داعش کا عراق پر حملہ کرنے کا نتیجہ
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے جون کے مہینے کی بارہ تاریخ کو عراق کے شمال میں واقع نینوا، صلاح الدین، تکریت سمیت دیگر مقامات پر قبضہ کر لیا اور وہاں پر بسنے والے معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل عام کا نشانہ بنا کر ان کے قتل عام کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لانا شروع کر دیا، یہ وہ موقع تھا کہ پورا عراق ایک وقت کے لئے سہم گیا تھا،
لیکن اس کے فوری بعد ہی عراقی حکومت نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے عراقی اسپیکر پارلیمنٹ سے ایک جانب عراق میں ایمر جنسی کے نفاذ کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب عراقی افواج کو فوری جوابی کاروائی کرنے کا عندیہ بھی دید یا گیا اور یہ ہدایات جاری کی گئی کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے۔
عرا ق کے شمالی علاقوں تکریت، نینوا، صلاح الدین اور سامرہ کے نزدیک مقامات پر بسنے والے عرب سنی(صوفی) مسلمانوں کو داعش نے اپنے دہشت گردانہ عزائم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا، جبکہ دوسری جانب عراقی افواج بھی حرکت میں آئیں اور ان دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
ابھی تکفیری دہشت گردوں کے حملے کو دو روز ہی گزرے ہوں گے کہ تکفیریوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اب بغداد اور نجف سمیت کربلا پر بھی اسی قسم کی یلغار کریں گے اور ان شہروں میں موجود اہل بیت کرام علیہم السلام کے مزارات مقدسہ ، صحابہ کرام کے مزارات،اور اسی طر ح عرب اہل سنت (صوفی) عوام کے مقدس مقامات کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، تکفیری دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے عراق بھر سے نوجوانوں اور جوانوں، علماء، اور خواتین سمیت شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ان تکفیری دہشت گردوں کی اس دھمکی سے لمحہ بھر بھی خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے سب نے اپنی کمر کس لی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ اب ان تکفیری دہشت گردوں کو عراق میں زمین تنگ کر دی جائے گی اور ان کو کسی قسم کی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
امریکہ ،ا سرائیل سمیت خطے کی پڑوسی ریاستں جن میں سعودی عرب، ترکی، اردنسمیت دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں ، ان سب کی منصوبہ بندی تھی کہ کسی طرح عراق میں ہنگامہ کھڑا کیا جائے اور عراق کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے جس میں سے ایک حصہ ترکی کے تحت کنٹرول جائے جبکہ ایک حصے کو سعودی عرب کنٹرول کرے اور باقی کا رہ جانیو الا حصہ بھی خود سول وار میں برباد ہو جائے۔یہ تو تھا ان اسلام دشمن قوتوں کا منصوبہ لیکن شاید تقدیر خدا وندی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
عالمی دہشت گرد قوتوں نے چاہا تھا کہ عراق کو تقسیم در تقسیم کر دیں گے لیکن ان کے خواب عین اس وقت چکنا چور ہوتے دکھائی دئیے جب عراق میں بزرگ عالم دین آیت اللہ سیستانی سمیت دیگر علمائے کرام اور مختلف فکروں سے تعلق رکھنے والے گروہ اور تنظیمیں مراجع عظام کی ایک آواز پر متحد ہو گئے ، عرا ق کے سنی (صوفی) مسلمان ہوں یا پھر شیعہ مسلمان ، سب کے سب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے اور سب نے ایک ہی عزم کا اعادہ کیا کہ تکفیری دہشت گردوں نے جو ظلم و ستم کی داستان عراق میں شروع کی ہے اس کا جڑ سے خاتمہ کر دیا جائے گا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اب عراق کے نوجوانوں پر مشتمل رضا کار فورس بھی تیار ہو رہی ہے جو یقیناًاس تکفیری فتنے سے نبردآزما ہونے کے بعد عراق کے روشن مستقبل اور مضبوط عراق کے لئے بھرپور کارآمد ثابت ہو گی، آج عراق کے تمام علماء، تمام مکاتب فکر ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آرہے ہیں، عوام حکومت کے ساتھ اور افواج کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے عراق پر حملے نے جہاں عراقی عوام کو قتل کیا وہاں پورے کے پورے عراق کو آپس میں متحد بھی کر دیا ہے اور آج کا عراق بارہ جون سنہ2014ء کے عراق سے تبدیل ہو چکا ہے، یعنی عراق متحد ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے شام پر کئے جانے والے حملے کے بعد بھی ان تکفیری دہشت گردوں کے ناپاک عزائم سے آگاہی کے بعد شام کے تمام طبقات اور عوام بھی اسی طرح متحد ہو گئے تھے اور ان کے اتحاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا کی لاکھ کوششوں کے باوجود شام استقامت کے ساتھ ڈٹا رہا اور آج وہاں نئے انتخابات کے بعد عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت بھی قائم ہو چکی ہے اور بشار الاسد ایک مرتبہ پھر شام کے صدر بن چکے ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید