حدیث ائمہ اثناء عشر خلیفہ، پر ایک نظر
حدیث ائمہ اثنا عشر خلیفہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ایک حدیث ہے جس میں آپ ؐ نے اپنے بعد کے خلفاء کی تعداد کو بارہ معین کیا ہے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ یہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور اہل سنت کے علماء نزدیک بھی یہ حدیث، صحیح احادیث میں سے ہے۔
شیعہ اس حدیث کو اپنے بارہ اماموں کی امامت پر دلیل سمجھتے ہیں۔ شیعہ عقائد کے مطابق ان بارہ افرد کو خدا نے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کے طور متعین کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں لوگوں سے متعارف کرایا۔ یعنی ان بارہ اماموں کی امامت منصوص من اللہ ہے اور امام کے انتخاب میں امت کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جس طرح نبی اور رسول کو خدا خود انتخاب کرتا ہے، اسی طرح ان کے جانشینوں کو بھی خود خدا انتخاب کرتا ہے۔ صحاح، مسانید اور دوسری کتب احادیث میں مختلف سند کے ساتھ جابر بن سمرۃ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میرےبعد بارہ خلفاء مسلمانوں کی رہبری کریں گے جو سب قریش سے ہوں گے۔
صحیح بخاری میں یہ حدیث اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے، “…. یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمة لم اسمعها فقال أبی أنه قال کلهم من قریش”۔۱ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میرے بعد بارہ امیر ہوں گے پھر آپ ؐ نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ اسی طرح صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے جیسے “ان هذاالامر لا ینقضی حتی یمضی فیهم اثنا عشر خلیفة کلهم من قریش” یہ امر خلافت اس وقت تک ختم نہیں ہو گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں کہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔ “لا یزال امر الناس ماضیا ما ولیهم اثنا عشر رجلا، کلهم من قریش”۔ 2 لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے اور یہ سب خلفاء قریش سے ہونگے۔ “لا یزال الا سلام عزیزا الی اثنی عشر خلیفة، کلهم من قریش” اسلام بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک عزیز (غالب) رہے گا کہ سب قریشی ہوںگے۔ “لا یزال هذا الامر عزیزا الی اثنی عشر خلیفة ، کلهم من قریش” دین اسلام بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب رہے گا جو قریشی ہوں گے۔ لا یزال هذا الدین عزیزا منیعا الی اثنی عشر خلیفة، کلهم من قریش”۔ 3 یہ دین ہمیشہ بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب و بلند رہے گا کہ سب قریش کے خاندان سے ہوں گے۔
“لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة او یکون علیکم اثنا عشر خلیفة، کلهم من قریش” 4 دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت برپا ہو جائے یا تم پر بارہ خلفاء حاکم ہو جائیں اور وہ سب قریشی ہوں گے۔ جابر بن سمرۃ کی مختلف عبارتوں پر مشتمل مذکورہ حدیث پر غور کرنے سے بعض نکات سامنے آتے ہیں:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ بارہ خلفاء قیامت تک باقی رہیں گے جبکہ یہ بات آئمہ اہلبیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اور پر صدق نہیں آتی۔
2۔ تاریخ اسلام میں جتنے ظاہری خلفاء گزرے ہیں وہ سب قریشی نہیں تھے۔ بنابریں یہاں امامت شرعی مراد ہے نہ خلافت ظاہری جبکہ یہ مطلب آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اور پر صدق نہیں آتا۔
3۔ قندوزی حنفی مذکورہ حدیث کے ساتھ بعض اہل سنت کے محققین کے کلام کو بھی اس حدیث کی شرح میں نقل کرتے ہیں، “بارہ خلفاء پر دلالت کرنے والی احادیث مختلف ذرائع سے مشہور ہوئی ہیں اور ان خلفاء سے مراد آئمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد والے خلفاء پر یہ حدیث صدق نہیں آتی کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے کم ہے، نیز بنی امیہ کے حکمرانوں پر بھی یہ حدیث صدق نہیں آتی کیونکہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور سوائے عمر بن عبد العزیز کے باقی سب ظالم تھے۔ 5
اسی طرح بنی عباس کے حکمرانوں کے ساتھ بھی یہ حدیث مطابقت نہیں رکھتی بنابریں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ جانشین یعنی آئمہ اہل بیت علیہم السلام پر تطبیق کرنا چاہیئے کیونکہ یہی افراد خدا کے یہاں سب سے دانا، پرہیزگار اور عزیز تھے۔ ان کا علم٬ وراثت اور علم لدنی کے ذریعے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منتھی ہوتا ہے۔ حدیث ثقلین اور دوسری احادیث اسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں۔6 فضل بن روزبہان اشعری مذکورہ حدیث کے سند کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں”آئمہ اہل بیت علیہم السلام علم و معرفت، حجت الٰہی اور ہادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے خلیفہ ہیں۔ یعنی یہ حدیث آئمہ اہلبیت علیہم السلام پر صادق آتی ہے لیکن از نظر امامت و زعامت آئمہ اہل بیت علیہم السلام پر یہ حدیث صادق نہیں آتی کیونکہ ان میں سے صرف دو امام اس قسم کی امامت پر فائز ہوئے جبکہ اس حدیث کو امامت بالقوۃ پر حمل نہیں کر سکتے لیکن حدیث کا ظاہری معنی یہی ہے کہ بارہ خلفاء امر امامت کے ذریعے قیام کریں گے اور ان کے قیام کی وجہ سے دین قائم رہے گا۔
مذکورہ حدیث میں دین کا قیام اور دین کی عزت سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلامی احکام تمام جہاں میں نافذ ہوں کیونکہ آج تک یہ معنی محقق نہیں ہوا ہے، البتہ امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد اسلامی احکام تمام جہاں میں نافذ ہوں گے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام میں رہبر اور امام (جو لوگوں کے لئے اسوہ و نمونہ ہوا کرتا ہے اور ان کا قول و عمل لوگوں کے لئے حجت ہوتے ہیں) کے حوالے سے کوئی مشکل اور کمی واقع نہیں ہوگی کیونکہ دین کی عزت و اقتدار اس میں ہے کہ دین کی بنیاد و اساس محکم ہو اور ایک حکیم، دانا اور آگاہ رہبر اس کی رہبری کرے۔ مذکورہ حدیث بھی اسی نکتے پر تاکید کرتی ہے کہ دین اسلام کے لئے قیامت تک اس قسم کی عزت حاصل ہے۔ احادیث کی دوسری قسم وہ حدیثیں ہیں جن میں رسول اللہؐ نے جانشینوں کی تعداد پر تاکید کرتے ہوئے ان کا نام و نشان بھی بتایا ہے اور انہیں اپنے خاندان اور اہل بیتؑ میں سے قرار دیا ہے۔ ان روایات کی بھی چند قسم ہیں:
1۔ کچھ روایات میں امیرالمؤمنینؑ کو امام اول اور امام مہدی علیہ السلام کو امام آخر کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، “الأئمة من بعدي اثنا عشر، أولهم أمير المؤمنين علي بن أبي طالب و آخرهم القائم، طاعتهم طاعتي، و معصيتهم معصيتي، من أنكر واحدا منهم فقد أنكرني” 7 میرے بعد آئمہ بارہ ہونگے امام اول علی بن ابی طالب اور امام دوازدہم قائم، ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور جو ان میں سے ایک کا انکار کرے اس نے میرا انکار کیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، “الائمة بعدي اثنا عشر أولهم علي بن أبي طالب و آخرهم القائم، هم خلفائي و أوصيائي و أوليائي، و حجج الله على أمتي بعدي، المقر بهم مؤمن، والمنكر لهم كافر”۔ آئمہ میرے بعد بارہ افراد ہیں۔ اولین علی ابن ابی طالب ہیں اور آخرین حضرت قائم ہیں۔ وہ میرے جانشین، اوصیاء اور اولیاء اور میرے بعد میری امت پر اللہ کی حجت ہیں۔ ان کی امامت کا اقرار کرنے والے مؤمن ہیں اور ان کا انکار کرنے والے کافر ہيں۔
بعض دیگر روایات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد کے نو آئمہ معصومین علیہم السلام کو امام حسینؑ کی نسل سے، قرار دیا ہے جن میں آخری حضرت قائم ہیں۔ ابوذر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، “الأئمة من بعدي اثنا عشر تسعة من صلب الحسين تاسعهم قائمهم” ثم قال (صلی الله عليه وآله) ألا إن مثلهم فيكم مثل سفينة نوح من ركبها نجا و من تخلف عنها هلك” 8 میرے بعد آئمہ بارہ ہیں جن میں سے نو حسینؑ کی نسل سے ہیں اور ان میں نویں ان کے قائم (عج) ہیں۔ جان لو اور آگاہ رہو کہ ان کی مثال کشتی نوحؑ کی مثال ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاچکا اور جو اس سے دوری اختیار کرے وہ ہلاک ہوگیا۔ بعض دیگر احادیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آئمہ کے مشترکہ اسماء کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے، “الأئمة من بعدي اثنا عشر أولهم علي و رابعهم علي و ثامنهم علي و عاشرهم علي و آخرهم مهدي” 9 آئمہ میرے بعد بارہ ہیں پہلے علی، چوتھے علی، آٹھویں علی، دسویں علی اور آخری مہدی (عج) ہیں۔
آپؐ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا، “ان الأئمة من بعدي اثني عشر من أهل بيتي، علي أولهم و أوسطهم محمد و آخرهم محمد و مهدي هذه الأمة الذي يصلي خلفه عيسى ابن مريم”۔10 میرے بعد آئمہ میرے اہل بیت کے بارہ افراد ہیں اول علی، اوسط محمد اور آخری اس امت کے مہدی ہیں، وہ جن کی امامت میں عیسی بن مریم نماز بجا لائیں گے۔ روایات و احادیث کے چوتھے زمرے میں وہ احادیث شامل ہیں جن میں بارہ اماموں کے اسماء و القاب مکمل طور پر واضح کئے گئے ہیں۔ حدیث لوح کے عنوان سے مشہور حدیث (و حدیث قدسی) میں بھی بارہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے نام ان کے اوصاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ حدیث لوح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یا حدیث جابر، آئمہ معصومین کی امامت کو ثابت کرنے کے سلسلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہونے والی احادیث میں سے ایک ہے۔ یہ حدیث سند کے حوالے سے اپنی مقبولیت اور مختلف منابع میں کثرت کے ساتھ نقل ہونے کی وجہ سے آئمہ معصومین کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے میں ایک ممتاز مقام کا حامل ہے۔ اس حدیث کی سب سے اہم خصوصیت اس میں تمام آئمہ معصومین علیہم السلام کے ناموں کا مذکور ہونا ہے، جس میں امام علی علیہ السلام سے لے کر بارہویں امام حضرت امام مہدی (عج) کا نام مذکور ہے۔
اس حدیث کی سب سے زیادہ مشہور نقل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر اور معروف صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کے توسط سے نقل ہوئی ہے۔ وہ تختی جس پر یہ حدیث لکهی ہوئی تھی ایک ایسی تختی ہے جسے خدا نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور ہدیہ عطا فرمایا تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہرا کی خشنودی کیلئے اسے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ہدیہ کے طور پر عطا فرمایا تھا۔ حدیث لوح مختلف طریقوں سے مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ حدیث لوح ان احادیث میں سے ہے جو شیعہ معتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی تائید میں کئی مطالب وارد ہوئی ہیں جو اس کے صحیح ہونے اور اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حدیث کو ثقۃ الاسلام کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں باوثوق راویوں سے نقل کیا ہے۔11 ان کے علاوہ دیگر علماء نے بھی اس حدیث کو معتبر قرار دیا ہے اور اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں اسی سند یا دیگر اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نعمانی نے کتاب الغیبۃ، شیخ صدوق نے عیون اخبارالرضا، شیخ مفید نے کتاب اختصاص اور شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔12
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ “هَذَا کتَابٌ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکیمِ- لِمُحَمَّدٍ نَبِیهِ وَ نُورِهِ وَ سَفِیرِهِ وَ حِجَابِهِ وَ دَلِیلِهِ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعَالَمِینَ عَظِّمْ یا مُحَمَّدُ أَسْمَائِی وَ اشْکرْ نَعْمَائِی وَ لَا تَجْحَدْ آلَائِی إِنِّی أَنَا اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا أَنَا قَاصِمُ الْجَبَّارِینَ وَ مُدِیلُ الْمَظْلُومِینَ وَ دَیانُ الدِّینِ إِنِّی أَنَا اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا أَنَا فَمَنْ رَجَا غَیرَ فَضْلِی أَوْ خَافَ غَیرَ عَدْلِی عَذَّبْتُهُ عَذاباً لا أُعَذِّبُهُ أَحَداً مِنَ الْعالَمِینَ فَإِیای فَاعْبُدْ وَ عَلَی فَتَوَکلْ إِنِّی لَمْ أَبْعَثْ نَبِیاً فَأُکمِلَتْ أَیامُهُ وَ انْقَضَتْ مُدَّتُهُ إِلَّا جَعَلْتُ لَهُ وَصِیاً وَ إِنِّی فَضَّلْتُک عَلَی الْأَنْبِیاءِ وَ فَضَّلْتُ وَصِیک عَلَی الْأَوْصِیاءِ وَ أَکرَمْتُک بِشِبْلَیک وَ سِبْطَیک حَسَنٍ وَ حُسَینٍ فَجَعَلْتُ حَسَناً مَعْدِنَ عِلْمِی-بَعْدَ انْقِضَاءِ مُدَّةِ أَبِیهِ وَ جَعَلْتُ حُسَیناً خَازِنَ وَحْیی وَ أَکرَمْتُهُ بِالشَّهَادَةِ وَ خَتَمْتُ لَهُ بِالسَّعَادَةِ فَهُوَ أَفْضَلُ مَنِ اسْتُشْهِدَ وَ أَرْفَعُ الشُّهَدَاءِ دَرَجَةً جَعَلْتُ کلِمَتِی التَّامَّةَ مَعَهُ وَ حُجَّتِی الْبَالِغَةَ عِنْدَهُ بِعِتْرَتِهِ أُثِیبُ وَ أُعَاقِبُ أَوَّلُهُمْ عَلِی سَیدُ الْعَابِدِینَ وَ زَینُ أَوْلِیائِی الْمَاضِینَ وَ ابْنُهُ شِبْهُ جَدِّهِ الْمَحْمُودِ مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ عِلْمِی وَ الْمَعْدِنُ لِحِکمَتِی سَیهْلِک الْمُرْتَابُونَ فِی جَعْفَرٍ الرَّادُّ عَلَیهِ کالرَّادِّ عَلَی حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّی لَأُکرِمَنَّ مَثْوَی جَعْفَرٍ وَ لَأَسُرَّنَّهُ فِی أَشْیاعِهِ وَ أَنْصَارِهِ وَ أَوْلِیائِهِ أُتِیحَتْ بَعْدَهُ مُوسَی فِتْنَةٌ عَمْیاءُ حِنْدِسٌ-
لِأَنَّ خَیطَ فَرْضِی لَا ینْقَطِعُ وَ حُجَّتِی لَا تَخْفَی وَ أَنَّ أَوْلِیائِی یسْقَوْنَ بِالْکأْسِ الْأَوْفَی مَنْ جَحَدَ وَاحِداً مِنْهُمْ فَقَدْ جَحَدَ نِعْمَتِی وَ مَنْ غَیرَ آیةً مِنْ کتَابِی فَقَدِ افْتَرَی عَلَی وَیلٌ لِلْمُفْتَرِینَ الْجَاحِدِینَ عِنْدَ انْقِضَاءِ مُدَّةِ مُوسَی عَبْدِی وَ حَبِیبِی وَ خِیرَتِی فِی عَلِی وَلِیی وَ نَاصِرِی وَ مَنْ أَضَعُ عَلَیهِ أَعْبَاءَ النُّبُوَّةِ وَ أَمْتَحِنُهُ بِالاضْطِلَاعِ بِهَا یقْتُلُهُ عِفْرِیتٌ مُسْتَکبِرٌ یدْفَنُ فِی الْمَدِینَةِ الَّتِی بَنَاهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ- إِلَی جَنْبِ شَرِّ خَلْقِی حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّی لَأَسُرَّنَّهُ بِمُحَمَّدٍ ابْنِهِ وَ خَلِیفَتِهِ مِنْ بَعْدِهِ وَ وَارِثِ عِلْمِهِ فَهُوَ مَعْدِنُ عِلْمِی وَ مَوْضِعُ سِرِّی وَ حُجَّتِی عَلَی خَلْقِی لَا یؤْمِنُ عَبْدٌ بِهِ إِلَّا جَعَلْتُ الْجَنَّةَ مَثْوَاهُ وَ شَفَّعْتُهُ فِی سَبْعِینَ مِنْ أَهْلِ بَیتِهِ کلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ وَ أَخْتِمُ بِالسَّعَادَةِ لِابْنِهِ عَلِی وَلِیی وَ نَاصِرِی وَ الشَّاهِدِ فِی خَلْقِی وَ أَمِینِی عَلَی وَحْیی أُخْرِجُ مِنْهُ الدَّاعِی إِلَی سَبِیلِی وَ الْخَازِنَ لِعِلْمِی الْحَسَنَ وَ أُکمِلُ ذَلِک بِابْنِهِ محمد رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ عَلَیهِ کمَالُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ صَبْرُ أَیوبَ فَیذَلُّ أَوْلِیائِی فِی زَمَانِهِ وَ تُتَهَادَی رُءُوسُهُمْ کمَا تُتَهَادَی رُءُوسُ التُّرْک وَ الدَّیلَمِ فَیقْتَلُونَ وَ یحْرَقُونَ وَ یکونُونَ خَائِفِینَ مَرْعُوبِینَ وَجِلِینَ تُصْبَغُ الْأَرْضُ بِدِمَائِهِمْ وَ یفْشُو الْوَیلُ وَ الرَّنَّةُ فِی نِسَائِهِمْ أُولَئِک أَوْلِیائِی حَقّاً بِهِمْ أَدْفَعُ کلَّ فِتْنَةٍ عَمْیاءَ حِنْدِسٍ وَ بِهِمْ أَکشِفُ الزَّلَازِلَ وَ أَدْفَعُ الْآصَارَ وَ الْأَغْلَالَ أُولئِک عَلَیهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِک هُمُ الْمُهْتَدُونَ۔
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ کتاب خداوند عالم کی طرف سے حضرت محمد پر نازل کی گئی ہے جو زمین پر خدا کا رسول اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ہیں۔ یہ تحریر جبرئیل کے ذریعے خداوند عالم کی طرف سے لائی گئی ہے کہ اے محمد! میرے اسماء کی تعظیم کرو اور میری نعمتوں پر شکریہ ادا کرو اور ہرگز میری نشانیوں کا انکار مت کرو۔ میں عالمین کا پروردگار اور معبود ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، طاغوتوں کو مغلوب کرنے والا اور مظلوموں کا حامی اور روز جزا کا مالک میں ہوں۔ میں وہی خدا ہوں ہو جو تمہارا معبود ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جو شخص بھی میرے سوا کسی اور سے لو لگائے بیٹھے یا میرے عدل کے سوا کسی اور چیز کا خوف دل میں رکھے تو میں اس شخص کو سخت عذاب میں مبتلا کرونگا کہ دنیا میں کسی نے ایسے عذاب کا تجربہ نہ کیا ہو۔ پس صرف میری عبادت کیا کر اور مجھ پر ہی توکل کیا کر۔ میں نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا اور اس کی رسالت کو مکمل نہیں کیا اور اسکی تبلیغ کا دورانیہ ختم نہیں کیا مگر یہ کہ اس کا کوئی جانشین مقرر کیا۔ میں نے تجھے تمام انبیاء پر برتری دی اور تمہارے جانشین کو بھی تمام وصیوں پر برتری دی۔ اس کے بعد آپ کو آپ کے دو بیٹے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی وجہ سے اور عزت اور شرف بخشا۔
ان کے والد گرامی حضرت علی{ع} کی زندگی اور دوران امامت کے ختم ہونے کے بعد امام حسن (ع) کو اپنے علم کا خزینہ قرار دیا اور امام حسین (ع) کو اپنی وحی کا محافظ اور نگہبان قرار دیا۔ امام حسین (ع) کو شہادت کی نعمت عطا کر کے انہیں مزید شرف اور سعادت عطا کیا۔ امام حسین (ع) وہ با فضیلتترین شخصیت ہے جو شہید ہوا اور شہداء کے درمیان سب سے افضل مقام پر فائز ہوا۔ امامت اور توحید کو تمام و کمال ان کے ساتھ رکھا میری حجت بالغہ کو ان کے ہاں قرار دیا ان کی اہل بیت اور قرابت کے مطابق میں صالحوں کو ثواب اور بدکاروں کو عقاب دونگا۔ ان کا پہلا فرزند علی (بن الحسین) عبادت گزاروں کی زینت اور میرے دوستوں میں سے ہے۔ ان کے بعد ان کے فرزند جو نام میں اپنے نانا رسول خدا کے ہم نام ہیں جو علم و حکمت کو عیاں کرنے والے ہیں۔ عنقریب امام جعفر صادق کی امامت میں شک کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے جس نے بھی اسے ٹھکرایا گویا اس نے مجھے ٹھکرایا۔ یہ میرا ہی کلام ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ امام جعفر صادق (ع) اور ہر اس شخص کے مقام و منصب کو شرف بخشوں گا جس نے اس پر ایمان لے آیا۔ ان کی محبت اور عشق کو ان کے دوستوں، شیعوں، پیروی کرنے والوں اور ان کے مددگاروں کے دلوں میں قرار دونگا۔
اس کے بعد اندھے اور سیاہ فتنہ اور تقیہ کو امام موسی کاظم کے سامنے سے ہٹا دوں گا کیونکہ خدا کی عطاعت اور حکم خداوندی کبھی منقطع نہیں ہوگا اور میری حجت اور دلیل لوگوں سے کبھی بھی مخفی نہیں رہے گا اور میرے چاہنے والا کبھی بھی بدبخت نہیں رہے گا۔ اگر کوئی میری کسی ایک حجت کا بھی انکار کرے تو گویا میری عطا کردہ نعمت کا انکار کیا ہے اور جس نے بھی میری کتاب کے ایک آیت کو تبدیل کیا تو گویا مجھ پر تہمت باندھی ہے۔ ہلاکت ہو تہمت لگانے والوں اور انکار کرنے والوں پر۔ اور آخر کار میرے بندے اور دوست امام موسی کاظم (ع) کی امامت کا دور ختم ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ! جس نے بھی میرے آٹھویں حجت کو جھوٹا سمجھا گویا اس نے میرے تمام اولیا کا انکار کیا ہے۔ علی (بن موسی (ع) میرا دوست اور مددگار ہے اور میں نے علم، عصمت اور نبوت کی صفات سے ان کو مزین کرکے ان کی حفاظت کے حوالے سے ان کا امتحان لوں گا۔ ستمگروں اور متکبروں کی شیطانیت انہیں شہید کرے گی اور اس شہر میں جسے میرے صالح بندے (ذوالقرنین) نے تعمیر کیا ہے، میں میرے بندوں میں سے بدترین بندگان (ہارون الرشید) کے ساتھ دفن ہوگا۔ آٹھویں امام کی آنکھوں کو ان کے فرزند ارجمند اور ان کے جانشین کی ولادت کے ذریعے روشن کرینگے۔ محمد (بن علی بن موسی الرضا (ع) میرے علم و دانش کے وارث اور معدن حکمت ہیں اور میرے بندوں پر میری حجت ہیں۔ جو بھی ان پر ایمان لے آیا بہشت اس کا مقدر ہے اور اسے اپنے اہل و عیال میں سے ستر آدمیوں کی شفاعت کرنے کا حق دونگا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو۔ ان کے بعد ان کے لخت جگر علی بن محمد بن علی بن موسی الرضا (ع) میرے دوست اور مددگار کو سعادتمند کر دونگا۔ وہ میرے وحی کے امین ہونگے۔
ان کے صلب سے حسن (بن علی بن محمد) کو پیدا کرونگا، جو لوگوں کو خدا کی راہ میں دعوت دینے والے اور خدا کے علم کے نگہبان ہونگے۔ میں اپنی حجت کو ان کے بیٹے محمد کے آنے کے ذریعے عالمین پر تمام کر دونگا۔ موسی کے قدرت و کمال، عیسی کی عظمت و نور اور ایوب کا صبر سب کے سب ان میں پائے جائیں گے۔ وہ ایک ایسے زمانے میں آئے گا جس زمانے میں میرے بندے ذلیل و خوار ہو چکے ہونگے اور مغلوں اور دیلمیوں کے مغرور مشرکوں کے ذریعے آگ میں جلائے جائیں گے۔ ان کے سر بعنوان ہدیہ دور و دراز بھیجا جائے گا اور سب پر ترس و وحشت طاری ہوگا۔ زمین ان کے خون سے رنگین ہو جائے گی اور ان کی عورتوں میں ہلاکت اور چیخ و پکار عام ہو گی۔ یہ لوگ حقیقت میں زمین پر میری حجت اور اولیاء ہونگے۔ ان کے ذریعے ہر اندھے فتنوں اور زلزوں کو خدا کی مخلوق سے دور کرونگا اور ان کے ذریعے خدا کے دشمنوں کے مکر و فریب اور مخفی چالوں کا سراغ لگایا جائے گا اور خدا کی مخلوق سے غلامی کی طوق و زنجیروں کو ان کے ذریعے ہی توڑا جائے گا۔ خدا کی رحمت اور درود ہو ان پر یہ لوگ وہی ہدایت پانے والے ہیں۔
بارہ خلفاء کی خلافت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک، حدیث نقباء بنی اسرائیل ہے۔ احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مسروق سے نقل کیا ہے ، ہم عبد اللہ ابن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے لئے قرآن کی تلاوت کر رہا تھا، اتنے میں ایک شخص نے اس سے پوچھا کیا تم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ہے کہ اس امت پر کتنے خلفاء رہبری کریں گے؟ عبد اللہ بن مسعود نےکہا ہاں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، “بنی اسرائیل کےنقباء کے برابر بارہ خلفاء ہوں گے”۔14 اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کی تعداد بارہ ہے اور ان کی خلافت بھی منصوص ہے کیونکہ بنی اسرائیل کے نقباء خداوند متعال کی طرف سے برگزیدہ تھے۔ ارشاد ہوتا ہے، “وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنىِ إِسرْائیلَ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنىَ عَشرَ نَقِيبًا” اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا۔ نقیب وہ افراد ہوتے ہیں جو قوم کے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اور قوم میں سردار کی حثییت رکھتےہیں۔ جو خلفاء لوگوں کے انتخاب یا اپنی سعی و کوشش سے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، ان کی تعداد معین نہیں ہوتی اور یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کہ اصحاب اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کریں۔ بنابریں یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان خلفاء کے بارے میں سوال کیا تھا جو خدا کی طرف سے امت اسلامی کی رہبری کے لئے منصوص تھے۔16
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ صحیح بخاری، دار احیاء التراث العرب، ج۸، ص۱۲۷؛ مسند احمد، دار صادر، ج۵، ص۹۴۔
2۔ صحیح مسلم، داراحیاء التراث العربی، ج۶، ص ۴؛ ابن ابی عاصم، الآحاد والمثانی، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۲۶۔
3۔ لنگر نیشابوری قشیری، مسلم بن حجاج (متوفای۲۶۱ه)، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۵۲، تحقیق:محمد فؤاد عبد الباقی، ناشر:دار احیاء التراث العربی – بیروت۔
4۔ مسند احمد، دار صادر، ج۵، ص۸۶۔
5۔ قندوزی، ینابیع الموده، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۲۹۲، ۲۹۳
6۔ صدوق، الاعتقادات فى دین الإمامیه، ص 108۔ عیون اخبار الرضا (علیه السلام)، ج2، ص62۔
7۔ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج4، ص180۔
8۔ سید هاشم بحرانی، غایة المرام، ج3، ص22۔ خزاز قمى رازى، كفاية الأثر ص34۔
9۔ سبزواری، معارج الیقین، ص62
10۔ سید هاشم بحرانی، غایة المرام، ج2، ص238۔
11۔ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، ص258۔ طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص87
12۔ کلینی، محمد بن یعقوب؛ الکافی، ج۱، ص۵۲۷.
13۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم؛ الغیبہ، ص۶۲؛ شیخ صدوق، کمال الدین، ج۱، ص۳۰۸؛ شیخ صدوق، عیون أخبارالرضا علیہ السلام، ج۱، ص۴۱؛ تاج الدین شعیری، جامع الاخبار، ص۱۸؛ مجلسی، محمدباقر؛ بحارالانوار، ج۳۶، ص۱۹۵؛ شیخ مفید، الاختصاص، ص۲۱۰؛ شیخ طوسی، الغیبہ، ص۱۴۳۔
14۔ مسند احمد بن حنبل،ج1 ،ص398۔ینابیع المودۃ ،ص445۔
15۔ مائدۃ ،12۔
16۔ دلائل الصدق، ج12، ص489۔
دیدگاهتان را بنویسید