تازہ ترین

خبر اور کہانی میں بڑا فرق ہوتا ہے جناب!

سالار سلیمان(ایکپسریس نیوز) جب پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا تو متنازعہ اسٹوری چھاپ کر کس کو فائدہ پہنچانا گیا ہے؟ چلیں مان لیا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور یہ ستون دیگر ستونوں کی طرح ہی اہم ہے۔ میڈیا کا بنیادی کام یہ […]

شئیر
29 بازدید
مطالب کا کوڈ: 542

سالار سلیمان(ایکپسریس نیوز)

جب پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا تو متنازعہ اسٹوری چھاپ کر کس کو فائدہ پہنچانا گیا ہے؟

چلیں مان لیا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور یہ ستون دیگر ستونوں کی طرح ہی اہم ہے۔ میڈیا کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ خبر کو جاری کرے تاکہ عوام الناس با خبر رہ سکے لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں چونکہ الٹی گنگا بہتی ہے اور ہم تماشے لگانے کے شوقین ہیں تو لہذا کچھ عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی کارنامہ سر انجام دے دیتے ہیں۔

ماضی میں بھی یہی ہوا تھا کہ نامور صحافی حامد میر پر جب کراچی میں حملہ ہوا تو ایک نجی چینل نے اپنے ملازم کیلئے ہر حد پار کردی۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ بغیر تحقیقات کیے حملے کا الزام ڈی جی آئی ایس آئی پر لگادیا، بات یہاں بھی نہیں رکی بلکہ اُن کی تصویر کو اسکرین پر لگا کر آٹھ گھنٹے تک اُن کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ اِس قسم کا یہ یقیناً واحد معاملہ تھا۔ لیکن اب کی بار جو ایک انگریزی اخبار نے حرکت کی ہے وہ بھی کچھ کم نہیں کہ ملکی سلامتی کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ ادارے کی جانب سے سرل المیڈا نامی رپورٹر نے دنیا کو ایک کہانی سنائی۔ میں اِس کو اسٹوری کو خبر کے بجائے کہانی کیوں کہہ رہا ہوں اِس کا تذکرہ میں آگے جا کر کروںگا۔ پہلے مختصراً یہ پڑھ لیں کہ سرل کی کہانی کا لب لباب کیا تھا۔

سرل کے مطابق ایک اجلاس میں فارن سیکرٹری نے پریزنٹیشن پیش کی۔ اجلاس میں فوج اور حکومت دونوں کے نمائندگان موجود تھے۔ حکومت نے آخر میں کہا کہ فوج کو حکومتی معاملات میں بلاوجہ کی مداخلت بند کرنا ہوگی۔ حکومت کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کیلئے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی تاہم مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جب بھی حکومت کارروائی کرنے لگتی ہے تو ایجنسیاں بیچ میں آکر مداخلت کرتی ہیں۔ دوسرا اہم امر یہ تھا کہ حکومت کو پٹھان کوٹ حملوں کی تحقیقات کی تکمیل کیلئے ازسرِ نو کارروائی کرنی چاہئے، مزید براں ممبئی حملوں کے رُکے ہوئے کیسوں کی سماعت بھی دوبارہ سے شروع کی جانی چاہئے۔ خبر میں آگے بیان کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور پھر ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں میاں نواز شریف نے اپنا کردار ادا کیا۔

یہ تو ہوگئی کہانی، لیکن کیا یہ کہانی سچ ہے؟ یا پھر جھوٹ پلندہ؟ اس کے لئے اس کا پوسٹ مارٹم کرنا ضروری ہے۔ بادی النظر میں یہ کہانی ’ہاف ککڈ‘ ہے یعنی کہ اِس میں آدھا سچ بیان کیا گیا ہے اور وہ سچ بھی اپنی مرضی کا ہی بیان کیا گیا ہے۔ یہ باتیں انشاءاللہ تحقیقات میں بھی ثابت ہوجائیں گی اور یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ یہ خبر نہیں بلکہ کہانی تھی۔ میری اس معاملے میں جنرل حمید گل مرحوم کے بیٹے عبد اللہ گل سے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے نہایت ہی شفقت سے میری پوری بات سنی اور مجھے بتایا کہ جس گروپ نے اس اسٹوری کو شائع کیا ہے اُس کی نیشنل انٹرسٹ کے حوالے سے بہت ہی عجیب اور مبہم پالیسیاں ہیں۔ مذکورہ گروپ عموماً الٹی طرف ہی چلتا ہے۔ میں بھی اُن کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔

خیر، اِس وقت تو میں سرل سے اُس کی اسٹوری کے حوالے سے چند سیدھے سادھے سے سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ چاہیں تو جواب دے دیں، اگر جواب یہاں نہیں دیے گئے تب بھی تحقیقات میں تو بہرحال سب بتانا ہی ہوگا۔

جب پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا تو متنازعہ اسٹوری چھاپ کر آپ کس کو فائدہ پہنچانا چا ہ رہے ہیں؟

اگر اِس خبر کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز ہوا تو کیا آپ اِس پوزیشن پر ہیں کہ اپنی دی گئی اسٹوری کو ٹھیک ثابت کرسکتے ہیں؟ جس نے آپ کو خبر لیک کی ہے کیا وہ تحقیقات میں یہ اقرار کرسکتا ہے کہ ہاں اُس نے ہی آپ کو خبر دی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا اور اِس صورتحال میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید آپ بہت ہی معصوم ہیں جو سستی شہرت کے حصول کی خاطر پھنس چکے ہیں۔

کیا آپ اُس کمرے میں موجود تھے، کسی صوفے کے نیچے چھپے ہوئے تھے جو آپ کو ساری کارروائی، اس کے الفاظ اور حتیٰ کہ لب و لہجہ ہی نہیں بلکہ کہاں پر خاموشی ہوئی اور کہاں آوازیں بلند ہوئی سمیت ہر باریکی کا علم ہے؟

عبداللہ گل صاحب نے مجھے ایک بات اور بھی بتائی جو کہ نہایت ہی اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ فوج کو ’’سیڈیشن ایکٹ‘‘ کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہر اُس فرد سے تفتیش کرسکتی ہے جو کہ قومی مفاد کے منافی کام کررہا ہو۔ مزید براں ہر صحافی متعلقہ اداروں کو اپنی اسٹوری کے سورس بتانے کا پابند ہے۔ سرل جانے اور اُس کا معاملہ جانے، میری ذاتی نظر میں تو کہانی کی سچائی پر سوالات ہیں اور ٹھیک ٹھاک سوالات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں بار بار اِس کو نیوز کہنے کے بجائے کہانی کہہ رہا ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی عمل کے بعد یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ اِس کا فائدہ کس کو ہوا۔ بس اِسی فارمولے کو مدنظر رکھ کر اِس خبر کے بعد اگر بھارتی میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ نہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اِس خبر کے بعد سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور بھارتی میڈیا کو ہوا ہے جس نے خبر کے سامنے آتے ہی پاکستان کے خلاف ایک بار پھر پوری طاقت سے زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔۔

اختتام پر ایک بات میں مزید قوم کے سامنے رکھنا چاہوں گا کہ ایک امریکی سفیر جو کہ اب افغانستان میں تعینات ہیں اور پہلے پاکستان میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں انہوں نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان میں 270 ملین ڈالر کی خطیر رقم ’’Perception Management‘‘ کیلئے مختص کی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 2004ء سے اب تک پاکستان میں پرسیپشن مینجمنٹ کی مد میں 1.4 بلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ رقم کس کو؟ کتنی؟ کب؟ کیسے؟ کس طرح؟ کس لئے؟ کس وقت؟ دی گئی۔ اس کا جواب تو امریکی سفیر ہی دے سکتے ہیں لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جب وقت آتا ہے تو بہت سے نمک حلالی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ چلیں، آپ اپنے آقاؤں کا نمک حلال کیجئے ہم دھرتی ماں کا نمک حلال کرتے ہیں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *