حضرت زهرا سلام الله علیها کی اخلاقی خصوصیات
محمد علی کریمی (کسورو مقیم قم )
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تمام انسانوں کے لیے نمونہ ہیں ۔ ان کی اخلاقی شخصیت کو متعارف کروا کر ہم اس طرح اپنے فرائض کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور فطری طور پر اپنے فرائض کو زیادہ صحیح طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔
امام مہدی علیہ السلام کی روایت شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الغیبہ کی روایت میں یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایک نمونہ ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا کے رسول کی بیٹی میرے لیے ایک اچھا رول ماڈل ہے۔” حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس عظیم خاتون کا نام هے جو اصول و قوانین اسلامی سے آگاه نیز اخلاقی اصول آداب سے آشنا تھی، آپ قرآنی آیتوں اور ان کی تلاوت کی حلاوت کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور تفکّر و تدبّر سے مانوس تھی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی سیرت اور نورانی کلام کے ذریعہ پسندیده اخلاق و اطوار سے آگہی رکھتی تھی اور بچپن هی سے تمام خواتین و انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ تھی، اصل اسلامی اخلاق و آداب کی اقدار کے متعلق کثیر معلومات اور معارفِ دین کے متعلّق مختلف اعتبار سے بہت عمیق و گہری نظر ۔ کی وجہ تمام جوانب و اطراف پر وسیع نظریہ کی حامل تھی ۔ اس طرح کہ آپ کی سیرت و کلام گہربار میں دسیوں سبق آموز اور معرفت کے نکتے پائے جاتے هیں جو تہذیب و تربیت کے دلداده و شیفتہ لوگوں کے لئے قیمتی و جاودانی زادِ راه قرار پاتے ھیں اور قرار پائیں گے، هم ان میں سے بعض نورانی کلمات پر نظر ایک طائرانہ نظر ڈالتے هیں: حضرت زھرا (س) کو انسانی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ھے جس کے متعلّق رسول اکرم (ص) نے بارھا یه آیه کریمه ارشاد فرمایا ھے:
“إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ” بیشک خدا نے تمہیں چن لیا ھے اور پاکیزہ بنادیا ھے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ھے۔
اگر جناب فاطمہ زھرا (س) کے فضائل کے لئے سورہ کوثر کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ھوتا تو وھی ان کی فضیلت کے لئے کافی تھا کہ کہا جائے، خدا کے نزدیک تمام عالمین کی عورتوں سے افضل اور برتر ھیں ۔ ” إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ” (اے پیغمبر!) بے شک ھم نے آپ کو کوثر عطا کیا ھے، لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں، یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رھے گا ۔
گھر میں آپ کا اخلاق زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں بہت زیاده نشیب و فراز پائے جاتے هیں، اس خوشیاں اور دکھ درد، نالہ و شیوں بھی دیکھے جاتے هیں ۔ عورت و مرد کی بصیرت، باریک بیں نگاهیں اور دونوں کے اغراض و مقاصد سختیوں کو آسان اور ناهمواریوں کو هموار بنا دیتے هیں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے هر ایک حادثوں کا استقبال کرتے هیں اور بھرپور سعی و کوشش کے ذریعہ زندگی میں اطمینان و سکون، صدق و صفا، صمیمیت اور مهربانی قائم رکھتے هیں ۔ لوگوں کے ساتھ انبیاء (ع) کے منطقی، دلسوزی اور مهربانی کے تعلّقات، رسولوں و رهنماؤں کے حُسن خُلق اور احسان کے کیمیائی نقش و کردار کو فکری تهذیب و ثقافت کی تجلّی یعنی “انبیاء (ع) کے اخلاق کے آئینہ” میں بیان کیا گیا هے ۔
حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس میدان میں ایک کامل اسوہ و نمونہ هیں وه عھد طفولیّت سے مشکلوں و سختیوں میں رهی هیں، شعب ابوطالب میں تین سال کی سختیاں اور کفر و نفاق کے سرداروں سے اتنا سخت مقابلہ جو بڑے سے بڑے بہادورں کے پتہ کو پانی کردیتا تھا مگر خدا پر ایمان و عشق کی قوّت نے نوجوانوں اور جوانوں کو اتنی قوت عطا کی تھی کہ اپنی پاک طینت طبیعت اور روحانی طاقت سے ایک ایک کر کے تمام مشکلوں پر فتح و غلبہ حاصل کرلیا۔ اور جب شوهر کے گھر میں قدم رکھتی هیں تو سختیوں سے نمٹنے کے ایک نئے معرکہ کا آغاز هوتا هے اس وقت آپ (س) کی “شوهرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاق” کھل کر سامنے آتے هیں ۔ ایسا نہیں هے کہ صرف چین و سکون، رفاه، خوشی اور امکانات کی فراوانی میں اپنی زندگی اور شوهر سے رضا و خوشنودی کا اظهار کریں!!۔ ایک دن امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا سے کھانا طلب کیا تاکہ ابھی بھوک کو برطرف کرسکیں، جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے جواب دیا: میں اس خدا کی قسم کھاتی هوں کہ جس نے میرے والد کو نبوّت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا هے، دو دن سے گھر میں وافی مقدار میں غذا نہیں هے اور جو کچھ غذا تھی وه آپ (ع) اور اپنے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) کو دے دیا اور میں نے تھوڑی سی غذا سے بھی استفاده نہیں کیا هے۔ امام علیہ السلام نے بڑی حسرت سے فرمایا: اے فاطمہ (س)! آخر مجھ سے کیوں نہیں بتایا کہ میں غذا فراهم کرنے کے لئے جاتا؟ جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے عرض کیا: اے ابوالحسن (ع)! میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کرتی هوں کہ جس چیز پر آپ کی توانائی نہیں هے میں اس چیز کی درخواست کروں ۔
مسلمان عورتوں کیلئے نمونہ اخلاق
ایک عورت آکر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے مسئلہ پوچھتی ہے لیکن چونکہ اسے بھولنے کی بیماری بیماری تهی اس لیے وہ دس بار واپس آکر مسئلہ پوچھتی ہے، (اور ایک روایت کے مطابق وه دس بار ایک هی دن میں مسئله پوچھنے کیلئے آئی)دسویں بار میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے معافی مانگتی ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها نے جواب دیا: “ہر بار، رب کائنات مجھے بہت سے انعامات دیتا ہے، لہذا آپ کے سوال کو دہرانے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔”
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، جب ان کے والد محترم نے انہیں ایک کنیز دی، تو انہوں نے اپنے والد کے حکم کے مطابق گھر کے کام کاج کو تقسیم کر دیا: ایک دن زہرا سلام اللہ علیہا نے کام کرتی تھی، اور دوسرے دن کنیز کی باری هوتی تھی۔
اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور خواتین کو جان لینا چاہیے کہ زہرا سلام اللہ علیہا اور تمام اہل بیت علیہم السلام ہماری زندگی میں نمونہ عمل ہیں اور ہر ایک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی پیروی کرنی چاہیے۔ قرآن حکم دیتا ہے:لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوا حسنه لمن کان یرجوا الله و الیوم أخر… بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ان لوگوں کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ اور روز جزا کی امید رکھتے ہیں۔
اگر ہم دونوں جہانوں کی سعادت چاہتے ہیں تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور آپ کی آل کی پیروی کرنی چاہیے۔ اسلامی خواتین اس وقت خوشی حاصل کرتی ہیں جب وہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پیروی کرتی ہیں، عفت، ایثار و قربانی، عقیدت، تشہیر، شوہرداری، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش وغیره میں۔
وسائل الشیعه کے دوسری جلد میں منقول ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی طرف سب کو خاص طور پر اسلامی خواتین کو توجہ دینی چاہیے. روایت کا مضمون یه ہے: ایک دن حضر ت زهرا سلام الله علیها بهت هی مغموم تھی انکی کنیز فضه نے وجہ پوچھنے پر حضرت زہرا سلام الله علیها نے کہا کہ چونکہ میر ےمرنے کے بعد لوگ میرے جسم کو اٹھاتے ہیں اس لیے میرے جسم نظر آتا ہے اور غیر محرم میرے جسم کو دیکھتے ہے۔ فضہ کہتی ہیں کہ میں نے زہرا سلام الله علیها کے لیے ایک الماری کی شکل بنائی اور کہا: عجم میں خاص شخصیت کے حامل افراد کے لیے اس طرح کی الماری میں ڈالنے کا رواج ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها خوش ہوئی، مسکرائی اور حکم دیا کہ اس کی لاش کو اس طرح کی تابوت میں رکھا جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وصیت میں اس بات پر تاکید کی گئی تھی کہ امیر المومنین (ص) اسے رات کو غسل دیں اور دفن کریں اور کسی کو خبر نہ دیں۔
معاشره میں آپ کا اخلاق
سماج و معاشره کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت، ایک بیکراں سمندر کے مانند دکھائی دیتی هے، اس کی بزرگی و عظمت هرطرف جاذبِ نظر اور خیره کر دینے والی هے، لیکن سماجی و اجتماعی مناسبتوں اور لوگوں کی ایک دوسرے کی ضرورتیں اس سمندر کو دریاؤں، نہروں، جوئباروں اور تالاب و چشموں کی صورت میں بنا دیتی هے، جو انسانوں کی نشست و برخاست، آمد و رفت اور تعلّقات کو زیاده سے زیاده بڑھا دیتی هے اور جو چیز اس شیوه کو آبادی کے انبوه اور کثرت میں نسیم صبح، سلامتی، مٹھاس اور حلاوت سے همکنار کرتی هے وه اجتماعی اخلاقیات هیں ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں هے کہ جب آسمانِ عصمت سے بارش کے قطرے انسانوں کی روحانی آغوش میں آئیں گے تو اس کی تاثیر بھی بہت بلند و بالا اور پاک و پاکیزه رهے گی ۔
خنده پیشانی یا هنس مکھ چہره اور خوش اخلاقی جس کو (خوش روئی) سے تعبیر کیا جاتا هے یہ بہت گرانقدر کیمیا شیئے کا نام هے جو مختلف انسانوں کے درمیان زندگی کے هر میدان میں ۔۔ هر سلیقہ، مذهب اور فرقہ کے افراد کے ساتھ ۔۔ نہایت درجہ کارآمد رها هے اور معصومین علیھم السلام کے کلام میں اس کی مسلسل تاکید کی گئی هے ۔
حضرت ختمی مرتبت (ص) کی بیٹی جناب فاطمہ زهرا (سلام الله علیها) نے اپنے مختصر نورانی کلام میں اس حقیقت کی بلندی کو اس طرح بیان کیا ھے: “بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصَاحِبِهِ الْجَنَّةَ وَ بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُعَانِدِ المُعَادِی يَقِي صَاحِبَهُ عَذَابَ النَّارِ، مومن سے خوش روئی و خندہ پیشانی سے پیش آنا جنّت کا باعث ھے اور جھگڑالو دشمن سے خوشی و خندہ پیشانی سے پیش آنا آتش جہنم سے نجات دلاتا ھے ۔
سیاسی میدان میں آپ کا کردار:
حضرت زهرا سلام الله علیھا کے سیاسی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے “امام اور حجت خدا کا دفاع”، “امامت و رهبری امام علی علیہ السلام کی کامل پیروی اور فدک کے متعلّق مختلف میدان میں مبارزه”، اور “جنگ و جهاد کے بندوبست میں خوشی و دلسوزی سے حاضر رهنا” وغیره اور آخرکار اس صحیفہ کا آخری صفحہ خاتون جنّت کے خون کی سرخی سے رنگین هوگیا، اور حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی شهامت و شجاعت کی نشانی همیشہ کےلئے میدان شهادت میں ثبت هو گئی ۔ سب سے پہلے آپ (س) اپنے غصب شده حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی مختلف آیتوں سے دلیلیں قائم کیں، جس کے نتیجہ میں خلیفہ اول فدک کو واپس کرنے کے لئے تیار هوگیا تھا.
جب اپنے زمانے کے امام حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کلام کر رهی تھی تو آپ کی عمیق نظر اور بصیرت مخالفوں کے تمام حیلوں کا نظاره کر رهی تھی اور دشمن کے کردار کو مختلف میدانوں میں پوشیده اور ظاهری طورپر دیکھ رهی تھی اسی لئے امامت کے مقام و مرتبہ کو سماج کے سیاسی میدان میں خوب اچھے انداز میں بیان کررھی تھی، پہلے تو کوتاه فکروں اور ساده لوح انسانوں کے سامنے مسئلہ امامت بڑے روشن طریقہ سے پیش کیا۔ اس کے آغاز میں اهل بیت علیھم السلام کی امامت کو “اتحاد اور تفرقہ سے امان کا سبب۔ ” بتایا، اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ” ائمہ معصومین علیھم السلام میں سب سے بزرگ” هونے کا لقب دیا ۔ خلافت کے غاصبوں کے سامنے اپنے سیاسی کلام میں فرمایا: ” قرآن میں حکمِ خدا اور قرآن کریم کی تفسیر و تاویل کے متعلق پیغمبراسلام صلی الله علیہ و آله وسلم کی سنت اور تاکید کے برخلاف امامت کو غصب کرکے دوسروں کے سپرد کردیا هے” ۔
اقتصادی میدان میں آپ کا اخلاق:
غربت و مالداری،سخاوت و ایثار، امتحانات کے مختلف مراحل و حالات اور مشترک زندگی کے نشیب و فراز میں ھوا کرتے هیں، جو کبھی هماری زندگی کے آغاز سے ساتھ هوا کرتے هیں اور کبھی کچھ مختلف حالات میں همارے ایمان کے پَرکھنے اور مذهبی عقائد کے امتحان کا سبب هوا کرتے هیں، عورت و مرد کے “اقتصادی اخلاقیات” زندگی کے سنگلاخ میدانوں میں کامیابی کے بہترین اسلحے هوتے ھیں، اس طرح سے کہ “مالداری اور فقر و ناداری” ان کی رفتار و گفتار میں کسی طرح کا تغیّر اور اس میں رَخنہ نہیں ڈال سکتے هیں اور انہیں مختلف میدان میں پاک و پاکیزه اور صاف و شفاف کا مالک بنائے رکھتے هیں ۔
شادی کی رات میں نیا اور بہترین لباس ۔۔ مالداری کے زمانے ۔۔ میں سائل کو دینا اور فقر و تنگدستی کے زمانے میں حاجتمندوں، غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایثار کرنا، فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے اقتصادی اخلاقیات و اوصاف کے بحر بیکراں کا ایک چھوٹا سا نمونہ هے، جو همارے لئے نعمتوں کے وفور و سرشار هونے یا تنگدستی و فقر کے زمانے کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل بنا رهے گا ۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم ایک دن جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا: میری بیٹی! تم کیسی هو؟ اور کس طرح زندگی بسر کررهی هو ؟۔ انہوں نے جواب دیا: بھوک نے مجھے نڈھال کردیا هے، هر وقت کمزوری میں اضافہ هوتا جارها هے، همارے پاس غذا نہیں هے کہ جس سے بھوک کو برطرف کروں ۔
دیدگاهتان را بنویسید