حضرت اویس قرنی علیہ السلام انسانیت کے رہبر
خدا وند متعال نے انسانوں کی ہداہت کے لٸیےانبیإ کرام کو بیجھا اور ان میں آخری نبی حضرت محمد ص کو تمام انبیإ سے افضل بنا کے بیجھا پیغمبر اکرم ص کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوا اور امامت کا سلسلہ شروع ہوا اور انسانوں کی رہبری کے لٸے سب سے پہلا امام حضرت علی کو امام بنا کے بیجھا ان دو ہستیوں کے دور میں بہت سے صحابہ کرام گزرے ہیں اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ اصحاب کرام انسانیت کے رہبر ہیں انھیں کے وجود سے راہ بشریت روشن ہے ۔
اگریہ برگزیدہ افراد نہ ہوتے تو انسانیت مرور زمانہ میں کسی تہذیب کو وجود نہیں دے سکتی تھی ۔
انہیں برگزار صحابہ میں سے ایک صحابہ حضرت اویس قرنی کی ذات ہے
آپؒ کی عظمت و فضیلت کو ضبطِ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں۔سرکارِ مدینہﷺ کے ساتھ اُن کا عشق و محبت بے مثال و لازوال تھا۔جو رہتی دنیا تک قلب و نظر کا گلستان مہکائے رکھے گا۔آپؒ کے بارے میں ہی حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ’’میرے دوست میری قبا کے نیچے ہیں۔میرے سوا ان کو کوئی نہیں پہچان سکتا‘‘ ۔یہ بھی روایت ہے کہ حضرت اویس قرنیؒ کو بارگاہِ رسالتﷺ سے غائبانہ طور پر خیر التابعین کا خطاب مرحمت ہوا۔حضورﷺ کا زمانہ مبارک پایا،لیکن ظاہری طور پر حضور ﷺ کی زیارت سے مستفیض نہ ہو سکے۔حضرت اویس قرنیؒ اہلِ عشق کے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور ہیں۔طریقت میں سلسلہ اویسیہ آپؒ سے ہی منسلک ہے۔1
حضرت اویس قرنیؒ کی ولادت بروز جمعہ ۱۹ ذوالحجہ ۳۵ از عام الفیل بیان ہوتی ہے۔جائے مولد بیت المقدس ہے۔بعض قرن(یمن) بتاتے ہیں۔شتر بانی پیشہ تھا۔بکریاں چرانا بھی مذکور ہے 2
حضرے اویس قرنی نے بہت سادہ زندگی گزاری سادگی کے یہ عالم کہ ﮐﻮﮌﺍ ﮐﺮﮐﭧﺟﻤﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﭘُﺮﺍﻧﮯ
ﮐﭙﮍﮮ ﭼُﻦ ﭼُﻦ ﮐﺮ ﭘﺎﮎ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ
ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯽ ﺳﮯ ﮔﺪﮌﯼ ﺳﯽﻟﯿﺘﮯ،ﺳﺒﺰﯼ ﻓﺮﻭﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﻧِﮑﺎﻟﮯﮨﻮﺋﮯ ﭘﺘّﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍُﭨﮭﺎ ﻟﯿﺘﮯ۔ ”3
ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻣﺰﯾﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ
ﮐُﺘّﺎ ﺁﭖ ع ﭘﺮ
ﺑﮭﻮﻧﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺑﺎً
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
” ﺟﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺍﺱﺳﮯ
ﺗُﻮ ﮐﮭﺎ،ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﺍﺱﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ،ﺗُﻮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﮭﻮﻧﮑﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﭘُﻞﺻِﺮﺍﻁ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻣﺖ ﮔُﺰﺭ ﮔﯿﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﮨﻮﮞ،ﻭﺭﻧﮧ ﺗُﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ
ﮨﮯ۔ ”4
حضرت اویس قرنی کے بہت سے کرامات ہے ان تمام کا ذکر کرنا یہاں پہ ممکن نہیں مختصر طور پر کچھ کرامات ذکر کرتے ہیں
حضرت اویس قرنی ع کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرتا ہے لیکن سرکار محمد ﷺ اپنے سچے عاشق حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے کمالات کی مدح فرماتے اور نفس الرحمن کے لقب سے نوازتے ہیں ۔
روایت ہے کہ جب غزوہ احد میں سرکار دو عالم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہو نے کا حال حضرت اویس قرنی نے سنا تو اپنے جملہ دانت شہید کر دئے ۔اسی طرح سات مرتبہ نکلے اور سات ہی مرتبہ آپ نے اپنے دانت شہید کئے ۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت اویس قرنی نے اپنے تمام دانت مبارک شہید کر دئے تو کوئی بھی سخت عذائیں نہیں کھا سکتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کو حضرت اویس قرنی کی اپنے محبوب ﷺ کے عشق کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کےلئے کیلے کا درخت پیدا فرمایا تاکہ آپ کو نرم غذا مل سکے جب کہ اس سے قبل کیلے کے درخت یا پھل کا وجود زمین پر نہ تھا 5
منقول ہے کہ یمن میں اونٹو ں کو بھڑئےے مل کر کھا جایا کرتے تھے ۔مگر حضرت اویس قرنی کے اونٹوں کی طرف رخ بھی نہیں کرتے تھے ۔حالانکہ آپ دن بھر اونٹوں کو چرتا چھوڑ کر عبادت الہٰی میں مصروف ہو جایا کرتے تھے اور اونٹ فرشتوں کی نگہبانی میں خود بخود چرتے رہتے تھے 6
جب حضرت علی علیہ السلام حضرت اویس قرنی سے ملاقات کےلئے قرن تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ وادی عرفہ میں اونٹ چراتے ہیں اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر فرماتے ہیں ۔صحابہ کرام نے سرکار محمد ﷺکی وصیت کے مطابق جبہ مبارک حضرت اویس قرنی رض اللہ عنہ کو عنایت فرمایا جو خود بخود اُڑ کر حضرت اویس قرنی کے جسم مبارک پر چلا گیا اور صحابہ کرام نے امت کی بخشش کےلئے دعا کرنے کا نبی پاک ﷺ کا حکم پہنچایاتو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے جبہ (خرقہ )مبارک کوبوسہ دیااور پھر اس کو دو ر لے جا کر رکھ دیا اور پہلے غسل کیا اور پھر دو نفل ادا کئے اس کے بعد سر بسجود ہو کر دعا مانگنی شروع کی ۔ہاتف غیبی سے آواز آئی اے اویس قرنی نصف امت تجھ کو بخشی ۔“آپ نے سرمبارک نہ اٹھایا پھر آواز آئی ” دو حصہ اُمت بخش دی “ آپ نے پھر بھی سر مبارک سجدہ سے نہ اٹھایا پھر ہاتف سے آواز آئی کہ ”ربیعہ اور مضر کی بکریوں کے بالوں کے برابر اُمت تیری سفارش پر بخش دی ۔“ آپ نے پھر بھی سر نہ اٹھایا تھا کہ صحابہ کرام رضون اللہ علیہ نے تاخیر کی وجہ سے ان کے قریب تشریف لائے ۔آہٹ کی وجہ سے حضرت اویس قرنی نے سرمبارک اُٹھا لیا اور فرمایا !” اے امیر المومنین اگر آپ کچھ دیر اور توقف فرماتے تو حق تعالیٰ سے میں ساری اُمت بخشوالیتا۔“6 جنگ صفین میں رسول اکرمۖ کے کئی بزرگ اصحاب شریک ہوئے اور انہوں نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پرچم تلے اکٹھے ہو کر معاویہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کی اور جام شہادت نوش کیا۔
جناب اویس قرنی ایک مشہور شخصیت ہیں اگرچہ انہوں نے رسول خداۖ کو نہیں دیکھا تھا لیکن پھر بھی وہ آنحضرت کے شیدائی تھے اور یہ بزرگ آنحضرت سے بہت زیادہ الفت و محبت کرتے تھے۔ جناب اویس قرنی کا شمار زاہدوں اور بزرگ تابعین میں سے ہوتا ہے کہ جنہوں نے جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہم رکاب جنگ کی۔ وہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے زمانے میں آنحضرت کے ساتھیوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے آنحضرت کی نصرت کے لئے کمر کس لی۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں صحابیوں کے علاوہ تابعین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور انہوں نے مولائئے کائنات علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے معاویہ اور شام کے لشکر سے جنگ کی۔
ان ہی بزرگوں میں سے ایک ایسا شخص ہے جس نے خود سازی کی اور جس کا دل ولاء پیغمبر اور آل پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین سے سرشار تھا، اور وہ اویس قرنی ہیں
عبدالرحمن سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے :جنگ صفین میں شام کے لشکر میں سے ایک شخص باہر آیا اور اس نے عراق کے لشکر کی طرف رخ کر کے کہا:کیا اویس قرنی تم لوگوں میں ہیں؟
ہم نے اس سے کہا:ہاں۔
شامی شخص نے کہا:میں نے رسول خداۖ سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا:
”خیر التابعین اویس القرنی”
بہترین تابعی اویس قرنی ہیں۔
وہ یہ کہہ کر شام کے لشکر سے خارج ہو گیا اور ہمارے پاس آ کر ہم سے ملحق ہو گیا 7
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا:میں صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ننانوے افراد نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت نے فرمایا: ”سوواں شخص کہاں ہے؟کہ رسول خداۖ نے مجھے خبر دی تھی کہ اس دن سو افراد میری بیعت کریں گے”؟
اصبغ کہتے ہیں: اسی وقت ایک شخص آگے آیا کہ جس نے دو اونی لباس زیب تن ہوئے تھے اور دو تلواریں حمائل ہوئیں تھیں، اس نے کہا: اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تا کہ آپ کی بیعت کروں۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کس لئے میری بیعت کرنا چاہتے ہو؟
اس نے عرض کیا:تا کہ میں اپنی جان آپ پر قربان کر سکوں۔
فرمایا:تم کون ہو؟ عرض کیا: میں اویس قرنی ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے آنحضرت کی بیعت کی اور آنحضرت کے سامنے اس طرح سے جنگ کی کہ آخر کار شہید ہو گئے اور ان کا جنازہ پیادوں کے درمیان ملا 8
حضرت اویس قرنی کے تاریخ وصال ۳ رجب ۳۹ ھ بتائی جاتی ہے مشہور ہے کہ آپ کا نمازِ جنازہ حضرت علی نے پڑھائی۔مزارِ اقدس شہر رقہ میں واقع ہے جو شام کا سرحدی علاقہ ہے۔
حوالہ جات
1:حضرت اویس قرنی اور ہم ڈاکٹر محمد گیلانی
2: :حضرت اویس قرنی اور ہم ڈاکٹر محمد گیلانی
3:روضتہ الریاحین فی حکایت الصالحین
4:روضتہ الریاحین صفحہ ٢١١
5:زہرتہ الریاض
6:ارشاد الطالبین
7:زندہگانی امیر المٶمنین صفحہ ٥٩
8:اعجاز الپیغمبر در پیشنگوٸی از حوادث آٸندہ صفحہ ٢٩
ختم شد
تحریر: افتخار حسین عرفانی
:ifftikharhussain55@gmail.com
دیدگاهتان را بنویسید