حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی زندگانی پر ایک اجمالی نظر
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی زندگانی پر ایک اجمالی نظر
تحریر: ڈاکٹر محمد لطیف مطہری
دین اسلام کے ابتدائی ایام میں بہت سی خواتین ایسی تھی جنہوں نے اپنے انسان سازی کے مشن کو مردوں کے شانہ بشانہ اور کبھی ان سے آگے بڑھ کر پورا کیا ۔ گھر میں معمول کی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی اقدار کے دفاع میں میں بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان خواتین میں حضرت عباس علیہ السلام کی والدہ ام البنین سلام اللہ علیہا کو خاص مقام حاصل ہے۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کا شمار تاریخ کی ممتاز ماؤں میں ہوتی ہیں ، جن کی زندگی ولایت اور امامت کی عشق سے بھرپور تھی۔ اپنے وقت کی یہ نیک اور باشعور خاتون ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے حریم حسینی کا دفاع کیا اور شہدائے کربلا کے لئے عزاداری کا اہتمام کیا۔حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کا نام ان کی والدہ ام البنین سلام اللہ علیہا کے نام کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ام البنین کا نام حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی عظمت کی یاد دہانی ہے۔
خاندانی اصالت ماضی میں حساس اور اہم رہی ہے اور ہر وہ خاندان، قبیلہ اور طائفہ جو زیادہ نمایاں اخلاقی اور جسمانی خصوصیات کے حامل ہوتے تھے اپنے آپ پر فخر کرتے تھے۔ یہ مسئلہ عربوں میں بہت اہمیت کا حامل تھا اور وہ اس کے بارے میں بہت حساس تھے۔ دین اسلام ان احساسات کو کسی حد تک صحیح سمت میں ہدایت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ حضرت ام البنین (س) کا تعلق ایک ایسے خاندان اور قبیلے سے تھے جو اپنی شجاعت، شہامت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے مشہور تھے۔ اور یہی صفات امام علی علیہ السلام اور ام البنین (س) کی شادی میں موثرثابت ہوگئ ۔۱۔ ام البنین (س) کا نسب حسب ذیل ہے: ام البنین (س) حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید… بکر بن ہوازن کی بیٹی ہیں۔۲۔ماں کی طرف سے نسب حسب ذیل ہے: ام البنین (س) سہل بن عامر بن مالک بن حفر بن کلاب کے خاندان سے ثمامہ کی بیٹی ہیں۔ ۳۔اس طرح ام البنین (س) کلاب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
بدقسمتی سے، اس عظیم خاتون کی تاریخ پیدائش کا علم نہیں ہے۔ جب امام علی (ع) نے حضرت فاطمہ (س) کی شہادت کے بعد اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ وہ انہیں ایک ایسی خاتون کی رہنمائی کریں جو خاندانی طور پر بہادر اورشجاع ہو ۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ام البنین ایک جوان لڑکی تھی جوجنسی اور فکری پختگی کی عمر کو پہنچ چکی تھی ۔ واضح ہے کہ اگرآپ کی عمر پندرہ سال سے کم ہوتی تو جناب عقیل ان کا ذکر نہ کرتے۔ خصوصاً چونکہ وہ علم نسب سے پوری طرح واقف تھے اور ان کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے ایسی لڑکی کا انتخاب کرے جو عمر، قابلیت اورصلاحیت دونوں لحاظ سے اس کے لیے موزوں ہو۔اسی طرح اس شادی کا 26 ہجری کے بعد واقع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا بیٹاابوالفضل العباس 26 یا 23 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں۔لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے شادی کی تو ان کی عمر 17 سے 21 سال کے درمیان تھی، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عباس کی ولادت کے وقت ان کی عمر 18 سے 22 سال کے لگ بھگ تھی۔ ۴۔
امام علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا کہ مجھے عرب کے مشہور قبیلوں میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کرو جو بہادری اور بہادور بچوں کی پرورش کے لیے مشہور ہو، تاکہ اس سے ایک شجاع، بہادر اور دلیر بچے کی ولادت ہو۔۵۔ بلا شبہ، امیر المومنین علیہ السلام کا ایک بہادر اور شجاع بیوی کے انتخاب پرتاکید کرنا دو بنیادی باتوں کو ظاہر کرتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اولاد کی تربیت اور خاندانی نظام میں بیوی کا کردارنہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لئے اسلام میں ایسے لوگوں کے ساتھ شادی کرنے کی ممانعت ہے جو ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی امراض میں مبتلا ہوں۔ دوسری طرف اسلام نے ان خواتین سے شادی کرنے حکم دیا ہے جو ایمان اوراخلاقی صفات کا مالک ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام نے دور اندیشی کے ساتھ مستقبل کے واقعات کی پیشین گوئی کی۔ امام جانتے تھے کہ واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اورحضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے ساتھ ایک ایسے فرزند کی موجودگی نہایت ہی ضروری ہے جو دین خدا اوراما م وقت کی حمایت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے تاکہ عاشورا تاریخ کے صفحے میں مزید ماندگار ہوجائے۔ایسے فرزند کو امیر المومنین جیسے عظیم باپ اور بہادر اور مہربان ماں سے پیدا ہونا چاہیے تھا۔ ایک ماں جو ذاتی خصوصیات کے لحاظ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے قریب ہو ۔ اگرچہ امام کی دوسری بیویاں بھی تھیں لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی اس عظیم امانت کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ام البنین (س) کے ساتھ شادی کے نتیجے میں چار فرزند پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں: عباس ، جعفر، عبداللہ، عثمان۔انہیں فرزندوں کی وجہ سے انہیں ام البنین کہا جاتا تھا، یعنی بیٹوں کی ماں۔ ام البنین (س) کے تمام بچے کربلا میں شہید ہوگئے اور ان کی نسل حضرت ابوالفضل (س) کے بیٹے عبداللہ کے ذریعے جاری رہی۔ ۶۔
ام البنین سلام اللہ علیہا جب سے امام علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئیں، ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچوں کی خدمت گار کے طور پر پیش کرتی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچوں کی خدمت اور ان کی ماں بننے کو اپنی لئے اعزاز سمجھتی تھی ۔ اس لیے وہ خوداور ان کےبیٹے ایک پروانے کی مانند امام علی علیہ السلام اور اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندوں کے نور سے مستفید ہوتے رہتے تھے ۔
حضرت زینب عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہا واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ میں ہمیشہ ام البنین سلام اللہ علیہا کے مقام کا خیال رکھتی تھی ان کی عیادت کرتی اورہمیشہ ان کو تسلی دیتی تھی ۔بلاشبہ ام البنین سلام اللہ علیہا جو ایمان، جرأت اور ولایت کا مظہر ہیں، انہیں دوسروں کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہیں ہے لیکن بزرگان کے کلام میں ان کی اوصاف بیان ہوئی ہیں تاکہ دوسرےافراد اس عظیم خاتون کی صحیح شناخت حاصل کر سکے اس لئے ہم یہاں علماء کے کلام کو ذکر کرتے ہیں :
1- عقیل ام البنین (س) کے خاندان کے بارے میں کہتے ہیں:عرب میں ام البنین کے خاندان سے بڑھ کر کوئی بہادرخاندان نہیں تھا ۔۷۔
2- ابو نصر، سہل بن عبداللہ بخاری، جو چوتھی صدی کے عالم ہیں اپنی کتاب سر السلسلۃ العلویہ میں لکھتے ہیں:حضرت ام البنین (س) نے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے پہلے اور بعد میں کسی اورسے شادی نہیں کی۔ ۸۔
3- شیخ جعفر ربعی عربی زبان کے ممتاز فقیہ اور مصنف ہیں۔ وہ اپنی کتاب زینب کبری میں لکھتے ہیں: ام البنین (س) نیک، فصیح، پرہیزگار اور عبادت گزار خواتین میں سے تھی اور اہل بیت (ع) کی ان کو صحیح معرفت تھی۔
4- شہید ثانی (متوفی: 965ھ) لکھتے ہیں: ام البنین (س) سب سے زیادہ علم والی اور نیک خواتین میں سے تھی۔ آپ کوخاندان نبوت کے ساتھ بے پناہ محبت تھی اور ان کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دے تھے۔ خاندان نبوت بھی آپ کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے تھے ۔عید کے ایام میں آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتے اور تعظیم و تکریم کرتے۔ ۹۔
5- سید محسن امین کتاب آیان الشیعہ میں لکھتے ہیں:
ام البنین (س) ایک فصیح شاعرہ تھی اور ایک شریف اور بہادر گھرانے سےتعلق رکھتی تھی۔۱۰۔
6- علامہ سید عبد الرزاق موسوی مقرم لکھتے ہیں:ام البنین (س) نیک عورتوں میں سے تھی۔ وہ اہل بیت (ع) کے حقوق کو بخوبی جانتے تھے اور ان سے محبت اور دوستی میں مخلص تھے اور ان لوگوں میں ان کا مقام بھی بلند و باعزت تھی۔۱۱۔
7- علی محمد دخیل؛ عربی مصنف لکھتا ہے:اس عورت (ام البنین سلام اللہ علیہا) کی عظمت اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب اسے اپنے بچوں کی شہادت کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس پر توجہ نہیں کرتی ، بلکہ امام حسین علیہ السلام کی صحت کے بارے میں پوچھتی ہے۔ گویا امام حسین علیہ السلام ان کے بیٹے ہیں نہ دوسرے افراد ۔ ۱۲۔
8- علامہ شیخ باقر شریف قریشی؛ کتاب عباس بن علی میں حضرت ام البنین (س) کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں:تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر کے دوسرے بیوی کی بچوں کے ساتھ مخلصانہ محبت اور انہیں اپنے بچوں پر مقدم رکھی ہو سوائے اس پاکیزہ خاتون یعنی ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے ۔ ۱۳۔
ام البنین سلام اللہ علیہا کی خصوصیات
1- وفاداری
وفاداری ایک قیمتی اور قابل تعریف صفت ہے اور یہ جس کسی کے پاس ہو اسے عزیز اور گرامی بنا دیتا ہے۔ وفاداری اور وعدوں کی پاسداری ایک بہت بڑی خوبی ہے جو دیگر صفات کے درمیان ممتاز مقام رکھتی ہے اور اس کا وقار بھی بلند ہے۔ کیونکہ وفاداری سے آراستہ ہونے اور انسان کی روح میں اس کا ملکہ بننے کے لیے پاکیزگی اور مسلسل دیکھ بھال اور تمام گناہوں اور شیطانی وسوسوں پر فتح درکار ہے۔اگر وفاداری کا تعلق اسلام، ائمہ معصومین (ع) اور اہل وحی سے ہو تو وفاداری کی صفت آسمانی قدروں کو چھوتی ہے۔ ام البنین (سلام اللہ علیہا) ایک ایسے گھرانے میں پروان چڑھیں جہاں انسانی اقدار کے ساتھ وفاداری کو بڑی ارزش سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے یہ صفت ان کے وجود میں ضم ہو گئی اور وہ ان کے وجود کی ملکہ بن گئی۔جیسا کہ ام البنین (س) اپنی زندگی میں امام علی علیہ السلام اور ان کے بچوں کی وفادار تھی، وہ امیر المومنین کی شہادت کے بعد بھی ان کی وفادار رہیں۔ اس لیے امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے کسی اور مرد سے شادی نہیں کی۔۱۴۔ ایمان اور وفاداری کا یہی صفات ابوالفضل کے وجود میں مجسم ہوا۔ جب آپ کے ہاتھوں میں صاف پانی تھا تو آپ نے پیاسے بھائی کی یاد میں پانی کو دوبارہ دریا میں پھینک دیا۔۱۵۔
2- ادب و احترام
ام البنین (س) جو ایک شائستہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔وہ خدا کے حضور نہایت ہی ادب سے پیش آتی تھی اور لوگوں کے سامنے نہایت عاجزی کا مظاہرہ کرتی تھی ۔ جب وہ امام علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے تو اپنے آپ کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا جانشین نہیں سمجھتے تھے بلکہ خود کوان کی اولاد کا خادم سمجھتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتےتھے اور ان کا احترام کرتے تھے ۔ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے اس سر چشمہ ادب سے تربیت حاصل کی تھی کہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ یا سیدی یا ابا عبد اللہ اے میرے مولا ،اے میرے آقا کہہ کر مخاطب ہوتے تھے اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندوں کے ساتھ اپنی گفتگو اور سلوک میں ہمیشہ ادب و احترام کا خاص خیال رکھتے تھے۔۱۶۔
3- ولایت پذیری
ولایت سے محبت اور لگاؤ ان کی روح میں موجود تھی ۔وہ امام علی علیہ السلام کو نہ صرف اپنی شریک حیات سمجھتے تھے بلکہ لوگوں کے درمیان حجت خدا اور جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے تھے ۔ مقام ولایت کے ساتھ ان کی محبت میں خلوص اور صمیمیت موج مارتی تھی ۔ جب بھی حسنین علیہما السلام بیمارہوتے تو ان سے شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے اورایک حقیقی ماں کی مانندان کی تیماداری کرتے تھے ۔۱۷۔
اپنے بیٹوں کو الوداع کہتے ہوئے جب وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مکہ اور کربلا کی طرف بڑھ رہے تھے تو آپ نے کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اما م حسین علیہ السلام کی حفاظت اوران کے لیے قربانی دینے کی خصوصی تلقین کی۔ ۱۸۔بے شک، ان کے لیے اپنے چار بچوں کی موت کو دیکھنا آسان تھا، لیکن فرزند زہراحسین علیہ السلام محفوظ رہے ۔ان کے بیٹےاما م حسین علیہ السلام کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں لیکن اما م حسین علیہ السلام زندہ رہے۔ چنانچہ جب بشیر شہدائے کربلا کی شہادت کی خبر مدینہ میں لے کر آئے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے بچوں کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں پوچھا اور فرمایا: میرے بچے حسین پر قربان ہوں۔ ۱۹۔
3- ہمت شجاعت اور بہادری
ہمت اور بہادری ایک ایسی خوبی ہے کہ اگریہ مردوں میں موجود ہو تو انہیں برتری اور عظمت عطا کرتی ہے۔ لیکن اگریہی صفات کسی ایسے خاتون میں موجود ہو جو خودعلمی و ادبی کمالات کی حامل ہو تو اسے ایک بہترین اور ممتاز شخصیت بنا دیتی ہے۔ ام البنین (س) کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو ہمت،شجاعت اور بہادری کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔ ام البنین (س) نے ان خصلتوں کو اپنے خاندان سے وراثت میں پائی تھی۔ امام حسین علیہ السلام،حضرت عباس علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد عبید اللہ جو حضرت عباس کا چھوٹا فرزند تھا کو لے کربقیع میں حاضر ہوتے تھے۔باطل قوتوں کے مقابلہ میں یہ ان کی جرأت اور بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ یقیناً اس گھٹن والے ماحول میں بقیع میں آنا اور اس طرح ماتم داری کرناصرف یہ محض ایک جذباتی عمل نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی عمل بھی تھا۔۲۰۔
4- صبر
یہاں ہم اس عظیم خاتون کی مشکلات میں صبر و تحمل کی دو مثالیں ذکر کرتے ہیں:
1- مورخین بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کو اپنی گود میں بٹھایا، اور امام نے روتے ہوئے اپنے اس فرزندکے بازوؤں کو چومنا شروع کیا۔ ام البنین نے یہ منظر دیکھ کر حیرانگی سے امام سے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟حضرت نے پُرسکون اور غمگین آواز میں جواب دیا: میں نے ان دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھا تو ان کے سر انجام مجھے یاد آیا۔ام البنین نے جلدی میں خوف زدہ ہو کر پوچھا؟امام نے اداسی اور جذبات سے بھری آواز کے ساتھ فرمایا: یہ دونوں ہاتھ بازو سے کٹ جائیں گے۔یہ الفاظ ام البنین پر بجلی کی طرح گرے ۔پھر انہوں نے بے چینی اور جلدی سے پوچھا؟کیوں میرے بیٹے کے بازو قطع کئے جائیں گے؟ امام نے انہیں یہ خبردی کہ ان کے بیٹے کا ہاتھ دین اسلام ، شریعت الٰہی ،اوراپنے بھائی کی حفاظت میں کاٹے جائیں گے۔ ام البنین بہت زیادہ روئی اور ان کے ساتھ والی عورتیں بھی ان کے غم میں شریک ہوئیں۔ ۲۱۔
2- اپنے چار بچوں کی شہادت کی خبر سننے کے بعد اس ماں کے عظیم جملے ان کے صبر و تحمل کے مقام کو بیان کرتی ہے ۔جب بشیر نے حضرت ابو الفضل ۳۴سال، عبداللہ،۲۴ سال عثمان ۲۱ سال اور جعفر ۱۹ سال کی شہادت کی اطلاع ان کے ماں کو دی تو اس عظیم ماں نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے صرف امام حسین علیہ السلام کی خیریت پوچھی ۔ ۲۲۔
5- تحریک عاشورا کی حفاظت
امام حسین علیہ السلام کی مصبیت کی شدت اور تحریک عاشورا کی حفاظت اور اس کے پیغام کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی ضرورت کا تقاضا تھا کہ اس واقعے کے پسماندگان اور لواحقین اسے ہر ممکن طریقے سے اسے زندہ رکھیں۔ ان طریقوں میں سے ایک عمومی عزاداری اورسوگواری کا انعقاد تھا۔ام البنین (س) ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور اسے انجام دیا۔ ام البنین کی سب سے اہم خصوصیت وقت اور متعلقہ مسائل پر ان کی توجہ تھی ۔واقعہ عاشورہ کے بعد آپ نےمرثیہ خوانی اور نوحہ خوانی کرکے کربلا کے مظلوموں کی فریاد آنے والی نسلوں کے کانوں تک پہنچائی۔ آپ سے منسوب ایک مرثیہ یہ ہے
یا مَن رَأی العباس کَ رَّ علی جماهیر النَّقَد
وَ وَراهُ مِن ابناء حی دَر کلٌّ لَیثَ ذی لُبَد
اُنبِئتُ انَّ ابنیِ اُصیبَ بِرَأسِهِ مقطوعُ یَد
وَیلی علی شِبلی اَما لَ برَأسِهِ ضربُ العمد
لَو کانَ سَیفُهُ فی یَدَیهِ لما دَنَا مِنهُ اَحَد
اے وہ جس نے عباس (ع) کو بکریوں کے ریوڑ پر شدید حملہ کرتے ہوئے دیکھا اور اس کے پیچھے فرزندان حیدر کو دیکھا جن میں سے ہر ایک شیر کی مانند ہے جو ان کی مدد سے باز نہیں آتا ہے۔ افسوس! مجھے اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے میرے بیٹے عباس کے سر پر لوہے کی عمود سےحملہ کیا ہے جبکہ اس کے جسم میں ہاتھ نہیں تھا۔ وای ہو مجھ پر!میرے بچے کے سر پر لوہے کا عمود مارا گیا۔ اگر میرے بیٹے عباس (ع) کے جسم میں دونوں ہاتھ اوران کے ہاتھوں میں تلوار ہوتے تو کس انسان میں اتنی جرائت تھی کہ وہ ان کے نزدیک ہوجاتے ۔۲۳۔اس طرح ام البنین (س) امام حسین علیہ السلام اوراپنے بچوں کے لئے عزاداری کرتے تھے اور نوحہ خوانی کے ذریعے سب کو رلاتی تھی ۔
60ھ میں معاویہ کی موت اور یزید کے تخت خلافت پر قابض ہونے کے بعد ولید بن عتبہ نے حسین بن علی علیہ السلام کو اس کی بیعت پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن امام حسین علیہ السلام نے انکارفرمایا۔ آپ نے مکہ کی طرف ہجرت کرنے کا قصد فرمایا۔ اس سفر میں ام البنین (س) قافلہ کے ساتھ نہیں تھیں، جس کی وجہ بیماری، بڑھاپا یا امام کی درخواست ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایسا لگتا ہے کہ اس سفر میں امام علی علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھی۔ اس لیے وہ بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہے۔
اس عظیم ماں کی اپنے بچوں کے ساتھ وداع کا لمحہ بہت جذباتی تھا۔ ایک ماں اپنے چار پیارے بیٹوں کو اما م حسین علیہ السلام کے ساتھ سفر پر وداع کر رہی تھی ۔ الوداعی لمحات آنسوؤں اور جذبات سے بھری ہوئی تھی۔ سب سے پہلے چھوٹے فرزند کو آغوش میں لیا ام البنین (س) نے سینہ سے لگا کر اسے بوسہ دیا۔ پھر ہر بچے کو اس عظیم ماں نے الوداع کہا۔ پھر جب حضرت عباس علیہ السلام کی باری آئی۔ ام البنین (س) جیسی ماں کے لیے عباس جیسے بیٹے کو خداحافظی کرنا آسان نہیں تھا۔ آخر کار بار بار عباس کے چہرے کو چومنے کے بعد اسے دوبارہ گلے سے لگا لیا۔ پھر پہلے انہیں اپنے بھائیوں کے بارے میں بتایا۔ پھر عباس، جعفر، عبداللہ اور عثمان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:میرے عزیزو! میرے مولا اورمیرے آنکھوں کی ٹھنڈک حسین کی مطیع رہنا۔ تم سب حسین پر قربا ن ہوجانا۔ اس کی مدد سے کبھی دستبردار نہ ہوجاو اور اپنے خون کے آخری قطرے تک ان کی حمایت کرو۔ ۲۴۔اس طرح ام البنین (س) نے افسوس کے ساتھ اپنے بچوں اور امام حسین (ع) اور ان کے قافلے کو الوداع کہا۔
ام البنین نے رونے اور نوحہ خواانی کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی مظلومیت بیان کرنے کا ذریعہ سمجھا۔ ام البنین افسوس کرتی تھی کہ وہ اور اس کے تمام فرزندان امام حسین علیہ السلام پر قربان ہو جاتے لیکن امام زندہ رہتے۔ ام البنین کے اس اقدامات کے کئی اہداف تھے: پہلا: سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اوران کے باوفااصحاب و انصارکے لئے عزاداری کرنا۔
دوسرا: امام حسین علیہ السلام ،ان کے اہلبیت علیہم السلام اوران کے باوفا اصحاب کی شجاعت اوروفاداری کو لوگوں کے لئے بیان کرنا۔ تیسرا: واقعہ کربلا اور خاندانِ رسول پر ڈھائے جانے والے مظالم جن سے ہر مخلوق شرمندہ ہے انہیں عام لوگوں تک پہنچانا۔ انہوں نے اس کام کے لئے گریہ و زاری کا طریقہ اپنایا۔ اس طرح موجودہ حالات اور ظالم حکومت پر اپنے اعتراض کا اعلان کیا۔
چوتھا: انہوں نے ظالم حکمرانوں کو رسوا کیا۔ قوم کے تمام معاملات پر قابض ظالم حکمرانوں نے عوام کو گمراہ کیا ہوا تھا انہوں نے خوف کی فضا کو توڑتے ہوئے اصل حقیقت لوگوں تک پہنچایا۔پانچواں: اگرچہ حضرت عباس علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کی قبریں کربلا میں موجودتھیں لیکن ام البنین بقیع میں جایا کرتی تھی تاکہ لوگ وہاں جمع ہو جائیں اور امام حسن علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مظلومیت کی یادیں بھی لوگوں کو تازہ ہو جائیں۔
چھٹا:وہ اپنے پوتے عبید اللہ بن عباس کو اپنے ساتھ لے جاتی تھی ۔ کیونکہ وہ واقعہ کربلا میں موجود تھے۔ عبید اللہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے کربلا کا واقعہ بیان کرنے کے لیے ایک زندہ گواہ اور ثبوت تھا، اور اس کے ساتھ اس کی عمر کے بچے اور بالغ مرد اور عورتیں جمع ہوجائے۔
آخرکار حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی پرفضیلت، محبت، پیار اور جدوجہد سے بھرپور زندگی واقعہ کربلا کے تقریباً دس سال بعد ختم ہوگئی۔ واقعہ کربلا کے بعد اس عظیم خاتون نے عاشورہ حسینی کی لازوال قربانیوں کو زندہ رکھنے کے اپنے سیاسی اور سماجی مشن کو انتہائی خوبصورت انداز میں پورا کیا۔تاریخی کتابوں میں اس عظیم خاتون کی وفات کا ذکر نہیں ہوا ہے ۔اسی طرح وفات کے وقت ان کی عمر بھی معین نہیں ہے اگرچہ بعض کتابوں میں آپ کی وفات کا سال ۷۰ ہجری اور بعض کتابوں میں ۶۴ ہجری ذکر ہوا ہے۔
آخر کاراس خاتون جس نے اپنی پوری زندگی اہل بیت(ع) کی محبت کی راہ میں گزار دی تھی وفات پا کراس دنیا کے غموں سے نجات پائی۔ یہ عظیم خاتون شہید کی بیوی، شہید کی والدہ اور عاشورا کے پیغام رساں تھیں، خلوص کے ساتھ راہ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ انہیں قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبی علیہ السلام اور فاطمہ بنت اسد کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔ موت کے وقت ان کی عمر کا اندازہ 60 سے 65 کے درمیان لگایا جا سکتا ہے۔ ۲۵۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید