حجۃ الاسلام سید مہدی موسوی المعروف سر باز بلتستانی
حالات زندگی جناب حجۃ الاسلام سید مہدی موسوی المعروف سر باز بلتستانی (مرحوم)
سیدمہدی سرباز ایک عالم باعمل، شعلہ بیان مقرر،مایہ نازشاعر ،شستہ ادیب،ملنسار شخصیت کے مالک اورانسان دوست شخص تھے ۔آپ نے1948ء کوایک مذہبی اور علمی گھرا نے یعنی سیدآغا محمدعلی شاہ موسوی المعروف نری آغا کے گھر میں آنکھ کھولی۔ جب آپ پیداہوئے تو آپ کے تایا آغا سید مہدی مرحوم علیل تھے۔
لہذایہ فیصلہ ہوا کہ آپ کا نام آپ کے تایا خود رکھیں گے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ رحلت فرما گئے۔ جس کے بعد آپ کا نام آپ کے تایا کے نام نامی پر سیدمہدی رکھا گیا اور آپ نے اپنی ذہانت،قابلیت اور علمی استعداد اور صلا حیتوں سے اس نام کی لاج رکھی اور ہر میدان کے مشہور شہسوار مانے گئے ۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم والد مر حوم سید محمد علی شاہ سے حاصل کی۔ مروجہ تعلیم کےلئے پرا ئمری سکول نر میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں چھٹی سے ساتویں جماعت تک مڈل سکول شگر میں زیر تعلیم رہے۔ اس دور میں سکولوں میں ڈرامے بڑے زوروں پر تھے۔ یوں آپ نے سکول کے اکثر ڈرا موں میں کردار ادا کیے۔ بعد ازاں مڈل سکول گمبہ سکردو میں زیر تعلیم رہے اور اسی دوران میں آپ نے مشہور شا عر سید ناصر الدین مو سوی سے کسب فیض کیا ۔بعد ازاں آپ کراچی تشریف لے گئے اور مد رسۃ الواعظین (جامعہ اما میہ )میں داخلہ لیا۔ جہاں ادیب اعظم مولانہ ظفر حسن کے زیر سایہ اپنی علمی سرگر میو ں کو جاری رکھا اور ملک کےمایہ ناز مقرر اور منا ظر علامہ طالب جوہری سےکسب فیض کیا اور اسی دوران میں آپ بحثیت شاعر مختلف مشاعروں میں شرکت کر تے رہے اور اہل زبان شعراء میں اپنا مقام بنا کر بلبل بلتستان کا خطاب حاصل کیا۔انہی ایام کی بات ہے متلی حیدر آبا د سے چند مؤ منین آئےاور قبلہ ظفر حسن سے عرض کیا کہ ہمیں ایک ایسا مقرر چا ہئے جو مولوی نہ ہو یعنی عالما نہ لباس میں نہ ہو۔ کیو نکہ ہمارے مخا لفین نے شرط لگا ئی ہے کہ اگر تم لوگ مولوی لاؤ گے تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔ تب ظفر حسن صاحب نے آپ کو بلا کر کہا کہ سید مہدی بیٹا! ان کے ساتھ جاؤ! اس لیے کہ میری نظر میں تم سے زیا دہ اس کام کےلیے کوئی دوسرا لا ئق نہیں ہے۔ ان دنوں آپ کی داڑھی مو نچھیں بھی نہیں تھیں اور کسی طور سے مولوی نہیں لگتے تھے۔ لہذا حیدر آبا د سے آئے ہوئےلوگ اند ر سے تو مایوس ہوئے لیکن ظفر حسن صاحب کے احترام میں کچھ نہ بو لے اور با دل نخواستہ آپ کو ساتھ لے چلے۔ بہر حال وہاں پہنچے۔ دوسرے دن انہو ں نے امام بار گاہ کے سا منے شامیا نہ لگا کر مجلس شروع کی۔ سوز خوا نی کے بعدآپ منبر پر گئےاور خطبہ شروع کیا۔ ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہر طرف شور تھا کہ ہم نے مولوی لانے سے تمہیں منع کیا تھا لیکن اب تم لوگ مولوی لے کے آئے ہو۔ بہر حا ل دو تین منٹ کی ہوائی فائرنگ کے بعدخاموشی چھاگئی اور حیرت سے منبر کی طرف دیکھنے لگے کہ ارے یہ مولوی تومنبر پر بیٹھا ہے بھا گا نہیں۔ تب انہو ں نے اپنی تقریر شروع کی اور یہ ان کی زند گی کی طولانی ترین تقریر تھی۔ جو غا لبا اڑھا ئی گھنٹے جاری رہی۔ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے ان کی جان کے در پے تھےاب آکرقدم چوم رہے تھے۔ اس عشرے کے بعد غالباتین سال تک مسلسل محرم کا عشرہ آپ سے ماتلی میں پڑ ھو ایا اور جو گنتی کے چند افراد تھے اب وہ سیکڑ وں میں شمار ہونے لگے اور جہاں مجلس امام بار گاہ تک محدود تھی اب وہاں سے با قاعدہ ماتمی جلوس بر آمد ہونے لگا۔ یوں ادیب اعظم نے آپ کوفاتح ماتلی کے لقب سے ملقب فر مایا۔ آپ مذ ہب حقہ کی تبلیغ کے لے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کر چکے ہیں۔ ان میں الجزا ئر،سوڈان،زائرے اور افریقہ کےممالک کا تبلیغی دورہ بھی کیےہیں اور اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام کی تبلیغ کی۔اسی دوران آپ ایران کے مختلف اخبارات میں کالم نگاری کرتے رہے۔قبل ازیں کراچی سے واپسی پر آپ ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے بھی وابستہ رہے۔ ریڈیو ترا ڈکھل آزادکشمیر کو بھی لکھتے رہے۔ کیونکہ جعفر کلوی آپ کےایک نہا یت قریبی دوستوںمیں سے تھے اور اپنے دوست کوکامیاب کروانے کے لے انہوں نےبڑی محنت کی۔ ریڈیو راولپنڈی بلتی سیکشن میں جناب فداحسین شمیم ،اخون امین چو جومرحوم تایا آغاسیدمہدی شاہ کے طالب علم تھے۔ کاچو محمد علی خان واحد، جناب آغاسید ہاشم صاحب،جناب مراد خان،جناب کاچوالطاف حسین صاحب وغیرہ سارے ہی بڑے شفیق ومہر بان احباب میں سے تھے۔ اگر چہ اردو شاعری انہوں نےبچپنےمیں ہی شروع کی تھی اور غزلیں سلام اور قصائد تالیف کرچکے تھے لیکن انہوں نے بلتی شاعری ریڈیوسے شروع کی۔ بلتی غزلوں میں آپ اپنا تخلص نہیں رکھتے تھے۔آپ نےایک غزل لکھی اور جناب محمد علی خان واحد سےکہا کہ کاچوصاحب یہ غزل اپنے نام سے نشر کروائیں۔ واحد کہنے لگےواہ آغا بڑےکمال کے بندےہو۔ بہرحال انہوں نےاس غزل کو نہ صرف اپنے نام سےنشر کیابلکہ اپنی آوازمیں گاکر اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی لوگ اس غزل کوریڈیوسےسننے کی فرما ئش کرتے ہیں۔لاہور میں قیام کےدوران میں ہفتہ روز جمہور اورماہنامہ اسد وغیرہ کے لیے لکھتے رہے۔ ان میں جمہورکے کالم (ادھر ادھر)کو بڑی مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ آپ نےمختلف کتابوں کی تقریظ بھی لکھی۔ ماہنامہ حبل المتین جو آغا سید علی موسوی صاحب چھا پتے تھے۔ اس کادار ومدار آپ پر تھا۔کیو نکہ یہ رسالہ “ہیئت علماء بلتستان” کا ترجمان تھا اور اس میں علماءکی عزت و وقار کے علاوہ قارئین کے آراء کو بھی ملحوظ رکھنا تھا۔ گو کہ نہایت مشکل کام تھالیکن آپ نے اس بیڑے کو بھی پار لگا یا۔آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ عالم،جاہل ،چھوٹا ،بڑا یعنی زندگی کے ہر طبقےسے تعلق رکھنے والا شخص آپ سے ملنے کے بعد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔لیکن ہما ری بد قسمتی کہ ان کی زند گی نے زیا دہ وفا نہ کی اور صرف بیا لیس سال کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے کر جنت کو سد ھا ر گئے۔ یوں ہم ایک بے بدیل،بے مثل خطیب ،شعلہ بیا ن مقرر،شاعربے نظیراور بلند پایہ ادیب اور عالم باعمل سے محروم ہو گئے۔آپ کی رحلت کی خبر بلتستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پورے گلگت بلتستان سے لوگ آپ کے دولت سرا پر تعزیت کو آئے۔ جسے دیکھ کر لوگوں نےکہا کہ ہم نےسر باز کی زندگی میں انہیں نہیں پہچانا تھا۔ اب ان کی موت کے بعد ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آج کچھ لوگ سر باز کےتخلص کو اپنائے ہوئے ہیں لیکن “کہاں راجہ کہاں گنگوتیلی”خدابصدقہ چہاردہ معصو مین (ع) ان کی درجات کو بلند فر مائے آمین!
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید