تازہ ترین

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مختصر حالاتِ زندگی

آپ کی ولادت باسعادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے۔ (جلاء العیون ص ۲۵۹)۔

شئیر
85 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5040

اسم گرامی ،کنیت اور القاب
آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں (مطالب السؤل ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱(
باقر کی وجہ تسمیہ
باقر، بقرہ سے مشتق ہے اوراسی کا اسم فاعل ہے اس کے معنی شق کرنے اور وسعت دینے کے ہیں، (المنجد ص ۴۱) ۔ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کواس لقب سے اس لیے ملقب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم ومعارف کونمایاں فرمایا اورحقائق احکام وحکمت ولطائف کے وہ سربستہ خزانے ظاہرفرما دئیے جو لوگوں پرظاہر و ہویدا نہ تھے(صواعق محرقہ،ص ۱۲۰ ،مطالب السؤل ص ۶۶۹ ، شواہدالنبوت صذ ۱۸۱) ۔
جوہری نے اپنی صحاح میں لکھا ہے کہ ”توسع فی العلم“ کو بقرہ کہتے ہیں، اسی لیے امام محمد بن علی کوباقرسے ملقب کیا جاتا ہے ، علامہ سبط ابن جوزی کا کہنا ہے کہ کثرت سجود کی وجہ سے چونکہ آپ کی پیشانی وسیع تھی اس لیے آپ کو باقرکہا جاتا ہے اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ جامعیت علمیہ کی وجہ سے آپ کو یہ لقب دیا گیا ہے ،شہید ثالث علامہ نوراللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام محمد باقرعلوم ومعارف کو اس طرح شگافتہ کر دیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔(مجالس المومنین ص ۱۱۷) ۔
بادشاہان وقت
آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے (اعلام الوری ص ۱۵۶) ۔
واقعہ کربلا میں امام محمد باقر علیہ السلام کاحصہ
آپ کی عمرابھی ڈھائی سال کی تھی، کہ آپ کوحضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیزمدینہ منورہ چھوڑنا پڑا،پھرمدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا تک کی صعوبتیں سفر برداشت کرنا پڑی اس کے بعد واقعہ کربلا کے مصائب دیکھے، کوفہ وشام کے بازاروں اوردرباروں کا حال دیکھا ایک سال شام میں قید رہے، پھروہاں سے چھوٹ کر ۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کو مدینہ منورہ واپس ہوئے۔
جب آپ کی عمرچارسال کی ہوئی ،توآپ ایک دن کنویں میں گرگئے ،لیکن خدا نے آپ کو ڈوبنے سے بچا لیا(اورجب آپ پانی سے برآمد ہوئے تو آپ کے کپڑے اورآپ کا بدن تک بھیگا ہوا نہ تھا(مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹(
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور جابربن عبداللہ انصاری کی باہمی ملاقات
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پرامام محمد باقرکی ولادت سے تقریبا ۴۶/ سال قبل جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمد باقرعلیہ السلام کو سلام کہلایا تھا، امام علیہ السلام کا یہ شرف اس درجہ ممتاز ہے کہ آل محمد میں سے کوئی بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا(مطالب السؤل ص ۲۷۲) مورخین کا بیان ہے کہ سرورکائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے پیارکر رہے تھے۔ ناگاہ آپ کے صحابی خاص جابربن عبداللہ انصاری حاضرہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا ،اے جابر!میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جوعلم وحکمت سے بھرپور ہو گا،اے جابرتم اس کا زمانہ پاؤ گے،اوراس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پرنہ آ جائے ۔
اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا، جابر نے اس خبراوراس پیشین گوئی کو کمال مسرت کے ساتھ سنا،اور اسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کا انتظار کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ چشم انتظار پتھرا گئیں اورآنکھوں کا نورجاتا رہا۔
جب تک آپ بینا تھے ہرمجلس ومحفل میں تلاش کرتے رہے اورجب نورنظرجاتا رہا توزبان سے پکارنا شروع کردیا،آپ کی زبان پرجب ہر وقت امام محمد باقرکا نام رہنے لگا تولوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکا دماغ ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال وہ وقت آ ہی گیا کہ آپ پیغام احمدی اورسلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم جناب جابرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقرعلیہ السلام بھی تھے، امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابربن عبداللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو ،انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا،جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جد نامدارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایا ہے۔
حضرت نے کہا! اے جابر ان پراورتم پرمیری طرف سے بھی سلام ہو،اس کے بعد جابربن عبداللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظورفرمایا اورکہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ، وسیلہ النجات ص ۳۳۸ ،مطالب السؤل ، ۳۷۳ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، نورالابصارص ۱۴۳ ،رجال کشی ص ۲۷ ،تاریخ طبری جلد ۳ ،ص ۹۶ ،مجالس المومنین ص ۱۱۷ ۔
علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان بقائک بعد رویتہ یسیر“ کہ اے جابر! میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا(مطالب السؤل ص ۲۷۳) ۔
سات سال کی عمرمیں امام محمد باقر کا حج خانہ کعبہ
علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ راوی بیان کرتا ہے کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا،راستہ پرخطر اور انتہائی تاریک تھا جب میں لق ودق صحرا میں پہنچا تو ایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظرآئی ۔ میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ناگاہ ایک سات سال کا لڑکا میرے قریب آ پہنچا،میں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اورکہاں کا ارادہ ہے، اورآپ کے پاس زاد راہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، سنو میں خدا کی طرف سے آرہا ہوں اورخدا کی طرف جا رہا ہوں، میرا زاد راہ ”تقوی“ ہے ۔ میں عربی النسل ،قریشی خاندان کا علوی نزاد ہوں،میرا نام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ کہہ کر وہ دونوں سے غائب ہو گئے اورمجھے پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے یا زمین میں سما گئے (شواہدالنبوت ص ۱۸۳) ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور اسلام میں سکے کی ابتدا
مورخ شہیرذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۲ میں لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ھ میں امام محمد باقرعلیہ السلام کی صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا۔ اس سے پہلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشید عباسی نے پوچھا کہ اسلام میں درہم و دینار کے سکے، کب اورکیونکر رائج ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ سکوں کا اجرا خلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے ناواقف ہوں اورمجھے نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجاد کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، ہارون الرشید نے کہا کہ بات یہ ہے کہ سابقہ دور میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے وہ مصرمیں تیار ہوا کرتے تھے جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی ، اور وہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذہب بر تھے وہاں کے کاغذ پرجو ضرب یعنی (ٹریڈ مارک) ہوتا تھا، اس پر رومی زبان میں (اب،ابن،روح القدس لکھا ہوا تھا ،فلم یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ ،الخ)۔
اوریہی چیز اسلام میں جتنے دور گزرے تھے سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کا زمانہ آیا، توچونکہ وہ بڑا ذہین اور ہوشیار تھا،لہذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصرکو لکھا کہ تم رومی ٹریڈ مارک کو موقوف و متروک کر دو،یعنی کاغذ ،کپڑے وغیرہ جو اب تیارہوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دو بلکہ ان پریہ لکھوا دو ”اشہد ان لا اللہ الا ہو“ چنانچہ اس حکم پرعمل درآمد کیا گیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت تھا، رواج پایا تو قیصر روم کو بے انتہا ناگوار گزرا ۔ اس نے تحفہ تحائف بھیج کرعبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کولکھا کہ کاغذ وغیرہ پرجو”مارک“ پہلے تھا وہی بدستورجاری کرو،عبدالملک نے ہدایا لینے سے انکارکردیا اورسفیرکو تحائف و ہدایا سمیت واپس بھیج دیا اوراس کے خط کا جواب تک نہ دیا۔ قیصر روم نے تحائف کو دوگنا کرکے پھربھیجا اورلکھا کہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کردیا،اس لیے اب اضافہ کرکے بھیج رہا ہوں، اسے قبول کرلو اورکاغذ سے نیا”مارک“ ہٹا دو۔ عبدالملک نے پھر ہدایا واپس کردیا اور پہلے کی طرح کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس کے بعد قیصرروم نے تیسری مرتبہ خط لکھا اورتحائف و ہدایا بھیجے اورخط میں لکھا کہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی، اب میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی ٹریڈ مارک کو ازسرنو رواج نہ دیا اورتوحید کے جملے کاغذ سے نہ ہٹائے تومیں تمہارے رسول کو گالیاں،سکہ درہم ودینار پرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گا اورتم کچھ نہ کرسکوگے ۔ دیکھو اب جو میں نے تم کولکھا ہے اسے پڑھ کرارفص جبینک عرقا،اپنی پیشانی کا پسینہ پوچھ ڈالو اورجو میں کہتا ہوں اس پرعمل کرو تاکہ ہمارے اورتمہارے درمیان جو رشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رہے۔
عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کو پڑھااس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،ہاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میں دنیا تاریک ہوگئی۔ اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اہل الرائے اورسیاست دانوں کو فورا جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکہا کہ کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام کامیاب ہوجائے، سب نے سرجوڑ کربہت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پرعمل کیا جا سکتا”فلم یجد عنداحدمنہم رایایعمل بہ“ جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئن نہ ہوسکا تو اور زیادہ پریشان ہوا اوردل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھا کہ اس کا وزیراعظم”ابن زنباع“ بول اٹھا،بادشاہ تو یقینا جانتا ہے کہ اس اہم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتا ہے ،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا،بادشاہ نے کہا”ویحک من“ خدا تجھے سمجھے،تو بتا تو سہی وہ کون ہے؟ وزیراعظم نے عرض کی ”علیک بالباقرمن اہل بیت النبی“ میں فرزند رسول امام محمد باقرعلیہ السلام کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اوروہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آ سکتے ہیں ،عبدالملک بن مروان نے جونہی آپ کانام سنا قال صدقت کہے لگا۔ خدا کی قسم ! تم نے سچ کہا اورصحیح رہبری کی ہے۔
اس کے بعد اسی وقت فورا اپنے عامل مدینہ کو لکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت مصیبت آ گئی ہے اوراس کا دفع ہونا امام محمد باقرکے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہو سکے انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیج دو،دیکھو اس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے،وہ بذمہ حکومت ہوں گے۔
عبدالملک نے دوخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعد شاہ روم کے سفیرکو نظر بند کردیا،اورحکم دیا کہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیا جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عبدالملک بن مروان کا پیغام پہنچا اورآپ فوراعازم سفرہوگئے اور اہل مدینہ سے فرمایا کہ چونکہ اسلام کا کام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکوترجیح دیتا ہوں ۔ الغرض آپ وہاں سے روانہ ہوکرعبدالملک کے پاس جا پہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اس نے آپ کے استقبال کے فورا بعدعرض مدعا کردیا،امام علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا”لایعظم ہذاعلیک فانہ لیس بشئی“ اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر و توانا قیصرروم کواس فعل قبیح پرقدرت ہی نہ دے گا اورپھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت دے رکھی ہے۔ بادشاہ نے عرض کی یا ابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتا ہوں۔
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا کہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کوبلاؤ اوران سے درہم ودینارکے سکے ڈھلواؤ اورممالک اسلامیہ میں رائج کردو، اس نے پوچھا کہ ان کی کیا شکل وصورت ہوگی اوروہ کس طرح ڈھلیں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید ، دوسری طرف پیغمرےاسلام کا نام نامی اورضرب سکہ کا سن لکھا جائے۔ اس کے بعد اس کے اوزان بتائے۔ آپ نے کہا کہ درہم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جو دس مثقال کے دس ہوتے ہیں ،دوسرے سمری خفاف جو چھ مثقال کے دس ہوتے ہیں، تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل ۲۱/ مثقال ہوئے اس کو تین پرتقسیم کرنے پرحاصل تقسیم ۷/ مثقال ہوئے،اسی سات مثقال کے دس درہم بنوا،اوراسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینار تیار کر جس کا خوردہ دس درہم ہو،سکہ کا نقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رہنے دیا جائے ،اوردینارکا سکہ رومی حرفوں میں ہے لہذا اسے رومی حرفوں میں ہی کندہ کرایا جائے اور ڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کا بنوایا جائے تاکہ سب ہم وزن تیار ہو سکیں۔
عبدالملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوا لیے اورسب کچھ تیار کرلیا اس کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضرہو کردریافت کیا کہ اب کیا کروں؟ ”امرہ محمد بن علی“ آپ نے حکم دیا کہ ان سکوں کو تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردے، اورساتھ ہی ایک سخت حکم نافذ کردے جس میں یہ ہو کہ اسی سکہ کو استعمال کیاجائے اور رومی سکے خلاف قانون قراردیئے گئے۔ اب جو خلاف ورزی کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی ،اوربوقت ضرورت اسے قتل بھی کیا جا سکے گا۔
عبدالملک بن مروان نے تعمیل ارشاد کے بعد سفیر روم کو رہا کرکے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہنا کہ ہم نے اپنے سکے ڈھلوا کر رائج کر دیے اور تمہارے سکہ کوغیر قانونی قرار دے دیا اب تم سے جو ہو سکے کرلو۔
سفیرروم یہاں سے رہا ہو کرجب اپنے قیصرکے پاس پہنچا اوراس سے ساری داستان بتائی تو وہ حیران رہ گیا،اورسرجوڑ کردیرتک خاموش بیٹھا سوچتا رہا، لوگوں نے کہا! بادشاہ تو نے جو یہ کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکو سکوں پرگالیاں کندا کرا دوں گا اب اس پرعمل کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا کہ اب گالیاں کندا کرکے کیا کروں گا اب تو ان کے ممالک میں میراسکہ ہی نہیں چل رہا اورلین دین ہی نہیں ہو رہا(حیواة الحیوان دمیری المتوفی ۹۰۸ ھ جلد ۱ طبع مصر ۱۳۵۶ ھ)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کوعلم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولد ہوتا ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے۔ تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے، لکھتا ہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں طائروں تک کی زبان سکھا دی گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخدا سوگند کہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ ۔ خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہو کرعرض پرداز ہوا کہ :
۱ ۔ مولا کونسا اسلام بہترہے جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے ؟
۲۔ کونسا خلق بہترہے؟ فرمایا ! صبراورمعاف کردینا
۳ ۔ کون سا مومن کامل ہے؟ فرمایا! جس کے اخلاق بہترہوں
۴ ۔ کون سا جہاد بہترہے ؟ فرمایا ! جس میں اپنا خون بہہ جائے
۵ ۔ کونسی نماز بہترہے ؟ فرمایا! جس کا قنوت طویل ہو،
۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے؟ فرمایا! جس سے نافرمانی سے نجات ملے،
۷ ۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا! میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھا کیوں؟
فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں :
۱ ۔ محبت دنیا ۲ ۔ فراموشی مرگ ۳ ۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھا پھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتا ہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہد اورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند”باقرالعلوم“ ہوگا ،علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید۔
علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷ ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہو گیا ہواورجس کی طینت وطبیعت فاسد ہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ”باقرالعلوم“ علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کا دل صاف، علم وعمل روشن و تابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔
عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا (تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱) ۔
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرکے علمی تذکرے دنیا میں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح وثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں:
ترجمہ : جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا چاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجز رہے گا،کیونکہ وہ خود محتاج ہے اوراگرفرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد وحساب مسائل وتحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے۔ یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہرقسم کی تاریکیوں میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اوران کے انوارسے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص ۵۲ ،و تاریخ الائمہ ص ۴۱۳)۔
علامہ ابن شہرآشوب کا بیان ہے کہ صرف ایک راوی محمد بن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
آپ کی بعض علمی ہدایات وارشادات
علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے ملا توآپ نے فرمایا۔ اے جابر! میں دنیا سے بالکل بے فکر ہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا،اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا چھوڑی ہوئی سواری، اتارا ہوا کپڑا اوراستعمال کی ہوئی عورت ہے۔ مومن دنیا کی بقا سے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدا اس سے پوشیدہ نہیں ہوتا ۔ مومن کو تقوی اختیارکرنا چاہئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے۔ سنو دنیا ایک سرائے فانی ہے نزلت بہ وارتحلت منہ “ اس میں آنا جانا لگا رہتا ہے ، آج آئے اورکل گئے اوردنیا ایک خواب ہے جو کمال کی مانند دیکھا جاتا ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں …
آپ نے فرمایا تکبربہت بری چیزہے ،یہ جس قدر انسان میں پیدا ہو گا اسی قدر اس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کا حربہ گالیاں بکنا ہے ۔
ایک عالم کی موت کو ابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہترسمجھتا ہے۔ ایک ہزارعابد سے وہ ایک عالم بہترہے جو اپنے علم سے فائدہ پہنچا رہا ہو۔
میرے ماننے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت کریں۔ آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے، رونے والا بخشا جاتا ہے اورجس رخسارپر آنسو جاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔ سستی اور زیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔
خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کوچاہئے کہ اپنے پیٹ اور اپنی شرمگاہوں کومحفوظ رکھیں۔ دعا سے قضا بھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے ۔
بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھ کا شہتیردکھائی نہ دے،اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظرآئیں اورخود عمل نہ کرے، صرف دوسروں کو تعلیم دے۔
جو خوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دور رہے ،وہ تمہارا بھائی اوردوست نہیں ہے (مطالب السؤل ص ۲۷۲) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی نعمت ملے توکہو الحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے تو کہو”لاحول ولاقوة الاباللہ“ اورجب روزی تنگ ہوتو کہو استغفراللہ ۔
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے،جتنی محبت تمہارے دل میں ہوگی ،اتنی ہی تمہارے بھائی اوردوست کے دل میں بھی ہوگی ۔
تین چیزیں خدا نے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں :
۱ ۔ اپنی رضا اپنی اطاعت میں ،کسی فرمانبرداری کوحقیرنہ سمجھو شاید اسی میں خدا کی رضا ہو۔
۲ ۔ اپنی ناراضی اپنی معصیت میں کسی گناہ کو معمولی نہ جانو شاید خدا اسی سے ناراض ہو جائے۔
۳ ۔ اپنی دوستی یا اپنے ولی، مخلوقات میں کسی شخص کوحقیرنہ سمجھو، شاید وہی ولی اللہ ہو (نورالابصار ص ۱۳۱ ،اتحاف ص ۹۳) ۔
احادیث آئمہ میں ہے امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں انسان کوجتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب و کتاب ہوگا۔
ایک نفع پہنچانے والاعالم سترہزارعابدوں سے بہترہے ،عالم کی صحبت میں تھوڑی دیربیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے خدا ان علماء پررحم وکرم فرمائے جواحیاء علم کرتے اورتقوی کو فروغ دیتے ہیں ۔
علم کی زکواة یہ ہے کہ مخلوق خدا کوتعلیم دی جائے ۔ قرآن مجید کے بارے میں تم جتنا جانتے ہو اتنا ہی بیان کرو۔
بندوں پرخدا کاحق یہ ہے کہ جوجانتا ہو اسے بتائے اورجو نہ جانتا ہو اس کے جواب میں خاموش ہوجائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعداسے پھیلاو،اس لیے کہ علم کو بند رکھنے سے شیطان کاغلبہ ہوتا ہے ۔
معلم اورمتعلم کا ثواب برابر ہے ۔ جس کی تعلیم کی غرض یہ ہو کہ وہ … علماء سے بحث کرے ،جہلا پررعب جمائے اورلوگوں کواپنی طرف مائل کرے وہ جہنمی ہے ، دینی راستہ دکھلانے والا اور راستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابر ہیں۔
جو دینیات میں غلط کہتا ہو اسے صحیح بنا دو، ذات الہی وہ ہے، جوعقل انسانی میں نہ سما سکے اورحدود میں محدود نہ ہو سکے ۔
اس کی ذات فہم و ادراک سے بالاتر ہے ۔ خدا ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا، خدا کی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو،ورنہ حیران ہو جاؤ گے ۔ اجل کی دو قسمیں ہیں ایک اجل محتوم،دوسری اجل موقوف، دوسری سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں، زمین حجت خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ،زمین حجت خدا کے بغیرباقی نہیں رہ سکتی۔
امت بے امام کی مثال بھیڑ کے اس گلے کی ہے،جس کا کوئی بھی نگران نہ ہو۔
امام محمد باقرعلیہ السلام سے روح کی حقیقت اورماہیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ روح ہوا کی مانند متحرک ہے اور یہ ریح سے مشتق ہے ، ہم جنس ہونے کی وجہ سے اسے روح کہا جاتا ہے ۔ یہ روح جو جانداروں کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ،وہ تمام روحوں سے پاکیزہ ترہے۔
…روح مخلوق اورمصنوع ہے اورحادث اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی ہے۔
…وہ ایسی لطیف شئے ہے جس میں نہ کسی قسم کی گرانی اورسنگینی ہے نہ سبکی، وہ ایک باریک اور رقیق شئے ہے جو قالب کثیف میں پوشیدہ ہے،اس کی مثال اس مشک جیسی ہے جس میں ہوا بھردو،ہوا بھرنے سے وہ پھول جائے گی لیکن اس کے وزن میں ا ضافہ نہ ہوگا۔۔ روح باقی ہے اور بدن سے نکلنے کے بعد فنا نہیں ہوتی، یہ نفخ صورکے وقت ہی فنا ہو گی۔
آپ سے خداوندعالم کے صفات بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا،کہ وہ سمیع وبصیرہے اورآلہ سمع وبصرکے بغیرسنتا اوردیکھتا ہے،رئیس معتزلہ عمربن عبید نے آپ سے دریافت کیا کہ”من یحال علیہ غضبی“ ابوخالد کابلی نے آپ سے پوچھا کہ قول خدا”فامنواباللہ ورسولہ والنورالذی انزلنا“ میں،نورسے کیا مراد ہے؟آپ نے فرمایا”واللہ النورالائمة من آل محمد“ خداکی قسم نورسے ہم آل محمد مراد ہیں۔
آپ سے دریافت کیا گیا کہ یوم ندعواکل اناس بامامہم سے کون لوگ مراد ہیں آپ نے فرمایا ! وہ رسول اللہ ہیں اوران کے بعد ان کی اولاد سے آئمہ ہوں گے، انہیں کی طرف آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے جوانہیں دوست رکھے گا اوران کی تصدیق کرے گا وہی نجات پائے گا اورجو ان کی مخالفت کرے گاجہنم میں جائے گا، ایک مرتبہ طاؤس یمانی نے حضرت کی خدمت مین حاضرہوکریہ سوال کیا کہ وہ کونسی چیزہے جس کا تھوڑا استعمال حلال تھا اور زیادہ استعمال حرام،آپ نے فرمایا کہ وہ نہر طالوت کا پانی تھا جس کا صرف ایک چلو پیناحلال تھا اوراس سے زیادہ حرام ۔ پوچھا وہ کون سا روزہ تھا جس میں کھانا پینا جائزتھا،فرمایا! وہ جناب مریم کا روزہ صمت تھا جس میں صرف نہ بولنے کا روزہ تھا ،کھانا پینا حلال تھا، پوچھا وہ کون سی شئے ہے جوصرف کرنے سے کم ہوتی ہے بڑھتی نہیں، فرمایا کہ وہ عمر ہے ۔ پوچھا وہ کون سی شئے ہے جو بڑھتی ہے گھٹتی نہیں ،فرمایا ! وہ سمندرکا پانی ہے ،پوچھا وہ کونسی چیزہے جوصرف ایک بار اڑی پھر نہ اڑی ،فرمایا وہ کوہ طور ہے جو ایک بارحکم خدا سے اڑکربنی اسرائیل کے سروں پرآ گیا تھا۔ پوچھا وہ کون لوگ ہیں جن کی سچی گواہی خدا نے جھوٹی قراردی،فرمایاوہ منافقوں کی تصدیق رسالت ہے جودل سے نہ تھی۔
پوچھابنی آدم کا ۱/۳ حصہ کب ہلاک ہوا،فرمایاایساکبھی نہیں ہوا،تم یہ پوچھوکہ انسان کا ۱/۴ حصہ کب ہلاک ہواتومیں بتاؤں کہ یہ اس وقت ہواجب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا،کیونکہ اس وقت چارآدمی تھے آدم،حوا،ہابیل اورقابیل ،پوچھاپھرنسل انسانی کس طرح بڑھی فرمایاجناب شیش سے جوقتل ہابیل کے بعدبطن حواسے پیداہوئے۔
آپ کی عبادت گذاری اور آپ کے عام حالات
آپ آباؤاجدادکی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نمازپڑھنی اورسارا دن روزہ سے گزارناآپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پربیٹھتے تھے ہدایاجوآتے تھے اسے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیتے تھے غریبوں پربے حدشفقت فرماتے تھے تواضع اورفروتنی ،صبروشکرغلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیرتھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پرصرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اورانہیں اچھے نام سے یادکرتے تھے (کشف الغمہ ص ۹۵ ۔
آپ کے ایک غلام افلح کابیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پرنظرپڑی آپ چیخ مارکررونے لگے میں نے کہا کہ حضورسب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشادکیا،اے افلح شاید خدابھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اورمیری بخشش کاسہاراہوجائے، اس کے بعدآپ سجدہ میں تشریف لے گئے اورجب سراٹھایاتوساری زمین آنسوؤں سے ترتھی (مطالب السؤل ص ۲۷۱) ۔
حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اور ہشام بن عبدالملک
تواریخ میں ہے ۹۶ ھ میں ولیدبن عبدالملک فوت ہوا(ابوالفداء) اوراس کابھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ مقررکیاگیا(ابن الوردی ) ۹۹ ھ میں عمربن عبدالعزیزخلیفہ ہواابن الوردی اس نے خلیفہ ہوتے ہی اس بدعت کوجو ۴۱ ھ سے بن امیہ نے حضرت علی پرسب وشتم کی صورت میں جاری کررکھی تھی حکما روک دیا (ابوالفداء) اوررقوم خمس بنی ہاشم کودیناشروع کیا(کتاب الخرائج ابویوسف) ۔
یہ وہ زمانہ تھاجس میں علی کے نام پراگرکسی بچے کانام ہوتاتھا تووہ قتل کردیاجاتاتھا اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑاجاتاتھا (تدریب الراوی سیوطی) اس کے بعد ۱۰۱ ھ میں یزیدبن عبدالملک خلیفہ بنایاگیا(ابن الوردی) ۱۰۵ ھ میں ہشام بن عبدالملک بن مروان بادشاہ وقت مقررہوا(ابن الوردی)۔
ہشام بن عبدالملک،چست،چالاک،کنجوس ومتعصب،چال باز،سخت مزاج، کجرو،خودسر،حریص،کانوں کاکچاتھا اورحددرجہ کاشکی تھا کبھی کسی کااعتبارنہ کرتاتھا اکثرصرف شبہ برسلطنت کے لائق لائق ملازموں کوقتل کرادیتاتھا یہ عہدوں پرانہیں کوفائزکرتاتھا جوخوشامدی ہوں، اس نے خالدبن عبداللہ قسری کو ۱۰۵ ھ سے ۱۲۰ ھ تک عراق کاگورنرتھا قسری کاحال یہ تھاکہ ہشام کورسول اللہ سے افضل بتاتااوراسی کاپروپیگنڈہ کیاکرتاتھا(تاریخ کامل جلد ۵ ص ۱۰۳) ۔
ہشام آل محمدکادشمن تھااسی نے زیدشہیدکونہایت بری طرح قتل کیاتھا، تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۴۹) اسی نے اپنے زمانہ ولیعہدی میں فرزدق شاعرکوامام زین العابدین کی مدح کے جرم میں بمقام عسقلان قیدکیاتھا۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
ہشام کاسوال اوراس کاجواب
تخت سلطنت پربیٹھنے کے بعدہشام بن عبدالملک حج کے لیے گیاوہاں اس نے امام محمدباقرعلیہ السلام کودیکھاکہ مسجدالحرام میں بیٹھے ہوئے لوگوں کوپند ونصائح سے بہرہ ورکررہے ہیں یہ دیکھ کر ہشام کی دشمنی نے کروٹ لی اوراس نے دل میں سوچاکہ انہیں ذلیل کرناچاہئے اوراسی ارادہ سے اس نے ایک شخص سے کہاکہ جاکران سے کہوکہ خلیفہ پوچھ رہے ہیں کہ حشرکے دن آخری فیصلہ سے قبل لوگ کیاکھائیں اورپئیں گے اس نے جاکرامام علیہ السلام کے سامنے خلیفہ کاسوال پیش کیاآپ نے فرمایاجہاں حشرونشرہوگاوہاں میوے داردرخت ہوں گے،وہ لوگ انہیں چیزوں کواستعمال کریں گے بادشاہ نے جواب سن کرکہایہ بالکل غلط ہے کیونکہ حشرمیں لوگ مصیبتوں اوراپنی پریشانیوں میں مبتلاہوں گے ان کوکھانے پینے کاہوش کہاں ہوگا؟ قاصدنے بادشاہ کاگفتہ نقل کردیا،حضرت نے قاصدسے فرمایاکہ جاؤاور بادشاہ سے کہوکہ تم نے قران بھی پڑھاہے یانہیں،قرآن میں یہ نہیں ہے کہ ”جہنم“ کے لوگ جنت والوں سے کہیں گے کہ ہمیں پانی اورکچھ نعمتیں دیدوکہ پی اورکھالیں اس وقت وہ جواب دیں گے کہ کافروں پرجنت کی نعمتیں حرام ہیں (پ ۸ ،رکوع ۱۳) توجب جہنم میں بھی لوگ کھاناپینانہیں بھولیں گے توحشرونشرمیں کیسے بھول جائیں گے جس میں جہنم سے کم سختیاں ہوں گی اوروہ امیدوبیم اورجنت ودوزخ کے درمیان ہوں گے یہ سن کرہشام شرمندہ ہوگیا(ارشادمفید ص ۴۰۸ ،تاریخ آئمہ ص ۴۱۴) ۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی دمشق میں طلبی
علامہ مجلسی اورسیدابن طاؤس رمقطرازہیں کہ ہشام بن عبدالملک اپنے عہدحکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچاوہاں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام بھی موجودتھے ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں اورباتوں کے علاوہ یہ بھی کہاکہ ہمیں روئے زمین پرخداکے خلیفہ اورا سکی حجت ہیں ،ہمارادشمن جہنم میں جائے گا،اورہمارادوست نعمات جنت سے متنعم ہوگا۔
اس خطبہ کی اطلاع ہشام کودی گئی ،وہ وہاں توخاموش رہا،لیکن دمشق پہنچنے کے بعدوالی مدینہ کوفرمان بھیجاکہ محمدبن علی اورجعفربن محمدکومیرے پاس بھیجدے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے وہاں ہشام نے آپ کوتین روزتک اذن حضورنہیں دیاچوتھے روزجب اچھی طرح دربارکوسجالیا،توآپ کوبلوابھیجاآپ حضرات جب داخل دربارہوئے توآپ کوذلیل کرنے کے لیے آپ سے کہاکہ ہمارے تیراندازوں کی طرح آپ بھی تیراندازی کریں حضرت امام محمدباقر نے فرمایا کہ میں ضعیف ہوگیاہوں مجھے اس سے معاف رکھ، اس نے بہ قسم کہاکہ یہ ناممکن ہے پھرایک کمان آپ کودلوایاآپ نے ٹھیک نشانہ پرتیرلگائے ، یہ دیکھ کروہ حیران رہ گیا اس کے بعدامام نے فرمایا، بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں،ہمارامقابلہ کسی امرمیں کوئی نہیں کرسکتا،یہ سن کرہشام کوغصہ آگیا،وہ بولاکہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادعلی بن ابی طالب نے غیب کادعوی کیاہے آپ نے فرمایابادشاہ قرآن مجیدمیں سب کچھ موجود ہے اورحضرت علی امام مبین تھے انہیں کیانہیں معلوم تھا(جلاء العیون)۔
ثقةالاسلام علامہ کلینی تحریرفرماتے ہیں کہ ہشام نے اہل دربارکوحکم دیاتھاکہ میں محمدبن علی(امام محمدباقرعلیہ السلام) کوسردربارذلیل کروں گا تم لوگ یہ کرناکہ جب میں خاموش ہوجاؤں توانہیں کلمات ناسزاکہنا،چنانچہ ایساہی کیاگیاآخرمیں حضرت نے فرمایا،بادشاہ یادرکھ ہم ذلیل کرنے ذلیل نہیں ہوسکتے ،خداوندعالم نے ہمیں عزت دی ہے،اس میں ہم منفردہیں یادرکھ عاقبت کی شاہی متقین کے لیے ہے یہ سن کرہشام نے فامربہ الی الحبس آپ کوقیدکرنے کاحکم دیدیا،چنانچہ آپ قیدکردیئے گئے۔
قیدخانہ میں داخل ہونے کے بعدآپ نے قیدیوں کے سامنے ایک معجزنماتقریر کی جس کے نتیجہ میں قیدخانہ کے اندرکہرام عظیم برپاہوگیا،بالآخرقیدخانہ کے داروغہ نے ہشام سے کہاکہ اگرمحمدبن علی زیادہ دنوں قیدرہے توتیری مملکت کانظام منقلب ہوجائے گاان کی تقریرقیدخانہ سے باہربھی اثرڈال رہی ہے اورعوام میں ان کے قیدہونے سے بڑاجوش ہے یہ سن کرہشام ڈرگیااوراس نے آپ کی رہائی کاحکم دیااورساتھ یہ بھی اعلان کرادیاکہ نہ آپ کوکوئی مدینہ پہنچانے جائے اورنہ راستے میں آپ کوکوئی کھاناپانی دے، چنانچہ آپ تین روزکے بھوکے پیاسے داخل مدینہ ہوئے۔
وہاں پہنچ کرآپ نے کھانے پینے کی سعی،لیکن کسی نے کچھ نہ دیا، بازارہشام کے حکم سے بندتھے یہ حال دیکھ کرآپ ایک پہاڑی پرگئے اورآپ نے اس پرکھڑے ہوکرعذاب الہی کاحوالہ دیایہ سن کرایک پیرمردبازارمیں کھڑاہوکرکہنے لگا بھائیو!سنو،یہی وہ جگہ ہے جس جگہ حضرت شعیب نبی نے کھڑے ہوکرعذاب الہی کی خبردی تھی اورعظیم ترین عذاب نازل ہواتھا میری بات مانواوراپنے کوعذاب میں مبتلانہ کرویہ سن کرسب لوگ حضرت کی خدمت میں حاضرہوگئے اورآپ کے لیے ہوٹلوں کے دروازے کھول دئیے (اصول کافی)۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبدالملک کولکھاکہ امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکردے (جلاء العیون ص ۲۶۲) ۔
کتاب الخرائج والبحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام بن عبدالملک نے زیدبن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کودوبارہ دمشق میںطلب کرناچاہالیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے بازآیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اورامام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرمادئیے۔
دمشق سے روانگی اورایک راہب کامسلمان ہونا
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام قیدخانہ دمشق سے رہاہوکرمدینہ کوتشریف لئے جارہے تھے کہ ناگاہ راستے میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے ،راہب جوانتہائی ضعیف تھا،مقررہ وقت پربرامدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکربولا:
۱ ۔ کیاآپ ہم میں سے ہیں فرمایامیں امت محمدیہ سے ہوں۔
۲ ۔آپ علماء سے ہیں یاجہلاسے فرمایامیں جاہل نہیں ہوں۔
۳ ۔ آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں فرمایانہیں۔
۴ ۔ جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، فرمایاضرورپوچھیے۔
یہ سن کرراہب نے سوال کیا
۱ ۔ شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے،جس کاشمار نہ دن میں ہے اورنہ رات میں ، فرمایاوہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں ،وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اورایسا مبترک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔
۲ ۔ آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی؟کیا دنیا میں اس کی مثال ہے ؟ فرمایابطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔
۳ ۔ مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہ ہوگی۔
۴ ۔ وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا”عزیز اورعزیرپیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانے عزیرنبی کومارڈالا(جس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے) اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا(جلاء العیون ص ۲۶۱ طبع ایران ۱۳۰۱ ھ۔
امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت
آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میںدفن ہوئے (کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴) ۔
علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموماکابیہ“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے (نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرخورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والدماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلارہے ہیں (نورالابصار ص ۱۳۱) ۔ آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ امام راجزامام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے (شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کاماتم کیاجائے (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔
علماء کابیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بندہائے کفن قبرمیں کھول دینا اورمیری قبر چارانگل سے زیادہ اونچی نہ کرنا(جنات الخلود ص ۲۷) ۔
ازواج اولاد
آپ کی چاربیویاں تھیں اورانہیں سے اولادہوئیں ۔ام فروہ،ام حکیم،لیلی،اور ایک اوربیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابی بکرجن سے حضرات امام جعفرصادق علیہ السلام اورعبداللہ افطح پیداہوئے اورام حکیم بنت اسدبن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم وعبداللہ اورلیلی سے علی اورزینب پیداہوئے اورچوتھی بیوی سے ام سلمی متولدہوئے (ارشادمفید ص ۲۹۴ ، مناقب جلد ۵ ص ۱۹ ،نورالابصارص ۱۳۲) ۔
علامہ محمدباقربہبھانی ،علامہ محمدرضاآل کاشف الغطاء اورعلامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولادزندہ اورباقی نہیں رہی (دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۹ ،انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۴۸ ،روضة الشہداء ص ۴۳۴ طبع لکھنؤ ۱۲۸۵ ءء)
http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=69574

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *