تازہ ترین

جنت البقیع کا تاریخی پس منظر/فدا حسین ساجدی

8 شوال یوم تخریب بقیع۔
بقیع : سے مراد لغت میں
ایک وسیع زمین ہے جس میں جڑوں کے ساتھ درخت بہت زیادہ ہو۔
بقیع الغرقد یا جنت البقیع مدینہ میں موجود اس قبرستان کا نام ہے جہاں چار امام۔ امام حسن مجتبی، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کے روضہ مطہرہ واقع ہے ان کے علاوہ رسول پاک کی زوجات۔ آپ کے قریبی رشتہ دار اور اصحاب دفن ہیں۔
جنت البقیع کا قبرستان اسلام سے پہلے بنا ہے لیکن کس تاریخ میں اس قبرستان کی بنیاد رکھی گئی ہے اس حوالے سے خاص معلومات میسر نہیں ہے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو جنت البقیع پہلا قبرستان تھا جس میں مسلمانوں کو دفن کئے گئے سب سے پہلا شخص مسلمانوں میں سے جو بقیع میں دفن ہوا عثمان ابن مظعون تھے جو پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے خاص دوستوں میں سے تھے۔

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5440

جنت البقیع کی فضیلت کے حوالے سے اصول کافی میں روایت ہے کہ پیغمبر اکرم ہمیشہ صبح کے ٹائم پر اللہ کے حکم سے آکر وہاں پر مد فون مومنین پر درود بھیجتے تھے اور ان کے لیے اللہ کی طرف سے رحمت طلب کرتے تھے چار اماموں کا روضہ مطہرہ وہان پر واقع ہونا بقیع کی اہمیت اور فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
بقیع صرف ایک قبرستان کا نام نہیں ہے ، بلکہ یہ اسلامی تاریخ کے ایک خزانے اور گنجینے کا نام ہے۔ اس جگہ شیعوں کے چار معصوم امام علیہم السلام، نیز پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج، بیٹیوں، بعض بیٹوں، صحابیوں، تابعین اور پھوپھیوں اور تاریخ اسلام کے دس ہزار دیگر معروف اور نامور انسانوں کی قبریں ہیں۔
حکمرانوں کی بقیع کی طرف توجہ
اسلامی تاریخ میں مدینہ کے حکمرانوں نے ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام، پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج، بیٹوں اور بیٹیوں، آپ ﷺکے دوستوں، تابعین اور دیگر افراد کی جائے دفن یعنی بقیع کی قبروں کی خوبصورت ڈیزائن والے پتھروں، عظیم عمارتوں اور قیمتی اور زرین ضریحوں کی مرمت و تعمیر کے ذریعے حفاظت کیا کرتے تھے۔۔۔
حجاز پر وہابیوں کے غلبے سے پہلے اکثر سفرنامہ نویسوں نے مدینہ جانے کے بعد وہاں اہل بیت علیہم السلام کی عظیم قبروں پر گنبدوں اور عمارتوں کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ یہی کچھ انہوں نے وہاں مدفون دیگر صالحین کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
فوٹو گرافروں نے بھی مذکورہ قبرستان پر بنی ہوئی عمارتوں اور گنبدوں کی واضح تصاویر اتاری ہیں۔ جن میں سے بعض نمونے سنہ ۱۳۱۸ ھ سے ۱۳۲۵ ھ کے دوران “ابراہیم رفعت پاشا” اور سنہ ۱۳۷۷ھ میں “محمد لبیب بک” سے منسوب ہیں جو آج بھی موجود ہیں۔
روضات مطرہ کی مسماری
آل سعودکے حجاز پر غلبے اور ان کے محمد بن عبدالوہاب کے افکار سے متاثر ہوکراس کےافکار کی پیروی پر کمربستہ ہونے کے بعد وہ جہاں کہیں بھی پہنچتے وہاں صدراسلام کی نامور شخصیتوں کی قبروں پر بنی عمارتوں اور گنبدوں کو گرادیتے تھے۔
وہابیوں نے پہلی بار سنہ ۱۲۲۱ ہجری میں قبرستان بقیع کی چند عمارتیں زمیں بوس کرڈالیں۔ سنہ ۱۳۴۴ ہجری میں حجاز پر پوری طرح غلبہ پانے کے بعد انہوں نے تمام عمارتوں اور گنبدوں کو ویران کرڈالا اور وہاں موجود بیش قیمت اموال اور اشیاء کو لوٹ لیا۔ یہ بے حرمتی صرف مدینہ تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے جہاں بھی کوئی گنبد یا بارگاہ دیکھی اس کے ساتھ یہی سلوک کیا۔
مرحوم سید محسن امین، حجاز میں وہابیوں کی ویران گری کے پہلوؤں کو یوں بیان کرتے ہیں:
جب وہابی طائف میں داخل ہوئے، انہوں نے ابن عباس کے مرقدکو تباہ کرڈالا، کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ایک بار یہ کام کیا تھا۔ جب وہ مکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عبدالمطلب، جناب ابوطالب اور ام المومنین جناب خدیجہ علیہا السلام کی قبروں پر موجود گنبدوں کو تاراج کر دیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جائے ولادت کو زمیں بوس کردیا اور پھر جب وہ جدہ پہنچے تو حضرت حوا کی قبر اور اس پر موجود گنبد کو گرادیا۔ اس طرح انہوں نے مکہ، جدہ، طائف اور اس کے اطراف میں موجود تمام مقابر اور مزارات کو ویران کردیا۔ جب مدینے کا محاصرہ کرلیا تو حضرت حمزہ کی مسجداور قبر کو تاراج کرنا شروع کردیا
مدینہ منورہ پر وہابیوں کے قبضہ کے بعد ان کے چیف جسٹس شیخ عبداللہ بن بلیہد نے رمضان ۱۳۴۴ ہجری میں مکہ سے مدینہ کی طرف حرکت اور ایک اعلانیہ شائع کیا جس میں لوگوں سے گنبدوں اور زیارات کو تاراج کرنے کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے ڈر کے مارے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ اور بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے ان سے ویران کرنے کی وجہ دریافت کی تھی۔
بے شک اس اعلانیے سے اس کا مقصد لوگوں کی رائے جاننا نہیں تھا، بلکہ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو اس عمل کے لئے ذہنی طور پر آمادہ کرے کیونکہ وہابی اپنے کسی عمل اور گنبدوں اور ضریحوں کو ویران اور تباہ کرنے حتی کہ حضوراکرم ﷺ کی قبر مبارک کے گنبد کو بھی ویران کرنے کے لئے کسی کی رائے یا نظر کے منتظر نہیں تھے اور نہ وہ کسی ایسی نظر یا رائے کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک ان اعمال کو انجام دینا ان کے مذہب کے انتہائی بنیادی ارکان میں شامل ہے۔
درہم ودینار اور زور شمشیر سےپھیلنے والا مذہب کے پاس انسانی اقدار اور انسانی تاریخ کے نامور اور بزرگ شخصیات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اچھی خصلتیں اور نیک افراد کی یاد اگر دنیا میں رائج رہی تو یہ ان کی حکومت کے لیے بہت بڑی رکاوٹ بنے گی اسی لیے وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ تمام اچھی صفات اور اچھی خصلت کو نابود کرے آل سعود کے نام سے نا مشروع اور ناجائز حکومت کی اہل بیت علیہم السلام کے قبروں کی مسماری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں امید ہے کہ آئندہ قریب میں اس حکومت کا تختہ الٹ جائیں اور دشمن اپنے تمام تر ظلم اور تشدد کی وجہ سے اپنے کیے ہوئے اعمال کی سزا پاکر تاریخ کے نقشے سے مٹ جائے اور اہل بیت علیہم السلام کے دوستداروں اور محبین کو یہ موقع فراہم ہو جائے کہ دوبارہ بقیع قبرستان کی مرمت کرتے ہوئے اس کو بہترین طریقے سے بنا کر پوری دنیا کے دوستان اہل بیت علیہم السلام کے لئے زیارت کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ان پاک ہستیوں کے انسانوں پر کیے ہوئے احسان کا ذرّہ برابر حق ادا ہو جائے۔
( رہبر معظم کا امور حج میں نمایندہ علامہ قاضی عسکر کے بقیع سے متعلق مقالے سے اقتباس۔)

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *