جَنَّت البَقیع مستندتاریخی دستاویزات کی روشنی میں
جنت البقیع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے اجداد ،اہل بیت (ع) ، اُمّہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اوردوسرے اہم افراد کی قبور ہیںکہ جنہیں ٨٦ سال قبل آل سعود نے منہدم کر دیا کہ اُن میں سے تو اکثر قبور کی پہچان اور اُن کے صحیح مقام کی شناخت ممکن نہیں!
یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائ، دانشوروں اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیںتا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجو دہیں، حفاظت اورتعمیر نوکے ساتھ یہاں مدفون ہستیوںکی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کرسکیں۔
تاریخ قبرستان جنت البقیع
٨/ شوال تایخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب چھیاسی سال قبل ١٣٤٤ ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کومنہدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ”یوم الہدم ”کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خا ک میں ملا دیا۔
جدّہ کے معروف عرب کالم نویس ”منال حمیدان”لکھتے ہیں:
”بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرامؓ دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاںدس ہزار سے زیاد اصحاب رسول ؓمدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت ،اُمّہات المومنین ؓ…..،فرزند ابراہیم،چچا عباس بن المطلب ؓ،پھپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب ؓ،اُن کے نواسے حسنؓ،اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمارشہر مدینہ کے اُن مزاروں میںہونے لگا کہ جہاں حجا ج بیت اللہ الحرام اوررسول اللہ (ص) کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاںنماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیا رت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے وہاں کی زیارت کی اور وہان مدفو ن افرادپر سلام کیااوراستغفار کی دعا کی۔”(الشر ق الاوسط؛١٥/ ذی الحجہ ١٤٢٦ ہجری، شمارہ ٩٩٠٩)
تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ”بقیع،بقیع الغرقد یا جنت البقیع” کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیںاِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیںلیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع،ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں”بنی حرام”اور”بنی سالم”میں دفن کیا کرتے تھے ۔(حجۃ الاسلام محمدصادق نجمی؛تاریخ حرم ائمہ بقیع ،صفحہ ٦١ )
بقیع میں مدفون شخصیات
اِس قبرستان میں اسلام کی اہم شخصیات میں ائمہ اربعہ تشیع(حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) ،حضرت امام زین العابدین (ع) ، حضرت امام محمدباقر (ع) اورحضرت امام جعفر صادق (ع) )کے علاوہ اور بھی شخصیا ت مدفون ہیں۔
علامہ سید محمد امین اِس بارے میں لکھتے ہیں:
”بقیع میں رسول اللہ (ص) کے چچا حضرت عباس بن المطّلب (ع) بھی مدفون تھے ،اِسی طرح حضرت ختمی مرتبت (ص) کے والد امجد حضرت عبداللہ (ع)، اُمّہات ُ المومنین، عثمان بن عفان، اسماعیل بن جعفر الصادق (ع) اورمذہب مالکی کے پیشوا، امام ابو عبداللہ مالک بن انس الاصبحی (متوفی ١٧٩ ہجری ) کی قبور کو بھی ویران کیا گیا ہے۔” (کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥)
خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے قتل کے بعد جب اُنہیں بقیع میں دفن ہونے سے روکا گیا تو اُنہیں بقیع سے باہر مشرقی حصے میں ”حش کوکب ” نامی حصے میں دفن کردیا گیا لیکن معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں جب مروان بن حکم مدینے کا والی بناتو اُس نے حش کوکب اور بقیع کی درمیانی دیوار کو ہٹا کر اُن کی قبر کو اِسی قبرستان میں داخل کر دیا اورپتھر کا وہ ٹکڑا کہ جسے خود رسو ل اکرم (ص) نے اپنے ہاتھوں سے حضرت عثما ن بن مظعون (رض) کی قبر پر رکھا تھا، اُٹھا کر حضرت عثمان کی قبر پر رکھتے ہوئے کہا: ”واللّٰہ لا یکون علی قبر عثمان بن مظعون حجرٌ یعرف بہ”(خد اکی قسم !عثمان بن مظعون (رض) کی قبر پر کوئی نام ونشان نہ ہو کہ وہ اُس کے ذریعے سے پہچانی جائے)۔
(اُسد الغابۃ؛جلد ٣،صفحہ ٣٨٧۔تاریخ المدینہ ابن زبالہ نقل از وفاء الوفاء ؛جلد٣،صفحہ ٩١٤۔٨٩٤)
اُمّہات المومنین میں حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت ریحانہ بنت زبیر، حضرت ماریہ قبطیہ، حضرت زینب بنت جحش، اُم ّ حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت سودہ اورعائشہ بنت ابی ابی بکر مدفون ہیں۔ اِس کے علاوہ حضرت ختمی مرتبت (ص) کے فرزندابراہیم (ع) ، حضرت علی (ع) کی والدہ ماجدہ حضر ت فاطمہ بنت اسد(س)، زوجہ حضرت اُمّ البنین (س)،حلیمہ سعدیہ (س) ، حضرت عاتکہ، عبداللہ بن جعفر، محمد بن حنفیہ اورعقیل بن ابی طالب (ع)، نافع مولائے عبد اللہ بن عمر شیخ القراء السبعہ (متوفی ١٦٩ ہجری) کی قبور بھی وہاں موجود ہیں۔
(البقیع؛یوسف الہاجری،صفحہ ٣٧۔مرآۃ الحرمین؛ابراہیم رفعت پاشا،صفحہ ٤٢٧۔آثار اسلامی مکہ ومدینہ؛صفحہ ٩٩۔تاریخ المعالم المدنیۃ المنوّرۃ ؛ سید احمد آل یاسین،صفحہ ٢٤٥۔طبقات القرای ؛جلد ٢،صفحہ ٣٣٠۔تہذیب التھذیب؛جلد ١٠ ،صفحہ ٤٠٧)
اِس کے علا وہ یہاںمقداد بن الاسود، مالک بن حارث، مالک اشتر نخعی، خالد بن سعید، خزیمہ ذو الشہادتین، زید بن حارثہ، سعد بن عبادہ، جابر بن عبداللہ انصاری، حسّا ن بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، اسعد بن زارہ، عبد اللہ بن مسعود اورمعاذ بن جبل سمیت دوسر ے جلیل القدر صحابہ کرام بھی یہیں مدفون ہیں۔ (مستدرک حاکم؛جلد ٢،صفحہ ٣١٨۔سیرہ ابن ہشام ؛جلد ٣،صفحہ ٢٩٥۔)
مؤرّخین او ر معروف سیاحوں کے نزدیک قبرستان بقیع کی تاریخ
جنت البقیع ٤٩٥ ہجری یعنی پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے صاحب ِگنبد و بارگاہ تھا۔ معروف اہل سنّت اندلسی مؤرّخ، سیاح، مصنف اور شاعر ابوالحسین محمدبن احمدبن جبیر (٥٤٠۔١٤ ٦ ہجری) جو ساتویں صدی ہجری میں حجاز کے اپنے سفرنامہ (تدوین شدہ ٨٧٥ ہجری)میں لکھتے ہیں:
”وہ سربفلک گنبد موجود بقیع کے ساتھ ہی واقع ہے۔”
(رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ،صفحہ ١٥٣)
ابن جبیر کے سفر کے ڈیڑھ سو سال بعد آٹھویںصدی ہجری میں ابن بطولہ نے شہر مدینہ کاسفر کیا اوراپنے مشاہدات کو یوں رقم کیا:”حرم ائمہ بقیع (ائمہ اربعہ علیہم السلام) میں موجود قبور پر دراصل ایک ایسا گنبد ہے جو سر بفلک ہے اور جو اپنے استحکام کی نظر سے فن تعمیر کا بہترین اورحیرت انگیز شاہکار ہے۔” (رحلہ ابن بطولہ؛صفحہ ٨٩)
قرن معاصر کے معروف سفر نامہ” مرآۃ الحرمین ”کے مصنف ”ابراہیم رفعت پاشا ”جو ١٣١٨ہجری، ١٣٢٠ہجری، ١٣٢١ہجری اور ١٣٢٥ہجری میں مصری حجاج کے قافلے کے امیر محافظ محمل کی حیثیت سے اپنے پہلے سفر حج اور اُس کے بعد امیر الحجاج کی حیثیت سے اپنے بعد کے سفر حج کے چار سفروں کو”مرآۃ الحرمین ” نامی سفر نامہ میں مفصل طور پر جنت البقیع کے منہدم کےے جانے سے اُنیس سال قبل لکھتے ہیں:
”عباس بن عبد المطّلب چ(ع)، حسن بن علی اور تین ائمہ امام علی بن الحسین، امام محمد بن علی اور امام جعفر بن محمد علیہم السلام ایک ہی گنبد کے نیچے مدفون ہیں، جن کا گنبد دوسروں سے بہت زیادہ اونچاہے۔”
(مرآۃ الحرمین؛جلد ١،صفحہ ٤٢٦،طبع مصر ١٣٤٤ہجر ی مطابق ١٩٢٥ عیسوی)
جابری انصاری ،کتاب ِ”تاریخ اصفہان”میں ١٣٤٤ ہجری کے واقعات کے ضمن میں وہابیوں کے ملک حجاز پر حملہ کرنے اوروہاں موجود اہم اسلامی شخصیات کی قبور اورمزارات کو منہدم کرنے کے بار ے میں لکھتے ہیں:
”حاجی امیر السلطنت کی جانب سے حکم دئیے جانے کے نتیجے میں ١٣١٢ ہجری میں د و سال کی مدت میںبنائی جانے والی ضریح کو وہاں (موجود ائمہ بقیع کی قبور)سے اُکھیڑ لیا گیا اورجب وہابیوںنے چاہا کہ وہ (قبرستان بقیع کو منہدم ومسمار کر نے کے بعد) حضرت ختمی مرتبت (ص) کے حرم میں داخل ہوںتو اُن میں سے ایک نے ”یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیّ….”(اَے ایمان والو!نبی کے گھر میں داخل نہ ہو…)کی آیت کی تلاوت کی تو وہ اِس جسارت کو انجام دینے سے رُک گئے…..۔”
(تاریخ اصفہان؛ صفحہ٩٢ ٣ )
میرزا محمدحسین فراہانی نے ١٣٠٢ ہجری میں اپنے سفر حج میں بقیع اوراُس میں موجود ائمہ اربعہ کی زیارت کا احوال کچھ یو ں درج کیا ہے:
”قبرستان بقیع ایک بہت بڑا قبرستان ہے جو شہر مدینہ کے مشرق میںدروازہ ئسور سے متصل ہے…..یہ قبرستان حج کے موسم میںحاجیوں کیلئے ہر دن مغرب کے وقت تک کھلا رہتا ہے اورجو بھی اِس کی زیارت کرنا چاہے وہ اِس میں جا سکتاہے لیکن حج کے علاوہ یہ جمعرات کے زوال سے جمعہ کے غروب تک کھلا رہتا ہے۔
ائمہ اثنیٰ عشر کے چار امام (ع) ایک بڑے سے بقعہ(بارگاہ) میں جو ہشت ضلعی شکل میں بنایا گیا ہے، مدفون ہیں…. اِس بقعہ کی تعمیر کی صحیح تار یخ کا علم نہیںلیکن محمد علی پاشا مصری نے ١٢٣٤ ہجری میںسلطان محمود خان عثمانی کے حکم کے مطابق اِسے تعمیر کرا یا ہے اوراِس کے بعد سے تمام عثمانی سلاطین کی جانب سے یہ بقعہ اوراِس قبرستان میں واقع دیگر تمام بقعہ جات ہر سال مرمت و تعمیر کےے جاتے رہے ہیں۔
یہاں کچھ ”مقامات”مشہور ہیں جو حضرت فاطمہ صدیقہ طاہرہ(س) کی قبر کے نام سے معروف ہیں،اُن میں سے ایک بقیع میں موجود حجرہ ہے جسے ”بیت الاحزان”کہا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے یہاں آنے والے حجاج اور زائرین حضرت فاطمہ زہرا(س)کی زیارت پڑھتے ہیں۔یہاں موجود قبر کے سامنے سونے اورچاندی کے تاروں سے مزین ایک پردے کو گنبد کے چاروں طرف ڈالاہوا ہے اوراُس پر یہ عبارت درج ہے:سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراہیم(سنۃ اِحدي و ثلاثین و مأۃ بعد الف ١١٣١ہجری)۔” (سفر نامہ فراہانی ؛صفحہ ٢٨١،طبع ١٣٦٢ شمسی ایرانی ،تدوین:مسعود گلزاری،چاپ چہارم)
حاجی فرہاد میرزا ١٢٩٢ ہجری میں اپنے سفر حج کے مشاہدات کو اپنے سفر نامہ ”ہَدْیَۃُ السَّبِیْل”میں لکھتے ہیں:
”میں باب ِ جبرئیل (ع) سے باہر آکر ائمہ بقیع کی زیارت سے مشرف ہوا….متولّی نے ضریح کا دروازہ کھولااور میں اندر گیااورضریح کے گردچکر لگایا،وہاں پیر کی طرف کی جگہ بہت چھوٹی ہے کہ جہاں صندوق (قبر) اور ضریح کا درمیانی فاصلہ نصف ذراع سے بھی کم ہے۔ ”
(ہَدْیَۃُ السَّبِیْل؛صفحہ ١٢٧)
نائب الصدر شیرازی ١٣٠٥ ہجری میں اپنے سفر حج کے مشاہدات کو اپنے سفر نامہ”تُحْفَۃُ الْحَرِمَیْنِ” میں لکھتے ہیں:
”وادی بقیع داہنے ہاتھ پر واقع ہے جو ایک سر پوشیدہ مسجد ہے کہ جس (کے صدر دروازے )پریہ عبارت درج ہے:”ھٰذَامَسْجِدُ اُبَی بْنِ کَعْب وَصَلّیٰ فِیْہِ النَّبِیُّ غَیْرَ مَرَّۃ’ٍ’،(یہ مسجد اُبی بن کعب ہے کہ جس میںرسول اللہ (ص) نے کئی مرتبہ نماز پڑھی ہے)۔یہاں امام حسن (ع) ،امام زین العابدین (ع) ،امام باقر (ع) اور اما م صادق (ع) کی قبور مطہر ہ ایک ضریح میں دن دفن ہیں،اُس کے سامنے ایک پردے دار ضریح ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت فاطمہ زہر ا(س)مدفون ہیں۔” (تُحْفَۃُ الْحَرِمَیْنِ؛صفحہ ٢٢٧)
معروف مدینہ شناس،مؤرّخ،محدث،رجال شناس اورادیب شافعی ابو عبد اللہ محب الدین محمد ”ابن نجار” (٥٧٨۔٤٣ ٦ ہجری)کہتا ہے.
”وَعَلَیْھَا بَابَانِ یَفْتَحُ اَحَدُھُمَا فِی کُلِّ یَوْم لِلزِّیَارَۃِ ”،قبرستان بقیع کے دو دروازے تھے کہ جن میں سے ایک دروازہ ہر دن زائرین کیلئے کھولا جاتا تھا۔
(اخبار مدینۃ الرسول؛مکتبۃ دار الثقافۃ ،مکۃ مکرمۃ،صفحہ ١٥٣)
قبرستان بقیع کی تعمیر،ضریح اورحرم کی منظر کشی
قبرستان بقیع اپنی تاریخ میں تین مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہےں:
” بقیع پہلی مرتبہ ٥١٩ ہجری میں ”اَلْمُسْتَنْصَر بِاللّٰہِ ”اورتیسری مرتبہ تیرہویں صدی کے اواخر میں ”سلطان محمود غزنوی” کے ذریعے سے تعمیر کیا گیا ہے۔یہاں موجود کُتبوں پر درج عبارتیں کہ جن کوسیاحوں نے اپنے اپنے سفر ناموں میں بیان کیا ہے،اِسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔” (رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ، صفحہ ١٧٣)
ایک حقیقت!
ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ ائمہ بقیع پر حرم وبارگا ہ کی تعمیر ٥١٩ ہجری سے قبل ہوئی تھی اوراُس کی اصلاح اور مرمت کا کام بعدمیں انجام دیا گیا تھا۔
مشہور مؤرّخ” سمہودی” ابن جبیر کی بات کے بر خلاف کہتا ہے:
”٥١٩ ہجری میں تعمیر شدہ بارگاہو گنبد کے وجود میں آنے کے پچاس سال بعد اِس حرم کی پہلی تعمیر عباسی خلیفہ ”مسترشد باللہ”کے حکم سے ہوئی ۔حضرت عباس بن عبد المطّلب (ع) کی قبر کے پاس طاق میں موجود ایک چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے: اِنَّ الْأمْرَ بِعملہ المُسْتَرشِد باللّٰہ تسع و عشرۃ و خمسمأۃ” ۔
(وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)
یہاں ایک اورنکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ اِس حرم کی اصل عمارت اِس تاریخ سے قبل ہے کہ جسے سمہودی نے بیان کیا ہے اورحرم کی تعمیرکااُس کا حکم اُس کی مرمت اور اصلاح کیلئے تھا۔دوسری بات یہ کہ مسترشد باللہ اُنتیسواں(٢٩)عباسی خلیفہ ہے جو ٥١٢ ہجری میںاپنے باپ” مستظہر باللہ ”کے بعد خلافت کوحاصل کرتا ہے اور ٥٢٩ ہجر ی میں قتل کر دیاگیا۔
حرم ائمہ بقیع کی دوسری تعمیر و مرمت عباسی خلیفہ ”مستنصر باللّٰہ”کے حکم سے ٦٢٣ ہجری اور ٦٤٠ ہجری کے درمیانی عرصے میں انجام پائی ۔ سمہودی اِس بارے میں لکھتا ہے:
”حر م بقیع میں موجود محراب کے اوپر لگے ہوئے چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے:اَمر بعملہ المنصور المستنصر باللّٰہ”
(وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)
مستنصر باللہ کا اصل نام منصور،کنیت ابو جعفرتھی ،وہ ”الظَّاہر باللّٰہ ”کا بیٹا تھا اور وہ تیتیسوا ں(٣٣) عباسی خلیفہ ہے اور علامہ سیوطی کے قول کے مطابق وہ ٦٢٣ہجری میں خلافت حاصل کرتا ہے اور ٦٤٠ ہجری میں دار ِ فانی کووداع کہتا ہے۔
(تاریخ الخلفائ؛صفحہ ٤٢٤)
اِس حرم کی تیسری تعمیرتیرہوں صدی کے اوائل میںعثمانی خلیفہ سلطان محمود غزنوی کے حکم سے ہوئی ۔
”فرہاد میزرا” ١٢٩٢ ہجری میں حج کی سعادت کے حاصل ہونے کے بعدبقیع کا حال کچھ یوں بیان کرتا ہے:
”بقیع میں بقعہ مبارکہ کی تعمیرنوسلطان محمود خان کے حکم سے ایک ہزار دوسو ہجری میں ہوئی،وہ سلطان محمد ثانی ہے جو تیسوواں عثمانی خلیفہ ہے۔سلطان محمود چوبیس سال کی عمر میں١٢٢٣ ہجری میں خلافت کو پہنچا اور ١٢٥٥ ہجری میں انتقال کر گیا۔”
(نامہ فرہاد میرزا؛چاپ مطبوعات علمی ١٣٦٦ شمسی ایرانی،تہران،صفحہ ١٤١)
(رجوع کریں:قاموس الاعلام ترکی ؛جلد٦،صفحہ ٤٢٢٥؛فصلنامہ میقات ِ حج؛سال دوم ،شمارہ پنجم صفحہ ١١٨۔شمارہ ششم،زمستان ١٣٧٢ شمسی)۔
معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں: ”قبرستان بقیع کے دو دروازے ہیں کہ جن میں سے ایک ہمیشہ بند رہتا ہے اور دوسرا دروازہ صبح سے مغرب تک زائرین کیلئے کھلا رہتا ہے۔حرم بقیع ” ہشت ضلعی ” ہے اوراِس کی دوسری خصوصیت اِس میںمحراب کا ہونا ہے نیز اِس حرم کے بہت سے خادم تھے۔ دوسرے تمام حرموں کی مانند حرم ائمہ بقیع (ع) میں بھی ضریح ، روپوش، بڑے فانوس، شمعدان اور قالین موجود تھے۔”
(رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ،صفحہ ١٧٣)
محمد لبیب مصری(بتنونی) ١٣٢٧ ہجری میں حجاز کے اپنے سفرنامہ ”رحلہ بتنونی” کے بارے میں لکھتے ہیں:
”ومقصورۃ سیِّدنا الحسن فیھا فخیمۃ جدّاًو ھی من النّحاس المنقوش بالکتابۃ الفارسیّۃ وأظنّ أنَّّھا من عمل الشّیعۃ الأعاجم”؛وہاں ”قُبَّہُ البین”نامی ایک معروف گنبد موجودہے کہ جس میں ایک حجر ہ موجود ہے اور اُس میں ایک گڑھا ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات شہرت رکھتی ہے کہ یہاں آنحضرت (ص) کا دندانِ مبارک گرا تھا، اِس کے علاوہ امام حسن ابن علی (ع) کی قبر ایک اورقبہ (بارگاہ) کے نیچے واقع ہے کہ جسے تانبے کی دھات سے بنایا گیا ہے اوراُس پر فارسی رسم الخط کی کوئی عبارت درج ہے کہ جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ عجمی اہل تشیع کی جانب سے لکھی گئی ہے۔ ”
(رحلہ بتنونی؛مطبوعہ ١٣٢٩ مصر،صفحہ ٢٣٧)
پہلی ضریح:
”بتنونی” اِس بیان کی روشنی میںواضح ہو جاتاہے کہ یہ پہلی ضریح ہے کہ جسے ایرانیوں نے بنایا ہے۔ اگر یہ تقریبی گمان وخیال واقعیت رکھتے ہوں تواِس ضریح کی تقریبی ساخت کی تاریخ اور اِن کے بانیوں کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ بقیع کے بقعہ جات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ ضریح پانچویں صدی ہجری کے دوسرے نصف میں”مجد الملک براوستانی ‘ ‘ کے حکم سے بنائی گئی ہے۔
دوسری ضریح:
سید اسماعیل مرندی اپنی کتاب”توصیف ِ مدینہ ”کہ جسے اُنہوں نے ١٢٥٥ ہجر ی میں تالیف کیا ہے، میں لکھتے ہیں:
”یہ پانچوں مطہر تن ایک ضریح میں دفن ہیں جو لکڑی کی جالی دار ضریح ہے اور عباس بن المطّلب (ع) اِسی ضریح میں اِن کے سرہانے بالکل جدا دفن ہیں۔”
یہ صرف وہ جسارتیں ہیں کہ جن کو صر ف بقیع کے مسمار کئے جانے کے ضمن میں بیان کیا گیاہے جبکہ آل سعود نے وہابی فرقے کی تعلیمات کے مطابق مکہ، مدینہ، طائف اور دیگر بلاد ِاسلامی کے تمام تاریخی آثا ر ومزارات اوربارگاہوں کو نابود کیا ہے کہ جن کا تعلق شیعہ وسنی مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ہے! فرقہ وہابیت کی تعلیمات سے آگاہی اوراُن کے شبہات کا جواب دینے کیلئے ایک الگ کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ عالم اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ کا ایک مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی اسناد و دستاویزات کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اوردورِ حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اِس بات کاسوال رہا ہے کہ وہ اِس تاریخی بے حرمتی پر کیوں خاموش ہیں؟
ابناڈاٹ آئی آر
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید