حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کا زندگی نامہ
ولادت نور:
آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ۲۰/ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میںہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ جناب خدیجة الکبریٰ ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیںاور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا کو نور کیوں کہا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرئیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اورمجھے جنت کی ایک کچھور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے سلب میں پہونچ کر نطفہ میں تبدیل ہوگئی ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہٰذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔
ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ الله نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی سلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔
ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا سلام الله علیہا کی طرف منتقل ہوگیا۔
جب حضرت زہرا سلام الله علیہا کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا دل شاد ہوگیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لئے وہ ان سے بیحد محبت کرتے تھے اور احتراماً آپ کو ”ام ابیہا“ کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہونچائی ۔ “ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا روز کامعمول تھا ک جب نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے: ”السلام علیک یا اہل بیت النبوة، انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً“
آپ کا کوثر قرار پانا:
حضرت زہرا سلام الله علیہا نے اس سماج میں آنکھیں کھولیں جس میں لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سن کر باپ غصہ سے کانپنے لگتے تھے اور ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا تھا۔ یہ وہ سماج تھا کہ اگر اس میں کسی انسان کے فقط بیٹیاں ہی ہوتی تھیں تو اسے بے اولادا سمجھا جاتا تھا اور اس زمانہ کے دنیا پرست انسان اسے ایک عیب تصور کرتے تھے ۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ آپ کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ آپ کے کوئی اولاد نہیں ہے لہٰذا جب آپ دنیا سے چلے جائیں گے تو آپ کی نسل ختم ہو جائے گی اور آپ کی نبوت کا بھی کوئی نام ونشان باقی نہ رہے گا۔
اولاد نہ ہونے کی بنا پر آپ کی مذمت کرنے والا عاص بن وائل تنہا انسان نہیں تھا بلکہ وہ اس پورے جاہل اور انسانی اقدار مخالف سماج کا ترجمان تھا جو اپنی طاقت کے ساتھ پیغمبر اسلام اور الٰہی تعلیم کی مخالفت کر رہا تھا ۔
ان تمام برائیوں اور آخری پیغمبر کی نبوت کے مٹ جانے کے بیہودہ خیالوں کے جواب میں الله نے پیغمبر کو کوثر (فاطمہ)عطا کیا ۔ اور آپ کی شان میں سورہٴ کوثر نازل فرمایا۔ اگر اس سورہ کی تفسیر خیر کثیر بھی کی جائے تب بھی یہ سورہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کی ذات پر منطبق ہوگا۔ کیونکہ پیغمبر اسلام اور حضرت علی علیہ السلام کی نسل سے گیارہ امام حضرت زہرا سلام الله علیہا کے ہی بیٹے ہیں۔ اور حجت خدا حضرت امام مہدی علیہ السلام جن کے وجود سے الله اس جہان کو عدل و انصاف سے پر فرمائے گا وہ بھی آپ کے ہی بیٹے ہیں۔ آج ہمیں دنیا کے ہر کونے میں پیغمبر اسلام کی اولاد نظر آرہی ہے جن میں بہت سے جید علماء بھی ہیں یہ سب اولاد حضرت زہرا سلام اللهعلیہا ہی ہیں۔
یہ خیر کثیر ، یہ کوثر،اور یہ پاک و پاکیزہ نسل قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی خدا کا شکر کہ پیغمبر کی نسل ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔
پیغمبر اسلام کے جگر کا ٹکڑا:
اپنے بچوں سے ہر انسان محبت کرتا ہے، یہ ایک فطری چیز ہے اور اسے ثابت کرنے کے لئے کسی استدلال کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ اس جذبہٴ محبت کانتیجہ ہے جس کو الله نے ہر انسان کے وجود میں ودیعت فرمایا ہے ۔ اسی وجہ سے ماں باپ رات بھر جاگ کر تمام پریشانیاں برداشت کرتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو آرام پہونچانے کی خاطر ہر طرح کی مصیبت کو گلے لگا لیتے ہیں ۔ البتہ یہ محبت ہر انسان میں الگ الگ درجہ میں پائی جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں میں بہت کم ، کچھ لوگوں میں ضروری حد تک اور کچھ میں بہت زیادہ۔
بہت زیادہ محبت دو وجہ سے ہوسکتی ہے:
(۱) جہالت و نادانی کی بنا پر: ایسی محبت سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور یہ محبت ان کے لئے نفع بخش نہ ہو کر مضر ثابت ہوتی ہے ۔
(۲) اولاد میں پائی جانے والی خوبیوں کے سبب: ایسی محبت بچوں کی قدردانی کی دلیل ہے اور اس محبت کی وجہ سے ان کے اندر پائی جانے والی صلاحتیں اجاگر ہوتی ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ پیغمبروں میں جہالت و نادانی نہیں پائی جاتی۔ خاص طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تو اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آپ اشرف مخلوقات اور عقل کل ہیں۔ آپ کا ہر عمل عقل و حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔
جو انسان آخری پیغمبر کی شکل میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آیاہو، نہ وہ بیہودہ باتیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرسکتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا سچا اور امین ہوتا ہے کہ خداوند عالم قرآن کریم میں اس کے اخلاق و کرادر کی تعریف کرتا ہوا کہتا ہے کہ” آپ خلق عظیم کی منزل پر فائز ہیں۔“
اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد اب ہم پیغمبر اسلام کے اس جملہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے حضرت زہرا سلام الله علیہا کے بارے میں فرمایا کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہونچائی ۔
آپ کا ”ام ابیہا “ قرار پانا:
عربوں میں رسم ہے کہ ہر انسان کی ایک کنیت ہوتی ہے اور وہ احتراماً ایک دوسرے کو اسی کنیت سے پکارتے ہیں ۔ پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم حضرت زہرا سلام الله علیہا کا اتنا احترام کرتے تھے کہ آپ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ آپ کو آپ کی کنیت ام ابیہا سے خطاب فرماتے تھے۔ ام ابیہا یعنی اپنے باپ کی ماں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام کی والدہ کا آپ کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیاتھا اس لئے آپ اپنی ماں کے بعد حضرت فاطمہ بنت اسد یعنی حضرت علی علیہ السلام کی والدہ سے بہت محبت کرنے لگے تھے اور آپ ہی کو ماں کہتے تھے ۔ جب ان کا انتقال ہو توپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم بہت غمگین ہوئے اور فرمایا کہ آج میری ماں اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
اس کے بعد الله نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو فاطمہ عطا فرمائی۔ جب آپ فاطمہ کو دیکھتے تھے تو آپ کو فاطمہ بنت اسد یاد آجاتی تھیں اور آپ فاطمہ کی شکل میں انھیں کو دیکھنے لگتے تھے۔ اسی لئے آپ نے حضرت زہرا سلام الله علیہا کے لئے” ام ابیہا“ کنیت کا انتخاب فرمایا۔ ہاں! حضرت زہرا سلام الله علیہا پیغمبر اسلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ماں کے مثل بھی تھیں۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شادی:
جب حضرت زہرا سلام الله علیہا جوان ہوئیں تو انسان کامل میں پائے جانے والے تمام کمالات آپ کی ذات میں موجود تھے۔ چمکتا ہوا چہرہ ، نیک اخلاق، خاندانی شرافت، کلام کی فصاحت و بلاغت اور دیگر تمام کمالات جن کی تعداد سے الله آگاہ ہے ، آپ میں پائے جاتے تھے۔ ان ذاتی کمالات کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ اس لئے بہت سے اشراف و غیر اشراف انسان آپ سے شادی کے متمنی تھے ۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبر اسلام فاطمہ کی شادی ہمارے ساتھ کرنے پر راضی ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان میں سے ایک امیدوار ابوبکر بھی تھے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جواب میں فرمایا: ” میں ابھی الله کے فیصلہ کا منتظرہوں۔“
عمر نے بھی اپنی تمنا کا اظہار کیا مگر انھیں بھی وہی جواب سننا پڑا جو پہلے سن چکے تھے ۔ انس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف اور عثمان بن عفان پیغمبر کے پاس آئے ، عبد الرحمٰن نے عرض کیاکہ آپ فاطمہ کی شادی میرے ساتھ کر دیجئے، میں مہر میں دس ہزار دینار اور مصر کے قیمتی کپڑے سے لدے ہوئے کالے رنگ کے ہری آنکھوں والے ایک سو اونٹ دوں گا۔
عثمان نے کہا کہ میں بھی اتنا مہر دینے کے لئے تیار ہوں آپ مجھ پر لطف فرمائے کیونکہ میں نے عبد الرحمٰن سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو جلال آگیا اور آپ نے کچھ سنگریزے اٹھا کر عبد الرحمٰن کی طرف پھینکے اور فرمایا تو میرے سامنے اپنی دولت پر فخر کرتا ہے ؟ وہ سب سنگریزے موتیوں میںتبدیل ہوگئے اور ان میں کا ایک ایک در عبد الرحمٰن کی تمام دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔
ابھی حضرت زہرا سلام الله کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ مدینہ جاکر آبادہوگئے۔ وہاں پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں رہتے تھے اور آپ کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ آپ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے سب سے پہلے انسان تھے اور آپ کی ذات اتنے کمالات کامرکز تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپ سے حسد کرنے لگے تھے۔ آپ اپنے کمالات کی بنا پر تمام انسانوں میں اس طرح نمایاں تھے جیسے آسمان پر سورج نمایاں رہتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام و حضرت زہرا سلام الله علیہا دونوں ایک خاندان سے تھے تو کیا حضرت زہرا کے لئے حضرت علی علیہ السلام سے ، اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے حضرت زہرا سلام الله علیہا سے بہتر شریک حیات ہو سکتا تھا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے فاطمہ زہرا سلام الله علیہا سے شادی کی تمنا ظاہر نہیں کی؟
کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :”اگر الله نے حضرت علی علیہ السلام کو پیدا نہ کیا ہوتا تو حضرت زہرا کا کوئی کفو نہ ہوتا۔“ ابن مسعود نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: ”الله نے مجھے فاطمہ کی شادی علی ﷼ کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔“ کچھ بھی ہو ایک دن ایسا آہی گیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس تمنا کا اظہار فرمایا ۔
زوجہٴ رسول جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے کانوں میں دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب سنتی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ دروزاہ کھولو اور کہو کہ اندر آجاؤ،کیونکہ آنے والا وہ ہے جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتاہے اور وہ بھی الله اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے۔ اسی دوران علی علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے حضرت زہرا سلام الله علیہا کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں بات چیت کی ۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر پیغمبر کا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور آپ نے فرمایا: ”اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ کی شادی علی سے کروں ، آسمان پر الله نے فاطمہ کی شادی علی سے کردی ہے۔“ جو بھی ہوا ہو یہ مبارک شادی ہوگئاور حضرت زہرا سلام الله علیہا کا مہر چارسو اسی درہم قرارپایا ۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کیا۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس رقم کو چند حصوں میں تقسیم فرمایا:
ایک سو ساٹھ درہم عطر کے لئے۔ایک سو ساٹھ درہم لباس کے لئے۔ چھیاسٹھ درہم گھر کے سامان کے لئے اورچھیانوے درہم جناب ام سلمہ کو دئے کہ انھیں دیگر اخراجات کے لئے اپنے پاس رکھو۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس مختصر سامان کو خریدنے کے لئے کچھ لوگوں کو معین فرمایا۔ ہم یہاں پر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام الله کے گھر کے سامان کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں اسے نمونہٴ عمل قرار دیں اور محبت پر مبنی بابرکت زندگی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
(۱) لباس سات درہم
(۲) چارد چاردرہم
(۳) مقنعہ چار درہم
(۴) کھجور کی پتیوں کا بنا تکیہ
(۵) دوگدے جن میں سے ایک میں بھیڑ کی اون اور دوسرے میںکھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں۔
(۶) چار چمڑے کے تکیے جن میں اذخر نامی خوشبودار گھاس بھری ہوئی تھی۔
(۷) ایک نازک اونی پردا
(۸) ایک چٹائی
(۹) جو پیسنے کے لئے ایک چکی
(۱۰) کپڑے دھونے کا تشت
(۱۱) ایک لکڑی کا پیالہ
(۱۲) پانی کا جگ
(۱۳) ایک صراحی
(۱۴) ایک لوٹا
(۱۵) ایک سبز رنگ کا سفالی کا مٹکا
(۱۶) چندمٹی کے برتن
(۱۷) ایک چمڑے کا گدا
(۱۸) ایک چارد
یہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کا جہز تھا جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ پیغمبر اسلام نے تمام چیزوں کو ہاتھوں میں لے کر دیکھا اور فرمایا: ”الله اس سامان کو اہل بیت کے لئے مبارک قرارد ے۔“
ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہہ آپ نے فرمایا: ” اے لله ! اس سامان کو اہل بیت کے لئے مبارک قرار دے کہ اس میںاکثر برتن سفالی کے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا کی آمد پر جو انتظام فرمایا تھا اس کی تفصیل یہ ہے:
(۱) سونے کے کمرے میں باریک و نرم ریت بچھا دیا گیا تھا۔
(۲) کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے دونوں دیواروں کے بیچ ایک لکڑی لگا دی گئی تھی ۔
(۳) گوسفند کی کھال بچھا کر اس پر کھجور کی پتیوں سے بنا ایک تکیہ رکھ دیا گیا تھا ۔
(۴) دیوار میں ایک کھونٹی گاڑ کر اس پر ایک تولیہ لٹکا دیا گیا تھا ۔
(۵) ایک صراحی کا انتظام کیا گیا تھا۔
(۶) آٹا چھاننے کے لئے ایک چھنی مہیا کی گئی تھی۔
یہ تھا دین و دنیا کے امیر حضرت علی علیہ السلام کے گھر کا سرمایہ۔
ہاں! حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی بڑی سادگی کے ساتھ ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ولیمہ کرکے حضرت زہرا سلام الله علیہا کو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔
اس مبارک گھر کی بنیادجس طرح رکھی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اس شادی کے نتیجہ میں جومبارک اولاد وجود میں آئی ان کے نور نے اس دنیا کو اس طرح منور فرمایا کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان بخوبی واقف ہے۔ ہم یہاں پر فقط حضرت زہرا سلام الله علیہا کی اولاد کے ناموں کو بیان کررہے ہیں: ۳ ئھ ․ق میں ۱۵/رمضان المبارک کو حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، ۴ ئھ․ق میںتین شعبان المعظم کو حضرت امام حسین علیہ السلام ، ۶ ئھ․ق میں حضرت زینب سلام الله علیہااور پھر جناب ام کلثوم اس دنیا میں تشریف لائیں ۔ ان چار اولادکے علاوہ آپ کے ایک محسن نامی بیٹے بھی تھے۔ جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس وقت شہید ہوگئے تھے جب ظالموں نے حضرت زہرا سلام الله علیہا پر دروازہ گرایا تھا اور آپ درو دیوار کے پس گئیں تھیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے فضائل قرآن میں:
قرآن کریم میں حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شان میں بہت سی آیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم اس مقالہ میں اشارہ کررہے ہیں۔
(۱) سورہٴ دہر:
شیعہ و سنی دنوں فرقوں کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حسنین علیہم السلام بیمار ہوئے ، پیغمبر اسلام ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لئے نذر مانی جائے!
حضرت علی علیہ السلام نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین روز روزہ رکھنے کی نذر مانی ، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور گھر کی کنیز نے بھی یہی نذر کی۔
حسنین علیہم السلام کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا ۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور فضہ نے روزہ رکھا۔ حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں افطا رکے لئے کچھ نہ تھا ۔ حضرت کا ایک پڑوسی اون کا کاروبار کرتا تھا لوگ اس سے کچا مال لے جاتے اور اون تیار کرکے دیتے تھے اور اس کام کے بدلہ اپنے کام کی مزدروی حاصل کرتے تھے۔ حضرت بھی اس کے پاس گئے اوراس سے اس معاملہ پر کچھ جو حاصل کئے کہ جو کی قیمت کی برابر حضرت زہرا سلام الله علیہا اس کے لئے اون تیار کریں گی۔
جو کو پیس کر افطار کے لئے کچھ روٹیاں تیار کی گئیں۔ افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی علیہ السلام کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا ۔ جب حضرت علی علیہ السلام گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا ، تمام اہل بیت اور فضہ دسترخوان پر آکر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آکر آواز دی اے اہل بیت نبوت آپ پر میرا سیلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی دیدیجئے خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالہ کردی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا سلام الله علیہا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کرکے بھوکے سو گئے۔اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔ جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے اور سورہٴ دہر کی آیتوں کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت علیہم السلام کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔
(۲) آیہٴ اجر رسالت:
<قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ> یعنی اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابیداروں سے محبت کی جائے۔ اس مقالہ میں اب تک جو بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اہل بیت پیغمبر (قربیٰ) کو ن ہیں؟ حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شہادت کے واقعہ سے یہ پتہ چلے گا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی وصیت اور اس آیت پر کس طرح عمل کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر گمراہ لوگوں کو نقصان ہوا اور انھوں نے اس راستہ کو طے کیا جس سے پیغمبر اسلام کو اذیت پہونچی۔ یہ آیت وہ شاہد اور حجت ہے جس کے ذریعہ حضرت زہراسلام الله علیہااس وقت احتجاج کریں گی جب ظالموں کو سزا اور مظلوموں کو ان کا حق دینے کے لئے خالق کائنات کی عدالت برپا ہوگی۔ وہاں پر ظالم اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں گے۔
(0) آیہٴ مباہلہ:
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے الله کے پیغام کو پہونچایا اور انسانوں پر حجت کو تمام کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور حق کی مخالفت کرنے لگے۔ الله نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرو اور ان سے کہو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں ، تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لائیں،تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم اپنے نفسوں کو لائیں اور مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر الله کی لعنت قرار دیں۔
حق کو قبول نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ عیسائیوں کا بھی تھا۔ وہ مباہلہ کے لئے تیار ہوگئے اور اس کے لئے چوبیس ذی الحجہ کا دن معین ہوا ۔ جیسے جیسے مباہلہ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لوگوں کی بیچینیاں بڑھتی جارہی تھیں کہ دیکھیں اب پیغمبر اسلام کیا کریں گے؟
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام اس شان سے اپنے گھر سے نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لئے ہوئے تھے ،حضرت امام حسن علیہ السلام کا داہنا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت زہرا سلام الله علیہا آپ کے پیچھے چل رہیں تھیں اور حضرت علی علیہ السلام ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آج پیغمبر اسلام کے لئے بیٹے حسنین علیہم السلام ،نفس علی، اور خاتون حضرت زہرا سلام الله علیہا تھیں۔ نصاریٰ نجران یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام بادشاہوں کی طرح شان و شوکت اور بھیڑ بھاڑ کے ساتھ میدان میں آئیں گے لیکن جب انھوں نے پیغمبر اسلام کو اس شان سے آتے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپ اور آپ کے اہل بیت اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے سب سے بڑے عالم سے کہنے لگے اے ابوحارث! دیکھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں ان انسانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ الله کو قسم دے کر یہ کہیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں تو وہ ایسا ہی کرے گا ۔ حضرت عیسیٰ کی قسم اگر محمد دعا کریں گے تو کوئی عیسائی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
(0) آیہ تطہیر: انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً
کیونکہ آیہٴ تطہیر کی تفصیل کے لئے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر اس کی طرف اشارہ کرکے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ شیعہ وسنی علماء کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت حضرت زہرا سلام الله علیہا آپ کے بابا ، ، آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں کی شان میں نازل ہوئے۔
حدیث کساء سے ظاہر ہے کہ اس کی شان نزول کا محور بھی حضرت زہرا سلام الله علیہا کی ہی ذات ہے۔ الله نے یہ آیت آپ کی شان میں نازل کرکے فرمایا کہ اے اہل بیت بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے ہر رجس کو دور رکھے اور آپ کو اسی طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا کے فضائل بہت زیادہ ہیں ہم نے تو اس مقالہ میں آپ کے فقط چند فضائل کی طرف ہی مختصر سا اشارہ کیا ہے ۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا پیغمبر اسلام کے سوگ میں :
۱۱ ئھ ․ق ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا اور وہ یہ کہ اس سال پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ۔ یہ اتنا شدید صدمہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی زبان پر آپ کے لئے یہ جملے جاری ہوئے : ”اے پیغمبر خدا! آپ کی رحلت سے وہ سلسلہ ختم ہوگیا جو کسی دوسرے کے مرنے سے ختم نہیں ہوتا۔ یعنی الله اور مخلوق کے درمیان کا رابطہ ختم ہوگیا سلسلہٴ وحی و نبوت بند ہوگیا۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں جو ہوا اس سب کو لکھنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر مختصر طور پر بس یہ لکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی وصیت کو بھلا دیا گیا، باغ فدک غصب کرلیا گیا، امام کو خانہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا، جس گھر میں جبرئیل بھی بغیر اجازت کے قدم نہیں رکھتے تھے اس میں آگ لگائی گئ۔ حضرت زہرا سلام الله کی ذات جو کمالات و فضائل کا مرکز تھی اور جن کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرامت کو بہت سی وصیتیں بھی فرمائیں تھیں ان کو درو دیوار کے بیچ اس طرح پیسا گیا کہ آپ کا پہلو شکستہ ہوگیا اور آپ کے بیٹے محسن کی شہادت واقع ہوئی۔ جب مہاجر و انصار میں سے کسی نے آپ کی مدد نہ کی تو آپ سے مایوس ہوگئیں۔
آپ ہر روز قبر رسول پر جاتیں اور اتنا روتیں کہ بے ہوش ہوجاتیں جب ان کو گھر لے کر آتے تھے اور وہ ہوش میں آتی تھیں تو پھر رونا شروع کردیتی تھیں۔ ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے آپ سے فرمایا: ”اے بنت رسول! مدینہ کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے علی! آپ زہرا سے کہہ دیجئے کہ یادن میں رویا کریں یا رات میں۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا نے جواب دیا اے ابوالحسن ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اب میں ان کے درمیان زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی میں جلدی ہی اپنے بابا کے پاس چلی جاؤں گی لیکن خدا کی قسم جب تک زندہ رہوں گی آرام سے نہ بیٹھوں گی۔
ہاں! آپ پیغمبر اسلام کے بعد اہل بیت پر اتنے ظلم ہوئے کہ پچھتر یا پچانوے دن تک حضرت زہرا سلام الله علیہا اتنا روئیں کہ آپ کا نام یاقوب جیسے رونے والوں کے ساتھ لیا جانے لگا۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا بستر شہادت پر:
بہر حال حضرت زہرا سلام علیہا کے غم و اندو کا زمانہ ختم ہوا ۔ ہر انسان کی طرح آپ نے بھی اپنی زندگی کے آخرت ایام میں حضرت علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی۔ لیکن آپ کی وصیت عام لوگوں سے جدا تھی۔ آپ نے وصیت کی کہ اے علی! مجھے شب کی تاریکی میں چھپا کر دفن کرنا تاکہ ظالم میری نماز جنازہ اور دفن میں شریک نہ ہو سکیں۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہرا سلام الله علیہا کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا لیکن ایک دن جب آپ سے کہا گیا کہ آپ کا تابوت ایسا بنایا جائے گا جس میں بدن کا اندازہ نہ ہو سکے گا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور آپ کے طاہر لبوں پر تبسم بکھر گیا۔ ہاں ! یہ وہ بی بی ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: نہ کوئی غیر مرد اسے پہچانے اور نہ وہ کسی غیر مرد کو پہچانے۔
یہ جملہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کو چاہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ایک درس ہے۔ ان کے برابر ہونا تو یقینا بہت مشکل کام ہے لیکن یہ ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ سلام الله علیہا کی نظر میں سب سے اہم چیز عورت کی عفت و عصمت ہے۔
اسی دوران حضرت زہرا سلام الله علیہا نے اسماء بنت عمیس سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حنوط سے جو کافور بچ گیا تھا اسے لے کر آؤ۔ اس کے بعد آپ نے پانی طلب فرمایا اور غسل کیا اور ایک چادر اوڑھ کر لیٹ گئیں۔ اسماء سے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دینا اگر جواب نہ ملے تو سمجھنا کہ فاطمہ اپنے معبود کی بارگاہ میں پہونچ گئی ہے۔
جب اسماء نے تھوڑی دیر کے بعد آواز دی تو کوئی جواب نہ ملا اسماء نے دوبارہ آواز دی ۔
اے محمد مصطفےٰ کی بیٹی!
اے اشرف مخلوق کی بیٹی!
اے سب سے بہترین انسان کی بیٹی!
اے الله سے سب سے زیادہ نزدیک انسان کی بیٹی!
جب اسماء کی ان آوازوں پر بھی سکوت چھایا رہا اور حضرت زہرا کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اسماء نے آگے بڑھ کر آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا اور جو چہرے پر نظر پڑی تو اسماء سمجھ گئکہ رسول کی بیٹی اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔
حسنین علیہم السلام گھر میں داخل ہوئے اسماء سے سوال کیا کہ ہماری والدہٴ گرامی کہاں ہیں؟ اسماء خاموش رہی ۔ حسنین علیہم السلام ماں کے حجرے میں داخل ہوئے اب جو ماں کے جنازے پر نظر پڑی تو امام حسن نے امام حسین کو سینہ سے لگا کر ماں کا پرسہ دینا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے جب حسنین علیہم السلام نے جاکر ان کو ماں کی شہادت کی خبر سنائی تو کسی بھی میدان میں نہ گھبرانے والے علی یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش آیا تو فرمایا: ”اب میں اپنے غم کو کس کے سامنے بیان کروں؟ پیغمبر کے بعد آپ کے پاس سکون ملتا تھا اب کس کے پاس جاگر آرام حاصل کروں؟“
بنی ہاشم کی عورتیں جمع ہوئیںاورساکنان مدینہ جگر گوشہ رسول ، یادگار رسالت کے دنیا سے اٹھ جانے کے سبب چیخ مارتے ہوئے پیغمبر کے گھر میں جمع ہونے لگے ۔ یہ وہ فاطمہ زہرا سلام الله علیہا ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے امت کو بہت سی وصیتیں کی تھیں یہ بی بی دل میں غم و اندوہ کا توفان لئے اسلام و مسلمان کے مستقبل پر روتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوگئ۔
رات میں دفن:
حضرت زہرا سلام الله علیہا کی وصیت کے مطابق آپ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا ۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شہادت نے غم پیغمبر کو تازہ کردیا تھا ۔ مدینہ پر رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ، عوام یہ افسوس کرتے کرتے سو گئے تھے کہ ہم نے پیغمبر کی وصیت پر عمل کیوں نہیں کیا! مہاجر و انصار اس لئے خاموش تھے کہ فاطمہ ہم سے مدد مانگتی رہیں مگر ہم مدد نہ کرسکے ۔ گویا مدینہ پر سنناٹا چھایا ہوا تھا۔ ۱۳/ جمادی الاول یا ۳/ جمادی الثانی تھی، رات کا وقت تھا، ایک چھوٹا سا قافلہ پیغمبر کی امانت یعنی حضرت زہرا سلام الله علیہا کے جنازہ کو آخری منزل کی طرف لے جا رہا تھا ۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ جب کہ پیغمبر کی پیروی کا دعویٰ کرنے والوں سے مدینہ چھلک رہا تھا۔
اس طرح حضرت زہرا سلام الله علیہا کو دفن کیا گیا ۔ کچھ لوگوں نے رویات کی ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام الله علیہا کو دفن کردیا تو پیغمبر اسلام سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیا کہ اے پیغمبر خدا! آپ کے بعد امت نے کیاکیا اس کے بارے میں فاطمہ سے ہی معلوم کرلینا۔
اس وقت شدت غم سے مولا کا دل بھر گیا اور آپ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے
بنت رسول پر سلام:
اب ہم پیغمبر کی بیٹی کو سلام کرتے ہوئے اپنی بات کو تمام کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
اے جگر کوشہ رسول! آپ پر ہمارا سلام
اے پیغمبر کی کوثر آپ پر ہمارا سلام
اے علی کی شریکہ حیات آپ پر ہمارا سلام
اے معصوم اماموں کی ماں آپ پر ہمارا سلام
اے دنیا کی تمام عورتوں کی سردار آپ پر ہمارا سلام
اے فاطمہ ، زہرا، صدیقہ، مطہرہ، راضیہ، مرضیہ آپ پر ہمارا سلام
سلام اس دن پر جس دن آپ پیدا ہوئیں
سلام اس دن پر جس دن آپ شہید ہوئیں
سلام اس دن پر جس دن وارد محشر ہوکر محبان اہل بیت اور شیعیان اہل بیت کی شفاعت فرمائیں گی۔
”یا فاطمة الزہراء یا بنت محمد یا قرة عین الرسول یا سیدتنا یا مولاتنا انا توجہنا واستشفعنا وتوسلناک بک الیٰ الله وقدمناک بین یدیہ حاجاتنا یا وجیہاً عند الله شفعی لنا عند الله“
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید