ذمے ہوا کرتی تھی، جناب صوحان کے چھار فرزندوں، جناب زید، جناب عبداللہ، جناب صیحان و جناب صعصعہ ہیں اور یہ سب عشق علی میں ذم تھے، اور اس دور میں سارا خاندان عاشق علی ہونا عشق علی میں شجاعت کی دلیل ہے،
5_ مورد اعتماد :
امیر المومنین علی علیهالسلام نے بہت ساری کنویں کھودیں اور سارے اموال کو محرومین کے لئے وقف فرمایا جب مولا وقف نامہ لکھ رہے تھے تو اس وقت جناب صعصعہ بن صوحان کو بھی شاھد اور گواہ بنایا، جناب صعصعہ ثقہ تھے اور قلیل الحدیث اور آپ مولا کے ایسے اصحاب میں سے تھے جو مہدویت اور آخر الزمان کی شناخت اور معرفت رکھتے تھے،
6_ معارف اھل بیت سے آشنائی رکھتے تھے:
ایک دن امیر المومنین علیہ السلام خروج دجال اور صفات دجال بیان فرما رہے تھے اور فرمایا دجال کا قاتل وہی شخص ہے جس کے پیچھے عیسی نبی ع نماز پڑھیں گے اس پر نزال بن سیرہ نامي کسی نے پوچھا وہ شخص کون ہے؟ تو جناب صعصعہ بن صوحان نے فرمایا وہ بارہویں امام ہے، وہ عترت پیغمبر میں سے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے نویں فرزند ہیں اور یہ ایسا سورج ہے جو اس جھان کے مغرب سے یعنی رکن اور مقام سے طلوع کرے گا اور زمین کو ظالموں کے وجود سے پاک کرے گا اور عدالت کو اس طرح برپا کرے گا کہ کوئی بھی کسی دوسرے پر ظلم نہیں کرے گا،
7_ تبعید :
جناب صعصعہ بھی انحراف اور بے عدالتی کے مقابلے میں آٹھ کھڑے ہوئے اور دو/2 بار تبعید ہوئے،
(الف) عثمان کے زمانے میں کوفہ سے شام کی طرف،
( ب) معاویہ کے زمانے میں کوفہ سے بحرین کی طرف،
8 – قوم کی رھبری :
و كان سيدا من سادات قومه،
جناب صعصعہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے زمانے میں چھوٹے تھے، ابن عبد البر و ابن اثیر کہتے ہیں کہ جناب صعصعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے زمانے میں مسلمان تھے لیکن انھوں نے رسول اللہ ص کو نہیں دیکھا اور جناب صعصعہ کا شمار اصحاب رسول میں سے نہیں ہے،
9- علی ع کے ساتھ :
جناب صعصعہ ایسا شخص تھا جس کے لئے امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ سے آمان نامہ لیا تھا،
ایک دن معاویہ کوفے میں آتا ہے اور صعصعہ سے کہتا ہے کہ اگر میری خلافت کو مانتے ہوں تو ممبر پر آکر علی علیہ السلام پر ( نعوذبااللہ) لعن کرو،
صعصعہ ممبر پر جاتے ہیں اور حمد الھی بجالانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ پر درود بھیجتے ہیں پھر کہنے لگے، اے لوگو! میں ایسے شخص کی طرف سے آیا ہوں جس نے شر کو مقدم کیا ہے اور خیر کو مؤخر اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں علیہ السلام پر لعن کروں (نعوذ باللہ) آئیں سب ملکر لعنت کرتے ہیں لعنه الله اور سب نے آمين کہا اور معاویہ کے پاس جاکر کہنے لگے میں نے وہی کام کیا ہے جس کا تم نے حکم دیا ہے معاویہ کہنے لگا واللہ تم نے اس عبارت کے ذریعے سے مجھے قصد کیا ہے اور دوبارہ ممبر سے لعن کا حکم دیا جناب صعصعہ ممبر پر جاکر کہتے ہیں : میں اس پر لعنت کرتا ہوں جس نے مجھے علی علیہ السلام پر لعن کرنے کو کہا ہے اس کے بعد معاویہ نے جناب صعصعہ کو کوفہ سے باھر نکال دیا،
10 – جنگون میں شرکت :
صفین، جمل اور نھروان،
11 – عیادت علی علیهالسلام،
جناب صعصعہ بن صوحان کا سوال أمير المؤمنين ع سے آپ ع کے آخری ایام میں،
پاکستان میں افضلیت علی علیہ السلام کے حوالے سے بہت سارے لوگوں نے مختلف علاقوں میں، مقامات پر، جگہوں پر اس کا جواب دیا اور بعض لوگوں نے میڈیا پر جا کر عجیب و غریب باتیں کیں، مجھے نہیں معلوم کہ جو میڈیا پر جا کر جواب دیتے ہیں وہ یا تو ان پڑھ ہیں یا بات پہلے سے بنی ہوئی ہوتی ہے، اس سوال کا جواب امیرالمومنین علیہ السلام نے 1400 سال پہلے جناب صعصعہ بن صوحان کے سوال کے جواب میں بیان فرمایا ہے،
17 ماہ رمضان المبارک 40 ھجری قمری کو امير المؤمنين سلام اللہ علیہ کے سر پر ضربت لگنے کے بعد صعصعہ غم سے نڈھال تھے، مولا کو جب صعصعہ نے اس طرح پکارا :
يرحمك الله يا أمير المؤمنين ع حيا وميتا فلقد كان الله في صدرك عظيما و لقد كنت بذات الله عليما،
جب علي علیہ السلام کو صعصعہ کا یہ درد دل اور ندبہ ملا تو فرمایا :
و أنت يرحمك الله فلقد كنت خفيف المؤونة، كثير المعونة،
بحار الانوار ج ٤٢ ص ٢٣٤،
٢١ رمضان المبارك ٤٠ هجري قمري امير المؤمنين کے آخری ایام زندگی تھے امام علی علیہ السلام نے امام مجتبی علیہ السلام سے فرمایا : بیٹے جو شیعیان دروازے پر کھڑے ہیں ان سے کہیں کہ اندر آجائیں دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور شیعیان اپنے امام کے گرد اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح پرانے شمع کے گرد گھومتے ہیں شیعیان رونے لگے صاحب سلونی نے فرمایا آج کے مجھے نہیں دیکھ سکو گے اس سے پہلے کہ یہ فرصت تمھارے ہاتھ سے نکل جائے جو بھی سوال ہے پوچھ لیں لیکن تمھارے سوال چھوٹے اور مختصر ہوں ان میں سے ایک شخص جس نے سوال کیا وہ جناب صعصعہ بن صوحان تھے، یہ ایسی روایت ہے اس روایت کو صحاح اھل سنت میں بھی ذکر کیا ہے اور علماء فریقین نے بھی اس روایت پر اعتماد کیا ہے اور مورد اعتماد ہے،
جناب صعصعہ نے مولا سے پوچھا :
يا امیر المومنین ع أنت افضل أم أدم ابو البشر؟ آپ افضل ہیں یا حضرت آدم ابو بشر ع؟؟
مولا نے فرمایا یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی اپنی تعریف کرے،
تزكية المرء لنفسه قبيح،
لیکن اس وجہ سے کہ خداوند نے قرآن میں فرمایا ہے،
و امَّا بنعمة ربك فحدِّث،
اس طرح کہوں گا کہ میں آدم سے افضل ہوں، أنا افضل من آدم،
جناب صعصعہ نے دلیل فضيلت پوچھی تو مولا نے فرمایا،
آدم کے لئے بھشت میں تمام قسم کے وسائل، آرامش، آسایش اور نعمات فراوان تھیں خداوند نے آدم کو صرف گندم کھانے سے منع فرمایا تھا منع کے باوجود انھوں نے گندم گھائی اور بہشت سے نکال دیا گیا، درحالیکہ مجھے گندم کھانے سے منع نہیں کیا تھا میں دنیا کو قابل توجہ نہیں سمجھتا اور اسی وجہ سے اپنے ارادے اور اختیار سے کھبی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی،
اس جملے مراد علماء کی نظر میں، کراھت اور فضیلت کے لحاظ سے خدا کے نزدیک صاحب برتری، تقوا، زھد اور ورع ہے، أنَّ أكرمكم عند الله اتقٰكم،
جو بھی دنیا سے زیادہ اعراض اور روگردان ہو یقیناً خدا کے نزدیک تر ہے،
صعصعہ نے دوبارہ سوال کیا،
أنت افْضَلُ امْ نوح؟
حضرت نے فرمایا میں نوح سے افضل ہوں اور اس کی علت یہ ہے کہ نوح نے اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دی لیکن انھوں نے انکی دعوت کو جھٹلایا اور ان کی اطاعت نہیں کی، پھر اس کے بعد نوح کو بہت تکالیف اور آزار پہنچائی، نوح نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی اور فرمایا : ربِّ لاَ تذرْ علي الأرضِ منَ الكافرين ديَّارا، نوح ٢٦،
پروردگارا زمین کو کافروں سے پاک کردیے اور کسی ایک کو بھی اس زمین پر باقی اور زندہ مت رکھ،
لیکن رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد اس امت نے مجھے بہت ستایا اور بہت تکالیف اور اذیت پہنچائی لیکن کبھی بھی ان کے لئے بددعا اور نفرین نہیں کی، اور کاملا صبر کیا مولا نے اس سختی میں اپنے صبر کو خطبہ شقشقیہ میں بیان فرمایا ہے،
فصبرتُ و في العينِ قذيٰ و في الحلقِ شجا،
حضرت کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی بلاؤں میں اور سختیوں پر صبر کرے وہ خدا کے نزدیک مقرَّب تر ہے،
اس وقت صعصعہ نے پوچھا،
أنت أفضل أم إبراهيم؟
مولا ع نے فرمایا میں ابراہیم ع سے افضل ہوں اور اس طرح فرمایا حضرت ابراہیم ع نےفرمایا،
ربِّ أرني كيف تحي الموتى، قال أولم تؤمن، قال بلي ولكن ليطمئن قلبي، بقره ٢٦٠،
لیکن میں نے کہا : لو كشف الغطاء ما ازددتُ يقينا،
جناب صعصعہ نے دوبارہ پوچھا،
أنت أفضلُ عن موسى؟
فرمایا، میں موسی سے افضل ہوں اور دلیل کو اس طرح بیان فرمایا کہ جب خدا نے موسی کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت حق دینے مصر جاؤ، تو موسی نے فرمایا،
ربّ إنّي قتلتُ نفساً فأخاف أن يقتلونِ و أخي هارون هوَ افصحُ منّي لسانا فأرسله معيَ ردءاً يصدِّقني، أنّي أخافُ أنْ يكذبونَ، قصص٣٣، ٣٤،
لیکن رسول اللہ صلعم نے مجھے حکم دیا کہ مکہ معظمہ جاکر کعبے کی چھت سے سورہ برائت کی اولین آیات کی تلاوت کرے کفار قریش کے لئے درحالیکہ قريش میں بہت کم لوگ ایسے تھے کہ جن کا کوئی میرے ہاتھوں مارا نہ گیا ہوں، لیکن مجھے ھرگز کسی کا ڈر نہیں تھا اور ڈر نہیں لگا اور اکیلے جاکر امر و حکم پیغمبر ص کو انجام دیا ہوں،
جناب صعصعہ نے دوبارہ سوال کیا،أنت افضل أم عيسي؟؟امام ع نے فرمایا کہ میں عیسی سے بھی افضل ہوں،اور دلیل بیان فرمایا،أخرجي عن البيت فأنَّ هذه بيت العبادة لابيت الولادة،لیکن میری والدہ کے بارے میں فرمایا:يا فاطمةُ أدخُلي،جناب صعصعة بن صوحان نے پھر سوال کیا،یا امیر المومنین أنت أفضل أم محمد صلى الله عليه و آله و سلم،
اس وقت شاید علی ع اپنے بستر سے آٹھ کر بیٹھ گئے ہوں گے، اور فرمایا:أَنا عَبْدٌ مِنْ عبيْدِ محمد صلى الله عليه و آله و سلم،،
١٢ – تشییع امير المؤمنين علیہ السلام،
کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ علی علیہ السلام کی قبر مطھر امام رضا علیہ السلام کے زمانے تک مخفی رہی اور آپ کی تشییع بھی رات میں ہوئی اور آپ علیہ السلام کے اصحاب خاص کے علاوہ کسی اور کو تشییع میں شرکت کی اجازت نہیں تھی اور یہ جناب صعصعہ کے امتیازات میں سے ایک امتیاز تھی،
١٣ – صعصعة كا مولا کی قبر پر ماتم اور مرثیہ پڑھنا،
يا أبا الحسن ع… فلقد طاب مولدك و قوي صبرك و عظم جهادك و ربحت تجارتك و قدّمتْ علي خالقك فأسأل الله أن يمنَّ علينا بأقتفائنا أَثَرَك، و العمل بسيرتك فقد نِلتَ ما لم ينِلْه أحدٌ و أدركتَ ما لم يدركْه أحدٌ فهنيأ لك يا أبا الحسن لقد شرَّف الله مقامك فلا حرَّمنا الله أجرك، فلا اضللنا بعدك فوالله لقد كانت حياتك مفاتيح للخير و مغالقَ للشرِّ و لو إنَّ الناس قبلوا منك لأكلوا من فوقهم و من فوقهم و من تحت أرجلهم و لكنَّهم أَثَروا الدنيا علي آلآخرة ثمَّ بكيٰ بُكاءً شديداً و ابكيٰ كلُّ مَنْ كان معه،
بحار الانوار ج ٤٢ ص ٢٩٥،
وفات صعصعة بن صوحان کے بارے میں ٢/ دو قول ہیں،
(١) مغيرہ بن شعبہ بصرہ اور کوفے کا حاکم تھا معاویہ کے حکم سے جناب صعصعہ کو بحرین کے کسی جزیرے میں تبعيد کیا اور سن ٧٠ ھجری کو وہی پر وفات پا گئے،
(٢)معاريہ کی خلافت میں شھر کوفہ میں انتقال ہوا،
منابع
منتھی الآمال
سيد جعفر ربائی، کوثر
شیخ طوسی، رجال کشی ج ١ ص ٦٩
مجالس المؤمنين ٢٩١ / ١
مروج الذهب
ابن سعد، طبقات الكبرى
تاریخ يعقوبي
ابن حجر عسقلاني
ابن أثير
ابن عبد البرّ
اللمعة البيضاء ص ٣٦٩
شب هاي پشاور ص ٢٢٠
الغدير ج ١٠ ص ١٢٤.
دیدگاهتان را بنویسید