حجۃ الاسلام شیخ محمدعلی غروی/ تحریر : اشرف حسین صالحی
حالات زندگی جناب حجۃ الاسلام شیخ محمدعلی غروی مرحوم
(غوڑو ) کا جدید نام اکبر آباد علاقہ نر کے گاؤں میں سے ایک ہے کہ جس میں شیخ صاحب نے ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔
صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ ہو سکی۔ آپ کےوالد کا نام آخوند محمد سعدی تھا ۔ آپ نےابتداء میں قرآن حکیم کی تعلیم اپنےوالد صاحب سے گھر پر حاصل کی۔ اس وقت اکبرآباد میں کو ئی عالم دین نہ ہونے کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئےآپ کو کریس میں موجود آخوند غلام حیدر کے پاس بھیج دیا گیا۔ جہاں آپ نےکچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی دینی تعلیم کے حصول کےلیے حوزہ علمیہ نجف اشرف جانے کا فیصلہ کر کے وہاں چلے گئے۔ یہ آغا سید ابو الحسن اصفہا نی کا دور تھا۔ آپ مسلسل اٹھا رہ برس تک حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تحصیل علم میں مشغول رہے۔ اس دوران میں آپ نے اس دور کے جید علماء کرام جن میں آغا سید ابوالحسن اصفہانی بھی شامل ہے، سے کسب فیض کیا ۔بلتستان کےبعض مشہور علماء آپ کے معاصر تھے۔ جن میں شیخ غلام محمد قائد فقید بلتستان، آغاسید احمد علی شاہ (مرحوم)سکردو اورآغاسیدعلی موسوی صاحب (حسین آباد)وغیرہ۔ کچھ طلباء آپ کے پاس پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ جن میں آخوند غلام علی، آخوند کلب صادق حسن صاحب (گول)شیخ غلام محمد (پرک ) اورآخوند علی شامل تھے۔ آپ سردیوں میں شگر (برالدو) کے دور دارز علاقے کابھی دورہ کیا کرتےتھے اور وہاں کی عوام سے خطاب کرتے تھے۔ نہ صرف خطاب بلکہ آپس کے جھگڑے اور تنازعات کا فیصلہ بھی کرا کے آتے تھے۔ اسی وجہ سےآپ کو وہاں کےلوگ (چھوغوشیخ) یعنی بڑے عالم کےنام سے پکارتے تھے۔ شیخ محمد علی (مرحوم) ایک بلند پایہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعربھی تھے۔ جیسے روز عاشور کی مناسبت سے آپ کا ایک نوحہ بہت مشہور ہے جو بلتستان کے تمام علاقوں میں پڑھاجاتا ہے۔جس کا سر بند ہے:”سر گوش وارا عرش علی نیزی چو ڑیکھا تھونگ زینبی مکلا” تو اس طرح آپ اس علاقے کی 33 سال خدمت کرنے کے بعد اپنی جائے ولادت میں اپنے معبود حقیقی سے 1977 میں جاملےاور آپ کا گاؤں آپ کا مدفن بھی قرار پایا۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید