تازہ ترین

حدیث “۔۔ لو لا فاطمۃ لما خلقتکما۔۔” کی سند کیا ہے اور اس روایت کے کیا معنی ہیں؟

اس روایت کو ” جنۃ العاصمۃ” کے مولف نے ” کشف اللئالی ” تالیف صالح بن عبد الوھاب عرندس سے نقل کیا ہے، یہ روایت ” مستدرک سفینۃ البحار ” میں ” مجمع النورین ” تالیف مرحوم فاضل مرندی سے نقل کی گئی ہے

شئیر
62 بازدید
مطالب کا کوڈ: 525

اور “ضیاء العالمین” کے مولف جو صاحب جواھر کے نانا ہیں نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
۔
 حضرت فاطمہ(س) کے مقام و منزلت کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان روایات میں ایسے مقامات کی طرف اشارہ ہوا ہے جو صرف حضرت فاطمۃ(س) کے لیے منحصر طور پر ذکر ہوئے ہیں اور جو مقامات عام انسان کے لیے حیرت انگیز ہیں۔
 روایات کی بناء پر لغت میں “فاطمۃ” سے مراد وہ ذات ہے جس کی معرفت کو سمجھنا عام لوگوں کی طاقت سے مافوق ہے، اور لوگ فاطمہ کی معرفت کو سجمھنے سے قاصر ہیں۔[1] گویا خداوند متعال کا مخفی راز فاطمۃ(س)  میں ہی پوشیدہ ہے اور خداکو پہچاننے کے لیے (جو پہچاننے کا حق ہے ) حضرت فاطمہ(س)   کی پہچان سے جڑا ہوا ہے اسی طرح فاطمیت غیر قابل شناخت صفت، حجاب میں ہونے اور حرم الہی میں مکین رہنے سے متلازم ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ (س) نہ ہی کوئی پیغمبر تھیں اور نہ ہی امام ، پس جو چیز سبب بنی کہ اس گوھر کو یہ رفیع مقام عطا ہو وہ ظاھری نبوت اور امامت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے، اس قدسی گوھر کا نام جو بھی رکھا جائے یہ بات یقینی ہے کہ اس کی معرفت کی کنہہ (گہرائی) تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، لیکن عبادات کی دنیا میں اس کا نام گوھر عبادت رکھا جا سکتا ہے عبد ہونے کے واقعی معنی ،یعنی اپنا کچھ نہ ہونا اور پورا خدائی ہونا۔ عبد جو خدا کا آئینہ ہے ، اس لحاظ سے امام صادق(ع) عبودیت کی حقیقت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:، “عبودیت ایک ایسا جوھر ہے کہ جس کی کنہہ اور گہرائی ربوبیت ہے”، [2]
یہ گوھر انسان کا وہی گمشدہ گوھر ہے اور وھی عرفان کا سر الاسرار ہے –
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ فاطمہ کی پہچان وہی شب قدر کی پہچان ہے -[3]
 تمام عارفوں کا مقصد شب قدر کی حقیقت کو سمجھنا ہے اور عارف واصل وہ ہے جو شب قدر میں نزول قرآن کا شاھد ہو۔
دوسری جانب امام)ع(   اپنے باطنی مقام میں قرآن ناطق کا مقام رکھتا ہے۔ یعنی امامت کا راز قرآن کی غیبی حقیقت کو حاصل کرنا ہے اور اس طرح امامت کی ذات کا بھی حضرت فاطمہ(س) کی حقیقت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔
 جو کچھ عام لوگوں کے لیے واضح ہوتا ہے وہ نبوت کا مقام ہے اور  امامت کا مقام دین کے کمال کے طور پر  نبوت کے ذریعے ابلاغ ہوتا ہے جس کو صرف خاص لوگ سمجھ لیتے ہیں اورجو کچھ امامت کے مقام سے دوسروں کے لیے غیر قابل شناخت رہتا ہے ( مگر ان لوگوں کے لیے جو سر خدا کے محرم ہیں) وہی وجود فاطمہ(س)کا راز ہے جو الہی عصمت اور غیرت کے نقاب میں مخفی ہے۔
 پس امامت نبوت کا سر نہاں ہے اور عبودیت کا جوھر امامت کا سر نھاں ہے لیکن نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ یہ تین مراتب اور مقام پیغمبر اکرم (ص) کے وجود مبارک میں وحدت تام کی صورت میں کمال کے اعلی درجہ کے طور پر موجود ہیں، اس لیے پیغمبر(ص) کا مقام سب معصومین سے مافوق ہے ۔ اس کے ساتھ امامت محمدی (ص) کا مقام امامت علی(ع)  میں اور مقام عبودیت محمدی (ص)  حضرت فاطمہ(س) میں متجلی ہوا ہے اور اس کے اصلی تشخص کی صورت میں ظاھر ہوا ہے۔ اس طرح حضرت محمد (ص)  کی حقیقت وجودی کے ظاھری سیر کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ عبودیت کا مقام نبوت اور امامت سے مافوق ہے اور اس لئے جو کچھ حضرت فاطمۃ(س) میں متحقق ہوا ہے وہ ایک انسان کے لیے سب سے انتھائی مقام ہے کہ جو نبوت اور امامت کا مقصد شمار کیا جاتاہے،
حدیث “لولا فاطمۃ “
جو روایات  حضرت رسول اکرم (ص) اور باقی ائمہ معصومین(ع) سے حضرت فاطمۃ(س)  کے مقام و منزلت میں وارد ہوئی ہیں نیز وہ بہت ساری احادیث  جو خداوند متعال نے احادیث قدسیہ کی صورت میں بیان فرمائی ہیں[4]  وہ سب گذشتہ مطالب پر دلالت کرتی ہیں۔ لیکن جو واضح طور پر حضرت فاطمہ (س)  کے خاص مقام کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور جنھیں بعض علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے یہ احادیث قدسی ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کو خطاب کرتی ہیں کہ فرمایا “لولاک لما خلقت الافلاک و لو لا علی  لما خلقتک و لو لا فاطمۃ لما خلقتکما” [5]
اس روایت کی سند کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اگر چہ یہ روایت علم رجال کی کسوٹی کے مطابق ضعیف احادیث میں شمار کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود شیعوں کے بزرگ علماء نے اسے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ روایت کا آخری حصہ “لو لا فاطمۃ”  کو جنۃ العاصمۃ ، ص ۲۴۸ نے کشف اللئالی تالیف صالح بن عبد الوھاب عرندس سے نقل کیا ہے، مستدرک سفینۃ البحار نے ج ۲ ص ۳۳۴ نے مجمع النورین مرحوم فاضل مرندی سے نقل کیا ہے اور ضیاء العالمین کے مولف جو صاحب جواھر کے نانا ہیں نے بھی نقل کیا ہے۔
میرزا ابو الفضل تھرانی نے ” شفاء الصدور فی شرح زیارۃ العاشور ” ص ۸۴ وغیرہ میں نقل کیا ہے کہ صالح بن عبد الوھاب اور اس کے بعض روات مجھول ہیں لیکن یہ روایت کے کذب پر دلیل نہیں ہے۔
 اس کے علاوہ اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاھیئے کہ اس جیسی  روایات کہ جو معصومین  کے بارے میں خاص مقامات سے متعلق ہیں۔ ان روایات میں راوی کا مجہول ہونا قدرتی بات ہے، کیوں کہ اماموں کے زمانے میں فقہی احکام کے راویوں کو آمدو رفت اور سماجی کاموں میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ لیکن اعتقادی مسائل بیان کرنے والے راویوں کو(تقیہ کے شرائط  کی وجہ سے)  گوشہ نشینی  کے حالات گزارنے پڑتے تھے او وہ سماجی روابط سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ وہ روزانہ کی بحثوں میں زیادہ حصہ نہیں لیتے تھے ، اور اسی لئے ان کی عدالت اور وثاقت کے بارے میں بحث واقع نہیں ہوتی تھی ، اس وجہ سے ان کا مجہول ہونا روایت کو اعتبار سے نہیں گراتا۔ خصوصا جو  روایت قواعد کے مطابق ہو اور یہی بات کہ یہ افراد امام کے مورد خطاب قرار پاتے تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ” اصحاب سر” ہوتے تھے جیسا کہ بعض دیگر مشابہ باتیں ائمہ کے مقامات کے بارے میں ایسے ہی افراد سے نقل ہوئی ہیں[6]
اس روایت کے مضمون  کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ یہ روایت کچھ حصوں سے تشکیل پائی ہے۔
۱۔ عالم کی خلقت کا مقصد انسان کامل ہے۔
۲۔ امام کا مقام نبوت سے برتر ہے۔
۳۔عبودیت کا مقام باقی دوسرے مقاموں سے برتر ہونا۔
ان تین مقامات کے بارے میں اس روایت میں یوں اشارہ ہوتا ہے :
۱۔ اگر تم نہیں ہوتے تو میں عالم خلقت کو خلق نہیں کرتا ۔
روایت کا یہ حصہ باقی روایات سے تایید پاتا ہے کہ جو اپنی جگہ پر بیان ہوئیں  ہیں جس سے مراد یہ یے کہ ” انسان کامل” عالم کی خلقت کا اصلی مقصد اور خداوند متعال کی توجہ کا اصلی مرکز ہے اور خدا کے ارادہ کے ظہور کا راستہ ہے۔ اس بیان کی وضاحت میں حکماء اور عرفاء نے بہت سے مطالب بیان کئے ہیں جن میں سے یہاں پر ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
 اگر عالم میں وحدت نہ ہوتی تو کثرت متحقق نہیں ہوتی ، علت و معلول کے درمیان سنخیت اس بات کی متقاضی ہے کہ دنیا کی پہلی علت جو تمام لحاظ سے واحد ہے اور جس میں کسی طرح کا تکثر نہیں ہے اور دنیا میں معلولات کے درمیان تکثر اور اختلاف کے باوجود ، ان کے درمیان ایک حیثیت سے وحدت بھی متحقق ہو، جس کو ایک لحاظ سے وحدت کل اور دوسرے لحاظ سے عالم تکثر سے رابطہ اور تناسب ہو۔ یہ حقیقت صرف عالم نفس میں ہی متحقق ہے ۔ یہ تناسب پیدا کرنا  ہر موجود کا کام نہیں ہے بلکہ صرف پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ طاھرین(ع) کے پاک نفوس ہیں جو اس ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں اسی لئے اگر خود پیغمبر اکرم(ص) نہ ہوتے تو عالم میں وحدانیت متحقق نہ ہوتی اور پھر تکثرات بھی متحقق نہ ہوتے۔[7]
روایت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے ” لولا علی لما خلقتک” روایت کا یہ حصہ نبوت کی نسبت مقام امامت کی برتری کے متعلق ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ نبوت کا مطلب پیام لانے کے ہیں لیکن امامت سے مافوق ہے کیونکہ وہ توحید کامل تک پہنچنے کا طریقہ ہے وہ اپنی ذات کو فنا کرنے اور خدا تک پہنچنے کا مقام ہے ۔ آیات قرآنی کے مطابق حضرت ابراھیم (ع)  ابتدائی مراحل کو طے کرکے جب کہ وہ پیغمبر بھی تھے، خاص امتحانات سے گزرنے کے بعد امامت کے مقام پر فائز ہوئے البتہ پیغمبر اکرم (ص) امامت کا مقام رکھتے ہیں لیکن چونکہ حضرت علی(ع) کی اصلی خصوصیت مقام امامت ہے اور پیغمبر اکرم(ص)(    کی ظاھری خصوصیت نبوت ہے اسی لئے حضرت علی(ع) کے بارے میں مقام امامت پر تاکید کی گئی ہے۔
 پس یہاں پر کسی بھی صورت میں رسول اکرم(ص)  پر حضرت علی(ع)کی برتری کا سوال ہی نہیں ہے (نعوذ باللہ )  بلکہ بحث امامت کی برتری نبوت کے اوپر ہے کیونکہ بے شک بہت ساری دلیلوں کے مطابق حضرت رسول اکرم(ص)( کا مرتبہ حضرت علی(ع) سے کہیں زیادہ ہے  (کیونکہ رسول اکرم (ص) امامت  اور نبوت دونوں مقام کے حامل ہیں ) اور خود حضرت علی(ع) نے فرمایا: انا عبد من عبید محمد “[8] میں محمد کے بندوں میں ایک بندہ ہوں۔
 تیسرا مقام جو روایت کے تیسرے جملے میں بیان ہوا ہے ” اگر فاطمہ نہ ہوتی تو تم دونوں کو خلق نہیں کرتا”  اس کے سیاق و سباق کے تحت ، اس مقام کی طرف اشارہ کرتا ہے اگرچہ وہ مقام آنحضرت)ص( میں بدرجہ اتم موجود ہے لیکن فاطمۃ زھراء (س) کی اصلی خصوصیت یہی ہے اور وہ مقام عبودیت ہے۔
 اس بناء پر عبادت کی توضیح ” لو لا فاطمۃ لما خلقتکما” یہ ہے کہ اگر عبودیت کا مقام نہ ہوتا تو امامت اور نبوت بھی مکمل نہ ہوتے اور یہ دوںوں اپنے مقصد کو نہ پہنچتے کیونکہ نبوت اور امامت ، عبد مطلق کے مقام تک پہنچنے کا مقدمہ ہے۔ البتہ یہ مقام خودآنحضرت(ص) اور حضرت علی(ع) میں موجود تھا لیکن حضرت فاطمہ(س) میں صرف یہی مقام متجلی ہوا ہے اسی لئے اس روایت میں حضرت فاطمہ(س) پر تکیہ کیا گیا ہے جبکہ ان کی ذات پاک میں کسی طرح کا تکثر اور دوئی متصور نہیں ہے –
 پس یہ بات مسلم ہے کہ عبودیت کا مقام اپنے کمال میں اگر کسی میں متحقق ہوگا تو وہ نبوت اور امامت سے بھی بڑھ کر ہے اور خود نبی اور امام بھی مقام عبودیت کے عنوان سے اس مقام پر ہہنچ گئے ہیں اور انہوں نے امامت اورنبوت کی ذمہ داری اٹھالی ہے ، در حالیکہ خداوند متعال کے پاس سب سے بڑا مقام جو انہیں حاصل ہے وہ عبودیت کا مقام ہے۔
بہ الفاظ دیگر، نبوت اور امامت کا مقام لوگوں کی بالنسبتہ ہے جبکہ عبودیت، کا مقام خدا کے بالنسبۃ ان کے مقام کو بیان کرتی ہے جو نبوت اور امامت سے بلند تر ہے۔
 
[1]  انما سمیت فاطمۃ لان الخلق فطموا عن معرفتھا، مجلسی بحار الانوار ج ۴۳۔ ص ۶۵۔
[2]  العبودیۃ جوھر کنھھا الربوبیۃ فما فقد من العبودیۃ وجد فی الربوبیۃ و ما خفی عن الربوبیۃ اصیب فی العبودیۃ” مصباح الشریعۃ ، ص ۷ موسسہ الاعلمی  للمطبوعات۔
[3]  محم القاسم بن عبدی معنعنا عن ابی عبد اللہ  انہ قال انا انزلناہ فی لیلۃ القدر  اللیلۃ فاطمۃ ، و القدر اللہ فمن عرف فاطمۃ حق معرفتھا فقد ادر لیکۃ القدر۔۔۔”  مجلسی بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۶۵۔
[4]  صرف کتاب ” القدیسہ فی الاحادیث القدسیہ” تالیف اسماعیل الانصاری ، تقریبا ۲۵۲  حدیث قدسی حضرت فاطمہ کی شان میں جمع آوری ہوئی ہیں۔، انتشارات دلیل ما۔
[5]  الاسرار الفاطمیۃ  شیخ محمد فاضل مسعودی، (  یا احمد لو لاک لما خلقت الافلاک، و لو لا علی لما خلقتک ، ولولا فاطمۃ لما خلقتکما” الجںۃ العاصمۃ : ۱۴۸ ، ، مستدرک سفینۃ البحار، ۳/ ۳۳۴۔ عن مجمع النورین : ۱۴، عن العوالم: ۴۴ ) ھذا الحدیث مں الاحادیث الماثورہ التی رواھا جاب بن عبد اللہ الانصاری عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عن اللہ تبارک و تعالی ( الشیک محمد فاضل المسعودی ص ۲۳۱)
[6]  گرامی، محمد علی، ” لو لا فاطمۃ” ص ۱۴۱۔ ۱۴۳، نقل بہ مضمون ، ناشر، دفتر آیۃ اللہ محمد علی گرامی، ۱۳۸۵۔
[7]  ایضا ص ۳۴۔
[8]  کلینی ، الکافی، ج ۱ ص ۸۹۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *