حدیث ثقلین پر ایک اجمالی نظر۔ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حدیث ثقلین ان متواتراحادیث میں سےایک ہے جسے اہل تشیع و اہل تسنن دونوں نے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔اس معروف حدیث کا متن یہ ہے :{یاایها الناس انی تارک فیکم الثقلین ،کتاب الله و عترتی ، اهل بیتی ماان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی ابدا و انهما لن یفترقا حتی یرداعلی الحوض ،فانظروا کیف تخلفونی فیهما }۱پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا :اے لوگو:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔اگر تم ان کےساتھ تمسک کئے رہو گے توکبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ان میں سے ایک کتابخداہے اور دوسری میریعترت۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ۔تم خود سوچو کہ تمہیں ان دونوں کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے ۔
حدیث ثقلین کی سند کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ حدیث ایک سو سے زیادہ مرتبہ اور تقریبا 35 اصحاب پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ۔2یہ حدیث، حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے، ثقلین، تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جو دو پر دلالت کرتا ہے،اور لغت میں ثقل سے مرادوہ چیز ہے کہ جو مسافر اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتا ہے۔
کتاب القاموس المحیط کے مطابق ثَقَل سے مراد مسافر کا سامان اور ہر وہ قیمتی و نفیس شئی ہے جسے چھپا کر محفوظ طریقے سے رکھا جاتا ہے۔3ابن منظور اس بارے میں لکھتاہے:{سمیا ثقلین لأن الأخذ بهما ثقیل و العمل بهما ثقیل ، قال : و أصل الثقل أن العرب تقول لكل شیء نفیس خطیر مصون ثقل ، فسماهما ثقلین إعظاما لقدرهما و تفخیما لشأنهما}کتاب خدا اور عترت کو ثقلین کہا جاتا ہے، کیونکہ ان دو سے تمسک کرنا اور ان دو پر عمل کرنا، سنگین و وزنی ہے، اور اسکے علاوہ عرب ہر قیمتی اور مہم چیز کو ثقل کہتے ہیں۔ پس قرآن اور اہل بیت کو ثقل کہنا، ان دونوں کے بلند و بالا مقام کی وجہ سے ہے۔4
لفظ ثقل کا لغوی معنی، حدیث ثقلین کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر آخرت پر جانے سے پہلے دین خدا کی بقاءاور امت کی ہدایت اور نجات کی خاطر دومہم ترین چيزیں چھوڑ ے جا رہے ہیں ۔اپنی امت کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان دونوں سے ہمیشہ متمسک رہنا اور ان سےدور نہ ہونا، کیونکہ لوگوں کی ابدی ہدایت و نجات ان دونوں کی پیروی اور اتباع کرنے میں ہے۔ یہ حدیث قرآن اور اہل بیت کی بغیر کسی قید و شرط کے مطلق پیروی و اتباع کو ہر انسان پر واجب قرار دیتے ہیں، لہذا اس حدیث سے اہل بیت کی امامت و خلافت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ مطلق اطاعت اور امامت و خلافت کے درمیان ناقابل انکار تلازم و رابطہ موجود ہے۔
اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو امت اسلامی کی ہدایت اور رہبری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی خطا، گناہ اور گمراہی سے پاک اور دور ہیں۔ ثقل اکبر یعنی قرآن بھی ایسی ہی صفات کے حامل ہے اور امت اسلامی کی نجات، ہدایت اور سعادت کا ضامن ہے، لیکن غیر معصوم افراد قرآن کے ساتھ ذکر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے علاوہ بر این تمام امت اسلامی کی ہدایت اور راہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔بنابرین حدیث ثقلین میں اہل بیت سے مراد، وہ افراد ہیں جنہیں خداوند نے سورہ احزاب ، آیت 33 میں ہر ناپاکی اور گناہ سے پاک و منزہ قرار دیا ہے۔
حدیث ثقلین مندرجہ ذیل نکات پر دلالت کرتی ہے:
1۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامکی اطاعت واجب ہے اوروہ دینی معارف و احکام میں مرجعیت کا مقام رکھتےہیں کیونکہ کتاب و سنت سے تمسک سے مراد ان کے فرامین پر عمل کرنا ہے ۔ اہل بیت پیغمبرکی عصمت اور مرجعیت علمی پربھی اس حدیث کی دلالت واضح ہے کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ تمسک ،قرآن کے ساتھ تمسک کی طرح گمراہی سے نجات کا باعث ہے۔ لہذا جس طرح قرآن کریم خطا وانحراف سے محفوظ ہے { لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَينْ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِه{5{جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے ،کسی طرف سے باطل نہیں آ سکتا }اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے اقوال و اعمال بھی خطا اور انحراف سے منزہ ہیں اور ان دونوں کی عدم جدائی اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ قیامت تک قرآن کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین پر بھی عمل کرنا چاہیے یعنی قیامت تک اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہبری موجود رہےگی اور یہ خصوصیت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اورپرمنطبق نہیں ہوتی کیونکہ خاندان پیغمبرمیں ائمہ اطہارعلیہم السلاماور حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکے علاوہ کسی نےبھی مقام عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے ۔اس نکتے کو اہل سنت کے علماءنےبھی بیان کیا ہے جیسا کہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :{ الا تری انه{ص}قرنهم بکتاب الله تعالی فی کون التمسک بهما منقذا من الضلالة ولا معنی للتمسک بالکتاب الا الاخذ بما فیه من العلم و الهدایة فکذا فی العترة }6 کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حضرت ؐنے اہل بیت کو قرآن کا قرین و مصاحب قرار دیا اور حکم دیا کہ کہ ان دونوں کے ساتھ تمسک اور وابستگی گمراہی سے بچانے والی ہے ۔ قرآن کے ساتھ تمسک کرنے کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس سے علوم ومعارف اور ہدایت حاصل کئےجائیں اور یہی معنی عترت کے ساتھ تمسک کرنے کے ہیں۔
2۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامتمام گناہوں سے منزہ اورمعصوم ہیں کیونکہ اولاً:اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامکو قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح قرآن کریم ہر قسم کے انحرافات اور باطل امورسے محفوظ ہےاسی طرح اہل بیت علیہم السلام بھی تمام خرابیوں سے منزہ ہیں ۔
ثانیاً: اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامسے تمسک بغیرکسی شرط و قید کے گمراہی سے نجات دلاتا ہے جس طرح قرآن کریم گمراہی سے نجات دلاتا ہے ۔واضح ہے کہ اگر اہل بیت پیغمبرعلیہم السلامکے گمراہ ہونے کا احتمال ہوتو وہ ضلالت اور گمراہی سے نہیں بچا سکتے۔
ثالثا: یہ لوگ قرآن سے کبھی جدا نہیں ہوں گے چونکہ قرآن کریم میں کوئی انحراف نہیں ہے لہذا عترت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کوئی انحراف نہیں ہے۔
3۔ اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے کسی فرد کا ہر زمانے میں بعنوان امام و رہبر ہونا ضروری ہے ۔آپ ؐنے فرمایا کہ عترت کبھی قران سے جدا نہیں ہوں گے لہذا قرآن کریم بھی عترت کے بغیر ہرگز موجود نہیں ہوگا ۔لہذا اس حدیث کی روشنی میں قیامت تک ہر زمانے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کسی نہ کسی فرد کا ہونا ضروری ہے جوآج امام زمانہعج ہیں7،کیونکہ خاندان پیغمبر میں گیارہویں امام کے بعد آپ ؑکے علاوہ کوئی عصمت کے درجے پر فائز نہیں ہے ۔ا س بات کا اعتراف مشاہیر علماء اہل سنت نے بھی کیا ہے جیسے سمہودی لکھتے ہیں :اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت طاہرہ علیہم السلام میں سے وہ لوگ جو تمسک کے اہل ہیں ان کا وجود ہر ایک زمانہ میں تاقیام قیامت رہے گا اور اسی صورت میں اس کے ساتھ تمسک کرنے کا حکم صادق آئے گا جس طرح قرآن قیامت تک باقی رہے گا ،لہذا یہ لوگ زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر یہ دنیا سے اٹھ جائیں تو ان کے ساتھ ہی اہل زمین بھی ختم ہو جائیں گے ۔8
۴۔ حدیث ثقلین کے بارے میں مختلف شواہد موجود ہیں جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیاسی رہبری پر دلالت کرتی ہیں ۔پہلا شاہد یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض عبارتوں میں جوکہ مختلف ذرائع سے نقل ہوئی ہیں لفظ {خلیفتین} استعمال ہواہے جیسے:{ﺇنی تارک فیکم خلیفتین: کتاب الله،حبل ممدود من السماء ﺇلی الارض،وعترتی،اهل بیتی، فانهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض} 9میں تم میں دو خلیفہ و قائم مقام چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا ، جو آسمان سے زمین تک لٹکی ایک رسی کی مانندہیں اور دوسری میری عترت یعنی اہلبیت اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
دوسرا شاہد یہ ہے کہ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس حدیث کوبیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی اور آپ ؐنے فرمایا:{یوشک أن یاتینی رسول ربی فاجیب}عنقریب میرے پروردگار کا پیغام رسان میرےپاس آئے اور میں اس کا جواب دوں۔ واضح ہے کہ جب بھی کوئی رہبر اپنی موت کے بارے میں لوگوں کو خبر دیتا ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو یقینا اس سے مراد معاشرے کی سیاسی رہبری ہے ۔ علاوہ از ایں مسلم 1۰کے نقل کے مطابق پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کو غدیر کے دن بھی ارشاد فرمایاجیساکہ بعض نسخوں میں یہ جملہ {من کنت مولاه فعلی مولاه} بھی موجود ہے جبکہ اس جملے کو پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا ہے ۔ بنابریں غدیر خم کے دن دو مطالب بیان ہوئے:1۔ حضرت علیعلیہ السلام کی امامت بطورخاص بیان ہوئی 2۔باقی ائمہ اطہار علیہمالسلام کی امامت بطور عام بیان ہوئی ۔
یہاں اگر ہم اس فرض کو بھی قبول کریں کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی علمی رہبری ا ورمرجعیت کو بیان کرتی ہے تب بھی تمام مسائل میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔حتی امت کی رہبری اور امامت کےبارے میں بھی ان کی رائے معیار ہونا چاہیے جبکہ ائمہعلیہم السلام ہمیشہ اموی و عباسی حکمرانوں کےخلافت کوناجائز قرار دیتےتھے اور اپنی حقانیت پر تاکید فرماتے تھے۔۱۱ اصولی طور پر خلفاء کی خلافت کے زمانے میں بھی علمی مرجعیت عملا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی اور شرعی مسائل و اختلافات ،آپ ؑکے ذریعے حل ہوتے تھے۔ حقیقت میں جس دن اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کو امت کی قیادت و رہبری سے جدا کیاگیا،اسی دن سے فرقہ گرائی بھی شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے کلامی فرقے وجود میں آتے گئے۔۱۲
حوالہ جات:
۱۔حدیث ثقلین مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے لیکن مذکورہ عبارت مشہور نقل کے مطابق ہے ۔
۲۔ عبقات الانوار ،جلد حدیث ثقلین ،غایۃ المرام ،ص 211۔
۳۔فیروز آبادی القاموس المحیط: ج3 ص353، المؤسّسة العربیة ـ بیروت
۴۔محمد بن مكرم بن منظور الأفریقی المصری، الوفاة: 711 ، ج 11 ص 88، دار النشر : لسان العرب دار صادر – بیروت ، الطبعة : الأولی.
۵۔ فصلت،42۔
۶۔ شرح المقاصد،ج5، ص 303،منشورات الشریف الرضی قم ۔
۷۔نفخات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار ،ج2 ،ص247 – 269۔
۸۔نور الانوار ترجمہ عبقات الانوار، ج2 ،ص33۔جواہر العقدین، ج2 ،ص94۔
۹۔مسند احمد بن حنبل ،ج5 ،ص122۔
۱۰۔ صحیح مسلم،ج4،ص1873،باب فضائل علی ابنابی طالب ،حدیث 2408۔
۱۱۔ دلائل الصدق،ج12،ص 477۔
۱۲۔ عقا ئد امامیہ ،جعفر سبحانی،ص226۔
دیدگاهتان را بنویسید