حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا عظیم بیٹی،باوفا شریک حیات اور نمونہ عمل ماں/تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
سمندرسیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔رسول خدا ﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :(ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک) بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ عظیم ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔
جناب فاطمہسلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں ۔جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترہوں باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا وہ ہیں جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاہر ہوئیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر(انما نطعمکم لوجه الله) کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:(لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. ) اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:(انا اعطیناک الکوثر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ،ان شانئک هو الابتر)بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کمسنی میں ہی اپنے عظیم المرتبت والد گرامی کا بھرپور ساتھ دیااور ان کے شانہ بشانہ تمام مصائب و آلام کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔آپ کو کائنات کے عظیم ہستی کی زوجہ اورشریک حیات ہونے کا شرف حاصل ہوا اسی لئے آپ نے بھی ایک باوفا شریک حیات بن کر اپنے آپ کو ثابت کر دیا چنانچہ حیدر کرار علیہ السلام جب میدان جنگ میں دشمنوں کا خاتمہ کرکے خون آلود تلوار گھر لاتے تھے تو جناب زہراء سلام اللہ علیہا اس خون آلود ذوالفقار کو دھو کر پھر سے اس کی چمک دمک لوٹاتی تھیں۔ ایک باوفا شریک حیات وہ ہوتی ہے جو اپنے شوہر کی خواہش زبان پر آنے سے پہلے اس کی خواہش پوری کردے ، اس کے درد کا درماں کرے اور اس کے غم و اندوہ اور حزن و ملال کوبرطرف کرنے کی کوشش کرے ۔ حضرت علی علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:( لقد کنت انظر الیھا فتنکشف عنی الھموم والاحزان ) میں جب بھی ان کے چہرے کی زیارت کرتا میرے تمام غم و اندوہ دور ہوجاتے تھے ۔
ایک ماں صرف اپنے گھر میں مرکزی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کی تربیت میں بھی ماوں کا بڑا گرانقدرکردار ہوتاہے ۔ اسی لئے تو نپیولین بوٹا پارٹ نے کہاتھا:مجھے بہترین مائیں دو ،میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا ۔جناب سیدہ تمام ماوں کے لئے اسوہ اور نمونۂ عمل ہیں کیونکہ آپ نے دو نازش آفریں فرزندوں کی تربیت کی ، جن میں سے ایک نے ملت اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچا لیااور یہ ثابت کردیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت نظام کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے ۔دوسرے فرزند نے اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا اور ہر دور کے مفکرین کو یہ بتادیا کہ اگر تربیت اچھی ہوتو خون تلواروں پر کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتاہے ، دین کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر کے چہرہ پر اضمحلال طاری نہیں ہوتا بلکہ اور بھی درخشاں ہوتاجاتاہے ۔ تمام عالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے جوش، ولولہ کے اندر جس سے زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرہ سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی جناب فاطمہسلام اللہ علیہا کا بیٹا ہے۔
اس مقالہ میں ہم جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگانی کے مختلف جہات( ایک عظیم بیٹی، ایک باوفا شریک حیات اور ایک بہترین نمونہ عمل ماں) پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے۔
الف: حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا ایک عظیم بیٹی
1۔ احترام رسول
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اپنے بابا کے ساتھ روىه بهت متواضع اور مؤدبانه تھا اس طرح که جناب زهرا سلام اللہ علیہا سب سے زىاده رسول خدا کى تعظىم وتکرىم کى کوشش کرتى تھىں اور همىشه کمال ادب کے ساتھ پىش آتى تھىں اگرچه باپ بىٹى کے درمىان محبت بھرا رابطه تھا لىکن ىه پىار اور محبت پاک پىغمبر کى نسبت احترام مىں مانع نهىں هوا۔
جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فرماتى هىں: جب پىغمبر پر ىه آىت(لا تَجْعَلُوا دُعاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضا) تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔” نازل هوئى تو مىں ان کو بابا نهىں کهتى تھى بلکه ىا رسول الله کهه کر پکارتى تھى تو حضرت نے مىرى طرف سے رخ انور پھىر لىا چند مرتبه مىں نے اس طرح آواز دى تو انھوں نے جواب نهىں دىا پھر فرماىا: بىٹى ىه آىت آپ کے لىے اور آپ کے خاندان کے لىے نازل نهىں هوئى هے آپ مجھ سے هىں اور مىں آپ سےهوں ىه آىت تو جفاکاروں اور متکبرىن کے بارے مىں نازل هوئى هے آپ مجھے بابا کهه کر پکار کرىں کىونکه ىه مىرے دل کى تسکىن اور پروردگار کى رضاىت کا سبب هے ۔
۲۔ جنگ احد مىں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کردار
جنگ بدر کى شکست کا بدله لىنے کے لىے کفار مکه بھر پور تىارى کے ساتھ جنگ کے لىے نکلے اور مىدان احد مىں پهنچے تو مسلمانوں نے ڈٹ کر مقابله کىا لیکن بعض افراد حکم رسول کى نافرمانى کرتے هوئے اپنے مقام سے هٹ گئے تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم زخمى هوئے ۔آپ کے دندان مبارک شهىد هوئے اور پىشانى بھى زخمى هوگئى ۔ جب ىه خبر مدىنه پهنچى تو فورا حضرت صفىه رسول خدا کى پھوپھى اور حضرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مىدان احد کى طرف آئىں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رونا شروع کىا جب سىده کى نظر اپنے بابا کے چهرے پر پڑى تودىکھا که پىشانى سے خون بهه رها هے جو محاسن شرىف کو رنگىن کررها هے۔ جناب سىده اپنے بابا کے چهرے کو دھوبھى رهى تھىں اور ىه بھى فرمارهى تھىں ” الله کے نبى کے چهرے کو جس ظالم نے اس طرح زخمى کىا هے اس پر الله کا غضب نازل هو۔ جب جناب سىده نے دىکھا که خون نهىں رک رها تو آپ نے چٹائى کا ٹکڑا لىا اسے جلاىا اس کى راکھ پىغمبر کے زخموں پر لگادى جس سے خون بند هوگىا۔
3۔ام ابىھا
جناب سىده ہمیشہ شمع کے پروانه کى طرح بابا کے گرد طواف کرتى تھىں ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس طرح بابا کا خىال رکھا که حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے انهىں ” ام ابىھا ” کا لقب دىا۔ اس لقب کى ىه وجوهات هوسکتى هىں :
1۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وجہ تخلیق پىامبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم
حدىث قدسی هے که”لولاک لما خلقت الافلاک ولولا على لما خلقتک ولولا فاطمہ لما خلقتکما” ؛ اے محمد اگر مىں تجھے خلق نه کرتا تو کائنات کو خلق نه کرتا اور اگر على کو خلق نه کرتا تو تجھے بھى خلق نه کرتا اور اگر فاطمہ کو خلق نه کرتا تو آپ دونوں کو خلق نه کرتا۔یہ حدىث اگرسندا صحیح ہو تو اس کا نتىجه ىه هے که حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کائنات کى وجه تخلىق هىں اور خدا کے نزدىک اتنا بلند مقام رکھتى هىں که سب چیزیں ان کے صدقے مىں وجود مىں آئى هے ۔
2۔ پىغمبر کى شخصىت کا آپ سے وابسته هونا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى شخصىت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاسے وابسته هے کىونکه حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکى والده گرامى جناب خدىجه سلام اللہ علیہا نے اپنى تمام سعی و کوشش کے ذرىعے تىره سال اسلام کو مکه مىں پروان چڑھاىا اگر حضرت خدىجه کى دولت وثروت نه هوتى تو مکه کى بنجر زمىن مىں آندھىوں اور طوفان سے بچ کر اسلام کے پودے کا تنومند هونا ناممکن هوجاتا ۔پىغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے محبت اور عطوفت کى بناء پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ” ام ابىھا” نهىں کها هے بلکه جناب فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا نے اپنى الهى فرائض درجه کمال تک انجام دئے اور پىغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو حقىقتا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاسے ماں جیسی محبت وشفقت ملى اور مذکوره حدىث کى روشنى مىں آپ پىغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى علت غائى هىں جس کى بناء پر آپ کو ” ام ابيها” کا لقب ملا۔
ب: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک باوفا شریک حیات
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خواتىن عالم کے لىے زندگى کے تمام پهلوؤں پر خوش بختى اور سعادت کے راستوں کا تعىن کرتا هے تاکه دنىا کے سامنےاىک عملى نمونه هو۔
1۔ کم توقع رکھنے والی شریک حیات
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاجانتى تھىں که وه اسلام کے سپه سالار کى زوجه هىں اور وه شوهر کےحساس مقام کو جانتى تھىں اس لىے کبھى بھى حضرت علی علیہ السلام سے کسى ایسى خواهش کا اظهار نهىں کىا جو ان کى اسلامى سرگرمىوں مىں رکاوٹ کا سبب بنے ۔ رواىت هے که اىک دن جناب امىر علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاسے پوچھا گھر مىں کھانے کے لئے کوئی چىز هے ؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرماىا(لَا وَ الَّذِي أَكْرَمَ أَبِي بِالنُّبُوَّةِ وَ أَكْرَمَكَ بِالْوَصِيَّةِ مَا أَصْبَحَ الْغَدَاةَ عِنْدِي شَيْءٌ أُغَدِّيكَهُ وَ مَا كَانَ عِنْدِي شَيْءٌ مُنْذُ يَوْمَيْنِ إِلَّا شَيْءٌ كُنْتُ أُوثِرُكَ بِهِ عَلَى نَفْسِي وَ عَلَى ابْنَيَّ هَذَيْنِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا فَاطِمَةُ أَ لَا كُنْتِ أَعْلَمْتِينِي فَأَبْغِيَكُمْ شَيْئاً فَقَالَتْ يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ إِلَهِي أَنْ تُكَلِّفَ نَفْسَكَ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه ) نہیں اس ذات کى قسم جس نے میرے بابا کو نبوت کا شرف بخشا اور آپ کو ان کا برحق وصی بنایا! دو دن سے همارے گھر مىں کھانے کى کوئى چىز نهىں هے۔ تو حضرت على ؑنے فرماىا: آپ نے مجھے کىوں نهىں بتاىا تھا؟ جواب دیا:” مجھے الله سے شرم آتى هے که مىں آپ کو اس بات کى زحمت دوں که جو آپ کے لىے ممکن نه هو۔
2۔ ہم راز و ہم نوا
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی ؑ دونوں ایک دوسرے کے ہم غم ، ہم راز و ہم نوا تھے۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا همىشه اپنے شوهر کى حوصله افزائى کىا کرتى تھىں اور ان کى فداکارى اور بهادرى کو سراهتى اور آپ کو آسوده خاطر کرتى تھىں ۔اپنى بے رىامحبت سے تھکے ماندے جسم اوربدن کے زخموں کو تسکىن دىتى ۔ خود حضرت علىؑ فرماىا کرتے تھے:”وَ لَقَدْ كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا فَتَنْكَشِفُ عَنِّي الْهُمُومُ وَ الْأَحْزَان ؛جب مىں گھر واپس آتا اور زهرا کو دىکھتا تو مىرا تمام غم واندوه ختم هوجایا کرتا تھا۔”
حضرت على علیہ السلام ا ورحضرت فاطمہ زهرا علیہما السلام کا گھر در حقىقت اخلاص او رمحبت کا مرکز تھا۔ میاں بیوى دونوں کمال اخلاص کےساتھ باهمى مدد سے گھر کے امور چلاتے تھے۔ حضرت على بچپن هى سے پىغمبر اسلام ؑکے دامن وحى کے تربىت یافته تھے۔آپ بهترین اسلامى اخلاق ، فضائل کے مالک تھے حضرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بھى اپنى بابا گرامى کے دامن وحى مىں تربت پائى تھى آپ لوگوں کے کان بچپن هى سے قرآن سے مانوس تھے۔
تاریخ گواہ ہے حضرت على حضرت فاطمہ ایک دوسرے کا بہت احترام اور خیال رکھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھار آپس میں مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔ مثلا ایک دن آپس مىں اىک دوسر ےسے کهتے هىں که حضرت رسول اللهؐ مجھ سے زیاده محبت کرتے هىں دوسرى طرف سے جواب آتا هےکه مجھ سے زىاده محبت کرتے ہیں۔ حضرت على علیہ السلام نے فرمایاہم رسول خدا کى خدمت میں چلتے ہیں اور انہی سے ہی پوچھتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کس کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ پس دونوں بزرگوار حضرت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى خدمت میں گئے تو جناب زهرا نے پوچھا (أَيُّنَا أَحَبُ إِلَيْكَ أَنَا أَمْ عَلِيٌ ع قَالَ النَّبِيُّ ص أَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ وَ عَلِيٌّ أَعَزُّ عَلَيَّ مِنْكَ فَعِنْدَهَا قَالَ سَيِّدُنَا وَ مَوْلَانَا الْإِمَامُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَ لَمْ أَقُلْ لَكَ أَنَا وَلَدُ فَاطِمَةَ ذَاتِ التُّقَى قَالَتْ فَاطِمَةُ وَ أَنَا ابْنَةُ خَدِيجَةَ الْكُبْرَى قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا ابْنُ الصَّفَا قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا ابْنَةُ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا فَخْرُ الْوَرَى قَالَتْ فَاطِمَةُ وَ أَنَا ابْنَةُ دَنا فَتَدَلَّى وَ كَانَ مِنْ رَبِّهِ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا وَلَدُ الْمُحْصَنَاتِ قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا بِنْتُ الصَّالِحَاتِ وَ الْمُؤْمِنَات) آپ مجھ سے زىاده محبت کرتے هىں ىا على سے ؟ تو آنحضرت نے جواب دىا: (انت احب الى وعلى اعز منک) اے فاطمہ میں تجھے زیادہ چاہتا ہوں اور علی میرے لئے زیادہ عزیز ہیں۔ اس وقت ہمارے مولا اور سید ، سردار نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا: میں فاطمہ(بنت اسد) صاحب تقوا کا فرزند ہوں، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے جواب میں کہا: میں خدیجہ کبری کی بیٹی ہوں، علی نے کہا: میں صفا کا بیٹا ہوں، فاطمہ نے کہا: میں سدرۃ المنتہیٰ کی بیٹی ہوں، علی نے کہا: میں فخر وری ٰ ہوں، فاطمہ نے کہا: میں دنا فتدلی اور قاب و قوسین او ادنی کی بیٹی ہوں، علی نے کہا: میں پاک دامن ماؤں کا بیٹا ہوں تو فاطمہ نے کہا: میں صالحات اور مؤمنات کی بیٹی ہوں۔”
حضرت على علیہ السلام اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے الٰہی انعامات کا مذکوره مکالمہ میں ذکر فرمایا هے جس سے هر میاں بیوى کو یہ سبق ملتا ہے که فضول اور مادى چىزوں کے ذریعے اىک دوسرے پر فخر نہیں کرنا چاہئے اور اپنى بڑائى بىان نہیں کرنى چاہىے ۔
3۔ساده زندگى
جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاحضرت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى تربىت یافته تھیں۔ انھوں نے دنیا کى ظاہرى شان وشوکت سے دورى اور سادگى کا درس اپنے بابا سے لیا تھا اور ایثار وقربانى بھى اپنے والدىن سىکھى تھىں ۔انھوں نے امام علىؑ کے همراه اپنى زندگى کو رضاىت خدا کے لیے وقف کردیا تھا اور جو کچھ ان کے پاس حتى که اپنے جہىز کوبھى الله کى راه مىں خرچ کردىا ۔ حدیث مىں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اپنى بیٹى کے گھر آئے تودیکھا جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زمین پر بیٹھى ایک ہاتھ سے چکى چلارہى هے اور دوسرےہاتھ سے بچے کو گود میں لےکر دودھ پلارہى ہیں توجناب رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى آنکھوں مىں آنسو آگئے فرمایا:(يا فاطمة تعجلي مرارة الدّنيا بنعيم الآخرة (الجنّة)غدا) اے فاطمہ دنىاکى مشکلات کو آخرت ،بهشت کى مٹھاس کے لىے برداشت کرو۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جواب مىں فرماىا( الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى نَعْمَائِهِ وَ الشُّكْرُ لِلَّهِ عَلَى آلَائِه)حمد وشکر خداوند کے لىے هے اس کى لاتعداد نعمتوں کے بدلے مىں تو اس وقت ىه آىه نازل هوئى :(وَ لَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى) ؛ عنقرىب تىرا رب تمهىں اتنا عطا کرے گا که تو راضى هوجائےگا۔
4۔ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالمین کی سیدہ ہونے کے باوجود کبھی بھی اپنے شوہر کی اتباع میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔آپ ؑ ہمیشہ حضرت علىؑ کی مکمل اتباع کرتی تھیں۔ آپ ؑ اپنے شوہر کی اجازت کے بغىر کبھى گھر سے باهر قدم نہیں رکھتی تھیں۔ کیونکہ آپ اسلامی تعلیمات کے نہ فقط پابند تھیں بلکہ نسوان عالم کی معلمہ بھی تھیں۔ آپ اس بات سے کاملا آگاہ تھیں که اسلام عورت کو شوهر کى اجازت کے بغىر گھرسے نکلنے سےمنع کرتا هے۔ اگر کوئى عورت اىسا کرے اور شوهر کو غضبناک کرے خداوند عالم اس کى نماز اور روزہ کو قبول نهىں کرتا جب تک اس کا شوهر راضى نه هوجائے ۔ اگر ایک دوسرے کے خیال رکھنے اور زن و شوہر کے حقوق کے خیال رکھنے کے اعتبار سے ایک کامل نمونہ دیکھنا ہو تو اس کا حقیقی نمونہ اس کائنات میں امام علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاہی کو پیش کرنا چاہئے۔
5۔ گھریلو ذمہ داریوں کی تقسیم
حضرت على علیہ السلام گھر کے اندر ونى حالات ومسائل سے مکمل طور پر آگاہ تھے ۔امام على علیہ السلام جانتے تھے که جس قدر مرد کو عورت کى طرف سے اخلاص ، محبت اور قدردانى کى ضرورت هوتى هے اسى طرح عورت بھى اس کى طالب هوتى هے امام علی علیہ السلام بھى جناب سىده کى هرلحاظ سے حوصله افزائى فرماتى اور گھر کے کاموں مىں ان کى مدد کرتے تھے ۔ امام صادق فرماتے هىں:( كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَحْتَطِبُ وَ يَسْتَقِي وَ يَكْنُسُ وَ كَانَتْ فَاطِمَةُ ع تَطْحَنُ وَ تَعْجِنُ وَ تَخْبِزُ) حضرت على علیہ اسلام گھر کے لىے لکڑىاں اور پانى مهىا کرتے اور گھر کى صفائى کرتے تھے ۔ جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چکى پیستی، آٹا گوند ھتى اور روٹى پکاتى تھىں۔لهذا آج کے مىاں اور بىوى بھى اس الٰهى جوڑے کو اپنے لئے نمونه عمل قراردىں تو گھرىلو زندگى جنت نظىر بنا سکتے هىں۔خواتین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاؑکى طرح اپنےشوهر سے بے جا فرمائشات نه کرے اورمرد حضرات حضرت علىؑ کى طرح اپنى بىوى کى اچھے کاموں مىں مدد کرے۔ جس طرح مولا کائنات اور حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہما سے جب جناب رسول خد اصلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے سوال کیا تو انہوں نے آپ ؐکے جواب مىں فرمایا:(سَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ قَالَ نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ وَ سَأَلَ فَاطِمَةَ فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْل) فاطمہ الله کى اطاعت مىں مىرى بهترىن مددگار هىں اور علی میرے لئےبہترین شوہر ہیں۔”
ج: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک عظیم ماں
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکى سنگین ذمه داریوں میں سے ایک بچوں کى پرورش کرنا تھى۔جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچے اس کے باوجود کہ ذاتى طور پر الله کى طرف سےتربىت شده هىں پھر بھى والدىن اور نانا کے کمالات ، حسن معرفت اور اخلاق کے تحت کمالات اور مقام ومرتبے کى مزىد بلندىوں کو پالىتے هىں ۔خداوند متعال نے معىن فرماىاتھا که پىشواىان دىن اور پىغمبر کے جانشىن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کى پاکىزه نسل سے وجود مىں آئىں کىونکه خود پىغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فرماتے هىں (كلّ بني أنثى فإنّ عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمة فإنّي أنا عصبتهم و أنا أبوهم) ہر عورت کی اولادحسب ونسب ان کی والد کی پلٹتے ہیں مگر فاطمہ کی اولاد کہ میں ان کا باب ہوں۔
تربیت اولاد
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکى نظر مىں گھر اىک حساس مرکزتھا آپ اسے انسان سازى کا اىک عظىم کارخانه اور عسکرى مشقوں اور شجاعت وفداکارى کى اىک اهم درسگاه سمجھتى تھىں ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وحى الهى کى تربىت ىافته تھیں اسی لئے جانتى تھىں که گھر اسلام کا بڑا مورچه هے ۔اگرعورت اس مورچہ پر پسپا هوجائے تو سب سے پهلے نقصان اولاد کى عدم تربىت هے جس کا خمىازه نسلوں کو بھگتنا پڑتا هے ۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے گھر مىں بچوں کى اسلامى تربىت کے لىے اىک عالى اور مثالى درسگاه کى بنىاد رکھى۔ آپ نے بچوں کى تربىت کا وهى پروگرام عملا تشکىل دىا جو قرآن مجىد اور احادىث رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم مىں بىان هوا هے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاجانتى تھىں انهىں حسن وحسىن جیسےفرزندوں کى تربىت کرنى هے جو اسلام کو ضرورت پڑنے پر اپنى اور اپنے عزىزوں کى جانوں کودىن پر قربان کردىں اور اپنے عزىزوں کے خون سے شجر اسلام کو سىراب کردىں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے گھر مىں مکمل طور پر تعلىمات اسلامى جاری تھا۔ رواىت هے که جب امام حسن علیہ السلام متولد هوئے تو اىک زرد کپڑے مىں لپىٹ کو پىغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کى خدمت مىں لاىا گىا ۔آنحضرت نے فرماىا:کىامىں تم سے نهىں کها تھا که نومولود کو زرد کپڑے مىں نه لىپٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن علیہ السلام کے زرد کپڑے کو اتار پھىنکا او رانھىں سفىد کپڑے مىں لپىٹ کر انھىں بوسه دىنا شروع کىا ىهى عمل امام حسىن علیہ السلام کى پىدائش کے وقت بھى انجام دىا۔
ابوهرىره کهتا هے:( رأيت النّبي صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يمصّ لعاب الحسن و الحسين كما يمصّ الرجل التمر) اىک دن آنحضرت کو دىکھا که آپ حضرت امام حسن وحسىن کے لبوں کو اس طرح چوس رہے تھے جىسے کوئی کھجور کو چوستا هے ۔
الف۔ توحىد پروری
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے بچپن هى سے بچوں کو اللہ تعالی کی بندگى کا درس دىا تھا جیساکه “لیلة القدر”یعنی شب قدر میں جناب سىده اپنے فرزندوں کو سونے نهىں دىتى تھىں اور فرماتى تھیں”محروم وه هے جو آج رات محروم رهے ۔ حضر ت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہانے اس طرح اپنى اولاد کے دل وجان مىں عبودىت اور خشوع وخضوع کا جذبه قوى کىا که وه اپنى زندگى کے خوبصورت لمحات عبادت الهى مىں گزارتے تھے ۔
بنابرین والدىن پر لازم هے که اپنى اولاد کوتوحىدسے آشنا کرىں، قرب الهى اور عبادت کا شوق ان مىں پىدا کرىں۔ جو بچے اپنى زندگى کے آغاز سےہی توحىد سے آشنا هو اور اىمان الهى کے ساىه مىں پروان چڑھے وه روحى طور پر مضبوط هوتے هىں اور پورى زندگى اىمان کے نورانى اثرات ان کردار وگفتار سے ظاهر هوتے هىں ۔
ب۔ علم دوست
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاجانتى تھىں که حسنىن شرىفىن علیہما السلام، امام هىں اور علم لدنى رکھتے هىں لیکن اس کے باوجود انهىں نانا کے پاس بھىجتى تھىں ۔حدىث مىں بىان هوا هے که حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاامام حسن علیہ السلام کو مسجد مىں بھىجتى ،جب وه واپس آتے تو پوچھتى حسن بىٹا بتاؤ آج تمهارے نانا نے کیا فرماىا هے ۔ امام حسن علیہ السلام سب کچھ بىان فرماتے ۔جب حضرت على علیہ السلام گھر تشرىف لاتے توسىده جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر نازل هونے والى وحى بىان فرماتىں تو حضرت على علیہ السلام پوچھتے: ىه سب کچھ آپ کس سے سنتى هىں ؟تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بتاتى که مىرا بىٹا حسن مجھے بتاتا هے۔ اىک دن حضرت على علیہ السلام کسى چىز کے پىچھے بىٹھ کر سننے لگے که آپ کا فرزندامام حسن علیہ السلام کس طرح بىان کرتا هے تو امام حسن علیہ السلام نے کها: اما جان آج کوئى بڑا مجھے دىکھ رها هے۔ مىرى زبان لڑکھڑا رهى هے تو امام علی علیہ السلام نے آکر امام حسن علیہ السلام کو سىنے سے لگاىا۔
ج۔ عدالت محور
اگروالدىن اپنے بچوں کے درمىان محبت کرنے میں عدالت کى رعاىت نه کرىں تو ان مىں حسد اور کىنه پىدا هوجاتا هے۔ حضر ت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بچوں کے ساتھ محبت آمىز رفتار مىں عدالت کى رعاىت کرتى تھىں۔ اىک دن امام حسن اورامام حسىن علیہما السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سامنے کشتى کھىل رهے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم امام حسن علیہ السلام کو امام حسین علیہ السلام پر کامىابى کا شوق دلارهے تھے جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے سنا تو عرض کىا بابا آپ مىرے بڑے بىٹے کو شوق دلارهے هىں جبکہ میراحسىن چھوٹا هے تو آپ نے جواب مىں فرماىا: مىرا دوست جبرئىل حسىن کی تشویق کر رہا ہے۔
منابع:
1. ابراهىم امىنى ٬ اسلام کى مثالى خاتون٬ مترجم : اخترعباس، سعىد حىدرى٬ دارالثقافه الاسلامىه پاکستان٬ چ، دوم٬ 2001 ٬ص96۔
2. ابن شهر آشوب مازندرانى٬ المناقب٬ قم٬ علامه٬ 1379ق ٬ج3 ٬ص 342۔
حسن مصطفوي ، التحقيق في کلمات القرآن الکريم،بیروت ،دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۳۰ق ،چ سوم ،ج4، ص20.
3. الشوشتری، القاضی نور اللہ ، احقاق الحق وازھاق الباطل ، قم ، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی ، ۱۶۰۹ ق ، ج۴، ص ۴۸۱۔
4. صدوق ، علل الشرائع ، ناشر ، داوری ، بی تا ، ج۱، ص ۱۸۲۔
5. طلال بن علی متی احمد، مادۃ اصول التربیۃ الاسلامیہ،مکہ مکرمہ، جامعہ ام القری، الکلیہۃ الجامیہ ، ۱۴۳۱ھ ، ص۸۔
6. عبد الله بحرانى، اصفهانى٬ عوالم العلوم والمعارف ٬ قم مؤسسه الامام المهدى ٬چ اول،ج11 ٬ص262-266؛ شاذان بن جبرئيل قمى،الفضائل، شاذان بن جبرئيلقم: رضى، 1363 ش، ص80 ۔
7. فضل بن حسن طبرسى٬ اعلام الورى بالام الهدى٬ قم آل البىت٬1417ق ٬ج1 ٬ص395۔
8. قاضى نعمان مغربى٬ دعائم الاسلام ٬ القاهره٬ دار المعارف ٬ ملاحظات٬ موسسه آل لبىت٬ 1963م٬ج1 ٬ص282۔
9. گروه مولفان ٬پىشواىان هداىت٬ قم مجمع جهانى اهل بىت٬1427 ٬ چاپ اول٬ ج3 ٬ص53؛ بلاذرى ٬ احمد بن ىحىى ٬ انساب الاشراف٬ بىروت٬ دارالفکر ٬ 1417
10. گروه مولفان٬ اعلام الهداىه ٬قم٬ مجمع العالىم لاهل البىت ٬ 1425 ٬چاپ دوم٬ ج3 ص 44۔
11. مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، تہران ، اسلامیہ ، ۱۳۶۸ش ، ج۴۳، ص : ۵۷۔
12. محمد بهشتي، مباني تربيت از ديدگاه قرآن، ص 35.
13. محمد تقى فلسفى٬ کودک از نظر وراثت وتربىت ٬ تهران٬ هىئت نشر معارف اسلامى ٬ بى تا٬ ص178۔
14. محمد دشتى ، فرهنگ سخنان حضرت فاطمه ٬ قم ٬ مؤسسه فرهنگى تحقىقاتى امىرالمؤمنىن ٬ بى تا٬ ص 23۔
15. مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
16. مرندى٬ ابوالحسن آل عبا٬مجمع النورىن٬ قم٬ 1328 ٬بى تا٬ ج1 ٬ص14۔
17. موفق بن احمد خوارزمى ٬ المناقب٬ قم٬ جامعه مدرسىن ٬ 1411 ٬ص353۔
دیدگاهتان را بنویسید