”حج“اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ/ نصر اللہ فخرالدین
مقدمہ
”اِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃ مُبَارَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْن“
ترجمہ: ”سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لئے بابرکت اور راہنما ہے۔“(القرآن)
فریضہ حج کے اس عظیم پہلو (حج اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ)کو اس مختصر مقالہ میں بیان کرنا اگر چہ مشکل ہے لیکن محال نہیں ہے لہٰذا ہماری کوشش یہی ہوگی کہ یہ پہلو واضح ہو۔
دین مبین اسلام کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے تمام احکام اسلامی مبنی بر حکمت ہوتا ہے چاہے اس حکم میں موجود حکمت کسی کے سمجھ میں آئے یا نہ آئے،حکمت ضرور ہوتا ہے۔ چونکہ اسلام ایک جامع نظام ہے تو انسانی زندگی کے تمام پہلووں کی طرف توجہ رکھتا ہے اور انسانی معاشرہ جب تک اسلامی نظام کے مطابق زندگی نہیں کرتا تب تک کمال تک نہیںپہنچتا اور امن و امان قائم ہو کر ظلم اور قتل و غارتگری کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
پروردگار عالم نے اس نظام کو قرآن اور سنت کی شکل میں بھیجا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود اس نظام کے اندر انسانی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور تا قیامت یہ نظام زندہ و جاوید رہے گا۔ کبھی بھی پرانا نہیںہوگا کیونکہ پروردگار نے اس نظام کو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے بھیجا ہے ۔ آج اگر ہمارا معاشرہ مختلف مسائل کا شکار ہے تو اس کی وجہ اس نظام سے دوری ہے۔چنانچہ قیامت کے دن بھی پیغمبر اکرمؐ خدا کے حضور اپنی امت کی شکایت کریں گے اور کہیں گے کہ میری امت نے اس قرآن کو مہجور رکھا۔ جس دن ہمارا معاشرہ قرآنی ہوگا اور ایک الٰہی رہبر کے زیر قیادت ہم زندگی گزاریں گے اس دن ہمارا معاشرہ عزت اور پُر افتخار معاشرہ ہوگا اور مشکلات اور مسائل کا خاتمہ ہوگا۔
حج ایک جامع عبادت
اسلام کے عظیم احکام میں سے ایک کا نام حج ہے۔پہلے زمانے میں لفظ”حج“قصد و ارادہ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا لیکن دین مبین اسلام نے لفظ حج کو ان افعال کے لئے استعمال کیا جنہیں حجاج کرام سرزمین مکہ جا کر انجام دیتے ہیں ۔
حج ان عظیم عبادات میں سے ہیں جن میں زیادہ تر سیاسی اور اجتماعی پہلو موجود ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان ان پہلوؤں سے غافل ہوکر ابتدائے اسلام سے لے کر تا آج تک ایک عام رسم کے طور پر بجا لارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع ہو نے کے باوجود دشمنان اسلام آج جگہ جگہ مسلمانوں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں اور مسلمان اغیار کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ہر سال مسلمانوں کا اتنا بڑا اور عظیم اجتماع ہونے کے باوجود دشمنان اسلام کی یہ جرأت عالم اسلام کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ”حج کے عظیم الشان مراسم دوسری عبادات کی طرح فیوض و برکات کا سرچشمہ ہیں اور انفرادی اور اسلامی معاشرے کے بہت سے اجتماعی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔اگر مناسک حج صحیح طریقے سے ادا کئے جائیں ہر ایک رکن ٹھیک اسلامی تقاضے کے مطابق ادا ہو تو ہر سال مسلمانوں کا یہ مہتم بالشان اجتماع اسلامی معاشروں میں نئے انقلاب کی داغ بیل ڈال سکتا ہے۔“
اتحاد و یکجہتی حج کے اہم ترین فلسفوں میں سے ہے یعنی حج لوگوں کے درمیان عملاًاتحادو یکجہتی کا بہترین درس دیتاہے احرام کی پابندی انسان کو مکمل طور پر مادی تعیش، ظاہری امتیازات مختلف لباس اور رنگ و روپ،زیب وزینت سے بے نیاز کردیتی ہے مختلف مادی لذات سے پرہیز انسان کو ضبط نفس،اصلاح اور شخصیت سازی کی طرف مائل کرتا ہے اور وہ لوگ جو عام حالت میں مزعومہ امتیازات،مراتب اور فخر و ناز کے سنگین بوجھ تلے دبے ہوے ہوتے ہیں اچانک اپنے آپ کو ہلکاپرسکون اور آسودہ خاطر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اس عظیم فریضے کواس کے اہم فلسفوں سے خالی صرف اور صرف ایک رسم کے طور پر متعارف کرانے کے لئے دشمن کی طرف سے ہزاروں کوشش ہورہی ہےاور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مسائل روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ امام خمینی فرماتے ہیں :”حج ابراہیمی ؑ اور محمدی ؐبرسہا برس سے معنوی اور عرفانی لحاظ سے بھی اور سیاسی نیز سماجی لحاظ سے بھی اجنبی اور فراموش شدہ ہے تمام اسلامی ممالک کے عزیز حجاج کو چاہئے کہ بیت اللہ کو اس کے تمام پہلوؤں کے اعتبار سے اس اجنبیت سے نجات دلائیں اور اسکے عرفانی اور معنوی اسرار و حقائق سے آگاہی عرفاء کے ذمے ہے۔ ہم کو اس وقت اس کے سیاسی اور سماجی پہلو سے سروکار ہے جس کے بارے میں کہنا چاہئے کہ ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ہم پر تلافیئ مافات کی ذمہ داری ہے۔“
زمانہ جاہلیت میں لوگوں نے دین ابراہیم ؑ کا حلیہ بدل دیا تھا مگر ختنہ،نکاح اور حج کے رسومات پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی تھے اور وہ پورے طور پر ضائع نہیں ہوئے تھے۔اسی لئے آنحضرتؐ فرمایا کرتے تھے کہ”اسلام نے جو تبدیلی کی ہے سوکی ہے لیکن جہاں اسلام نے کوئی حکم نہیں دیا وہاں سابقہ حکم ہی برقرار رہے گا۔“
فریضہ حج کے سیاسی اور اجتماعی پہلو
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ انسانوں پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہوتی جارہی ہے کہ چھوٹی اور تنہا چیزیں شدید حوادث اور طوفانوں کے مقابلہ میں ناپائیدار اور بے استقامت ہو تی ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ ملتیں جن کی قوت و طاقت کا سرچشمہ ایک ہی فکر و عقیدہ ہو وہی ان حوادث اور طوفانوں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرسکتی ہیں بنی نوع انسان میں کوئی فردِبشر تنہا رہ کر اپنی زند گی کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے اس لئے انسانوں کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ ہر فردِ بشر اپنے آرام و آسائش کو دوسروں کے آرام وآسائش میں تلاش کرے۔
عالمِ بشریت سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئے وہ کسی بھی نسل،طبقے اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں اپنے درمیان ایسے اتحاد اور وحدت کو فروغ جو تمام تر نسلی،زبان اور قومی امتیازات سے بالاتر ہو کیونکہ اصولی طور پر تمام جگہوں پر مل کر کا م کرنے میں ہی خیر و برکت،ترقی اور پیشرفت حاصل کرنے کا راز مضمر ہے خاص طور پر اگر فکری مسائل لائحہ عمل کی ترتیب اور مشکلات کے حل میں اس اتحاد کے ذریعہ کا کیا جائے تو اس کا معجزانہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے بھی ایسے اجتماعات جن میں اس قسم کا عام اتحاد پایا جاتا ہے ان کے لئے ایسے قوانین وضع کئے ہیں جو انسان کی سعادت کے ضامن ہیں۔چنانچہ اگر ہم تمام احکامات اسلام کے بارے میں وقت کے ساتھ غورو فکر کریں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے تمام احکامات ِاسلام کو اجتماعی قالب میں ڈال کر پیش کیا ہے۔اور یہ احکامات اجتماع کی روح ِرواں نظر آتے ہیں۔اجتماعی زندگی کو پُر سکون اور آرام دہ بنانے کے لئے جو روش اور طریقہ اسلام نے اختیار کیا ہے اس کی مثال دیگر انداز ِزندگی میں ہرگز نہیں مل سکتا۔
اس حقیقت کے پیش نظر اگر ہم ان تمام احکامات اور قوانینِ اسلام کا مطالعہ کریں جو دین مبین اسلام نے معاشرہ اور اجتما ع کی بنیادوں کو مستحکم بنانے کے لئے حج،نماز اور جہاد جیسے شرعی فرائض معین کئے ہیں ان میں سب سے اہم ترین فریضہ ہمیں حج نظر آتا ہے۔
”حج مسلمانوں کے منتشر صفوں کو منظم کرنے کا،مسلمانوں میں نسلی امتیاز، علاقائی عصبیت اور قومی تفاخر کے خاتمے کا بہترین عامل ہونے کے ساتھ دشمنوں سے مقابلے کا بہترین ذریعہ ہے۔حج اظہار خیال پر سفر استبدادی نظام اور گٹھن خوف اور دباؤ کے خاتمے کا بھی بڑا مؤثر ذریعہ ہے،مسلمان ممالک کے صحیح حالات ایک دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بھی ہے۔غرضیکہ حج استحصال طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے آزادی اور استعماری زنجیروں کو توڑنے کا بہترین عامل ہے۔“ اسی لئے مولائے کا ئنات فرماتے ہیں کہ ”مناسک حج دین مقدس اسلام کی تقویت و استحکام کا سبب ہیں۔“ روایات میں حج کو ضعیف اور کمزور مسلمانوں کا جہاد قرار دیا گیا ہے۔ایسا جہاد کی ساری دنیا کے ضعیف، کمزور اور عورتیں ایک جگہ جمع ہو کر امت مسلمہ کی عظمت و سطوت کا مظاہرہ کرتے ہیں،خانہ کعبہ کی چاروں طرف صفیں باندھ کر ایک آواز ہو کر جب نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں تو دشمن کے دل ہل جاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ظلم و تعدی اور لوٹ مار سے باز رہتے ہیں۔
اسلام نے فریضہ حج کو اس لئے واجب قرار دیا ہے تاکہ تمام اکناف عالم سے لوگ مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر جمع ہوں ایک دوسرے سے ملاقات کریں،ایک دوسرے سے روشناس ہوں،ایک دوسرے کی طرف اتحاد و اتفاق کا ہاتھ بڑھائیں اپنے درمیان پائے جانے والے نقائص اور اپنی احتیاجات کو ایک دوسرے کے سامنے پہش کریں اور باہمی صلاح و مشورے کے بعد ان نقائص کو ختم کرنے اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کریں ایسا کیوں کیا گیا؟اس لئے کہ وہ چیز جوتنہا پورے عالم بشریت سے تعلق رکھنے والے افراد چاہے اس کا کسی نسل،طبقے اور قبیلے سے تعلق ہو ان کے درمیان اگر حقیقی وحدت کو جنم دے سکتی ہے یاوہ چیز جو اس وحدت کے ایجاد اور بقاء کی ضامن ہو سکتی ہے ہو مبداء آفزینش یعنی خالق کاینات پر ایمان کامل رکھنا اور اس کی رضا کے لئے عمل کرنا ہے۔جی ہاں!صرف اللہ پر ایمان کامل کے ذریعہ ہی تمام عالم بشریت کے افراد کے درمیان بھائی چارہ اور حقیقی دوستی او راتحاد کو برقرار رکھا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیائے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوے ذات احدیت کا حکم ہے کہ:
”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا“(القرآن) تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو یعنی متحد ہو جاؤاور آپس میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو۔ اس لئے کہ آج کے پرُ آشوب دور میں مسلمانوں کی فلاح و بہبودی اسی میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دوستی اور اتحادکا ہاتھ بڑھائیں نیز دانستہ یا نادانستہ طور پر غیر اساسی اور جزوی اختلافات کو اپنے درمیان مزید ہوا دینے کے ذریعے خود کو دشمن کے ہاتھ کا کھلونا بنانے سے اجتناب کریں۔کیونکہ امت مسلمہ کے دشمن مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے فریضہ حج کے اس عظیم اجتماعی پہلو کو نظر انداز کیا اور فرقہ بندی کے اس لعنت میں الجھ پڑے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع ہونے کے باوجود دشمن پر خوف کا اثر بھی نہیں ہوتا بلکہ دشمن آرام سے اپنا مذموم مقاصد حاصل کررہا ہے۔اسی لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔کہ
”منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم ِپاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہیں کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں“
57اسلامی ممالک ہونے کے باوجود آج مسلمان ہر جگہ مظلوم ہیں مسلمان حکمران اقتدار کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اقتدار کی خاطر حکمران سب کچھ دینے کو تیار ہیں دین و مذہب کا انہیں ذرہ برابر خیال نہیں ہیں، مسلمانوں کا مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہیں اور پیغمبر اکرم نے جس سرزمین پر توحید کا برچم بلند کر کے ایک الٰهی حکومت قائم کی تھی بدقسمتی سے آج وه سر زمین مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کی آماجگاه بنی ہوئی ہے، اسلامی اور الٰھی حکومت کے بجائے شہنشا ہیت کا دور دوره ہے اور حکمران حرمین شریفین کی آڑ میں ساده لوح مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اپنی بادشا ہت بچا ر ہے ہیں۔ قرآن کریم نے یہودیوں کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا تھا لیکن آج یہی لوگ ان کے سب سے سچےترین دوست ہیں۔ قرآن کے اس واضح حکم کے خلاف ورزی باوجود بھی بعض لوگوں نے تعصب اور ہٹ دھڑمی کی بنا پر آل سعود کی شہنشاہیت کی حمایت کو اپنا شرعی فریضہ سمجھ رکھا ہے لیکن اگر ہم تعصب کے عینک کو اتار کر دیکھیں تو ان اسلامی ممالک میں ایک ملک ہمیں ایسا نظر آتا ہے جس نے مسلمانوں کے مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ہر قسم کی سازشوں سے پردہ اُٹھا کر ساری دنیا کے سامنے دشمنان اسلام کی حقیقت کو واضح کردیا۔اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمان خاص طور پر فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کو اپنا فریضہ قرار دیا ہے اور آج بھی اگر دشمن کے سامنے بر سر پیکار ہے تو وہ جمہوری اسلامی ایران ہے جو دشمن کے ہر قسم کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا رہا ہے۔
حج کا عظیم الشان اجتماع دنیا بھر کے مسلمانوں کا حقیقی اجتماع ہے کیونکہ خانہ خدا کی زیارت کے لئے آنے والے افراد کے انتخاب میں کوئی انسان ساختہ طریقہ کار فرمانہیں ہے۔بلکہ صرف حکم خدا کے تحت مختلف علاقوں،خاندانوں،زبانوں اور ملکوں کے لوگ ایک جگہ پر جمع ہوجاتے ہیں۔
حج کے اس عظیم اجتماع کو ایک عظیم عالمی سیمینا رمیں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے عالم اسلام کے وہ تمام علماء جو مکہ مکرمہ میں موجود ہوں ایک دوسرے کے سامنے اپنے خیالات،تجربات اور تجاویز پیش کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ تا ہے کہ ان کی جغرافیائی سرحدیں ان کو ثقافتی طور پر محدود کردیتی ہیں اور پر ملک کے مسلمان صرف اپنے ہی بارے میں سوچ بچار کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے میں وسیع تر اسلامی معاشرہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تقریباً ناپید ہو جاتا ہے،ایسی صورت میں حج بے شک اس بدنصیبی کی تاریک رات میں خوش نصیبی کا مہر درخشاں ہے۔
حج تمام نوع انسانی کا نقطہ اجتماع
یہ بات بہت ہی بڑے دقت ِنظر کا متقاضی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی کعبہ یا حج کا ذکر آیا ہے اسے للناس کہا گیا ہے یعنی کسی خاص قوم، خاص گروہ، خاص فرقہ کے لئے نہیں بلکہ پوری کی پوری انسانیت کے لئے ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ”وہ پہلا گھر جسے تمام نوع انسان کے لئے بنا یا گیا،مکہ مکرمہ میں ہے۔اور وہ تمام اقوام عالم کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا کہ”جو اس نظام میں داخل ہو جائے گا اسے امن مل جائے گا۔“ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ ”جب ہم نے اس گھر کو نوع انسان کے لئے ایک مرکز پر جمع ہونے کا مقام اور جائے امن بنایا۔“(القرآن)
سورہ حج میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”یہاں رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے،اس کے دروازے تمام نوع انسان کے لئے یکساں کھلے رہیں گے۔“ آپ نے دیکھا کہ دین (اسلامی نظام)کا عالمگیر انسانیت کو امت واحدہ بنانے کا جو پروگرام ہے،کعبہ کو کس طرح اس کا مرکز قرار دیا گیا ہے اور حج کا اجتماع اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے جسے امت مسلمہ کہا جاتا ہے۔اس کے ذمہ اس مرکز کی نگہ پرداخت اور اس اجتماع کا اہتمام کرنا ہے۔اسی لئے خدا نے معمارانِ حرم سے بھی یہی تاکید کی تھی کہ وہ اس مقام کو عالمگیر انسانیت کا مرکز بنائیں۔اور اسے انسانوں کے خود ساختہ تصورات و معتقدات سے پاک اور صاف رکھ کر اس جماعت کے لئے مخصوص کر دیں جس کا مقصد ِحیات یہ ہے کہ وہ قوانین ِخداوندی کے سامنے سر تسلیم ِخم کرکے یعنی ان کی پوری کی پوری اطاعت کر کے ایسی پوزیشن اختیار کر لے کہ وہ تمام نوع انسان کی پاسبان اور نگران ہو،ان کے الجھے ہوئے معاملات کو سنوارے اور ان کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو مجتمع کر دے۔اس بارے میں امیر المؤمنین ؑ فرماتےہیں کہ:
پروردگار نے لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جسے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں اور ویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔ حج بیت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قرار دیا ہے۔۔۔۔۔۔
پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔ اس کے حج کو فرض کیا ہےاور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔ تمھارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کر دیا ہےکہ ’’اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے باس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔‘‘
قرآن کریم کا نوع ِانسانی کہ اتحاد اور اس کو امت واحدہ بنانے پر اتنی تاکید اور اصرار کے باوجود آج انسانوں کے درمیان اتحاد تو دور کی بات صرف مسلمانوں کے درمیان بھی وہ اتحاد اور یکجہتی نہیں ہو سکا جس کا تصور قرآن پیش کرتا ہے۔
امت مسلمہ کے اجتماع اور ان کے اتحاد کی ضرورت
امام امت امام راحل فرماتے ہیں کہ ”اگر مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں اور کلمہ وحدت قائم کرلیں تو نہ قدس کا مسئلہ پیش آئے گا نہ افغانستان کے مسائل اور نہ ہی دوسرے مسائل جو مسلمانوں کے لئے دوسری جگہوں پر پیش آتے ہیں۔“
فطری آرزؤں اور انسانی خواہشات کو حاصل کرنے کے لئے تمام مناسک اور مقامات کی شرط،ان جگہوں اور مقامات پر تمام مسلما نوں کا اجتماع اور تمام مسلمان گروہوں کا زبان،رنگ،قبیلے،طائف،علاقے اور جاہلیت کی عصبیتوں سے قطع نظر ایک زبان اور متحد ہونا اور مشترکہ دشمن کے خلاف ہم آہنگ ہو کر آواز اٹھا نا ہے جو اسلام عزیز کا دشمن ہے اور اس نے اسلام سے نقصان اٹھا یا ہے اور اس کو اپنی غارتگریوں کی راہ میں رکاوٹ جانتا ہے اور تفرقہ اندازی اور منافقت کے ذریعے چاہتا ہے کہ اس محسوس رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹا دے۔ایسی حالات میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اس عبادت کے مقامات اور مراسم میں جس کا ایک عظیم مقصد دنیا کے مستضعفین کے مفاد میں دنیا کے ہر حصے کے مسلمانوں کا اجتماع ہے اور اسلامی ممالک سے عالمی لٹیروں کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے سے زیادہ بہتر کون سا فائدہ ہے،ہوشیاری کے ساتھ اسلام پاک کے ان پلید دشمنوں کے اسلام اور قرآن کے خلاف اعمال کا خیال رکھنا چاہئیے اور ان لوگوں کو جو نصیحت کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو اہمیت نہیں دیتے ہیں، ان کو اپنے سے دور کرنا چاہئیے کیونکہ یہ طاغوتیوں سے زیادہ شیطان اور پست ہیں۔
آج مسلمانوں کو جس قدر بھی مشکلات کا سامنا ہے ان تمام مشکلات کو ختم کرنے کا سب سے بنیادی اور اہم ترین طریقہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد بلکہ پوری دنیا کے مستضعفین عوام کا مکمل اتحاد ہے۔اور وحدت و اتحاد جس کی اسلام اور قرآن نے بے حد تاکید فرمائی ہے اس کی طرف امت مسلمہ کو دعوت دینے کے لئے ایک منظم تبلیغی پروگرام کی ضرورت ہے اور اس تبلیغی پروگرام کے لئے ایک مرکز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور وہ مرکزِتبلیغ مکہ مکرمہ میں فریضہ حج کے لئے آنے والے مسلمانوں کا اجتماع ہے۔کیونکہ یہی وہ مرکز ہے جہاں سے جناب ابراہیم خلیل اللہ اور حبیب ِخدا حضرت محمدﷺنے امت مسلمہ کو دعوت اتحاد دینے کے عمل کا آغاز کیا تھا اور جہاں سے امام ِآخر الزمان ؑآخری دعوت دینگے چنانچہ جنااب ابراہیم ؑکو مخاطب کر کے ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ
لوگوں کو دعوت دو کہ وہ اپنے فوائد کے حصول کے لئے تمام اکناف عالم سے یہاں اکھٹے ہوں کیونکہ یہ منافع پورے معاشرے کے لئے ہیں۔سیاسی،اجتماعی،اقتصادی اور ثقافتی فوائد۔بلاؤلوگوں کو تاکہ وہ دیکھیں کہ تو نے جو ان کے لئے پیغمبر ہے اللہ کی راہ میں اپنی زندگی کا سب سے بہترین ثمر پیش کیا ہے۔تمام اولاد بنی آدم کا فرض ہے کہ وہ تیری پیروی اور تأسی کریں۔بلاؤ لوگوں کو تا کہ دیکھیں کہ تو نے تمام بتوں کو توڑ ڈالا ہے اور ہر وہ چیز جو غیر خدا ہے چاہے وہ آفتاب ہو،چاند ہو،پتھر کے تراشے ہوں،حیوانوں کے مجسمے ہوں،یا انسان کے بت۔(اے ابراہیمؑ)تونے جو کہا تھا بالکل سچ اور صحیح کہا تھا کہ تمام بنی نوع انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اس معلمِ توحید جو عظیم پیغمبروں کا باپ ہے اس کی پیروی اور اتباع کریں۔پھر سوره توبہ جس کے بارے میں حکم ہوا تھا کہ اسے مکہ مکرمہ کے عظیم مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جائے اس میں ارشاد قدرت ہے کہ
”و اذان من اللہ و رسولہ۔۔۔۔۔۔“(القرآن) ان اس آیت میں مشرکین سے برأت یعنی اظہار نفرت کرنے کو ایسی آواز قرار دیا ہے جسے مراسم میں شامل کردیا گیا ہے۔
لہٰذا بیت اللہ الحرام کے حجاج کو چاہیئے کہ اس عام اجلاس اور انسانوں کے ٹھاٹ مارتے ہوئے سمندر میں ظالموں اور ستمگروں سے دوری اور بیزاری کی پکار کو زیادہ سے زیادہ بلند آواز میں لگائیں اور زیادہ سے زیادہ خلوص کے ساتھ اخوت کا ہاتھ ملائیں اور مظلوم مسلمانوں کے اعلیٰ مصالح کو فرقہ واریت اور قومیت پر فدا نہ کریں۔اپنے مسلم بھائیوں کو زیادہ سے زیادہ کلمہ وحدت اور جاہلیت کی ان عصبیتوں کو ترک کرنے کی طرف متوجہ کریں جو صرف عالمی لٹیروں اور ان سے وابستہ عناصر کے مفاد ات کا باعث بنتی ہیں کیونکہ یہ خود نصرت ِخداوندتعالیٰ ہے اور قوی امید ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ اُن کے شامل حال ہوگا۔اور اگر خدا نخواستہ عالمی لٹیروں کے ایجنٹوں کی پیروی کریں گے تو وہ بڑا گناہ کریں گے اور قادر وجبّار خدا کے غضب کا شکار ہوں گے۔سپر طاقتوں کی قید و بند میں باقی رہیں گے اور ان سے خدا کی پناہ حاصل کرنی چاہیئے۔
مختصر یہ کہ اگر فریضہ حج کی جو اہمیت اور مقام اسلام کے حقیقی رہبروں کی نظر میں تھی اس کو مد نظر رکھا جائے اور اس اہم فرصت سے بہرہ ور ہو نے کی کوشش کی جائے تو اس امر میں ذرہ برابر شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ یہ فریضہ حج ایک بہت بڑی اور مہم ترین بین الاقوامی کانفرنس کی حیثیت میں دکھائی دینے لگے۔بڑی طاقتوں کی طرف سے اس فریضہ حج کے اصلی مفہوم اور اس کے اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کو تاریکی میں رکھنے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فریضہ حج امت مسلمہ کے لئے اہم ترین بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کی حیثیت رکھتا ہے۔
حرف آخر
آخر میں ایک بار پھر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دنیائے اسلام کے اس عمومی اجتماع نے اپنی شائشتہ موقعیت کھو دیا ہے اور اس اجتماع سے مسلمانوں کے فائدہ کے لئے جو کچھ حاصل کرنا چاہیئے تھا اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ایسا اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم اجتماع کی افادیت کو نظر انداز کردیا ہے ورنہ یہ عظیم الشان اجتماع جس طرح امت مسلمہ کے آرام و سکون اور استقلال و آزادی کا موجب بن سکتا ہے اسی طرح امت مسلمہ کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و یگانگت،ہم آہنگی اور مختلف اقوام کی اقتصادی،اجتماعی، فرہنگی اور سیاسی زندگیوں میں بھی بے حد مؤثر کردا رادا کر سکتا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کی عظمت و وحدت کے اس عظیم شاہکار کو اس طرح بجا لائیں جس طرح قرآن و سنت نے بجا لانے کا حکم دیا ہے اور ان تمام پہلوؤں کی طرف بھی متوجہ ہوں جن کی طرف قرآن و سنت نے اشارہ کیا ہے۔
یہ تو فریضہ حج کے اجتماعی پہلو تھا اسکے علاوہ اگر اسلام کے منابع اور سرچشموں نے فلسفہ حج کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتا یا ہے اس کا تفصیلی مطالعہ کریں تو ہمیں اس امر کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جہاں فریضہ حج امت مسلمہ کو سیاسیات،اجتماعیات اور ثقافت کے میدانوں میں ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے وہاں مسلمانوں کی اقتصادیات کو بھی مضبوط اور مستحکم بنانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ معنوی اور روحی وجود بھی حج کے اہم ترین فلسفوں میں سے ہے۔
حج کے اصلی اور حقیقی فوائد کی طرف امت مسلمہ کو متوجہ کرنے کے بعد ہماری دعا ہے کہ خداوند عز وجل پوری دنیا سے جس قدر بھی حجاج کرام خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں انہیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ جہاں تک ان سے ممکن ہو سکے حقیقت اسلام اور فریضہ حج کے تمام تر پہلوؤں کو زندہ کرنے کی سعادت حاصل کریں تاکہ صیہونیت اور سامراجیت کی طرف سے امت مسلمہ کو جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کو ہمیشہ کے لئے نابود کرکے اسلام کے مراسم کو پر شکوہ انداز سے ادا کرنے کا آغاز کیا جا سکے۔
”وما توفیقی الابااللّٰہ“
منابع
1. قرآن کریم
2. نہج البلاغہ ترجمہ و شرح سید ذیشان حیدر
3. تفسیر نمونہ
4. تفسیر نور ثقلین
میگزین
1. ندائے اسلام، ستمبر نومبر1986
2. وحدت اسلامی، ذی الحجہ 1403ھ ق
دیدگاهتان را بنویسید