تازہ ترین

حضرت محمد بن عبد اللہ کی شخصیت و حیات کا سرسری جائزہ

خاتم الانبیاء، منجی عالم بشریت حضرت محمد بن عبد اللہ کی شخصیت و حیات کا سرسری جائزہ خاتم النبیین، سید المرسلین محمدبن عبد اللہ بن عبد المطلبؑ ، کی ولادت اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد ۱۷ ؍ربیع الاول سنہ ۱عام الفیل میں ہوئی، شیرخوارگی کا زمانہ بنی سعد میں گزرا پھر اپنی عمرکے […]

شئیر
14 بازدید
مطالب کا کوڈ: 859

خاتم الانبیاء، منجی عالم بشریت حضرت محمد بن عبد اللہ کی شخصیت و حیات کا سرسری جائزہ

خاتم النبیین، سید المرسلین محمدبن عبد اللہ بن عبد المطلبؑ ، کی ولادت اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد ۱۷ ؍ربیع الاول سنہ ۱عام الفیل میں ہوئی، شیرخوارگی کا زمانہ بنی سعد میں گزرا پھر اپنی عمرکے چوتھے یا پانچویں سال اپنی والدہ کے پاس لوٹے، چھہ سال کے ہوئے تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لے لیا اور ان کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا دو سال تک آپؐ ان کی کفالت میں رہے پھر ان کا انتقال ہو گیا لیکن دادا نے اپنی وفات سے پہلے آپ کی پرورش و سرپرستی کی ذمہ داری آپؐ کے شفیق چچا حضرت ابوطالب ؐ کے سپرد کر دی تھی چنانچہ آپؐ شادی ہونے تک انہیں کے ساتھ رہے۔

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں بحیرا نامی راہب سے ملاقات ہوئی۔ بحیرا نے آپؐ کو پہچان لیا اور ابوطالبؑ سے کہا: دیکھو! ان کے سلسلہ میں خبردار رہنا کیونکہ یہودی انہیں قتل کرنا چاہیں گے۔

بائیس سال کے ہوئے تو معاہدۂ حلف الفضول میں شریک ہوئے آنحضرتؐ اپنے اس اقدام پر فخر کیا کرتے تھے۔ خدیجہ کے مال سے تجارت کے لئے شام کا سفر کیا، عنفوان شباب میں پچیس سال کی عمر میں جناب خدیجہ سے عقد کیا اس سے قبل آپ صادق و امین کے لقب سے شہرت پا چکے تھے، چنانچہ جن قبیلوں میں حجر اسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں نزاع و جھگڑا تھاانہوں نے حجر اسود کو نصب کرنے کے لئے آپ کو منتخب کیا تاکہ کسی قبیلے کو اعتراض نہ ہو۔ پس آپ ؐنے ایک انوکھا اور عمدہ طریقہ کا ر اپنایا جس سے تمام قبیلے خوش ہو گئے۔

چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے، خدا کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیاوہ اپنے معاملات میں گہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے انصار و مہاجرین میں سے جو لوگ مومن تھے انہیں جمع کیا۔

تین یا پانچ سال تک آپ لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد خدا نے آپ کو یہ حکم دیا کہ اپنے اقربا کوڈراؤ! پھر یہ حکم دیا کہ اپنی رسالت کا اعلان کرو اور عام طور پر لوگوں کو علیٰ الاعلان اسلام کی دعوت دوتا کہ جو مسلمان ہونا چاہتا ہے وہ مسلمان ہو جائے۔

اسی زمانہ سے قریش نے آپؐ کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا شروع کر دی اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنے کے لئے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا پیغام عام نہ ہونے پائے۔ اس صورت حال کے پیش نظر رسولؐنے مکہ سے باہر اپنی دعوت کا ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا اور وہ یہ کہ جب حبشہ کے بادشاہ (نجاشی) نے مسلمانوں کو حبشہ میں خوش آمدید کہا تو رسولؐ نے مسلمانوں کی کئی جماعتوں کو وہاں بھیجدیا جنہوں نے جعفر بن ابی طالب ؑ کی قیادت میں وہیں بود و باش اختیار کر لی اور ۷ ھ   تک جعفر نے حبشہ نہیں چھوڑا۔

جب قریش ، نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک نیا راستہ اختیار کیا اور آپؐ کے خلاف سماجی، اقتصادی اور سیاسی پابندی عائد کر دی، اس پابندی کا سلسلہ تین سال تک جاری رہا لیکن جب قریش رسولؐ، ابوطالب اور تمام بنی ہاشم کو اپنے سامنے نہ جھکا سکے تو پابندی ختم کردی مگر جب رسولؐ اوران کا خاندان کامیابی کے ساتھ محاصرے سے باہرنکلا تو بعثت کے دسویں سال انہیں ابوطالب اور جناب خدیجہ کا غم اٹھانا پڑا رسولؐ کے لئے یہ دونوں حادثے جاں گسل تھے کیونکہ آپؐ ایک ہی سال میں دو بڑے مددگاروں سے محروم ہو گئے تھے ۔

بعض مورخین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ معراج بھی اسی سال ہوئی تھی حالانکہ نبیؐ اس عظیم غم میں مبتلا تھے اور نبیؐ پر ذہنی دباؤ تھا کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ قریش آپ کی رسالت کی راہ میں دشواریاں پیدا کر رہے ہیں لہذا خداوند عالم نے آپ ؐپر آفاق کی راہیں روشن کر دیں اور آپؐ کو اپنی عظیم آیتیں دکھا ئیں چنانچہ معراج ،رسولؐ اور تمام مومنوں کے لئے ایک عظیم برکت تھی۔نئے مرکز کی تلاش میں رسولؐ نے طائف کی طرف ہجرت کی لیکن مکہ سے قریب ہونے اور اس کی آب و ہوا سے متاثر ہونے کے باوجود وہاں آپؐ کو کامیابی نہ ملی اور مکہ واپس آ گئے مطعم بن عدی کی ہمسائیگی اختیار کی اور موسم حج میں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے از سرنو سرگرم عمل ہوئے۔ ان لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا جو حج کرنے کی غرض سے مکہ یا تجارت کے لئے عکاظ کے بازار میں آتے تھے، اہل یثرب سے آپؐ کی ملاقات کے بعد خدا نے آپ کی کامیابی کے دروازے کھول دئیے چنانچہ یثرب میں نشر اسلام اور لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خدا نے آپؑ کو یہ خبر دی کہ قریش کے جوانوں نے آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنا لیا ہے لہذا آپؐ نے بھی یثرب کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا چنانچہ حضرت علیؑ کو اپنے بستر پر لٹایا اور تمام خطروں کے سایہ میں یثرب کی طرف ہجرت کر گئے ، یثرب والوں نے آپ ؐکے استقبال کی پوری تیاریاں کر رکھی تھیں، ربیع الاول کے شروع میں آپؑ ’’قبا‘‘ پہنچے آپؐ کی ہجرت اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز قرارپائی۔

پہلے سال میں آپؐ نے بتوں کو توڑ کر مسجد نبویؐ تعمیر کی اسے اپنی سرگرمی اور تبلیغ و حکومت کا مرکز قرار دیا، مہاجر ین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تاکہ اس طرح ایک قومی و عوامی مرکز بن جائے جس پرنو تشکیل حکومت کی بنیاد یں قائم کی جا سکیں اس کے علاوہ ایک دستاویز مرتب کی جس میں قبیلوں کے ایک دوسرے سے روابط کے ضوابط تحریر کئے یہودیوں کے سربراہوں سے معاہدے کئے یہ اسلامی حکومت کے عام اصولوں پر مشتمل تھے۔

اس نو تشکیل اسلامی حکومت اور اس نئی اسلامی تحریک کو قریش کی پیدا کی ہوئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، قریش نے اسلامی تحریک و تبلیغ اور اسلامی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم محکم کر رکھا تھا اسی لئے مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے جنگ کی آگ بھڑکائی گئی، نبیؐ اور مسلمانوں کے لئے اپنا دفاع کرنا ضروری ہو گیا۔

اس نو تشکیل حکومت کے دفاع ہی میں سالہا سال گزر گئے پہلی جنگ ہجرت کے ساتویں مہینے میں آپؐ کے چچا جناب حمزہ کی قیادت میں ہوئی، ہجرت کے پہلے سال میں تین جنگیں ہوئیں، اس سال بہت سی آیتیں نازل ہوئیں تاکہ نبیؐ کی حکومت اور امت کے لئے دائمی احکام مرتب ہوجائیں، اس طرح خاتم المرسلین اور آپکی نو تشکیل حکومت کے خلاف منافقوں کا منصوبہ ناکام ہو گیا اور یہودیوں کی سازش بے نقاب ہو گئی۔

رسول اور آپ کی حکومت کے خلاف قریش نے مدینہ کے باہر سے اور یہودیوں نے مدینہ کے اندر سے محاذ جنگ کھول دیا جس کی وجہ سے رسولؐ کو ان سب پر نظر رکھنا پڑی چنانچہ دوسرے سال میں آٹھ غزوات اور سرایا ہوئے ان میں سے بدر کبریٰ بھی ہے جو رمضان المبارک میں ہوئی تھی۔ اس وقت ماہ رمضان کے روزے واجب ہو چکے تھے اور قبلہ بھی تبدیل ہوچکا تھا۔

اس سے امت مسلمہ اور اسلامی حکومت کوایک طرح کی خود مختاری نصیب ہوگئی تھی۔

دوسرے سال ایک طرف تو جنگ میں فتح ملی دوسری طرف سیاسی اور اجتماعی قوانین بنے،اہل قریش بدر میں شکست کھانے سے اور یہودی بنی قینقاع کی جلا وطنی سے آزمائے گئے بنی قینقاع یہودیوں پہلا وہ قبیلہ تھا جس نے بدر کبریٰ میں مسلمانوں کی فتح کے بعد رسولؐ سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑ کر مدینہ کو وطن بنا لیا تھا تین سال تک مسلسل قریش باہر سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتے رہے اور یہودی رسولؐ سے کئے ہوئے عہد کو توڑتے رہے چنانچہ یہ پانچ جنگیں، احد، بنی نضیر، خندق، بنی قریظہ اور جنگ مصطلق، رسولؐ اور مسلمانوں کے لئے بہت گراں تھیں۔

جب مسلمان اچھی طرح آزما لئے گئے اور پانچویں سال خدا نے مختلف گروہوں اور یہود یوں کے جھگڑوں سے انہیں نجات عطا کی اور اس طرح خدا نے فتح مبین کا راستہ ہموار کر دیا اورکفار و مشرکین مسلمانوں کی شوکت کو مٹانے سے مایوس ہو گئے۔ صلح حدیبیہ کے بعد رسولؐ نے ان قبیلوں سے معاہدہ کیا جو آپؐ کے ساتھ رہتے تھے اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ ان قبیلوں کے اتحاد کوشرک و الحاد کے مقابلہ میں طاقتور بنا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ۸ھ میں خدانے آپ کو فتح مکہ سے سرفراز فرمایا۔ قریش کے سرکش افراد آپ کی سیاست و حکومت کے سامنے جھک گئے اور آپ نے جزیرۃ العرب کو شرک سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

۹ھ   میں مدینہ میں قبائل اور وفود کی آمد میں اضافہ ہو گیا لوگ جوق در جوق دین خدا میں داخل ہو رہے تھے۔

 ۱۰ ھ   میں حجۃ الوداع کا واقعہ ہوا یہ آخری سال ہے جو آپؐ نے اپنی امت کے ساتھ گزارا اس میں آپ ؐ نے اپنی عالمی حکومت اور اپنی امت کو تمام امتوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔

اپنی اسلامی حکومت کے پایوں کو مضبوط کرنے کے بعد ۲۸، صفر ۱۱ھ   کو وفات پائی اور اسلامی حکومت کے لئے معصوم قائد معین کیا جو آپ کا خلیفہ و جانشین اور آپؐ کی راہ پر چلنے والا ہے اور وہ ہیں علی ؑ بن ابی طالبؑ یہ وہ رہبرکامل ہیں جن کی تربیت آغاز ولادت سے خود رسولؐ نے کی ہے اور تا حیات ان کی نگرانی و سرپرستی کی چنانچہ حضرت علی ؑ نے بھی اپنی فکر و سیرت اور کردار میں اسلام کے اقدار کو مجسم کر دکھایا آپؑ نے ا طاعتِ رسولؐ اور آنحضرتؐ کے امر و نہی پر عمل کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی حقیقت تو یہ ہے کہ ولایت کبریٰ، وصایت نبویہ اور خلافت الٰہیہ کا نشان آپؑ ہی کو زیب دیتا ہے ، رسولؐ نے ان کے وجود کی گہرائی میں اسلامی (رسالت)پیغام، انقلاب الٰہی اور حکومت نبویؐ کے نظام کی محبت کو راسخ کیا تاکہ آنحضرتؐ کی عدم موجودگی میں علیؑ حکم خدا سے رسولؐ کے پہلے خلیفہ بن جائیں۔

رسولؐ نے سخت حالات کے باوجود حضرت علیؑ کو مسلمانوں کا ہادی و خلیفہ مقرر کرنے کے بعد اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہا۔ اور اس طرح آپؐ نے طاعت خدا اور اس کے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہونے میں اعلیٰ مثال قائم کی۔ حکمِ خدا کی بہترین طریقہ سے تبلیغ کی اور فصیح وبلیغ خطبہ کے ساتھ حجّت تمام کی ۔

 

 

ماخوذ از کتاب منارہ ہدایت، جلد ۱، ناشر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *