تازہ ترین

حکمرانو ؛پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دیں

وطن عزیز پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ کوئی نئی بات نہیں ـ عرصہ دراز سے فرقہ واریت کی آگ میں پاکستانی مسلمان جل رہے ہیں ـ اس ملک میں مذہبی تعصب ختم ہونے کا نام لے رہا ہے جس سے اس ملک کے مکینوں کے جانی و مالی ایسے نقصانات ہوئے جو شاید قابل جبران نہیں ـ
پاکستان کی امنیت اور سالمیت کے دشمنوں نے پوری منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو گروہ در گروہ میں تقسیم کیا ، ان کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا،انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنادیا،ان کی عقل اور شعور پر جزبات کا غلاف چڑھایادیا، ان کی سوچنے اور سمجھنے کی قوت پر پردہ ڈالا، ان سے بصیرت اور نفع ونقصان کے درمیان تمییز پیدا کرنے والی صلاحیت چھین لی اور انہیں دوبارہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ۔

شئیر
32 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5517

بدون تردید پاکستان کی سرزمین پر ضیاء الحق کے دور حکومت میں فرقہ واریت کو عروج ملا، اس نے اپنی حکمرانی کی طاقت سے بہت سوء استفادہ کیا،اس نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر آل سعود کے اشارے پر وطن امن پاکستان میں ناصبیت اور وہابیت کو مسلمانوں کے درمیان پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع فراہم کر دیاـ چنانچہ مسلمانوں پر کفریہ فتوے جاڑنے والے ناصبی ٹولے نے آہستہ آہستہ پاکستان میں اپنے پنجے مضبوط کیا،مدارس کا جال بچھایا، جن میں بچوں کو جعلی احادیث اور قرآن کی تفسیر بالرای کی خشک تعلیم دینے کے ساتھ دہشگردی کی اچھی طرح تربیت دینے میں شب وروز کام کیا، در نتیجہ ایسے مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی اکثریت نے شوق جہاد اور حورجنت کی لالچ میں عزاداری کی جلوسوں ،عید میلاد النبی وجمعہ کے اجتماعات سمیت قومی و ملی اداروں اور تعلیمی وتجارتی مراکزکو نشانہ بناکرلاتعداد بے گناہ مسلمانوں کے خون ناحق سے اپنے نجس ہاتھوں کو رنگین کیا ،جس کا سلسلہ شدت وضعف کے فرق کے ساتھ بدستور جاری ہے ۔
یاد رہے اسی ٹولے نے داعش کو وجود میں لایا تھا جس کی سر پرستی آل سعود اور امریکہ کررہے تھے ،لیکن گروہ داعشی کو شام، یمن اور عراق کی جنگہوں میں جب ذلت آمیز شکست ملی تب سے ناصبیوں پر نیند حرام ہوئی اور وہ ایک پل کے لئے بھی سکون محسوس نہیں کررہے ہیں ،چنانچہ حسینیت کے ہاتھوں داعش کی ہر جگہ ہونے والی پسپائیوں نے ایک بار پھر کربلا اور حسین ع کے ماننے والوں کے خلاف اس ٹولے کو اپنی ناکام زور آزمائی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا ـ گرچہ وہ حسینیت کے خلاف محاز آرائی کرنے کے لئے ہمیشہ موقعےکی تلاش میں رہتے ہیں،وہ شیعوں کی اقلیت اور اپنی اکثریت پر ناز کرتے ہوئے پاکستان کی سرزمین پر آئین پاکستان کی کھلی مخالفت کرتے ہوئےحسینیوں سے آزادی رائے وبیان چھین کر انہیں اپنی خواہشات کا تابع بنانے کے درپے رہتے ہیں ،وہ بیچارے اس بات سے یکسر غافل رہتے ہیں کہ کربلا میں 72 نفر نے تیس ہزار سے ذیادہ تعداد پر مشتمل لشکر اعداء سے مقابلہ کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ہیں ـ حادثہ کربلا کے بعد تحریک کربلا دنیا بھر کی تحریکوں کے لئے منارہ نور ثابت ہوا ہے ـ چنانچہ آج بھی حسین ، کربلا اور عزاداری کے نام سےیذیدیت پرلرزہ طاری ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف یزید کا نام رہتی دنیا تک کے لئے دشنام بن گیا اور ہر باشعور مسلمان اس پر صبح شام لعنت بھیجنے کو اپنی روح کی تسکین کا باعث سمجھتا ہے ۔
پاکستان کی سرزمین پر نواسہ رسول کی عزاداری شروع ہوتے ہی تکفیری اور ناصبی گروہ کی جنونیت نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے ، یہ ٹولے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو بام عروج پر پہنچانے کے لئے مختلف بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں ـ اس مزموم شیطانی عزم وارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انہوں نے محرم سے پہلےتحریک لبیک پاکستان کے چئرمین مولوی اشرف عاصف جلالی کو متحرک کرکے رسول خدا ؐ کی عظیم بیٹی جوانان سردار کی عصمت وطہارت کی مالکہ ماں حضرت فاطمہ الزھرا(س) کی عصمت کے حوالے سے بکواسات بکوائے، اس شنیع حرکت پر بلا تفریق شیعہ سنی تمام مسلمانوں نے اس پر لعنت بھیجی در نتیجہ وہ رسوا ہوا ـ
اس کے بعد انہوں نے بڑی ڈٹائی سے شان صحابہ کی گستاخی کی تہمت شیعوں پر لگائی اور کہا یہ لوگ صحابہ کی منزلت کے قائل نہیں وغیرہ اس حوالے سے اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ شیعہ سنی کے درمیان اختلافی بحث یہ ہے کہ کیا تمام صحابہ عادل تھے یا بعض صحابہ عادل نہیں تھے ؟ اہل سنت تمام صحابہ کو عادل کہتے ہیں شیعہ تمام صحابہ کی عدالت کے قائل نہیں بلکہ اصحاب میں سے جو قابل اعتماد تھے، حق پر تھے جیسے عمار یاسر، مقداد ،بلال، ابوذر و .. ان سے شیعہ دینی تعلیمات لیتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، ان کی گفتار رفتار اور کردار کو اپنے لئے آئڈیل سمجھتے ہیں ۔ لیکن مخالف لوگ شیعہ دشمنی میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ اصحاب کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، شیعہ اصحاب کا دشمن ہیں ، شیعہ اصحاب سے بغض رکھتے ہیں و… اس نامطلوب ہدف تک رسائی کے لئے وہ بعض ضعیف اور غیر معتبر چیزوں اور خود ساختہ تفسیروں کا سہارا لیتے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ انہیں تعصب اور شیعہ دشمنی کی وجہ سے اصحاب کے بارے میں شیعہ کتابوں میں موجود وہ مطالب نظر نہیں آتے جو اصحاب کی شان میں ہیں۔حتی شیعہ دشمنی میں انہیں اپنی کتابوں میں ہی اصحاب کے بارے میں موجود وہ مطالب نظر نہیں آتے جنہیں یہ شیعوں کی طرف نسبت دے دے کر شیعوں کے خلاف لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں ۔۔۔ بعنوان مثال :
1: اصحاب میں سے بعض کا بدعتی ، مرتدد اور جہنمی ہونا:
[ بخاری کتاب الرقاق باب ،کیف الحشر ،باب فی الحوض/صحیح مسلم کتاب فضائل باب اثبات خوض نبینا [ص]
2: اصحاب کا پیغمبر کی نافرمانی کا مرتکب ہونا:
[سنن بن ماجہ کتاب المناسک ، باب فسخ الحج/سنن نسائی ،کتاب عمل الیوم و الیل ،بات مایقولاذا رای الغضب فی وجہہ/۔ مسند احمد، مسند الکوفیین ،حدیث براء بن عاذب۔] صحیح بخاری ،کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم ۔
3: بعض اصحاب کا شرابی ہونا :
السنن الکبرىللبیہیقی، کتاب الاشربہ و الحد ، باب ما جاء فی وجوب الحد/ المصنف لعبد الرزاق ،کتاب الاشربہ ،کتاب ،شرب فی رمضان/ مسند احمد ،مسند الانصار ، حدیث بریدہ اسلمی ۔/مصنف ابن أبی شیبہ،کتاب الامراء ،باب ماذکر فی حدیث الامراء ]
4: بعض اصحاب کا بعض کو گالی دینا :
[سنن بن ماجہ کتاب ،فضل علی بن ابی ظالب /مصنف ابن أبی شیبہ ،کتاب فضائل ،باب فضلء علی بن ابی طالب /صحیح مسلم ،کتاب فضائل صحابة ،باب فضائل علی بن ابی طالب ۔
5: بعض کا خلیفہ سوم کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں اور ان کے کا قاتلوں میں سے ہونا : [الطبقات الکبری لابن سعد [3 /74] تاریخ الطبري [3 /424] البدایة والنهایة [7 /207] تاریخ إسلام لذهبی [3 /456]
6: اصحاب کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی :صحیح بخاری ،کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی من الزنا۔ کتاب الاحکام باب ،مایکرہ من الحرص / جامع الأصول من أحادیث الرسول کتاب الخلافة و الامارة[سقیفة بنی ساعدة کی داستان]السنن الکبری للنسائي ، کتاب القضاء ،باب الحرص علی الامارہ ۔
7: خود اصحاب کے دور میں رسول خدا کی تعلیمات کا ضائع ہوجانا۔[صحیح بخاری ،کتاب مواقیت الصلواة، باب تضیع الصلواة عن وقتها و باب فضل صلواة الفجر/الموطا ،باب نوادر/ شعب ایمان ،باب فصل صلواة الخمس۔]
8: جناب عمر کا سنت پیغمبر کی نقل پر پابندی لگا ۔جامع بیان العلم وفضله باب ذکر ذم الاکثار من الحدیث /شرح مشکل الآثار (15/ 317)معرفة السنن والآثار للبهیقی (1/ 146)
ایسے ہی مطالب سے خود ان کی اپنی کتابیں بری پڑی ہیں لیکن یا یہ لوگ ان چیزوں سے جاہل ہیں یا تعصب اور شیعہ دشمنی نے انہیں عدل و انصاف سے دور کر دی ہے، لہذا الٹا چور کتوال کو ڈانٹتا ہے کی فارمولے پر عمل کرتےہیں
پھر انہوں نے محرم شروع ہوتے ہی نواسہ رسول ؐ اور ان کے جان نثار اصحاب کے مصائب، ان کی بے مثال قربانی اور عظیم کارنامے کو کم رنگ کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ یکم محرم کو حضرت عمر کی شہادت ہوئی تھی … اسے بھی شیعہ علماء ودانشوروں سمیت اہلسنت کے تعلیم یافتہ تاریخ پر عبور رکھنے والی شخصیات نے یکسر طور پر مسترد کیا اور مفتی گلزار سمیت بہت سارے مفتیان کرام نے اس طرح تاریخ مسخ کرنے والوں کی بھر پور مذمت کی ـ اس فتنے کے دفن ہوتے ہی انہوں نے ایک غالی ذاکر کی غلط وناروا حرکت کو بہانہ بنا کر پوری ملت تشیع کو نشانہ بنانے کی کوشش کی در حالیکہ ایسے جاہل ذاکروں سے خود شیعہ پہلے سے تنگ تھے ،انہوں نے بہت سوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہوئی تھی ، آصف علوی نامی ذاکر کے بارے میں تمام شیعہ ذمہ داران نے یہ اعلان کررکھا تھا کہ اس کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اسے شیعہ کھاتے میں ڈال کر پوری شیعیت کو متہم کرنے پر ڈٹے رہے، انہوں نے شیعہ ذمہ داروں کی بات پر کان دھرنے کی زحمت نہیں کی جب کہ شیعہ نقطہ نظر سے وہ ایک غالی اور مشرک ذاکر ہے، وہ کرائے کا ناطق اور خون حسینی کا تاجر ہےـ اس ذاکر کےحوالے سے اہلسنت کے ان بعض مفتیوں کے رد عمل سےمجھے ذاتی طور پر بڑاتعجب ہوا جو زبردست تعلیم یافتہ باشعور ہونے کے باوجود اس کی غلطی میں پاکستان کی پوری ملت تشیع کو ملوث کرنے پر مصر رہے ـ ان کا استدلال بھی انتہائی ناقص تھا ـ مثال کے طور ایک صاحب کی دلیل یہ تھی کہ اگر عاصف علوی ذاکر کا تعلق شیعوں سے نہیں تو اسے شیعہ مجلس میں پڑھنے کی دعوت ہی کیوں دی گئی ـ کیا اسے سننے والے مجلس میں بیٹھے افراد بھی شیعہ نہیں و۔۔ قبلہ موصوف سے ایسی خشک اور بے جان دلیل کی توقع ہرگز نہ تھی ـ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا ـ اس حوالے سے فقط یہ عرض کروں گا کہ کسی ایک فرد کی غلطی میں ساری قوم کو جھونکنے کی کوشش کرنا سراسر ناانصافی اور منطق کے خلاف ہے ـ یقینا علم منطق کی ابتدائی بحثوں میں ان کی نظر اس بات پر پڑی ہوگی کہ جزء کو دیکھ کر کل پر حکم نہیں لگایا جاسکتا ـ اس کے علاوہ جب شیعہ علماء نے اسے مسترد کیا ہے اور صاف اعلان کیا ہے کہ اس کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں تو آپ نے بزور بازو اسے شیعیت کی صف میں داخل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟کیا اسے بہانہ بناکر بڑے فتنے کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی مقصد ہوسکتا ہے ؟ اس موقع پر وہ شیعوں کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کا تاریخی فتوا کیوں بھول گئے جنہوں نے یہ واضح فتوی دیا ہوا ہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے چاہئے وہ خلفاء اہلسنت کے متعلق ہو یا پھر ازواج پیغمبر ؐ کے عنوان سے ہو ۔منطقی بات یہ ہے کہ نہ آصف جلالی کی غلطی میں سارے اہلسنت کو ملوث کرنا دانشمندی ہے اور نہ آصف علوی کے جرم میں سارے شیعوں کو متہم کرنا عقلمندی ہے ـ
مسلمانوں کو بیدار رہنا چاہئے کہ ناصبی ٹولے اور مولویوں نے اہلسنت کے لباس میں عاشورا ئے حسینی کے بعد ایک اور فتنے کو ہوا دینے کی ناکام کوشش شروع کی ہے ،وہ شیعیت سےاظہار رائے وبیان کی آذادی سمیت ان سے ان کے اعمال عبادات اور اعتقادات کے مسلمہ حق کو چھین کر جینے کا خواب دیکھ رہے ہیں ، یہ اس ٹولے کی جنونیت کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ پاکستان کو اب اپنے باپ کی جاگیر سمجھنے لگے ہیں کچھ شرم وحیا بھی ہوتی ہے نادانو، پاکستان کو کافرستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے والوں میں اتنی جرات پیدا ہوئی ہے کہ خون پسینہ ایک کرکے پاکستان بنانےاور اس کی حفاظت کرنے والوں سے اب وہ ان کی عبادی زندگی سلب کرنے کی باتیں کررہے ہیں ،ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ زیارت عاشورا شیعوں کا حرز جان ہے، یہ ہماری دنیا اور آخرت کی سعادت کی کنجی ہے اور یہ ہمارے ائمہ کی تعلیمات کاایک انمول حصہ ہے ـ عبادات اور اعمال میں مسلمانوں کی آذادی ریاست پاکستان کے قانون کا بنیادی حصہ ہے کوئی مائی کا لال یزید ومعاویہ کی محبت میں مسلمانوں کے اعمال وعبادات پر قدغن نہیں لگاسکتا
البتہ ہمارے قائدین کی بھی آنکھیں اب کھلنی چاہئے ،اتحاد طرفینی مسئلہ ہے ،ایک طرف سے دوسروں کے مسلمہ عقائد پر حملہ ہو جائے تو یہاں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا فارمولا ہی گارگر ثابت ہوگا نہ چھپ کا روزہ ـ عقائد پر سمجھوتہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں بلکہ اس موقع پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے پوری شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹینڈ لینے کی ضرورت ہے ـ ہمارا انصاف حکومت کے ذمہ داروں خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر پلانینگ کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو لگام دیں، دوسروں سے حق زندگی چھیننے کا خواب دیکھنے والوں کو قانونی دائرے میں کھینچ کر سزا دلوائیں، مخصوصا ان ناصبی یزیدی مولویوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے میں دیر نہ کریں جو وجود پاکستان کے مقاصد کو پاؤں تلے روندتے ہوئے مکتب آل محمد سے تعلق رکھنے والوں کے اعمال اور عبادات پر انگلی اٹھارہےہیں اور اپنی بے بنیاد باتوں اور بکواسات کے ذریعے بے چارے سادہ لوح عوام کو فرقہ واریت کی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں ـ حکمرانو پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والوں کو لگام دیں ـ
تحریر : محمد حسن جمالی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *