تازہ ترین

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر/استاد حسین انصاریان

 حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: “

شئیر
45 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4239

امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں”۔

آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: “ابوھا فداھا” یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر “ساوہ” پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر “قم” کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔ 

اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا پرتپاک استقبال:

 علامہ مجلسی رہ تاریخ قدیم [378 ھجری قمری میں بڑے دانشمند حسن بن محمد کی طرف سے لکھی گئی] سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ھجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت س سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی رحلت اور کفن و دفن:

جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ س کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں “بابلان” کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ س کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ س کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انکی نماز جنازہ اور انکا دفن صرف معصوم ہستی ہی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن کچھ ممتاز ہستیاں اس امر میں معصومین علیھم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام کی ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دفن کیا۔ جب ان کے ساتھیوں نے ان کو مدد کرنے کو کہا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: “ان معنی یعیننی” یعنی میرے ساتھ [فرشتگان اور ملکوتیان] ہیں جو مجھے اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔ 

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور خصوصیات:

 قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیھم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے۔ “قاموس الرجال” کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں: “امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ہم پلہ نہیں ہے”۔ عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: “جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں”۔ آپ کی شخصیت کے بے کران فضائل کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ 

۱۔ قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت علیھم السلام کی شفاعت:

 شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مخصوص ہے جس کو قرآن مجید میں “مقام محمود” کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو “ولسوف یعطیک ربک فترضی” میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ سلام اللہ علیھا کے مہریہ میں شامل ہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے موقی پر جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا: “خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مہریہ قرار دیا ہے”۔ یہ حدیث برادران اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ: “حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے”۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم” یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔ 

۲۔ عصمت:

 اس روایت کے مطابق جو مرحوم سپھر نے “ناسخ” میں امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کی ہے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو امام علی رضا علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: “من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی” یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ اس روایت کو مرحوم محلاتی نے بھی نقل کیا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عصمت چودہ معصومین علیھم السلام تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام اور فرشتے بھی معصوم ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور بارہ امام علیھم السلام کا “چودہ معصوم” کے طور پر معروف ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گناھان کبیرہ اور صغیرہ سے محفوظ ہونے کے علاوہ ترک اولی، جو عصمت کے منافی نہیں ہے، سے بھی مبرا ہیں۔ مرحوم مقرم اپنی باارزش کتابوں “العباس” اور “علی اکبر” میں حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے معصوم ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مرحوم نقدی اپنی کتاب “زینب الکبری” میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی عصمت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح “کریمہ اہلبیت” کے مصنف حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عصمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا اسم مبارک “فاطمہ” ہے اور اپنی زندگی میں انہیں کبھی معصومہ کا لقب نہیں ملا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ان کو یہ لقب عطا کرنا انکی عصمت پر دلیل ہے۔ 

۳۔ فداھا ابوھا:

آیت اللہ سید نصراللہ مستنبط کتاب “کشف اللئالی” سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیھم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ 

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور انکے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے انکی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے انکے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: “فداھا ابوھا” یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ چونکہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔ 

۴۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا مزار،

حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی تجلی گاہ: اس سچے خواب کے مطابق جو مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی [متوفا 1338 ھجری قمری] سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ وہ مرحوم اس کوشش میں تھے کہ جس طرح بھی ہو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کا جگہ معلوم کریں۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: “علیک بکریمہ اھل البیت” یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیھا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: “جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں”۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: “میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر ہے”۔ پھر فرمایا: “کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ وہ عظمت جو حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کیلئے تھی خداوند عالم نے وہی عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو عطا کی ہے”۔ 

۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی:

 امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں ری کے اہالی سے ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں: “میرے فرزندان میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے”۔ راوی کہتا ہے: “میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے”۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی وفات کے بارے میں آپ کے والد ماجد کی ولادت سے پہلے پیش گوئی کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے

۶۔ قم کے مقدس ہونے کا راز:

 بہت سی احادیث میں قم کے مقدس ہونے کا ذکر ہوا ہے اور یہ کہ اس کی تصویر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوتھے آسمان پر دکھائی گئی۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے قم کے رہنے والوں پر درود بھیجا اور وہاں پر جبرئیل کے قدموں کے نشان ہونے کی خبر دی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے قم کو اہلبیت علیھم السلام کا گھر کہا ہے اور اسکی مٹی کو پاک و پاکیزہ جانا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے قم کو آل محمد علیھم السلام کا آشیانہ کہا ہے اور خبر دی ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ اہالی قم سے مخصوص ہو گا۔ امام علی نقی علیہ السلام نے قم کے لوگوں کو “مغفور لھم” یعنی بخشے گئے لوگ سے تعبیر کیا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم کے لوگوں کی حسن نیت کو سراہا ہے اور انکی اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔ اسی طرح کی دسیوں احادیث جو ائمہ معصومین علیھم السلام سے ہم تک پہنچیں ہیں اس سرزمین اور وہاں پر رہنے والوں کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظمت اور فضیلت کا راز کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی والی حدیث اس عظمت اور فضیلت کا راز کھولتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فضیلت اور عظمت ریحانہ پیغمبر، کریمہ اہلبیت، خاتون اسلام حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔ 

۷۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اکلوتی بہن:

 امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ گرامی جناب نجمہ خاتون نے دو بچوں کو ہی پالا جن کے نام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ محمد بن حریر طبری، پانچویں صدی ھجری کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین، نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 25 سال تک امام علی رضا علیہ السلام جناب نجمہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھے۔ ایک چوتھائی صدی کے انتظار کے بعد سرانجام ایک تابناک ستارہ جناب نجمہ خاتون کے دامن میں طلوع ہوا جو امام علی رضا علیہ السلام کیلئے خوشی کا باعث تھا اور آپ نے اپنے تمام برادرانہ عواطف ان پر نچھاور کر دیئے۔ ان بہن بھائیوں کے درمیان گہری محبت پائی جاتی تھی۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک واقعہ میں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا کردار بھی ہے جب نصرانی ان سے پوچھتا ہے کہ آ پ کون ہیں تو وہ فرماتی ہیں: “انا المعصومہ اخت الرضا” یعنی میں معصومہ امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہوں۔ اس تعبیر سے ان کے دل میں اپنے بھائی کیلئے پائی جانے والی بے حد محبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ 

۸۔ دعوت نامہ:

 ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا۔ لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کیلئے سخت مشکل تھی۔ یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو ایک خط لکھا اور ایک بااعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو دستور دیا کہ رستے میں کہیں نہ رکے تاکہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔

بشکریہ erfan.ir

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *