تازہ ترین

حضرت امام موسی کاظم کی مختصر زندگی مبارک

اسم گرامی : موسیٰ( علیه السلام )

لقب : کاظم

کنیت : ابو الحسن

والد کانام :امام جعفر صادق ( علیه السلام )

والدہ کا نام : حمیده اندلسی ( اسپین کی رھنے والی تھیں)

شئیر
84 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4650

تاریخ ولادت : ۷/ صفر ۱۲۸ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : ۳۵ / سال

عمر مبارک : ۵۵/ سال

تاریخ شھادت : ۲۵/ رجب

شھادت کی وجہ : ھارون رشید نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا

روضہ اقدس : عراق ( کاظمین )

اولاد کی تعداد : ۱۹/ بیٹے اور ۱۸ /بیٹیاں

بیٹوں کے نام : (۱) علی (۲) ابراھیم (۳) عباس(۴) قاسم (۵) اسماعیل (۶) جعفر (۷) ھارون (۸) حسن (۹) احمد (۱۰) محمد (۱۱) حمزہ (۱۲) عبد اللہ (۱۳) اسحاق(۱۴) عبید اللہ (۱۵) زید (۱۶) حسن (۱۷) فضل (۱۸) حسین (۱۹) سلیمان

بیٹیوں کے نام : (۱) فاطمہ کبریٰ (۲) لبابہ (۳) فاطمہ صغریٰ (۴) رقیہ (۵) حکیمہ (۶) ام ابیھا (۷) رقیہ صغریٰ (۸) ام جعفر (۹) لبابہ (۱۰) زینب (۱۱) خدیجہ (۱۲) علیا (۱۳)آمنہ (۱۴) حسنہ (۱۵) بریھہ (۱۶) عائشہ (۱۷) ام سلمہ (۱۸) میمونہ

 حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں متعدد غاصب خلفاء نے خلافت کی:

منصود دوانیقی: 136 ہجری سے 158 ہجری تک

محمد معروف بہ مہدی: 158 ہجری سے 159 ہجری تک

ہادی: 159 ہجری سے 170 ہجری تک 

ہارون: 170 ہجری سے 193 ہجری تکْ

حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دس سال میں کوئی سختی اور مشکلات نہیں تھی۔ انھوں نے اس زمانے میں قرآن کی تعلیم اور اسلامی تعلیم دینے میں مشغول رہے۔

اصفهانی ( عماد زاده ) ، عماد الدین حسین، مجموعه زندگانی چهارده معصوم ، ج2 ، ص307،

لیکن اس کے بعد دباؤ ، سختی ، ہجرت ، تخویف شروع ہو گئی۔ امام علیہ السلام نے اپنی امامت کا کچھ زمانہ مدینہ میں گزارا تو باقی زمانے میں وہ بغداد میں تھے۔

دوران زندگی:

امامت سے پہلے کا دور جو 128 ہجری سے 148 آپ اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق کے ساتھ گزارے، اور امامت کے بعد کا دور 148 ہجری سے 183 تک ہے، جو منصور دوانیقی ،مہدی عباسی ، ہادی عباسی ، اور ہارون رشید پر مشتمل ہے ، سب سے زیادہ آپ کی امامت کا دور عصر ہارون میں تھا جس کی مدت 23 سال تھی اور ہارون عباسی دور کا پانچواں خلیفہ تھا، اس کے دور میں حضرت زیادہ تر قید خانہ میں رہے۔

امامت:
148 ہجری میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شہادت ہوئی اس وقت سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السّلام بذات خود فرائض امامت کے ذمہ دار ہوئے۔ اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی غاصبانہ طور پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں سے لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیواروں میں چنوا دیئے گئے یا قید میں رکھے گئے تھے۔ خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جا چکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھیں یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا، جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندہوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائیداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی۔ جس میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا۔ اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبد اللہ افطح جو سن میں امام موسی کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون۔

امام صادق (ع) کا یہ حربہ بالکل صحیح تھا اور آپ کا طریقہ بھی کامیاب ثابت ہوا، چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا۔ تین مرتبہ انا للهِ و انا الیہ راجعون، کہا اور کہا کہ اب بھلا جعفر کا مثل (جانشین) کون ہے ؟ اس کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق (ع) نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہو تو اس کا سر فورا قلم کر دو۔ حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کیے ہیں جن میں سے پہلے آپ خود ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسی کاظم علیہ السّلام کو کوئی تکلیف وغیرہ نہیں دی اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن و سکون کے ساتھ مصروف رہے۔ یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157 ہجری میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی۔ اس لیے وہ امام موسی کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا تھا۔

امام موسی کاظم (ع) کا جہاد:

امام جعفر صادق نے جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا، اسی راستے اور جدوجہد پر امام موسی کاظم نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے :

پہلا محور:

فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیداری پیدا کرنا ،نیز منحرف عقائد اور قبائلی ، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑھانا ، اس دور کے خطرناک پروپیگنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا ، اس کے خلاف امام موسی کاظم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لیے میدان میں آتے اور ان نظریات کی حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے ، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا۔

یہ حکمران طبقے پر گراں گزرا اور یوں حکام نے ان کو دبانے اور سخت ترین سزائیں دینے پر اتر آئے ، عقائد کے بارے میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی گئی ، چنانچہ امام نے اپنے ایک ساتھی ہشام کو پیغام بھیجا کہ وہ لاحق خطرات کے پیش نظر گفتگو میں پرہیز سے کام لے ، یوں ہشام خلیفہ مہدی کے مرنے تک عقائد کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کرتا رہا۔

رجال کشی :ص172

دوسرا محور:

اپنے وفاداروں اور حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا ، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے ، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جا سکے۔

امام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال ) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے ، آپ نے صفوان سے فرمایا :

اے صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ اور اچھی ہے سوائے ایک چیز کے،

صفوان : قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے ؟

امام : تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم ( ہارون) کو کرائے پر دینا۔

صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لیے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دئیے ہیں ،علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا ، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں۔

امام : اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے ( واجب الاداء ) باقی رہتا ہے ؟

صفوان :میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے ۔

امام : اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہیں ؟

صفوان: جی ہاں !

امام :جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر

اس کے بعد اس کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :

وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون،

سوره ہود 113

امام نے اپنے اصحاب کو ہارونی نظام حکومت میں داخل ہونے اور کسی قسم کا عہدہ یا کام قبول کرنے سے منع کیا ، چنانچہ آپ نے زیاد بن ابی سلمہ سے فرمایا :

اے زیاد میں کسی بلندی سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ان ظالموں کے لیے کوئی کام انجام دینے یا ان میں سے کسی کی فرش پر پاؤں رکھنے کی بہ نسبت زیادہ پسند کرتا ہوں۔

مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر،

تیسرا محور:

آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا ، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں ۔

قبر رسول خدا (ص) کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا ،وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا :

اے میرے چچا زاد بھائی آپ پر دورد و سلام ہو ،،

اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ کو یوں سلام کیا :

سلام ہو آپ پر اے میرے پدر بزرگوار ‘ ‘

یہ سننا تھا کہ ہارون آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آ گیا کیونکہ امام نے فخر و عظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی ، چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:

آپ نے ہم سے زیادہ رسول سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟

امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا :

اگر رسول اللہ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم اسے قبول کرتے ؟

ہارون نے جواب دیا :سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لیے باعث فخر ہوتا۔

امام نے فرمایا : لیکن رسول اللہ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے ، اسی لیے ہم تمہاری نسبت آنحضرت سے زیادہ نزدیک ہیں۔

اخبار الدول :ص 113

ہارون امام کی دلیل کے آگے منہ کی کھا کر چپ ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کر دیا کیا۔

تذکرة الخواص :ص 359

چوتھا محور:

امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لیے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم و منحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا ، امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے ،جب شہید فخ حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے ، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے ، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں۔

جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی : خدا کی قسم وہ صالح ، کثرت سے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے۔ ان کے گھرانے میں ان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔

مقاتل الطالبین :ص 453

یہ مختصراً وہ چار محور ہیں جن پر امام موسی کاظم نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہوا تھا ، امام موسی کاظم کے فضائل و کمالات بھی ایسی تھے کہ خلفاء وقت کے لیے وہ بھی ناگوار تھے ہم یہاں پر نمونے کے طور پر اہل سنت کے دو بڑے عالم دین کے ان کے بارے میں قول کو بیان کرتے ہیں:

اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں کہ:

هو الامام ، الكبير القدر العظيم الشأن ، الكثير التهجّد ، الجادّة في الإجتهاد، المشهود له بالكرامات ، المشهور بالعبادة ، المواظب علي الطاعات ، يبيّت الليل ساجدا و قائما و يقطع النهار متصدقاً و صائماً ولفرط علمه و تجاوزه عن المعتدين عليه دُعي كاظما ، كان يجازي المسيء بإحسانه إليه ، ويقابل الجاني عليه بعفوه عنه ، و لكثرة عباداته كان يسمي بالعبد الصالح ، ويُعرف بالعراق بباب الحوائج إلي الله ، لنجح المتوسلين إلي الله تعالي به ، كراماته تحار منها العقول۔

وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے ، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے، راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام عبد صالح پڑ گیا، اور آپ عراق میں باب الحوائج الی اللہ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خداوند سے متوسل ہوا جاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کر دیتی ہیں…..،

کشف الغمه :ج2،ص212

اسی طرح آپ کی شان میں اہل سنت کے بہت زیادہ تعصب رکھنے والے عالم ابن حجر لکھتے ہیں کہ:

و كان معروفاً عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند الله و كان أعبد أهل زمانه و أعلمهم و أسخاهم،

آپ عراقیوں کے درمیان خدا کی طرف سے باب اللہ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ سخی انسان تھے۔

الصواعق المحرقه :ص203 

امام موسی کاظم علیہ السلام کی عبادت :

امام موسی کاظم علیہ السلام : اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد شمار ہوتے تھے۔

إبن حجر الهیتمی، الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593، تحقیق: عبد الرحمن بن عبد الله الترکی و کامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت ، 1997م.

اسی طرح ان کی عبادت اور ان کی محنت کی وجہ سے ان کو، عبد صالح کہا جاتا تھا۔

عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج، صفة الصفوة، تحقیق: محمود فاخوری – د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت، 1399ق – 1979م.

ذہبی نے لکھا ہے کہ: قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء،

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے۔

ذہبی، میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204، بیروت ، دار المعرفة،

تاریخ یعقوبی میں آیا ہے کہ:

کان موسی بن جعفر من اشدّ الناس عبادة،

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے۔

احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسه و نشر فرهنگ اہل بیت،

جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی نے اپنی کتاب میں اس طرح لکھا ہے کہ:

ان کی عبادت مشہور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے، شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت میں گزارتے تھے، اپنے دن کو صدقہ دے کر اور روزے سے تمام کیا کرتے تھے۔

نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز الله ، مسند الامام الکاظم، مشهد ، کنگره جهانی امام رضا (ع) 1409ق،

شفیق بلخی کہتا ہے کہ: سن 149 ہجری میں حج ادا کرنے کے لیے نکلا اور قادسیہ پہنچا، وہاں میں نے بہت زیادہ کو دیکھا کہ جو حج انجام دینے کے لیے جانے کو آمادہ تھے، جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے اور وہ چاہتا یے کہ لوگ سارے راستے میں اس کو اپنے سر پر بٹھائے رہیں۔

اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ: شقیق!

اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ،

مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے، میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے۔ میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواہی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا اور وہ میری نظروں سے غائب ہو چکے تھے۔ جب میں نے دوبارہ انکو دیکھا تو وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھے، ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھے، میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں۔ میں کھڑا رہا تا کہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو:

وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى»‏ پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے پر ہو لیے،

میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے۔ جب منزل زبالہ پہنچے، تو دیکھا کہ کنویں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لیے کھڑے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں:

انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت

خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔

اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا اور انھوں نے ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باھر نکال لیا۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کیا، انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں۔ انھوں نے فرمایا: شفیق مسلسل خدا کی ظاہری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں۔ خدا کے لیے حسن ظن رکھو کوزے کو میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کا پانی پیا دیکھا کہ اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہیں پیا تھا۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں، اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ اس طرح وہ صبح تک تھے، یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی، اور نماز کے لیے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنا شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باہر چلے گئے۔ میں ان کے آگے بڑھا، تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کیے ہوئے جمع ہیں، اور بہت سے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں، اور ان کے حکم کے منتظر ہیں۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان جیسے بزرگوار سے ہی انجام پا سکتے ہیں۔

عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج، صفة الصفوة، تحقیق: محمود فاخوری، د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت، 1399ق – 1979م

مجلسی ، محمد باقر، زندگانى حضرت امام موسى کاظم علیه السلام ( ترجمه جلد 11 بحار الانوار) ، ص72، ترجمه: موسی خسروی، اسلامیه ، تهران، 1377ش.

شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں لکھتے ہیں کہ:

حضرت موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین لوگوں میں سے تھے، سخی ترین ، سخاوت مند ترین اور بزرگوار ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

روایت میں ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیشہ نماز نافلہ شب پڑھتے تھے اور اس کو نماز صبح سے ملا دیتے تھے، اس کے بعد بھی نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ خورشید طلوع ہو جائے اور اس وقت سجدے میں جاتے تھے اور دعا و حمد میں مشغول ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ ظھر کا وقت نزدیک ہو جاتا تھا بہت دعا کیا کرتے تھے اور کہتے تھے:

اللهم ان أسألک الراحة عند الموت و العفو عند الحساب،

خدا وند عالم تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ میری موت کے وقت کو آسان کر اور حساب کے وقت مجھے معاف کر دے،

اور اسی دعا کو کئی مرتبہ پڑہتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں ہے کہ وہ کہتے تھے:

عظم الذنب من عبدک فلیحسن العفو من عندک،

خدایا تیرے بندے کا گناہ بہت ہے تو بخش دے، تیری بخشش حسین ہے تو بہترین بخشنے والا ہے۔

شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان‏، الارشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج‏2، ص223،ترجمه :سید هااشم رسولى محلاتى، اسلامیه،

اسیر بغداد کی شہادت:

سب سے آخر میں امام موسی کاظم علیہ السّلام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے، یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا۔ آخر اسی قید میں حضرت کو انگور میں زہر دیا گیا۔ 25رجب 183 ہجری میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شہادت ہوئی۔ شہادت کے بعد آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا۔ مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لیے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ تشیع کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جو اب کاظمین کے نام سے مشھور ہے، دفن کیا۔

امام کاظم علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسی بن جعفر کو لکھا کہ موسی بن جعفر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قتل کر کے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے ۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید ملعون کو لکھا : میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبودی کے خواہشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں۔ میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں، لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید با مشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔

ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ: ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کر دیا ” فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا“ اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔

صواعق محرقہ،ص 132

امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت 25 رجب المرجب بروز جمعہ 183 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 55 سال کی تھی ۔ آپ نے 14 سال ہارون رشید کے قید خانے میں گزارے ۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانے سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔ سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کر کے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے ۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے، انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازے کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لیے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔

تدفین کے بعد امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔

امام کاظم (ع) کے تلخ ترین مصائب:

امام کے یہ فضائل و کرامات اور سرگرمیاں ہارون کے غیظ و غضب اور کینے میں اضافے کا باعث بنتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ امام کی ایک طویل مدت ( تقریباً سولہ سال) زندانوں میں گزاری اور وہیں اپنے رب سے جا ملے ۔

آپ نے دوران قید تلخ ترین مصائب اور سخت ترین تکالیف کا سامنا کیا ، یہاں تک کہ آپ زندان سے تنگ آ گئے اور مدت کی طوالت سے ملول ہوئے ، حکومت آپ کو مختلف زندانوں میں منتقل کرتی رہی ، اس خوف سے کہ کہیں آپ کا رابطہ کسی شیعہ کے ساتھ برقرار نہ ہو جائے، سرکاری پولیس اور جاسوس سختی سے آپ کی نگرانی کیا کرتے رہتے تھے۔

امام طویل مدت تک ہارون کی قید میں رہے ، طویل قید نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کے بدن مبارک کو گھلا کر رکھ دیا تھا ، یہاں تک کہ جب آپ سجدہ کرتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا زمین پر کوئی کپڑا پڑا ہوا ہو ، ایک مرتبہ خلیفہ کے ایک نمائندے نے آپ سے عرض کیا ‘ ‘خلیفہ آپ سے معذرت خواہ ہے اور اس نے آپ کی آزادی کا حکم دیا ہے ، بشرطیکہ آپ اس سے ملاقات فرما کر معذرت حاصل کریں یا اس کی خوشنودی حاصل کریں ‘ ‘

امام نے نہایت بے نیازی کے ساتھ صریح الفاظ میں نفی میں جواب دیا ، یوں آپ نے زہر قاتل کا تلخ جام پینا گوارا فرمایا ، آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کے سلسلے میں گمراہ حکمرانوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور ان کی گمراہی آشکار ہو۔

دائرة المعارف الاسلامیہ ،مقالہ دور الآئمہ از شہید صدر :ص 96

امام نے زندان سے ہارون کے نام ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہارون پر اپنے شدید غصے کا اظہار فرمایا : ‘ ‘بتحقیق جتنے میرے مشقت و آلام کے دن گزریں گے اتنے ہی دن تیرے راحت و آرام کے بھی گزر جائیں گے ، پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب کا خاتمہ ہو گا ، اور کبھی ختم نہ ہونے والا دن آ پہنچے گا ، اس دن بدکار لوگ خسارے میں ہوں گے۔

البدایة و النہایة :ج 10، ص 183 اور تاریخ بغداد

ہارون کے زندان میں امام قسم قسم کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا تھا اور دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں اور اذیتیں روا رکھی گئیں ، ہارون رشید نے ہر قسم کے مصائب ڈہانے کے بعد آخر کار آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ، یوں آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے اور اپنے خالق سے جا ملے ، آپ کی شہادت 25، رجب 183 ہجری کو واقع ہوئی۔

ابن خلکان :ج2، ص 173 اور تاریخ بغداد،

25رجب سن 183 ہجری کو فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم (ع) کو زندان میں زہر دے کر عالم غربت میں شہید کر دیا گیا ۔

امام کاظم (ع) سن 128 ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بیس سال تک کی عمر اپنے والد ماجد حضرت امام صادق (ع) کی ذات مقدس کے ساتھ گزاری اور امام صادق (ع) کی شہادت کے بعد 35 سال تک مسلمانوں کی امامت و ہدایت کی ذمہ داری انجام دی ۔ اس راہ میں آپ نے بہت سی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ (ع) کے علم سے فیضیاب ہونے والے بہت سے فقیہ اور دانشور شاگردوں نے اسلامی علوم و تعلیمات کو پوری دنیا میں رائج کیا۔ امام کاظم (ع) نے اسلامی علوم اور تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ عباسی حکومت کے خلاف جدوجہد بھی جاری رکھی۔ سر انجام عباسی خلیفہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم (ع) کو گرفتار کر لیا اور ایک سازش کے تحت زہر دے کر شہید کر دیا۔

آپ کے دو مشہور لقب کاظم اور باب الحوائج تھے۔ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرائض امامت سنبھالے اس وقت عباسی خلیفہ منصور دوانقی بادشاہ تھا یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں بے شمار سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے سادات زندہ دیواروں میں چنوائے گئے یا قید کر کے رکھے گئے تھے۔

امام موسي کاظم عليہ السلام نے مختلف حکام کے دور ميں زندگی بسر کی۔ آپ کا دور، حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور گھٹن سے بھرا ہوا دور تھا۔ ہر آنے والے بادشاہ کی امام پر سخت نظر تھی ليکن يہ آپ کا کمال امامت تھا کہ آپ شدید مصائب مشکلات کے دور ميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم و ہدايت عطا فرماتے رہے۔ اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس یونیورسٹی کی جو آپ کے پدر بزرگوار کی قائم کردہ تھی، پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدايت اور نشر علوم آل محمد تھا، جس کی آپ نے قدم قدم پر ترويج کی اور حکومت وقت تو بہرحال امامت کی محتاج ہے۔

علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصور کے زمانے میں بے انتہا سادات شہید کیے گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمر بن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کو علاقوں میں سے مقام خان میں سکونت اختیار کر لی تھی.

النزاع والتخاصم ص 47 طبع مصر

158 ہجری کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا، اور اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھا، شروع میں تو اس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی عزت و احترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں کیا مگر چند سال بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کا جذبہ ابھرا اور 164 ہجری میں جب وہ حج کے نام سے حجاز کی طرف گیا تو امام موسی کاظم علیہ السلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور قید کر دیا ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کا موقع دیا گیا۔

مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی 169 ہجری میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک ماہ تک اس نے سلطنت کی ، اس کے بعد ہارون الرشید کا زمانہ آیا جس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوئی۔

سوانح امام موسی کاظم ص 5

اعلام الوری ص 171

امام موسی کاظم (ع) کو جس آخری قید خانے میں قید کیا گيا تھا، اس کا زندان باں انتہائی سنگدل تھا جس کا نام سندی بن شاہک تھا۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

السلام على المعذب في قعر السجون وظلم المطامير
السلام على ذي الساق المرضوض بحلق القيود
السلام على الجسد النحيف
السلام على القلب الوجيف
السلام على الكاظم الصابر
السلام على من حارت فيه البصائر
السلام عليك يا باب الحوائج
عليك مني سلام الله مابقيت وبقي الليل والنهار

مرزا دبیر کہتے ہیں:

مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔

زندان میں جوانی و پیری گزر گئی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *