تازہ ترین

حضرت زینب سلام اللہ علیہا خطبے کے بعض اقتباسات

      سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا: اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے […]

شئیر
32 بازدید
مطالب کا کوڈ: 330

 

 

 

سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:
اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: “بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ “وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”۔
ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں۔[53]۔[54]
اس کے بعد فرمایا :
أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَ كَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَْزْكِياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم: لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ
مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَ كَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ۔
ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے (5) کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلب(ع) کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ “آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(ع) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔
تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا!
أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). [55] وَحَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، “بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً”[56]، وَأَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَأَضْعَفُ جُنْداً۔ [57] اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یه تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔ “اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں”۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ “کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے” ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

خطبے کے فوری اثرات

مجلس یزید میں حضرت زينب(س) کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زيادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔[58]
[یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ “ان سب کو یہیں قتل کردو” لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ “ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو”۔[59]
حضرت زینب [نیز امام سجاد(ع)] کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛[60] لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد يعني ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔۔۔[61]

بہرحال یزید نے بامر مجبوری اہل بیت(ع) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(ع) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔[62]
آخر کار یزید کے خوف [63]) کے بموجب خاندان رسالت تکریم و احترام کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا۔[64]

  1. سورہ آل عمران (3) آیت 178؛ اردو ترجمہ سیدعلی نقی(نقن)۔
  2. Jump up مجلسی، وہی ماخذ ص133۔
  3. Jump up (سورہ آل عمران (3) آیت 169 ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔
  4. Jump up سورہ کہف (18) آیت 50، ترجمہ، وہی
  5. Jump up یہاں عالمۂ غیرُ مُعَلمہ نے سورہ مریم کی آیت 75 کے آخری حصے سے استناد کیا ہے جہاں ارشاد ہوا ہے “فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَاناً وَأَضْعَفُ جُنداً” ترجمہ: تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟!۔
  6. Jump up محمّدباقر مجلسی، وہی ماخذ، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، وہی ماخذ، ص 221.
  7. Jump up محمّدباقر مجلسی، وہی ماخذ، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، وہی ماخذ، ص 221.
  8. Jump up شیخ مفید، الارشاد،ص358/حسن الهی، وہی ماخذ، ص 244۔
  9. Jump up سبط بن جوزي، تذکرة الخواص، ص164۔ رجوع کیجئے: امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ [3]“۔
  10. Jump up ابومخنف،وہی ماخذ،ص311/ شیخ عبّاس قمی، وہی ماخذ، ص 265۔
  11. Jump up رجوع کیجئے:رجوع کیجئے: امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ[4]“۔
  12. Jump up ابن عساکر، اعلام النسا، ص191۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *