حجةالاسلام والمسلمین الحاج شیخ غلام حیدر مدقق/تحریر شیخ نثار حامدی نجف اشرف
سوانح حیات حجةالاسلام والمسلمین الحاج شیخ غلام حیدر مدقق رحمتہ اللہ علیہ
شیخ غلام حیدر مدقق ولد علی شمال پاکستان کی حسین وادی گلتری کے گاوں بباچن میں پیدا ہوے آپ نہایت ہی خوش مزاج اور انتہائی ذاہانت کے مالک تھے مہمان نوازی میں لاثانی حثیت رکھتے تھے بچپن سے ہی دینی علوم کے بڑے شوقیین تھے حصول علم کے غرض سے کرگل کا رخ کیا وہاں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۳ سال حجۃ الاسلام شیخ علی برلمو کی شاگردی میں مقدمات و ادابیات پر مکل دسترس حْْصل کی اور علوم آل محمد کی سیر حاصل تعلیم کے حصول کے غرض سے مدینۃ العلم و الحکمۃ حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق کا رخ کیا جہاں حوزے کے قابل اساتیذ کی رہنمائی میں حصول علم میں مگن رہے آپکی قابلیت و صلاحیت کے پیش نظر مرجع دینی آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر مراجع عظام نے اپنا وکیل منتخب کیا۔
۱۲ سال کے عرصے میں علم فقہ، اصول ، عقائد اور دیگر علوم سے فیض یاب ہونے کے بعد وطن عزیز پاکستان واپس آئے وطن پہونچتے ہی کراچی، سکردو اور دیگر مقامات میں تبلیغ و تدریس کے لیے مدعو کیا گیا اور ہر قسم کی آسائشیوں کی پیش کش کی کئی مگر آپ نے قرآن مجید کی آیت [ قو انفسکم و اھلیکم نارا ]
کو اپنی زندگی کا نمونہ قرار دیتے ہوئے اپنے علاقے کو مقدم جاننا اور ابائی گاوں بباچن تشریف لائے جہاں منبر و محراب کو زریعہ تبلیغ بنایا اور باقی ماندہ زندگی دین اسلام کی تبلیغ وترویج پے صرف کی۔ جس کا مختصر تزکرہ کچھ یوں ہے
آپکی آمد سے پہلے خمس و زکات و دیگر واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کے برابر تھی آپ نے علاقے کے تمام افراد کے اموال کو رد مظالم کے زریعے پاک کیا یوں ان فرائض کی اہمیت سے لوگوں کو آشنا کرایا
علاقے میں حد ترخص کے حدود کا تعیین کیا تاکہ لوگ اپنے واضیفے کے تحت تماز و روزے کو با آسانی انجام دے سکے
مرد و زن کو قرآن مجید کی تعلیم دی کچھ افراد کو بطور خاص شاگرد و مبلغ منتخب کیا جنہیں مسائل شرعیہ ، قرآن اور ضروریات دین کی تعلیم دی جس کی طفیل آکی رحلت کے بعد انہی شاگردوں کی بدولت کے حصول کا سلسلہ جاری رہا
اسی وجہ سے آج بھی علاقے کا ہر فرد آپکی خدمات اور قابلیت کا کلمہ پڑھتے ہوئے نظر آتا ہے
موصوف کا شمار صاحب کرامت شخصیات میں ہوتا ہے جس کے بارے میں سے واقعات ملتے ہیں اختصار کے ساتھ ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا
آپ ہر جعرات جمعہ کو محلے کے قبور کی زیارت کے لیے جاتے تھے جسب معمول اپنی زندگی کے ماہ رمضان کی آمد سے چند روز قبل قبور کی زیارت کے لیے گئے اور ایک جگہ کی نشاندہی کر کے گھر واپس آئےاور اپنی ڈائری میں کچھ لکھ کر اہلیہ سے کہا کہ میرے انتقال ہوتے ہی یہ کاغذ شیخ محمد خان کو دیکھادے جب آپ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے تو آپکی اہلیہ نے وہ ڈائری شیخ محمد خان کو دیکھا یا جس میں آپ نے اپنی قبر کے جگہ کی نشاندہی کیا تھا
وصیت کر مطابق لوگ جب قبر کھودنے گئے تو دیکھا کی وہاں پتھریلی زمین ہے قبر کھودنا نہ ممکن لگ رہا تھا بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ کسی اور جگہ قبرکھودی جائے لیکن کطھ معزز لوگوں نے اصرار کیا کہ وصیت کے مطابق یہی پے ہی قبر بنائی جائے جب کھودنا شروع کیا تو پتھر با ٓسانی چکناچور ہوگئے ایسا لگ رہا تھا کی کوئی تیار شدہ قبر ہے جسے دیکھ کے لو گ دنگ رہ گئے
آپ 70 سال کی عمر میں بروز جمعہ28 مئی 1986 بمطابق 19رمضان المبارک 1906ھ کو خالق حقیقی سے جا ملے آپکی رحلت کے بعد لوگ آپکی قبر پے نمک تیل پانی وغیرہ تبرک کے غرض رکھتے جس کے استعمال سے مریضوں کو شفا ملتی تھی
۲۵ سالوں سے علاقہ بے آباد ہونے کے باوجو آپکی قبر آستانہ کی شکل میں آج بھی محفوظ حالت میں موجود ہے
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید