تازہ ترین

دشمن ہم سے کیا چاہتا ہے ؟

اسلام کے دشمنوں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف لوٹ آئیں اور مسلمانوں کی سب سے بڑی خوبی یعنی ایمانی طاقت جس پر ہم مسلمان کو فخر ہوتا ہے ، اسے چھوڑ  دیں اور کفر کرنے لگ جائیں ۔ یہ سب سے بڑا نقصان ہے جو اسلام کا دشمن مسلمانوں کو پہنچا سکتا ہے ۔ 

ارشاد باری تعالی ہے کہ 

– وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَاء حَتَّىَ يُهَاجِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتَّمُوهُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا

ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ جیسے کافر وہ خود ہیں تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ، لہٰذا ان میںسے کسی کو اپنا حامی نہ بناؤ جب تک وہ راہ خدا میں ہجرت نہ کریں، اگر وہ (ہجرت سے) منہ موڑ لیں توا نہیں پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میںسے کسی کو اپنا حامی اور مددگارنہ بناؤ۔( النساء 89 )

دشمن کا سب سے بڑا ہدف مسلمانوں کو ان کے ایمانی راستے سے دور کرنا ہے ۔ دشمن اپنی شیطانی سوچ سے اس کام میں مصروف ہے کہ کسی طرح سے شراب و بے راہ روی کے ذریعے ، باہمی دشمنی ڈال کر ، اسلام سے دور کرکے ، کسی بھی طرح سے مسلمانوں کو یاد خدا سے دور کیا جاۓ ۔ 

شئیر
14 بازدید
مطالب کا کوڈ: 992

 

قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ 

۔ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ

ترجمہ : شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روکے توکیا تم باز آ جاؤ گے؟

دشمنانان اسلام کی ہمیشہ یہ کوشش ہو گی کہ آپ کو نقصان پہنچانے تک آپ کا پیچھا کیا جاۓ ۔ وہ کبھی بھی اپنی اس گھناؤنی حرکت سے باز نہیں آئیں گے اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا تعاقب کرتے رہیں گے ۔ اگر مستقبل میں پھر کبھی وہ آپ پر مسلط ہوۓ تو آپ کے دل میں ذرا بھر بھی ایمانی طاقت کو نہیں رہنے دیں گے ۔ ہرگز وہ آپ کو آسانی سے مسلمان نہیں رہنے دیں گے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے باز رکھنے کے لیۓ آخری حد تک جائیں گے ۔ 

اگر ہم دشمن سے دوستانہ روابط برقرار نہ کریں تب ہماری حالت کیا ہو گی ؟ 

ایسی صورتحال میں ایک مسلمان کا امتحان ہو گا کہ وہ اللہ تعالی کے بتاۓ ہوۓ احکامات پر کس حد تک عمل پیرا رہتا ہے ۔ کس حد تک وہ اپنا وعدہ نبھاتا ہے ، وہی وعدہ جس کا ذکر خدا نے قرآن میں یوں کیا  ہے کہ 

الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّهِ قَالُواْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً

ترجمہ : اور بتحقیق اللہ نے(پہلے) اس کتاب میں تم پر یہ حکم نازل فرمایا کہ جہاں کہیں تم سن رہے ہو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھا کرو جب تک وہ کسی دوسری گفتگو میں نہ لگ جائیں ورنہ تم بھی انہی کی طرح کے ہو جاؤ گے، بے شک اللہ تمام منافقین اور کافرین کو جہنم میں یکجا کرنے والا ہے

خدا نے یہ ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ہے کہ وہ اپنے پرہیزگار بندوں کو ناخوشگوار امور سے نجات بخشے گا اور انہیں وہاں سے روزی دے گا جہاں پر ان کا گمان بھی نہیں ہو گا ۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ 

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ

ترجمہ: اللہ ایمان والوں کا یقینا دفاع کرتا ہے اور اللہ کسی قسم کے خیانت کار کو یقینا پسند نہیں کرتا

ہم اھل بیت علیھم السلام کی زندگیوں سے باآسانی یہ رہنمائی لے سکتے ہیں کہ انہوں نے کیسے ایسے حالات کا مقابلہ کیا ۔ 

عبدالملک بن مروان کو یہ خبر ملی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ہے ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ برے مقاصد کے لیۓ اس شمشیر کو حاصل کیا جاۓ ، پس اس نے حضرت امام زین العابدین  علیہ السلام کے پاس ایک قاصد بھیجا اور تقاضا کیا کہ اس تلوار کو ان کے لیۓ بھیج دیا جاۓ اور اس کے عوض وہ امام علیہ السلام کا ہر کام انجام دینے کے لیۓ تیار تھا ۔ 

امام علیہ السلام نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔ حاکم کو اس پر بہت غصّہ آیا اور  اس نے امام علیہ السلام کو ایک خط لکھا کہ اگر امام علیہ السلام نے وہ تلوار انہیں نہ بھجوائی تو وہ بیت المال سے ان کا وظیفہ بند کر دے گا ۔ 

امام علیہ السلام نے بغیر کسی خوف و خطر کے جواب دیا کہ 

اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری خود لی ہے کہ وہ پرہیزگار بندوں کو ناخوشایند امور سے نجات بخشے گا اور بندوں کو وہاں سے روزی عطا فرماۓ گا جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کریں گے ۔ 

مسلمان کو ہمیشہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کرنا چاہیۓ اور روزی کے ڈر سے کسی بھی ایسے کام کو انجام نہیں دینا چاہیۓ جس سے  ایک مسلمان کے ایمان کو خطرہ ہو ۔ 

تحریر :  ڈاکٹر سحر اعجاز‌

بشکریہ: تبیان نیٹ

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *