تازہ ترین

داعش، پسپائی اور زوال کے راستے پر:

  اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ داعش کا مکمل خاتمہ نہیں چاہتا، بلکہ اسے صرف اس حد تک کمزور کر دینا چاہتا ہے کہ وہ خطے میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے خطرہ ثابت نہ ہو

شئیر
21 بازدید
مطالب کا کوڈ: 902

اور مستقبل کیلئے خطے میں اسکی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہ ہوسکے۔ لہذا خطے میں دہشتگرد گروہوں کی روز بروز کم ہوتی ہوئی طاقت اور زوال نے امریکہ کو شدید خوفزدہ کر رکھا ہے اور امریکہ اس خوف کے پیش نظر دوبارہ خطے میں فوجی موجودگی چاہتا ہے۔ خطے میں امریکہ کی حالیہ مداخلت کی اصلی وجہ داعش کو ختم کرنا نہیں بلکہ خطے میں اپنے پیدا کردہ دہشتگرد گروہوں کو ختم اور نابود ہونے سے بچانا ہے کیونکہ ان دہشتگرد گروہوں کا خاتمہ خطے میں امریکہ کے جیوپولیٹیکل اہداف کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس نقصان سے بچنے کیلئے خطے میں فوجی مداخلت کے منصوبے بنا رہا ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کو امریکہ سے کوئی خطرہ نہیں اور وہ امریکہ سے خوفزدہ بھی نہیں کیونکہ اسے یقین ہے کہ وائٹ ہاوس اسے اپنا اسٹریٹجک اتحادی تصور کرتا ہے اور خطے میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے انکے وجود کو ناگزیر سمجھتا ہے۔

مغربی طاقتیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تین بنیادی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہوگئیں:
1۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ اور سلامتی فراہم کرنا۔ اس کی بنیادی وجہ مغربی ممالک کے سیاسی اور میڈیا نظام کے اندر صیہونی نیٹ ورک کا گہرا اثرورسوخ ہے۔
2۔ خطے کے عرب ممالک سے مغربی ممالک کو کم از کم قیمت پر خام تیل کی فراہمی کو یقینی بنانا۔ یہ ہدف آج کل سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی جانب سے اپنے مشخص حصے سے کہیں زیادہ خام تیل برآمد کئے جانے کے ذریعے پورا ہو رہا ہے۔ اور
3۔ خطے میں اپنی کٹھ پتلی رجعت پسند عرب حکومتوں کو اقتدار پر باقی رکھنا۔ یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اردن اور بحرین جیسی عرب حکومتوں کی حمایت کرنا، جو آج کل داعش کے خلاف نام نھاد جنگ میں امریکہ کی اتحادی بنی ہوئی ہیں۔
 
1973ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے اور عالمی سطح پر موجود ایشوز پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں سے ایک ایشو مسئلہ فلسطین تھا۔ انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے فلسطین کی حامی قوتوں نے اپنی پالیسی میں اسٹریٹجک تبدیلیاں ایجاد کیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی پوری سرزمین کی آزادی پر تاکید کرنا شروع کر دی، جبکہ اس سے قبل وہ صرف یہ موقف اختیار کر رہے تھے کہ بیت المقدس کے ساتھ ساتھ صرف کرانہ باختری یا غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کر لیا جائے۔ دوسری اسٹریٹجک تبدیلی اسرائیل کے خلاف فلسطینی گروہوں کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقوں میں ظاہر ہوئی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل فلسطینی قوم پرست گروہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے تھے، لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد فلسطینی اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کو ترک کر دینا صحیح فیصلہ نہ تھا۔ لہذا غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم “حماس” نے جنم لیا اور اپنی مخلصانہ جدوجہد کے باعث فلسطینیوں میں روز بروز مقبول ہوتی گئی، حتی کہ عام انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ ایک بڑی سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی۔ دوسری طرف یاسر عرفات کی وفات کے بعد مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ محمود عباس کو کرانہ باختری میں ایسے انتخابات کے نتیجے میں جتوا دیا گیا جو انتہائی مشکوک تھا اور حماس نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ محمود عباس اسرائیل کے ساتھ موجود تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہیں۔
 
2006ء میں حزب اللہ لبنان کی جانب سے اسرائیل کو عبرتناک شکست دیئے جانے کے بعد غزہ میں حماس نے بھی اسرائیل کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد تیز کر دی اور مختلف جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست سے دوچار کیا، جس کی تازہ ترین مثال کچھ عرصہ قبل 51 روزہ جنگ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ بھی انتہائی ذلت اور رسوائی اٹھانے کے بعد 2011ء میں عراق سے نکلنے پر مجبور ہوگیا۔ مزید برآں، عراق کی حکومت خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایک بااعتماد اتحادی تصور کی جاتی ہے اور اسے ایک لحاظ سے اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا اس وقت تہران، بغداد، دمشق، بیروت اور غزہ پر مشتمل ایک طاقتور اسلامی مزاحمتی بلاک تشکیل پا چکا ہے۔
 
2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری کی حالیہ نئی موج جنم لینے کے بعد مغربی طاقتوں نے اس عظیم موج کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جو مصر، تیونس، لیبیا اور یمن پر حکمفرما آمرانہ حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہی۔ اس غرض سے انہوں نے اسلامی بیداری کا نقاب چڑھا کر اسلامی مزاحمتی بلاک کے ایک اہم ملک شام میں دھڑا دھڑ تکفیری دہشت گرد بھیجنا شروع کر دیئے۔ ان دہشت گردوں میں 90 مختلف ممالک کے شہری شامل تھے۔ لیکن شام کی حکومت، عوام، مسلح افواج کی شاندار مزاحمت اور اسلامی جمہوریہ ایران اور روس جیسے ممالک کی مدد اور تعاون نے اس مغربی سازش کو ناکام بنا دیا۔ جب مغربی طاقتوں نے دیکھا کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے سے قاصر ہیں تو انہیں داعش کے تکفیری دہشت گردوں کے اگلے اہداف سے متعلق پریشانی شروع ہوگئی۔ اسی طرح وہ خطے میں اپنے مذکورہ بالا تین بنیادی اہداف کے بارے میں بھی تذبذب کا شکار تھے۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابی کے بعد اس خوف کا بھی شکار تھیں کہ کہیں اسلامی مزاحمتی قوتیں خطے میں ان سے انتقام لینے کی کوشش نہ کریں۔
 
ایسے حالات میں جب مغربی ممالک، اسرائیل کی صیہونی رژیم اور خطے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی باقیات کی بے پناہ اور لامحدود مدد کے نتیجے میں عراق کا سیاسی استحکام اور انٹیگریشن شدید تزلزل کا شکار ہوچکا تھا، مغربی طاقتوں اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے داعش کی جانب سے موصل پر یلغار اور قبضے پر اپنی آنکھیں موند لیں۔ جبکہ خود مغربی طاقتیں ہی امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بقول تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی پیدائش میں مرکزی کردار کی حامل رہی تھیں۔ جیسا کہ ہیلری کلنٹن نے اس بارے میں اعتراف کیا ہے کہ امریکی حکام نے داعش کو معرض وجود میں لانے کیلئے تقریباً 60 مختلف ممالک کے دورے کئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گروہ داعش پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت عراق میں داخل ہوا ہے۔ داعش کے حامی یعنی اسرائیل، عرب حکومتوں اور ترکی نے داعش کو کچھ خاص اہداف دے رکھے ہیں اور انہیں امریکہ کے حامی عرب ممالک پر حملہ کرنے سے سختی سے روک رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مغربی ممالک کو مسلسل یہ یقین دہانی کروا رہا ہے کہ داعش نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی خطے میں امریکہ کی پٹھو عرب حکومتوں کیلئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس کا اصلی خطرہ حزب اللہ اور خطے میں ایران کی اتحادی قوتوں کو درپیش ہے، لہذا اس کے خلاف فوجی کارروائی نہ کی جائے۔ دوسری طرف خطے کی عرب حکومتوں نے داعش کے تکفیری دہشت گردوں کی فوجی ٹریننگ کے علاوہ ان کی مالی اور فوجی مدد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی طرح ترکی نے شام کے ساتھ اپنے بارڈر کو داعش کے دہشت گردوں پر کھول رکھا تھا اور تکفیری دہشت گرد عناصر دھڑا دھڑ ترکی کی سرحد سے شام میں داخل ہوتے رہے۔ اگر موصل پر داعش کے قبضے کے وقت مغربی اخبار اور ذرائع ابلاغ میں شائع کی گئی رپورٹس پر ایک نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ یہ ذرائع ابلاغ موصل پر داعش کے قبضے کی گھڑیاں گن رہے تھے۔ انہوں نے نہ تو موصل پر داعش کے قبضے پر تعجب کا اظہار کیا اور نہ ہی قبضے سے پہلے مغربی حکام کو اس سے متعلق کوئی وارننگ جاری کی۔

تحریر: ڈاکٹر مصطفٰی ملکوتیانداعش، پسپائی اور زوال کے راستے پر
اسلام ٹائمز: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ داعش کا مکمل خاتمہ نہیں چاہتا، بلکہ اسے صرف اس حد تک کمزور کر دینا چاہتا ہے کہ وہ خطے میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے خطرہ ثابت نہ ہو اور مستقبل کیلئے خطے میں اسکی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہ ہوسکے۔ لہذا خطے میں دہشتگرد گروہوں کی روز بروز کم ہوتی ہوئی طاقت اور زوال نے امریکہ کو شدید خوفزدہ کر رکھا ہے اور امریکہ اس خوف کے پیش نظر دوبارہ خطے میں فوجی موجودگی چاہتا ہے۔ خطے میں امریکہ کی حالیہ مداخلت کی اصلی وجہ داعش کو ختم کرنا نہیں بلکہ خطے میں اپنے پیدا کردہ دہشتگرد گروہوں کو ختم اور نابود ہونے سے بچانا ہے کیونکہ ان دہشتگرد گروہوں کا خاتمہ خطے میں امریکہ کے جیوپولیٹیکل اہداف کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس نقصان سے بچنے کیلئے خطے میں فوجی مداخلت کے منصوبے بنا رہا ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کو امریکہ سے کوئی خطرہ نہیں اور وہ امریکہ سے خوفزدہ بھی نہیں کیونکہ اسے یقین ہے کہ وائٹ ہاوس اسے اپنا اسٹریٹجک اتحادی تصور کرتا ہے اور خطے میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے انکے وجود کو ناگزیر سمجھتا ہے۔

مغربی طاقتیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تین بنیادی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہوگئیں:
1۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ اور سلامتی فراہم کرنا۔ اس کی بنیادی وجہ مغربی ممالک کے سیاسی اور میڈیا نظام کے اندر صیہونی نیٹ ورک کا گہرا اثرورسوخ ہے۔
2۔ خطے کے عرب ممالک سے مغربی ممالک کو کم از کم قیمت پر خام تیل کی فراہمی کو یقینی بنانا۔ یہ ہدف آج کل سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی جانب سے اپنے مشخص حصے سے کہیں زیادہ خام تیل برآمد کئے جانے کے ذریعے پورا ہو رہا ہے۔ اور
3۔ خطے میں اپنی کٹھ پتلی رجعت پسند عرب حکومتوں کو اقتدار پر باقی رکھنا۔ یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اردن اور بحرین جیسی عرب حکومتوں کی حمایت کرنا، جو آج کل داعش کے خلاف نام نھاد جنگ میں امریکہ کی اتحادی بنی ہوئی ہیں۔
 
1973ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے اور عالمی سطح پر موجود ایشوز پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں سے ایک ایشو مسئلہ فلسطین تھا۔ انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے فلسطین کی حامی قوتوں نے اپنی پالیسی میں اسٹریٹجک تبدیلیاں ایجاد کیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی پوری سرزمین کی آزادی پر تاکید کرنا شروع کر دی، جبکہ اس سے قبل وہ صرف یہ موقف اختیار کر رہے تھے کہ بیت المقدس کے ساتھ ساتھ صرف کرانہ باختری یا غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کر لیا جائے۔ دوسری اسٹریٹجک تبدیلی اسرائیل کے خلاف فلسطینی گروہوں کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقوں میں ظاہر ہوئی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل فلسطینی قوم پرست گروہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے تھے، لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد فلسطینی اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کو ترک کر دینا صحیح فیصلہ نہ تھا۔ لہذا غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم “حماس” نے جنم لیا اور اپنی مخلصانہ جدوجہد کے باعث فلسطینیوں میں روز بروز مقبول ہوتی گئی، حتی کہ عام انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ ایک بڑی سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی۔ دوسری طرف یاسر عرفات کی وفات کے بعد مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ محمود عباس کو کرانہ باختری میں ایسے انتخابات کے نتیجے میں جتوا دیا گیا جو انتہائی مشکوک تھا اور حماس نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ محمود عباس اسرائیل کے ساتھ موجود تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہیں۔
 
2006ء میں حزب اللہ لبنان کی جانب سے اسرائیل کو عبرتناک شکست دیئے جانے کے بعد غزہ میں حماس نے بھی اسرائیل کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد تیز کر دی اور مختلف جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست سے دوچار کیا، جس کی تازہ ترین مثال کچھ عرصہ قبل 51 روزہ جنگ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ بھی انتہائی ذلت اور رسوائی اٹھانے کے بعد 2011ء میں عراق سے نکلنے پر مجبور ہوگیا۔ مزید برآں، عراق کی حکومت خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایک بااعتماد اتحادی تصور کی جاتی ہے اور اسے ایک لحاظ سے اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا اس وقت تہران، بغداد، دمشق، بیروت اور غزہ پر مشتمل ایک طاقتور اسلامی مزاحمتی بلاک تشکیل پا چکا ہے۔
 
2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری کی حالیہ نئی موج جنم لینے کے بعد مغربی طاقتوں نے اس عظیم موج کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جو مصر، تیونس، لیبیا اور یمن پر حکمفرما آمرانہ حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہی۔ اس غرض سے انہوں نے اسلامی بیداری کا نقاب چڑھا کر اسلامی مزاحمتی بلاک کے ایک اہم ملک شام میں دھڑا دھڑ تکفیری دہشت گرد بھیجنا شروع کر دیئے۔ ان دہشت گردوں میں 90 مختلف ممالک کے شہری شامل تھے۔ لیکن شام کی حکومت، عوام، مسلح افواج کی شاندار مزاحمت اور اسلامی جمہوریہ ایران اور روس جیسے ممالک کی مدد اور تعاون نے اس مغربی سازش کو ناکام بنا دیا۔ جب مغربی طاقتوں نے دیکھا کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے سے قاصر ہیں تو انہیں داعش کے تکفیری دہشت گردوں کے اگلے اہداف سے متعلق پریشانی شروع ہوگئی۔ اسی طرح وہ خطے میں اپنے مذکورہ بالا تین بنیادی اہداف کے بارے میں بھی تذبذب کا شکار تھے۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابی کے بعد اس خوف کا بھی شکار تھیں کہ کہیں اسلامی مزاحمتی قوتیں خطے میں ان سے انتقام لینے کی کوشش نہ کریں۔
 
ایسے حالات میں جب مغربی ممالک، اسرائیل کی صیہونی رژیم اور خطے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی باقیات کی بے پناہ اور لامحدود مدد کے نتیجے میں عراق کا سیاسی استحکام اور انٹیگریشن شدید تزلزل کا شکار ہوچکا تھا، مغربی طاقتوں اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے داعش کی جانب سے موصل پر یلغار اور قبضے پر اپنی آنکھیں موند لیں۔ جبکہ خود مغربی طاقتیں ہی امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بقول تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی پیدائش میں مرکزی کردار کی حامل رہی تھیں۔ جیسا کہ ہیلری کلنٹن نے اس بارے میں اعتراف کیا ہے کہ امریکی حکام نے داعش کو معرض وجود میں لانے کیلئے تقریباً 60 مختلف ممالک کے دورے کئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گروہ داعش پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت عراق میں داخل ہوا ہے۔ داعش کے حامی یعنی اسرائیل، عرب حکومتوں اور ترکی نے داعش کو کچھ خاص اہداف دے رکھے ہیں اور انہیں امریکہ کے حامی عرب ممالک پر حملہ کرنے سے سختی سے روک رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مغربی ممالک کو مسلسل یہ یقین دہانی کروا رہا ہے کہ داعش نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی خطے میں امریکہ کی پٹھو عرب حکومتوں کیلئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس کا اصلی خطرہ حزب اللہ اور خطے میں ایران کی اتحادی قوتوں کو درپیش ہے، لہذا اس کے خلاف فوجی کارروائی نہ کی جائے۔ دوسری طرف خطے کی عرب حکومتوں نے داعش کے تکفیری دہشت گردوں کی فوجی ٹریننگ کے علاوہ ان کی مالی اور فوجی مدد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی طرح ترکی نے شام کے ساتھ اپنے بارڈر کو داعش کے دہشت گردوں پر کھول رکھا تھا اور تکفیری دہشت گرد عناصر دھڑا دھڑ ترکی کی سرحد سے شام میں داخل ہوتے رہے۔ اگر موصل پر داعش کے قبضے کے وقت مغربی اخبار اور ذرائع ابلاغ میں شائع کی گئی رپورٹس پر ایک نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ یہ ذرائع ابلاغ موصل پر داعش کے قبضے کی گھڑیاں گن رہے تھے۔ انہوں نے نہ تو موصل پر داعش کے قبضے پر تعجب کا اظہار کیا اور نہ ہی قبضے سے پہلے مغربی حکام کو اس سے متعلق کوئی وارننگ جاری کی۔

تحریر: ڈاکٹر مصطفٰی ملکوتیان

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *