خدا کے حکم کے اجراء پر موفق ہونے کیلئے پانچ احکام/ احمد علی جواہری
پہلے فرماتاہے: یقینا ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے۔(انا نحن نزلنا علیک القرآن تنزیلا)
تنزیلا: قرآن کے تدریجی نزول کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام کو پانچ حکم دیتا ہے۔
1۔ اب جبکہ یہ بات ہے تو اپنے پروردگار کے احکام کی تبلیغ اور ان کے اجراء میں صبر شکیبائی سے کام لے۔(فاصبر لحکم ربک)
2۔ تمنحرفین کے ساتھ ہر قسم کے میل جول سے منع کرتے ہوئے کہتا ہے: ان میں سے کسی گنہ گار اور کافر کی اطاعت نہ کر۔(ولا تطع آثما اوکفورا)
یہ پہلے حکم پر تاکید ہے کیونکہ کفار کی سازش تھی کہ پیغمبر کسی طرح اس دعوت سے رک جائے۔ جیسے کہ مال و دولت وغیرہ کی لالچ دیتے تھے۔
۳۔ لیکن چونکہ ان عظیم مشکلات کے ہجوم کے مقابلہ میں صبر و استقامت کوئی آسامن کام نہیں ہے اور اس راستے کو طے کرنے کیلئے دو خاص قسم کے زاد راہ کی ضرورت ہے۔ لہٰذا بعد والی آیت مین مزید کہتاہے: اپنے پروردگار کے نام کا ہر صبح و شام ذکر کر۔(واذکراسم ربک بکرة و اصیلا)
بکرہ: دن کی ابتدا اور آغاز کے معنی میں ہے جبلہ اصیل اس کا نقطہ مقابل ہے، یعنی دن کاآخری حصہ۔
5۔۴۔ اور رات کے وقت اس کیلئے سجدہ کر وار رات کے زیادہ حصہ میں اس کی تسبیح کر۔(ومن اللیل فاسجد له و سبحه لیلا طویلا)
لیلا طویلا:ایک حدیث میں امام علی ابن موسی الرضا سے اس کی تفسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد نماز شب ہے۔
ایک تنبیہ:
گزشتہ آیات میں پیغمبر ؐ کو خبردار کیا تھا کہ وہ آثم و کفور کی اطاعت نہ کریں۔ ان کا مزید تعارف کراتےہوئے کہتی ہیں: وہ اس دنیا کی جلدی گزرجانے والی زندگی کو دوست رکھتے ہیں، جبکہ ایک سخت اور سنگین دن کو اپنے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔(ان هوءلاء یحبون العاجلة ویذرون وراءهم یوما ثقیلا)
اور انہیں خبردار کرتا ہے کہ وہ اپنی قدرت و توانائی پر غرور نہ کریں، کیونکہ یہ سب خدا کی عطا ہے اور جب وہ چاہے گا اچانک واپس لے لے گا لہٰذا فرماتاہے کہ : ہم نے انہیں پیدا کیا ہے اور ان کے جوث بندوں کو مضبوط بنایا ہے اور انہیں قدرت و طاقت عطا کی ہے اور جس وقت ہم چاہیں گے انہیں لے جائیں گے اور ان کی جگہ دوسرے گروہ کو ان کا جانشین بنادیں گے۔(نحن خلقناهم و شددنا اسرهم و اذا شئنا بدلنا امثالهم تبدیلا)
اسر: باندھنا، انسانی وجود کے جوڑ بندوں کو مستحکم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے بعد ان تمام مباحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے: یہ ایک تذکرہ اور یارآوری ہے ، پش جو شخص چاہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کی طرف راستہ اختیار کر لیتا ہے۔(ان هذا تذکرة فمن شاء اتخذ الی ربه سبیلا)
ہماری ذمہ داری تو راستہ دکھادینا ہے نہ کہ انتخاب راہ پر مجبور کرنا۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اپنی عقل و ادراک کے ذریعہ حق کو باطل سے پہچانو اور اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ راسہت کا انتخاب کرو۔
اور چونکہ یہ ممکن ہے کہ کوتاہ فکر افراد اوپر والی تعبیر سے بندوں کیلئے تفویض اور مطلق سپرگی کا تصور کرلیں، لہٰذا بعد والیآیت میں اس توہم کی نفی کے لئے مزید کہتا ہے : تم کسی چیز کو نہیں چاہتے مگر یہ کہ خدا چاہے، کیونکہ خدا علیم و حکیم ہے۔(وما تشاءون الا ان یشاء الله ان الله کان علیما حکیما)
اور یہ حقیقت میں (الامر بین الامرین) والی مشہور اصل کا اثبات ہے، ایک طرف خدا نے راستہ تو بتادیا ہے اس کا انتخاب تمہارے ہاتھ میں ہے جبکہ دوسری طرف مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔
اور آخر کار اس سورہ کی آخری آیت میں نیکو کار اور بدکاروں کی سرنوشت کی طرف ایک مختصر اور پر معنی جملہ کے ساتھ اشارہ کتے ہوئے فرماتا ہے کہ : خدا جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کیلئے اس نے دردناک عذاب فراہم کر رکھا ہے۔(یدخل من یشاء فی رحمته والظالمین اعدلهم عذابا الیما)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت کے آغاز میں کہتا ہے کہ جس شخص کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے لیکن آیت کے آخر میں عذاب کو ظالموں کیلئے مخصوص قرار دیتا ہے اور یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کی عذاب کیلئے مشیت ، انسان کے ظلم و گناہ کا ارادہ کرنے کیلئے بعد ہے۔ اور مقابلہ کے قرینہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ رحمت میں بھی اس کی مشیت ایمان، عمل صالح اور اجرائے عدل میں انسان کے ارادہ کے بعد ہے اور ایک حکیم و دانا سے اس کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔
——————–
تفسیر نمونه ج۱۴، ص۵۰۸
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید