تازہ ترین

خواتین کا مقام اور حقوق امام خمینی کی نظر میں/ تحریر ح ۔ب۔ حیدری

مقدمہ 

بیسویں صدی کے بڑے بڑے سیاسی و معاشرتی کارناموں اور اسلامی انقلاب کے واقعات میں مسلمان خواتین کی پوری قوت و شوکت کےساتھ شراکت نے اسلامی حلقوں میں عورتوں سے متعلق معاشرتی مباحث کے دائرے میں ایک نیا طرز فکر جنم دیا ہے آج دنیا کی آبادی کا نصف اعظم عورتوں سے تشکیل پایا ہے لہذا ان کی خصوصیات اور توانائیوں کی شناخت و پہچان انسانی حیات میں بڑا ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر عصر حاضر میں خواتین کے کردار کو مثالی طور پر اجاگر کرنے والی شخصیت امام خمینی (رہ )کے فرامین اور نظریات کی روشنی میں خواتین کے مقام اور حقوق پر مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

شئیر
80 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4291

اسلام میں خواتین کا مقام:

عورتوں کے سلسلے میں بڑے ہی مختلف و متضاد خیالات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں جس کا بنیادی سبب افراط و تفریط سے کام لینا کہا جاسکتا ہے ۔ اسلام نے نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ابتدائی مراحل سے ہی خواتین کے حقوق کا احیاء اپنی تعلیمات میں سر فہرست قرار دیا ۔ خواتین کی تخلیقی اور مزاجی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی وجودی اور انسانی حقیقت کو مردوں کے مثل و مساوی قرار دیا اور مرد و عورت دو نوں کی سرشت ایک قرار دی ۔ اور حضرت امام خمینی رضوان اللّہ علیہ کے لفظوں میں” اسلام نے عورت کو“ شیئیت کے درجے سے نکال کر ایک مستقل ”شخصیت“ عطاکی ہے اور اس کو حقیقی مقام و منزلت سے آشنا بنایا ہے ۔ عورت ایک الہی وجود ہے اور اسلام کے انقلابی مکتب میں ، وہ مردوں سے زیادہ آزادی و انسانیت کی بشارت دیتی ہے ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسانی تاریخ کے طویل دور میں کفر و شرک کی حکمرانی کے سبب قدیم و جدید ہر دور میں مختلف شکلوں سے اس کو ذلت و حقارت کے ساتھ کنیز و خدمتگار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کی صرف ظاہری شکل و صورت پر نظر رکھی گئی اور لوگ عیش و مستی کے کھلونوں کی طرح اس سے کھیلتے رہے خصوصا´ عصر حاضر میں تو فیشن اور جدت کے نام پر اس سے بد ترین شکل میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، ایک عورت کے الہی پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اور لطف یہ ہے کہ سنہری شمشیر سے عورت کاگلا کاٹنے والے یہی افراد خواتین کے حقوق اور آزادی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور اپنی حقیقت و عظمت سے ناآشنا خواتین کا ایک گروہ ان کی ”شیطانی آیات “میں اپنی رہائی اور نجات کی راہ تلاش کر رہا ہے اور اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ لوگ ان کو حیات نہیں موت کے دلدل میں ڈھکیل دینے کے درپے ہیں۔

انقلاب اسلامی اور خواتین کا حقیقی چہرہ :

عصر حاضر میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک بار پھر خواتین عالم کے لئے عصر جدید کی جہالت اور سامراجی قید و اسیری سے رہائی کی راہیں کھلی ہیں اور عورت کا ”حقیقی الہی چہرہ “دنیا کے سامنے نمودار ہواہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے اس ”انقلابی چہرے “ کی تصویر کشی میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللّہ علیہ نے بڑا ہی اہم کردار ادا کیا ہے وہ اپنے حق آخریں پیغامات میں کہا کرتے تھے : ”میں جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں سے چاہتا ہوں کہ وہ اپنی آزادی و خود مختاری اور انسانی معیارات کو، چاہے رنج و زحمت ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ، مغرب اور اس کے آوارۂ ملک وقوم آلہ کاروں کے ذریعے کھولے گئے برائیوں کے اڈوں میں جانے اور عیش و عشرت اور تجملات کی زندگی گزارنے پر قربان نہ کریں“ ۔ اور جب وہ اپنی بات خواتین اسلام کے قلوب میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دنیا کے سامنے پورے افتخار کے ساتھ اعلان کرتے ہیں ۔” ہماری محترم خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ مغرب کی پر فریب سازشوں کا شکار نہیں ہوئی ہیں ۔

انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ عفت و پاکدامنی کا محکم قلعہ ہیں اور ملک و معاشرے کوصحیح و سالم توانا فرزند اور حیا و عفت کی پیکر بیٹیاں تقدیم کریں گی اور ان راہوں پر ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں جو بڑی طاقتوں نے ان کی تباہی و بردباری کے لئے ان کے سامنے کھول رکھی ہیں “۔ ایک پاک و پاکیزہ مثالی معاشرے کی تخلیق میں ماں کی حیثیت سے خواتین کا جو کردار ہے اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ عشق ومحبت اور ایثارو قربانی کا اعلیٰ ترین جوہر رکھنے والی ”مائیں “ہی ایسے بچوں کی پرورش و تربیت کرسکتی ہیں جو کمال انسانیت پر فائز ہوسکیں ۔ ”انسان سازی “سے بہتر اور شرافت مندانہ اورکون سا کام ہو سکتا ہے ؟ اور خدا نے یہ عظیم خدمت خواتین کے سپرد کی ہے کہ وہ اعلی ترین انسانی کمالات سے خود کومزین کریں اور انسان کہلانے کے سزاوار بچے ملک و قوم کے حوالے کریں ۔ امام خمینی رضوان اللّہ علیہ نے خواتین کو اس مسئلے کی طرف ان الفاظ میں متوجہ کیا ہے کہ” آپ کی آغوش ایک مدرسہ ہے اور اس میں عظیم جوانوں کی آپ کو پرورش کرنی ہے لہذا آپ کمالات حاصل کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کی آغوش میں صاحب کمال بن سکیں “۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں:” آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں انہیں اسلامی تربیت دیں ، انہیں انسان بنائیں اور مجاہد بنائیں “اور اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے کہ : ”یہ لوگ اسلام کے فرزند ہیں اور اس کے بعد اسلام اور خود آپ کے ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوگی “۔ یہ جو بات کہی گئی ہے کہ” مائیں ایک ہاتھ سے گہوارہ جنبانی کرتی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے دنیا کو حرکت دیتی ہیں“ ۔ تو یہ اسی لئے ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے سلسلے میں ماؤں کا بڑا ہی اہم کردار ہے ۔

مکتب امام  رہ میں ماں کامقام :

ماں کی آغوش امام خمینی رضوان اللّہ علیہ کی نظر میں ایک مدرسے اور مکتب سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ایک مقام پر فرماتے ہیں ۔ ”ماں کی آغوش سب سے بڑا مدرسہ ہے جس میں بچہ تربیت پاتا ہے وہ جو کچھ ماں سے سنتااور سیکھتا ہے اس سے مختلف ہے جو وہ اپنے استاد سے سنتا ہے “۔ اس سلسلے میں ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماں اپنے نونہالوں کی طرف سے عمر کے کسی بھی حصے میں غافل و بے بوجہ نہیں ہوتی اس کی نگاہیں ہر آن اپنے بچوں کاطواف کیا کرتی ہیں وہ ان کو ان کے حال پرچھوڑ دیں اور ان کی طرف سے بے پروا ہوجائیں یہ ان کی مامتا کے خلاف ہے البتہ ضرورت سے زیادہ پیچھے پڑا رہنا بھی ، بچوں کو چڑ چڑا اور اپاہج بنا سکتا ہے لہذا دیکھ بھال میں بھی توازن ضروری ہے، جوانوں میں استقلال و خود مختاری کے ساتھ شخصیت سازی کا جذبہ پایا جاتا ہے لیکن وہ نئے تجربات سے گزرتے ہیں اور بعض حالات میں انہیں ایک قابل اعتماد، مشیر اور ہم راز و ہم درد دوست اور سہیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فریضہ ایک باشعور ماں بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرسکتی ہے ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رہبر کبیر امام خمینی (رہ) نے خواتین کو بار بار نصیحت کی ہے کہ آپ اپنے بچوں کی خوب حفاظت کیجئے ، خوب تربیت کیجئے ، کیونکہ یہ بچے ہی ایک ملک کو نجات عطاکرتے ہیں ۔

وہ کہا کرتے تھے ۔” اگر آپ ایک دیندار بچہ معاشرہ کے حوالے کریں گی تو ممکن ہے ایک وقت میں آپ دیکھیں کہ یہی دیندار و پابند مذہب بچہ ایک پورے معاشرے کی اصلاح کردیتا ہے “۔ جہاں تک نمونۂ عملی کا سوال ہے تاریخ اسلام و آدمیت میں ماؤں بیویوں ، بہنوں اور بیٹیوں سبھی کےلئے بہترین اسوہ اور نمونۂ عمل رسول اسلام ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا کردار ہے جنہوں نے رسول اسلام ﷺ کی بیٹی کی حیثیت سے اگر” ام ابیہا “ کا خطاب پایا اور علی ابن ابی طالب کی بیوی کے طور پر” بہترین کفو“ قرار پائیں تو اپنی عصمت مآب آغوش میں نہ صرف امام حسن اور امام حسین ؑ کو پالا ہے بلکہ ایک خاتون کی حیثیت سے جناب زینب ؑ اور ام کلثوم ؑ جیسی بیٹیاں اسلام اور اسلامی معاشرہ کے حوالے کی ہیں جو نہ صرف آپ کی تعلیم و تربیت کا شاہکار ہیں بلکہ تاریخ اسلام کا وہ بے نظیر کردار ہیں کہ جن کی ان کے عہد کے پانچ اماموں نے مختلف زمانوں میں ضرورت محسوس کی ہے اور ان کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا ہے

امام خمینی( رہ) اور خواتین کے حقوق 

خواتین کے بارے میں اسلام کے بعض مسائل اور احکام جیسے مردوں اور خواتین کے بعض حقوق میں پائے جانے والا اختلاف، کام (جاب) کرنے کا حق، معاشرے کے اجتماعی امور میں شرکت کا حق، طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہونا وغیرہ کا شمار ایسی اہم اسلامی تعلیمات میں ہوتا ہے جو مغربی مفکرین کے خیال میں انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ امام خمینی رح نے اپنی تقاریر میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جنہیں ہم مندرجہ ذیل 6 کلی عناوین کے تحت بیان کریں گے۔

 انسان ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت میں فرق کا نہ ہونا

امام خمینی رح فرماتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں اور مرد یا عورت کی حیثیت سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں بلکہ انسانوں کے ایکدوسرے پر برتری کا واحد معیار تقوی ہے۔ امام خمینی رح کا عقیدہ ہے کہ “مرد اور عورت بعض حقوق و فرائض میں فرق کی بنیادی وجہ ان دونوں کے فطری تقاضوں سے مربوط ہے اور ایسے مسائل میں جو عورت کی شرافت اور مقام سے تنافی نہیں رکھتے، عورت کو پوری آزادی حاصل ہے

 اسلام اور عورت کی شخصیت کا تحفظ امام خمینی رح کی نظر میں اسلام عورت کے کام کرنے، سفر کرنے اور کوئی پیشہ اختیار کرنے کا مخالف نہیں بلکہ اس چیز کا مخالف ہے کہ عورت ہوس پرست افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے۔ وہ چیز جو اسلام کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے عورت کی شخصیت اور پاکدامنی کا تحفظ ہے۔ امام خمینی رح کی نگاہ میں یہ غلط تصور کہ اسلام عورت کو گھر کی چاردیواری میں محصور کر دینا چاہتا ہے، شاہ ایران اور اس کے ایجنٹوں کی جانب سے معاشرے میں پھیلائے ہوئے منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ اسلام کیوں عورت کے حصول تعلیم، کام کرنے یا سفر کرنے کی مخالفت کرے گا؟ کیا وجہ ہے کہ عورت سرکاری کام انجام نہ دے سکے؟ 

امام خمینی رح کا عقیدہ تھا کہ عورت، مرد کی طرح ان تمام امور میں پوری طرح آزاد ہے اور عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔ ان کی نظر میں اسلام نہیں چاہتا کہ عورت ایک کھلونے یا گڑیا کی مانند مردوں کے ہاتھ میں ہو بلکہ اسلام عورت کی شخصیت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور اسے ایک مفید اور سنجیدہ انسان بنانے کے درپے ہے۔ اسلام اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ عورتیں صرف مردوں کی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بنی رہیں  بلکہ اسلام عورت کی ایک انسان کامل کے طور پر تربیت کرنا چاہتا ہے۔

امام خمینی رح کی نظر میں اسلام نے مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ توجہ دی ہے اور خواتین کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا ہے۔ حتی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں خواتین کو بعض ایسے حقوق بھی دیے گئے ہیں جن پر مغربی دنیا نے بعد میں توجہ دی۔ مثال کے طور پر اسلام نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، انہیں انتخاب کرنے اور منتخب ہونے کا حق دیا، خواتین اپنے تمام ذاتی امور میں مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہیں، جاب اختیار کرنے میں آزاد ہیں وغیرہ۔ آپ کی نظر میں اسلام نے جوا کھیلنے، شراب پینے اور ہیروئن جیسا نشہ کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ ان کاموں میں مردوں کیلئے مفسدہ موجود ہے۔ امام خمینی رح کا عقیدہ ہے کہ اسلامی شریعت میں صرف خواتین پر ہی بعض پابندیاں عائد نہیں بلکہ مردوں پر بھی کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کا فائدہ خود انہیں ہی ہوتا ہے۔ یہ پابندیاں ایسے موارد میں ہیں جہاں کسی مفسدے کا خطرہ موجود ہو۔ امام خمینی رح کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام نے مردوں اور خواتین پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ معاشرے کی صلاح میں ہیں اور ایسا ہر گز نہیں کہ ایک چیز معاشرے کیلئے مفید ہو اور اسلام نے اس منع کیا ہو۔ اسی طرح امام خمینی رح کی نظر میں اسلام نے مردوں اور خواتین کے آزادانہ گھلنے ملنے کو بھی اسی لئے منع کیا ہے تاکہ خواتین کا احترام اور ان کی سماجی حیثیت کو محفوظ بنا سکے کیونکہ ایسا گھلنا ملنا ایک خاتون کی پاکدامنی اور تقوی کے منافی ہے۔

 تربیت اولاد، خاتون کی حقیقی ذمہ داری

اگرچہ امام خمینی رح خواتین کے کام کرنے کے مخالف نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی تقاریر میں جگہ جگہ اس بات پر تاکید کی ہے کہ عورت کی حقیقی ذمہ داری اولاد صالح کی تربیت ہے۔ انہوں نے عورت کے دامن کو انسان ساز قرار دیا ہے۔ امام خمینی رح نے ملک بھر سے آئی خواتین اسکول ٹیچرز کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے ٹیچنگ کے شعبے کو انتہائی شریف اور محترم پیشہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی اصلی ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: “آپ خواتین اس وقت دو محترم اور قابل قدر پیشوں میں مصروف ہیں۔ ایک ٹیچنگ اور دوسرا اولاد کی تربیت اور اولاد کی تربیت تمام پیشوں سے افضل ہے۔ اگر آپ ایک اچھا انسان معاشرے کو دینے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ آپ کیلئے تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر آپ ایک اچھے انسان کی تربیت میں کامیاب ہو جائیں تو آپ کا یہ عمل اس قدر بافضیلت ہے جس کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ پس آپ کا ایک پیشہ اولاد کی تربیت پر مشتمل ہے۔ ماوں کی گود ایسا دامن ہے جہاں سے انسان تربیت پا کر نکلتے ہیں۔ یعنی انسان کی تربیت کا پہلا مرحلہ ماں کی گود ہے۔ چونکہ ایک بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے زیادہ گہرا کوئی تعلق نہیں لہذا بچے سب سے زیادہ اپنی ماوں سے سیکھتے ہیں۔ بچے جس قدر اپنی ماوں سے اثر لیتے ہیں اتنا اثر نہ باپ سے لیتے ہیں، نہ اپنے ٹیچر سے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے استاد سے لیتے ہیں۔ لہذا آپ بچوں کی اسلامی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کریں تاکہ جب آپ اسے اسکول یا معاشرے کو تحویل دیں تو وہ ایک صحت مند، بااخلاق اور باادب بچہ ہو”۔]

عورت، انسان کی تربیت کرنے والی

امام خمینی رح نے یہ نکتہ بیان کرنے کے بعد کہ اسلام نے مردوں سے زیادہ خواتین پر توجہ دی ہے، خواتین کو تمام خیرات و برکات کا منشاء قرار دیا ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق عورت کو انسان ساز اور انسان کی تربیت کرنے والی کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی قوم میں انسان ساز خواتین موجود نہ ہوں تو وہ قوم شکست اور زوال کے راستے پر گامزن ہو جائے گی۔  امام خمینی رح کی نظر میں عورت کو اس کی ظاہری خوبصورتی میں مشغول کر دینا درحقیقت اس کی شان کے خلاف اور اس کی شخصیت کی توہین ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ عورت انسان کی ہر خوشبختی کا نقطہ آغاز ہے اور عورت کو انسان اور معاشرے کی تربیت کنندہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی رح کی نگاہ میں عورت کی گود سے عظیم انسان جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی خوش بختی اور بدبختی اس میں موجود خواتین پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر خواتین اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تربیت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ان کا ملک آباد ہو سکتا ہے۔]

حجاب، نسوانی اقدار کا محافظ

امام خمینی رح حجاب کو نہ فقط آزادی کے خلاف تصور نہیں کرتے بلکہ اسے عورت کی اقدار کا محافظ قرار دیتے ہیں آپ کی نظر میں اسلام میں بدحجابی کی مخالفت درحقیقت عورت کی بے غیرتی اور بے حیائی کی مخالفت ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

“اسلام نے عورت کی اسی قدروقیمت کی حفاظت کی خاطر حجاب لینے میں ماں باپ کی مرضی کی شرط بھی نہیں رکھی بلکہ یہ دستور دیا ہے کہ اگر ماں باپ اپنی بیٹی کو حجاب نہ لینے کا حکم دیں تو اسے چاہئے کہ وہ اس حکم سے بے اعتنائی کرتے ہوئے حجاب کی پابند رہے”۔]

۔ حیا اور پاکدامنی، عورت کی جانب سے سماجی و سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کی بنیادی شر:

امام خمینی رح کی نظر میں عورت کی جانب سے سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اگر اس کے حیا اور پاکدامنی سے منافی نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

“آج خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے سماجی اور دینی فرائض انجام دیں اور اپنی پاکدامنی کی بھی حفاظت کریں۔ اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہوئے سیاسی و سماجی سرگرمیاں انجام دیں

اسی طرح جب امام خمینی رح سے خاتون کی جانب سے گھر سے باہر جا کر کام یا جاب کرنے کے بارے میں شرعی حکم پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

“اگر اس کا گھر سے باہر جا کر جاب کرنا اس کی گھریلو زندگی اور شوہر کے حقوق سے منافی نہ ہو تو حجاب کی پابندی کرتے ہوئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن خیال رہے کہ واجبات کی ادائیگی کے علاوہ کسی اور کام کیلئے عورت کا گھر سے نکلنا اس کے شوہر کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے” 

نتیجہ :

مندرجہ بالا سطور میں ہم نے عصر حاضر کی افاقی شٰخصیت امام خمینی (رہ) کے فرمامین اور نظریات کی روشنی میں خواتین کی عظمت ، مقام و منزلت، مثالی کردار اور حقوق پر اپنی تمام تر لاعلمی کے اعتراف کیساتھ مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ مندرجہ بالا سطور سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ  اسلام نے حجاب اسلامی اور  اقدار اسلامی کے سایہ میں انسانی کے تمام تر شعبوں میں خواتین کو مثالی کردار ادا کرنے کا حق دیا ہے ۔ اسلام نہ عورت کو استکباری معاشرے کی مانند کمائی اور تجارت کا وسیلہ قرار دیتا ہے ، نہ ہی خانقاہی نظام کی مانند عورت کو اس کے انسانی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ بلکہ عصر حاضر میں اسلام ناب محمدی (ص)کے علمبردار ( جن کی فکر اسلام کی حقیقی ترجمانی ہے ) امام خمینی (رح) کے افکار کی روشنی میں عورت ایک مثالی تربیت گاہ ہے جسےسید حسن نصرا للہ جسے مجاہد ، علامہ اقبال جسے مفکر، آیت اللہ تقی بھت جسے عارف اور دنیا استکبار کے مقابلہ سیسہ پلائی دیوار بن کر مقاومت کرنے والے مجاہد وں کی تربیت ہوتی ہے۔

منابع:

1. استفتائات حضرت امام خمینی رحمة الله علیه تهیه و تنظیم: دفتر انتشارات اسلامی قم 

2. ریڈیو تہران Radio Tehran urdu service

3. صحیفہ امام، جلد ۳،7 مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی (س)1368  

4. http://ketab.ir/modul

5. http://ur.imam-khomeini.ir

6. http://urduold.ws.irib.ir

7. http://www.islamtimes.org/ur

8. IRIB – Redaksia Shqiptaia

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *