تازہ ترین

حضرت فاطمہؑ کا حکومت وقت کے ساتھ سیاسی برتاؤ/ نویسندہ: محمد عباس سینوی

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے جس نے انسان کو قلم کے ساتھ لکھنا سکھایا اور درود و سلام ہو اس نبیؐ پر جسے اس نے عالمین کے لیے سراپا رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور سلام و رحمت ہو ان کےآل پر جنہیں اس نے پورے جہان کے لیے چراغِ ہدایت بنایا۔
آپ تمام قارئین کرام کی خدمت میں سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا کے بارے میں یہ مقالہ بعنوان “حضرت زہرا کا حکام وقت کے ساتھ سیاسی برتاو” شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اس مضمون میں حضرت زہرا کے احتجاجات و مبارزات کے بارے میں ایسے عنوانات بیان کی جارہی ہیں جو بی بی فاطمہ زہر ا سلام اللہ علیہانے مختلف گروہوں یعنی انصار و مہاجرین کی عورتوں کو مخاطب کر کے اپنا حق چھیننے پر شکایات کی ہیں حضرت زہرا کے حقوق میں سے ایک حق ’’حقِ ولایت علی ‘‘ تھا جس کا اعلان غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے بڑے اجتماع میں ہوا تھا ۔لیکن امت نے اس اعلانِ ولایت کو بھلا دیا اور اپنی مرضی کی حکومت بنا لی۔ اور پغمبر کے بارے میں ان کےاہل بیت اطہار کا لحاظ نہیں کیا اور نہ پیغمبر اکرم کی پیاری بیٹی زہرا مرضیہ کا احترام پاس رکھا ۔

شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4563

حکومت ِ وقت نے پہلا حکم یہ دیا کہ باغ فدک جو حضرت فاطمہ کی ملکیت تھی چھین لی جائے ۔ اور مختلف بہانے سے پیغمبر کا عطا کردہ فدک زہرا سے چھین لیا ۔اور پیغمبر کا بھی لحاظ نہیں رکھا ۔
ان حقوق کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے لیے بی بی میدان میں آتی ہیں اور حکام ِوقت کے ساتھ ایسی مدلل گفتگو فرماتی ہیں ۔جس کے سامنے حاکم لاجواب ہوجاتا ہے ۔ ہم آپ قارئین ِکرام سے یہی امید رکھتے ہیں کہ آپ اس مقالہ سے انشاء اللہ تعالی بھرپور استفادہ کریں گے۔
حضرت فاطمہؑ کی حکمت عملیاں
حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت علی¬ علیہما السلام جب پیغمبر کے دفن و کفن سے فارغ ہوئے اور مسئلہ خلافت کے سلسلے میں انجام شدہ عمل سے دوچار ہوئے تو آپ نے عاقلانہ اور زبردست حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تاکہ اسلام کو ختم ہونے اور مٹ جانے سے بچا لیا جائے۔ان کی حکمت عملی اور عاقلانہ رویے کے چند مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ: انکار بیعت
علی ؑنے یہ ارادہ کیا کہ خلیفہ ِٔوقت کی بیعت نہیں کریں گے اور اس طرح آپؑ نے سقیفہ کی انتخابی حکومت کی روش سے اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔ جناب فاطمہ ؑنے بھی اس نظریہ کی تائید فرمائی اور اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ شوہر کے اوپر آنے والی ہر ممکنہ خطرہ اور حادثہ کا واقعی دفاع کریں گی۔ یہ بھی حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی ایک مخلصانہ حکمت عملی تھی ۔
انہوں نے اس روش کے ذریعے بتایا کہ جنگیں تیر و تلوار سے نہیں ہوتیں سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والے شخص کے خاندان کے افراد اور قریبی افراد کی خاموشی، بے اعتنائی اور حکومت ِوقت کی تائید نہ کرنا اس کے غیر قانونی ہونے کی بہترین دلیل ہے۔
جناب معصومہ جانتی تھیں کہ علی ؑکے حق کی دفاع میں اس طرح کی جنگ کا نتیجہ رنج اور تکلیف ہے۔ لیکن انہوں نے تمام دکھوں اور تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اس جنگ کو آخری مرحلہ تک پہنچایا۔
حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ نے مرتے دم تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی، اور انکے شوہر حضرت علیؑ نے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ جناب زہرا دنیا سے چلی گئیں لیکن ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ ناراض رہیں اور وصیت کی کہ انکے جنازے پر نہ آئے نماز میت ادا نہ کرے، حتی دفن میں شریک نہ ہونے پائے جیسا کہ بخاری نے کتاب صحیح میں ذکر کیا ہے :
فغضبت فاطمہ بنت رسول اللہ فھجرت ابابکر فلم تزل مھاجرتہ حتی توفیت و عاشت بعد رسول اللہ ستۃ اشھر فلما زوجھا علی لیلًا ولم یاذن بھا ابابکر و صلی علیھا۔
یعنی فاطمہ بنت رسول ناراض تھیں ان سے مقاطعہ کئے ہوئے تھیں یہاں تک کہ آپ وفات کر گئیں کل چھ مہینہ رسول خدا کے کے بعد زندہ رہیں وفات کے بعد حضرت علی انکے شوہر نے ان پر نماز پڑھی اور رات میں دفن کیا، انہوں نے اجازت نہیں دی کہ ابوبکر حاضر ہوں اب ہمارے پاس دو راستہ ہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔یا ابوبکر وہی خلیفہ ہے جسکی اطاعت واجب ہے پس فاطمہ
زہرا کی موت قبل از اسلام اور جاہلیت کی موت ہے یا فاطمہ زہرا کی موت جاہلیت کی موت نہیں ہے پس ابوبکر خلیفہ نہیں ہیں جن کی اطاعت واجب ہو۔
دوسرا مرحلہ: گھر گھر جانا
فاطمہ ؑاور علی ؑجناب امام حسن و حسین کے ہاتھ پکڑے ہوئے مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں افراد کے پاس جاتے اور ان کو اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیتوں اور ارشادات کو انہیں یاد دلاتے تھے۔
جناب فاطمہؑؑ فرماتی تھیں کہ اے لوگو ! کیا میرے باپ نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا ؟ کیا میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا : میں تمہارے درمیان سے جارہا ہوں مگر دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ایک کتاب خدا اوردوسری میرے اہل بیت ہیں ۔اے لوگو! کیا یہ مناسب ہے کہ ہم کو تم تنہا چھوڑ دو اور ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالو؟
تیسرا مرحلہ: غصب فدک پر رد عمل
زمام حکومت سنبھالنے کے بعد ابو بکر نے جناب سیدہ فاطمہ ؑسے فدک لینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے حکم دیا کہ فدک میں کام کرنے والوں کو نکال باہر کیا جائے۔ اور ان کے بجائے انہوں نے دوسرے کارکنوں کو وہاں مقرر کر دیا۔
جب فاطمہ ؑ ابو بکر کے اقدام سے مطلع ہوئیں تو انہوں نے سوچا کہ اگر اپنے حق کا دفاع نہیں کیاتو لوگ یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ حق سے چشم پوشی اور ظلم کے بوجھ کے نیچے دب جانا ایک پسندیدہ کام ہے۔ یا یہ تصور کریں گے کہ حق ابو بکر کے ساتھ ہے ۔ جیسا کہ اس وقت ان تمام مبارزوں کے باوجود ابوبکر کے پیرو ان کی روش کو حق بنا کر پیش کرتے تھے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر جناب فاطمہ زہرا نے ممکنہ حد تک اپنے حق کے دفاع کاارادہ کیا۔ اور مسجد میں جاکر ایک تاریخی خطبہ دیا۔
آپؑ کے خطبہ کے چند مطالب درج ذیل ہیں۔
۱۔انصار کی غیر جانبدارانہ روئے کو جنجھوڑنا
پھر حضرت سیدہ نے مسجد میں موجود انصار کی طرف نگاہ دوڑائی اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا:
یا معشر الفتیہ و اعضاد الملّۃ و انصار الاسلام ! ما ھذہ الغمیزہ فی حقی و السنۃ عن ظلامتی؟
اے گروہ نقیبان اور اے ملت کے دست و بازو اور اے ملت کی حفاظت کرنے والو! میرے حق میں یہ سستی کیسی اور میری فریاد سے یہ چشم پوشی کس لیے ہے؟
اما کان رسول اللہ ابی یقول: ” المرء یحفظ فی ولدہ”
کیا میرے والد رسول خدا یہ نہیں فرماتے تھے۔” کسی شخص کی حفاظت اسکی اولاد کی حفاظت کرکے ہوتی ہے” کتنی جلدی تم نے دین میں بدعت پیدا کردی اور قبل از وقت تم نے اس کا ارتکاب کیا ہے جبکہ تمہیں اس بات کی طاقت حاصل ہے جس کی میں کوشش کر رہی ہوں۔ کیا تم کہتے ہو ” محمد نے انتقال فرمایا” ہاں یہ بات صحیح ہے یہ بہت بڑی مصیبت ہے جسکا رخنہ وسیع ہے جسکا شگاف بہت زیادہ ہے اور اس کا اتصال انفصال سے بدل چکا ہے۔
زمین ان کی غیبت سے تاریک ہو گئی اور ان کی مصیبت کی وجہ سے ستاروں کو گہن لگ گیا اور امیدیں منقطع ہو گئیں اور پہاڑوں کے دل بھی آب آب ہو رہے ہیں حرمت رسول ضائع کر دی گئی اور ان کی وفات سے حریم رسول کی عظمت لوگوں کے دلوں سے اُٹھ گئی۔
خدا کی قسم! یہ بہت بڑی بلا اور عظیم مصیبت ہے اسکی مثل کوئی بلا نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ ہلاک کرنے والی کوئی مصیبت ہے اور اس بلا کی خبر خدائے برتر کی کتاب میں خود تمہارے گھروں میں نہایت خوش الہافی اور بلند آواز کے ساتھ پہنچا گئی تھی۔ اور آنحضرت سے پہلے خدا کے پیغمبروں اور رسولوں پر جو مصیبتیں نازل ہوئیں وہ امر واقعی اور قضائے حتمی تھیں۔
چنانچہ خدا فرماتا ہے۔” محمد فقد خدا کے رسو ل ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر محمد مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو تم لوگ اپنے پچھلے پیروں پر پلٹ جاو گے اور جو شخص بھی اپنے پچھلے پیروں پر پلٹے گا وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور خدا عنقریب شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔”
۲۔مطالبہ فدک
سیدہ نے فرمایا: اب تم یہ گمان کرنے لگے ہو کہ ہمارے لیے میراث نہیں ہے کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ پسند کرتے ہیں اور یقین رکھنے والی قوم کے لیے خدا سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ کیا تمہیں علم نہیں؟
کیوں نہیں بے شک تم جانتے ہو اور تمہارے لیے یہ امر آفتاب نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی ہوں۔
اے مسلمانو! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میری میراث مجھ سے چھین لی جائے؟
اے فرزند ابو قحافہ! کیا اللہ کی کتاب میں یہ ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاوں؟
تو نے یہ کیا ہے بری بات پیش کی ہے۔
کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “سلیمان داود کا وارث بنا”
اور اللہ نے زکریا کا قصہ بیان کرتے ہوئے ان کی دعا نقل کی۔ زکریا نے عرض کی تھی “خدایا مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میری میراث پائے اور آل یعقوب کا ورثہ پائے ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں”
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اگر کوئی مرنے والا مال چھوڑ جائے تو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے نیکی کی یعنی میراث کی وصیت کرے، یہ متقین پر فرض ہے”۔
اور تم یہ گمان کر رکھا ہے کہ میراث میں میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے باپ کی کوئی میراث حاصل نہیں کرسکتی تو کیا اللہ نے میراث کے متعلق تم کو کسی خاص آیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے جس سے میرے والد کو مستثنی کیا ہے؟
یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ملت والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت کر نہیں ہیں؟ یا پھر تم لوگ قرآن کے عموم و خصوص کو میرے والد اور میرے ابن عم سے زیادہ جانتے ہو؟
اچھا آج تم فدک اس طرح قبضہ میں لے لو جس طرح مہار اور پالان بندھا ناقہ قبضے میں کیا جاتا ہے اس کے نتائج کا علم تمہیں قیامت میں ہوگا جب خدا فیصلہ کرنے والا ہوگا اور محمد ہمارے ضامن و وکیل ہوں گے۔ میری اور تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے۔
قیامت میں باطل پرست گھٹے میں رہیں گے۔ اس وقت کی ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔
ہر امر کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب نازل ہوکر اسے رسوا کرے گا اور اس کے لیے دائمی عذاب مقرر ہوگا۔
چوتھا مرحلہ: گھر میں بیٹھ کر سیاسی حکمت عملیاں
جس طرح آپؑ نے مسجد میں جاکر اور لوگوں کے گھروں میں جاکر اپنا حق مانگا اسی طرح اپنے گھر میں بھی خاموش نہیں رہیں بلکہ اپنی شہادت تک مختلف طریقے سے اپنا حق مانگتی رہی۔
۱۔مستورات مدینہ کی عیادت اور سیّدہ کا خطبہ
جب حضرت زہرا بیمار ہوئیں تو مہاجرین و انصار کی عورتیں آپکی عیادت کے لیے آئیں۔ انہوں نے آپ کی احوال پرسی کرتے ہوئے کہا؛ آپ کی بیماری کا کیا حال ہے؟ حضرت سیدہ نے انکے اس سوال کے جواب میں خطبہ ارشاد فرمایا جس میں خداوند متعال کی حمد و ثناء اور پیغمبر اکرم پر درود و سلام کے بعد آپ نے فرمایا:
میں نے آج اس حالت میں صبح کی ہے کہ تمہارے دنیا سے بیزار ہوں، تمہارے مردوں کی دشمن ہوں، میں نے انہیں اس طرح سے دور کیا ہے جیسا کہ فاسد خرما تھوک دیا جاتا ہے اور میں نے پوری آزمانے کے بعد ان سے دشمنی کی ہے۔
برا ہو تلوار کی دھار کے کند ہونے کا اور محنت و مشقت کے بعد کھیل کود میں لگ جانے کا۔سنگ خارا پر سر مارنا برا ہے اور نیزوں کا ڈھیلا ہو جانا اورط آراء کا فاسد ہونا اور خواہشات کی پھسلن کتنی بری ہے۔ ان کے نفسوں نے بہت برا توشہ آگے کے لیے روانہ کیا ہے جس کی وجہ سے خدا ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گےبخدا حکومت و سلطنت نے انکی گردن میں اپنا پھندا ڈال دیا ہے، ان پر اپنا بوجھ لاد دیا ہے اور دنیا نے ان پر اپنی ذلت ڈال دی ہے۔ خدا ظالموں کی ناک کاٹے، انہیں بے دست و پا کرے اور انہیں اپنی رحمت سے دور رکھے۔
ان کے لیے افسوس ہے کہ آخر ان لوگوں نے خلافت کو رسالت کے لنگر سے کیوں دور کر دیا؟ اور ان لوگوں نے خلافت کو نبوت و رہنمائی اور روح الامین کے اترنے کے مقام پر دنیا و دین کے ماہر افراد سے کیوں دور کر دیا ہے؟
آگاہ رہو! تمہارے مردوں کے کردار کا نقصان واضح ہے۔ آخر یہ لوگ ابوالحسن سے کیوں ناراض ہیں؟
یہ لوگ خدا کی قسم! ابوالحسن کی تلوار کے لیے دریغ استعمال سے ناراض ہیں۔ یہ لوگ ابوالحسن سے اس لیے ناراض ہیں یہ وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ ان کی سخت جنگ اور ان کے عذاب جیسے حملوں اور خدا کے بارے میں ان کی جرأت و ہمت کی وجہ سے ناراض ہیں۔
خدا کی قسم! اگر یہ لوگ ابوالحسن سے وہ مہار جدا نہ کرتے جو رسول خدا نے انکے حوالے کی تھی تو ابوالحسن بھی اسے خود نہ چھوڑتے۔
وہ اس مہار کے سہارے لوگوں کو نرم روی سے لے چلتے، مہار کا چوبی حلقہ زخم نہ پہنچاتا اور ابوالحسن انہیں ایسے گھاٹ پر لے جاتے جس کا پانی آب باراں کی طرح سے صاف و شفاف اورط وافر مقدار میں ہوتا اور پانی اپنی کثرت کی وجہ سے دونوں کناروں سے اچھل کر بہتا اور ان کے دونوں کنارے کبھی گندے اور مکدر نہ ہوتے۔
پھر ابوالحسن انہیں سیر و سیراب کرکے واپس لاتے اور ظاہر و باطن میں ان کی خیر خواہی کرتے اور دولت سے اپنی کوئی زینت نہ کرتے اور دنیا سے کوئی حصہ نہ لیتے سوائے اتنی مقدار کے جو ایک پیاسے کی پیاس بجھانے اور بھوکےکو سیر کردے تب لوگوں کو دنیا سے منہ پھیرنے والے اور دنیا کی طلبگاروں اور سچ بولنے والے اور جھوٹ بولنے والے کے فرق کا پتا چل جاتا۔
ولو انّ اھل القریٰ آمنوا والتقوا لفتحنا علیھم برکات من السمآء و الارض و لکن کذبوا فاخذنٰھم بما کانوا یکسبون
اور اگر اہل قریہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے بدلے میں انہیں پکڑ لیا۔
والذین ظلموا من ھولاء سیصیبھم سیئات ما کسبوا وما ھم بمعجزین
ان لوگوں میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہے ان کو عنقریب ان کی برائی کا بدلہ ملے گا اور وہ خدا کو عاجز نہ کر سکیں گے۔
آو اور میری بات غور سے سنو! جب تک تم زندہ رہو گے تب تک زمانہ تمہین نت نئی چیزیں سکھاتا رہے گا اور اگر تم تعجب کرو تو ان کی باتیں ہیں ہی عجیب۔
اے کاش! میں معلوم کر سکتی کہ ان لوگوں نے علی کو چھوڑ کر کس کا سہارا لیا ہے اور کس ستون پر بھروسہ کیا ہے اور انہوں نے کس حلقہ رسن کو پکڑا ہے اور یہ لوگ اولاد رسول کو چھوڑ کر کس کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں اور یہ لوگ کس سے وابستہ ہوئے ہیں؟
سرپرست کتنا برا ہے اور وہ ساتھی کتنا برا ہے جس کی پناہ میں آئے ہیں اور ظالموں کے لیے برا بدلہ ہے۔ انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے اور ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ خدا کی قسم! انہوں نے بازوں کے پروں کے بدلے دُم کے پروں کو پکڑا ہے۔ ان لوگوں نے گردن کے قریب پیٹھ کے بالائی حصے کی بجائے پچھلے حصے کو منتخب کیا ہے۔ خدا اس قوم کی خیر خواہ کی ناک کو خاک آلود کرے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ آگاہ رہو! یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع ام من لا یھدی الا ان یھدی فما لکم کیف تحکمون
آیا وہ شخص اتباع کے قابل ہے جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہو یا وہ شخص جو خود ہی ہدایت کا محتاج ہو۔

مجھے اپنی جان کی قسم! خلافت کی اونٹنی حاملہ ہو چکی ہے، اس کے بچے جننے تک انتظار کرلو پھر پیالے بھر بھر کر تازہ خون مہلک زہر اس کے تھنوں سے دوہ لینا۔
۲۔مستورات کے ذریعے انصار و مہاجرین کو پیغام
سوید بن غفلہ کہتے ہیں:
جب حضرت زہرا کی یہ گفتگو عورتوں نے اپنے خاندان کے مردوں کو سنائی تو مہاجرین و انصار کا ایک گروہ بی بی کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا سیّدۃ النساء! اگر ابوالحسن اس خلافت کے قائم ہونے
سے پہلے ہم سے اس کا ذکر کرتے تو ہم انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے کو اختیار نہ کرتے لیکن ابوبکر نے پیش دستی کی اور ہم نے اس کی بیعت کرلی۔حضرت زہرا نے ان عذر تراشوں سے فرمایا:تم میرے پاس سے چلے جاو تمہاری تقصیر اور کوتاہی کے بعد اب معذرت کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔
۳۔حضرت فاطمہ زہرا کی ابوبکر و عمر سے ناراضگی
جناب سیدہ کونین پر پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد ہر قسم کے مظالم اور ستم ڈھائے گئے ان پر آپ مرنے تک راضی نہیں تھیں چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے :
فغضب فاطمہ بنت رسول اللہ فھجرت ابابکر فلم تزل مھاجرتہ حتی توفیت
پس خدا کے رسول کی بیٹی غضب ناک ہوئیں اور ابوبکر سے قطع رابطہ کیا وفات پانے تک ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ نیز جناب بخاری نے لکھا ہے:
فھجرتہ فاطمہ فلم تکلمہ حتی ماتت
پس فاطمہ نے ان سے رابطہ قطع کیا اور مرنے تک ان سے بات نہیں کی۔
ابن قتیبہ نے اس طرح لکھا ہے کہ عمر نے ابوبکر سے کہا آو ہم فاطمہ زہرا کی عیادت کے لیے چلتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو ناراض کیا تھا اس وقت دونوں ساتھ حضرت زہرا کی دولت سرا کی طرف نکلے اور جناب زہرا سے اجازت مانگی لیکن حضرت زہرا نے اجازت نہیں دی ۔
پھر وہ حضرت علی کے پاس گئے اور علی سے درخواست کی کہ یا علی حضرت زہرا سے اجازت مانگیں حضرت علی نے حضرت زہرا سے اجازت لی پھر وہ دونوں داخل ہوئےلیکن جب وہ بیٹھنے لگے تو حضرت زہرا نے اپنا رخ دیوار کی طرف کرلیا انہوں نے حضرت
زہرا کو سلام کیا لیکن حضرت زہرا نے ان کے سلام کا جواب بھی نہیں دیااور ابوبکر نے گفتگو شروع کی اور کہا اے رسول کی بیٹی پیغمبر اکرم کی ذریّے اور احباب میرے اپنے ذریّے اور احباب سے عزیز تر ہیں اور آپ میری بیٹی عائشہ سے زیادہ محبوب ہیں ۔
اے کاش جس دن پیغمبر اکرم دنیا سے رخصت ہوئے تھے اس دن ان کے بجائے ہم مرجاتے اور زندہ نہ رہتے ہم آپ کی فضیلت اور شرافت کو خوب جانتے ہیں لیکن ہم نے آپ کو ارث اس لیے نہیں دیا کہ ہم نے پیغمبر سے سنا تھا کہ میں نے کسی کے لیے کوئی ارث نہیں چھوڑا ہے میرے مرنے کے بعد تمام چیزیں صدقہ ہیں۔
اس وقت جناب سیدہ نے فرمایا کیا تم لوگ پیغمبر اکرم سے سنی ہوئی حدیث پر عمل کرتے ہو انہوں نے کہا جی ہاں جناب سیدہ نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم حدیث نبوی پر عمل کرتے ہوتو کیا تم نے پیغمبر سے یہ حدیث نہیں سنی تھی کہ فاطمہ کی خوشنودی اور رضایت میری خوشنودی اور رضایت ہے ان کی ناراضگی میری ناراضگی ہے جو بھی میری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھتا ہے۔
اور ان کو ناراض ہونے نہیں دیتا اس نے مجھ سے محبت اور مجھے خوش کیا ہے۔ جو اسے اذیت پہنچاتا ہے اس نے مجھے اذیت پہنچایا ہے۔پھر حضرت زہرا نے فرمایا اے اللہ تو اور تیرے فرشتے گواہ ہوں کہ ان لوگوں نے مجھے ناراض کیا ہے میں کبھی بھی ان سے راضی نہیں ہوں اگر میں پیغمبر اترم سے ملاقات کرون تو میں ان سے شکایت کروں گی۔
پھر جناب ابوبکر نے کہا اے سیدہ زہرا میں خدا کے حضور آپ کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں یہ کہ کر رونے لگا بہت زیادہ چیخ ماری اور حضرت زہرا سے معافی کی درخواست کی ہر نماز میں حضرت زہرا کے حق میں دعا کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر بھی حضرت زہرا نے معاف نہیں کیا پھر ابوبکر حضرت زہرا کے دولت سرا سے نکلا جبکہ وہ رو رہے تھے۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ (س) کے زندگانی میں پہنچنے والی تلخ ترین حوادث اور مصائب میں سے ایک یہ تھا کہ : آپ کے شوہر گرامی جو قیادت (خلافت ) کے لئے سب سے زیادہ حقدار بلکہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس منصب کے لئے موزوں نہیں تھا ان سے اس منصب کو چھین لیا گیا اس کے بعد حکام وقت نے سیاسی اغراض اور مقاصد کے تحت فدک کو بھی زہرا (س) سے غصب کیا ، حضرت زہرا کا رویہ ان حوادث کے مقابلہ میں ایک مدافع کا سا تھا آپ نے مدلل طریقہ سے حکام وقت کو منوانے کی بھر پور کوشش کی اور اس سلسلہ میں مہاجر اور انصار کے گھر گھر جاکر ان سے مدد بھی طلب کی لیکن آخر کار خلیفہ وقت اور اس کے حامیوں نے اپنا کا م کردیا اور فدک زہرا کو مختلف بہانے لا کر واپس نہیں کیا اس طرح سے انہوں نے پیغمبر کے جگر گوشہ کو دکھایا ، اذیت دی اور ان کو ناراض کیا اور وہ لوگ پیغمبر اکرم کی اس حدیث کا مصداق بن گئے : فاطمۃ بضعۃ منی فمن اذاھا فقد اذانی ۔
نویسندہ: محمد عباس سینوی، جامعۃ المصطفی العالمیہ اسلام آباد
ای میل: abbaswilayati512@gmail.com

 

 

 

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *