تازہ ترین

دعا و بندگی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

پس بندگی ہی اصل بنیاد ہے جو انسان کو عروج کی طرف لے جاتی ہے انسان کو بندگی و دعا کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کے لیے خاص رابطہ بنانا پڑتا ہے یہ منزل تنہا انسانی کوشش سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص توجہ حاصل ہو تو اسے کمال بندگی تک کے جاسکتی ہے اسی توجہ کو حاصل کرنے کے لیے انسان دعا کا سہارا لیتا ہے ۔
شئیر
406 بازدید
مطالب کا کوڈ: 8145

ظہیر عباس
جامعہ المصطفی العالمیہ ،قم

مومن کی زندگی کے لازم ترین و مہم ترین امور زندگی میں سے ہے کہ وہ خداوند عالم کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے اللہ تعالی کے ساتھ دعا و بندگی کی صورت رابطہ برقرار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اولیاء خدا کے نزدیک دعا ایک خاص مقام رکھتی ہے انسان اللہ کی طاعت و بندگی کرکے بلندی کے سفر کا کرنا چاہتا یے تو اتنا بلند ہوسکتا کہ جتنا خداوند عالم کو مطلوب اور اگر بندگی چھوڑ کر کسی دوسری طرف رخ کرتا ہے تو ﴿أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ کی پستی تک گر سکتا ہے انسانی زندگی میں پستی و بلندی دونوں آخری منزلیں ہیں یہ دونوں راستے خالق دو عالم نے انسان کو بتائے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی عذر باقی نہ رہے سورہ مبارکہ انسان میں ارشاد بارتعالی ہے:﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا﴾ ؛ہم نے اسے راستے کی ہدایت کردی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔) سورہ انسان ، 3(
اللہ نے انسان کے اندر صلاحیتیں دے کر چاہتا کہ انسان فقط اللہ کی بندگی و رضا میں زندگی بسر کرے انسان اپنی صلاحیتیں کو بروکار لاتے ہوئے درست راستے کا انتخاب کرے تاکہ قرب باری تعالی حاصل کرکے بلندی کا سفر زمین کے اوپر خود کو اللہ کا خلیفہ کہلانے کا مستحق قرار دے یہی اصل راز بندگی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی رضا کے مطابق زندگی کا سفر جاری رکھے اور اپنے آپ کو اللہ کے قریب رکھے جیسا روئے زمین پر بھیجے گئے پہلے انسان کو ہی ہادی برحق بنا کر بھیجا تاکہ بعد میں آنے والے انسانوں میں سے کسی کے لیے سوال باقی نہ رہے اسی لیے اللہ نے آشکار نشانیوں کے ساتھ آسمانی کتابیں و صحیفے انبیاء و رسل کو انسان کے رہنمائی کے لئے روئے زمین پر مقرر کیا اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیاء یہ ساری واضح نشانیاں انسان کو زندگی اور بندگی کے آداب بتانے کے لیے اسی نظام پروردگار کا حصہ تھیں آئمہ طاہرین علیہم السلام کے سیرت مبارک کو انسان کے لیے بلندیوں کا مرکز و محور قرار دیا ہے یہ قابل فکر بات ہے کہ جب اللہ نے اپنے حبیب کو معراج کے سفر پر بلایا تو اپنا قرار دے کر فرمایا:﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى﴾؛ پاک ہے وہ جو ایک رات میں اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لے گیا۔ )سورہ اسر ، 17(
پس بندگی ہی اصل بنیاد ہے جو انسان کو عروج کی طرف لے جاتی ہے انسان کو بندگی و دعا کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کے لیے خاص رابطہ بنانا پڑتا ہے یہ منزل تنہا انسانی کوشش سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص توجہ حاصل ہو تو اسے کمال بندگی تک کے جاسکتی ہے اسی توجہ کو حاصل کرنے کے لیے انسان دعا کا سہارا لیتا ہے ۔
بندگی و دعا کا مفہوم
بندگی فارسی زبان کا لفظ ہے جو عبودیت کے معانی بیان کرتا ہے ۔جب اس ہم اس کے مفہوم و معانی کے بارے میں دیکھنا چاہیں تو لازم ہے کہ عربی لغت میں اس کا اصلی معانی دیکھیں جیساکہ راغب اصفہانی مفردات قرآن مجید میں تحریر کرتے ہیں:عبودیت انکساری و خاکساری ہے اور عبادت اس سے بلیغ لفظ ہے کیونکہ یک تواضع و انکساری کی آخری حد کا نام یے اسلامی اصطلاح میں عبدیت و بندگی کا مفہوم یہ یے کہ انسان کو الہی کمالات سے مزین و آراستہ کرے اور اپنے کردار و عمل کو منشاء رب جلیل کے مطابق بنائے ۔ جیسا کہ عبادت کے بارے میں معصوم علیہ السلام کا عنوان بصری نے سوال کیا: قُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، مَا حَقِيقَةُ الْعُبُودِيَّةِ؟ قَالَ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ: أَنْ لَا يَرَى الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ فِيمَا خَوَّلَهُ اللهُ إِلَيْهِ مِلْكاً لِأَنَّ الْعَبِيدَ لَا يَكُونُ لَهُمْ مِلْكٌ يَرَوْنَ الْمَالَ مَالَ اللَّهِ يَضَعُونَهُ حَيْثُ أَمَرَهُمُ اللهُ تَعَالَى بِهِ؛ وَ لَا يُدَبِّرُ الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ تَدْبِيراً؛ وَ جُمْلَةُ اشْتِغَالِهِ فِيمَا أَمَرَهُ اللهُ تَعَالَى بِهِ وَ نَهَاهُ عَنْهُ؛ 1یا ابا عبداللہ علیہ السلام بندے کی حقیقت کیا ہے؟ فرمایا تین چیزیں ہیں: اول بندے کے لیے اللہ نے جو کچھ بھی دیا وہ اپنی ملکیت نہ سمجھے ۔ کیونکہ بندے کے لیے کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔ وہ مال کو اللہ کا مال سمجھتے ہیں اسے وہیں رکھتے ہیں جہاں اللہ نے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دوم:یہ کہ انسان اپنے لئے خود سے کوئی تدبیر نہ کرے۔ سوم: یہ کہ جس کام کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے اور جس کام سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔
عبودیت کی یہ تعریف سیدہ دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ایک دعا سے مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ایک دوا یہ جملے نہایت قابل فہم ہیں آپ فرماتی ہیں: اَللَّهُمَّ ذَلِّلْ نَفْسی، وَ عَظِّمْ شَأْنَکَ فی نَفْسی، وَ اَلْهِمْنی طاعَتَکَ، وَ الْعَمَلَ بِما یُرْضیکَ، وَ التَّجَنُّبَ لِما یُسْخِطُکَ، یا اَرْحَمَ الرَّاحِمینَ؛ اے میرے اللہ ، مجھ میں میرے نفس کو حقیر بنا دے اور اپنی شان کو مجھ میں عظیم بنا دے، مجھے اپنی اطاعت اور اس عمل کا الہام کر دے جس سے تو راضی ہوتا ہے اور جن کاموں میں تیری ناراضی ہے اس سے بچا،اے ارحم الراحمین
ان دعائیہ کلمات میں بندگی کی اعلی مثال اور دعا کا سلیقہ بیان ہوا ہے۔ ہر چیز میں اللہ تعالٰی کی عظمت تلاش کرنا اور اپنے نفس کو ذلیل و پشت سمجھنا ہی کمال بندگی کی آخری منزل یے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خود عصمت و طیارے کی بلندیوں پر فائز ہیں اللہ کی طرف سے منتخب حجتوں پر بھی سیدہ دو عالم حجت ہیں ان سب کمالات کے باوجود آپ جب مقام بندگی پر آتی ہیں تو اللہ تعالٰی کے سامنے اس قدر تواضع و انکساری سے پیش آتی ہیں کہ اپنے نفس کی ذلت و پسی کے لیے دعا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
جن انسان بندگی کے رازوں دے آشنا ہو جاتا ہے اس وقت اپنے آپ کو بارگاہ رب العزت میں ہمیشہ حاضر پاتا ہے۔ اس زندگی کا ہم و غم بارگاہ الہی میں قربت کا حصول ہے۔ بندگی کا لازمہ دعا و مناجات ہے۔ اللہ تعالی سے رابطہ برقرار رکھنا ایک مہم ترین ذریعہ دعا ہے انسان دعا کے ذریعے اللہ تعالی کی توجہ اپنی طرف جلب کر سکتا ہے۔ کثرت دعا و مناجات کے ذریعے انسان بارگاہ پروردگار میں قرب کا مقام حاصل کر سکتا ہے قرآن مجید میں فرمان بارتعالی ہے قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ؛اگر تمہاری یہ دعائیں نہ ہوتی تو اللہ تعالٰی تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ 2 اللہ انسان کی طرف سے دعا مناجات کو ہمت پسند کرتا ہے ۔
قرآن کریم کے کئی مقامات پر متعدد آیات اس کی تاکید کرتی ہیں: وَ قالَ رَبُّکُمُ ادعونی أَستَجِب لَکُم؛تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ۔ 3 ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖفَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ؛ 4 اور میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو کہ دیں میں ان دے قریب ہوں ،دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں پس انہیں اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا اور اس پر ایمان لانا ہی دعا کی اہم ترین بنیاد ہے اس لحاظ سے اہلیت عصمت و طہارت علیہم السلام میں ہر ایک کے ہاں دوا و مناجات کی خاص اہمیت ہے۔ وہ خود بھئ دعا و مناجات سے عشق کی حد تک اشتیاق رکھتے تھے اور اپنے شیعوں کو بھی دعا و مناجات کی طرف حکم دیا ہے۔ سیدہ دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت رسول اللہ ص اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد دین مبین اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے دعا و مناجات کا اہتمام اس قدر فرمایا کرتی تھیں کہ اپنے دور حیات میں سب سے زیادہ دعا و مناجات کرنے والی شخصیت کے نام پر معروف تھیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری اور دعا مناجات کا یہ عالم ساری ساری رات بارگاہ الہی میں مناجات کرتے گزار دیتی تھیں سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی دعا و مناجات کا یہ عالم تھا کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ بارگاہ الہی میں دعا کرنے والی عبادت گزار خاتون قرار پائیں۔ جس وقت آپ مصلے عبادت پر کھڑی ہوتی تو آپ کے پاؤں پر ورم بن جاتے جیسا کہ حسن بصری کہتے ہیں: ما کان فی هذه الامة اعبد من فاطمة(س) کانت تقوم حتی تورم قدماها؛دنیا میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے زیادہ کوئی عبادت گزار نہ تھا اپنے پاؤں پر ورم آنے تک حالت قیام میں رہتی تھی ۔ 5
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی دعا و بندگی کی خصوصیات
دعا و بندگی تمام اولیاء خدا و انبیاء و رسل شیوہ رہا ہے معصومین علیہ السلام میں سے ہر ایک معصوم علیہ السلام اطاعت و بندگی کے اعلی مقام پر فائز رہے ہیں اللہ تعالی ان کی بندگی پر فخر و مباہات کرتا ہے۔ ان کی کثرت قیام و رکوع و سجود دیکھ کر رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا :﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾؛ کہ دو کہ اپنی بے پناہ محبت دکھاتا ہے ۔ کسی مقام پر فرماتا ہے:﴿ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾ ان جیسی آیات کو نازل فرما کر کہیں ولایت کا اعلان کر رہا ہے کہیں آیت تطہیر بیان فرما کر اس پورے گھرانے کی عظمت کی گواہی عصمت و طہارت کے ذریعے دے رہا ہے ہر معصوم علیہ السلام نے رب العزت کی بندگی میں خاص مقام پایا ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دعا و بندگی جس جس انداز میں خی ہیں اس کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
دعا کی پابندی
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو سیدہ دو عالم کی سیرت میں دعا کے لیے خاص اوقات کا معین کرنا ملتا ہے آپ دعا و مناجات کا خاص خیال رکھتی تھی جیسا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جمعہ کے دن کی دوا کے بارے میں رسول اکرم ص سے روایت ہے کہ نقل فرماتی ہیں ۔آپ ص نے فرمایا : جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی بھی ہے جس میں کوئی مسلمان شخص اللہ تعالی سے کوئی نیک حاجت نہیں مانگتا مگر یہ کہ اللہ تعالی حاجت پوری فرماتا ہے۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں میں نے پوچھا : یا رسول اللہ وہ کونی ساعت یے ؟ فرمایا جب سورج کا آدھا حصہ افق میں پہنان ہو جائے۔ اس کے بعد جناب سیدہ دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ جمعہ کے دن اسی ساعت غروب میں مسلمانوں کے کیے خیر خواہی کے لیے دعا میں گزارتی تھیں اور کسی کو بتا کر رکھتی تھیں کہ وہ سورج ڈوب جانے کی اطلاع دے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مخصوص وقت میں عبادت کرنا
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں کچھ مخصوص اوقات ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں جن میں شب جمعہ، عصر جمعہ، اور جمعے کے دن غروب آفتاب کا وقت جناب سیدہ کی عبادت و دعا کے خاص اوقات میں شامل تھے اسی طرح سحر خیزی شب قدر کے ایام میں بھی مناجات کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتی تھیں اپنے گھر والوں کو بھی ان اوقات میں دعا و مناجات کے لیے تیار کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عبادت کی خاص جگہ
جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے ایک خاص جگہ ترتیب دی ہوئی تھی۔ جس وقت آپ عبادت و مناجات و دعا کرتی یہاں تشریف لے آتیں تھیں اسی جگہ پر اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز کرتی تھیں خشیت الہی میں گریہ و زاری کرتی تھی یہ ایک نیک سیرت اور سنت ہے خاص کر خواتین کے لیے اپنے گھر میں عبادت کرنے کے لئے ایک خاص جگہ کو معین کرنا قابل قدر بات ہے یہی سیرت حضرت فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیہا کی سیرت مبارک میں بھی نظر آتی ہے قم میں آج بھی جناب معصومہ سلام اللہ علیہا کا محراب بیت النور کے نام سے بنا ہوا یے جس کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے مومنین آتے ہیں ۔
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں مختلف اذکار کو خاص تعداد میں پڑھنا بھئ آپ ہی بندگی کا خاصہ تھا ان اذکار میں سے سے مشہور ذکر تسبیح زہرا ہے۔ روایات میں ملتا ہے کہ خب آپ نے اپنے بابا سے گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادمہ کی درخواست کی تو اس وقت رسول اللہ ص نے ایک ذکر تعلیم فرمایا جو دنیا اور زندگی بھر اس کی اینی پابندی کی کہ یہ ذکر تسبیح زہرا کے نام سے مشہور ہوا امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد تسبیح زہرا سلام اللہ علیہا کا پڑھنا ایک ہزار نوافل سے بہتر ہے آپ ہی فرمان ہے کہ ہم اہلیت اپنے بچوں کو جس طرح نماز کا کا حکم دیتے ہیں اسی طرح تسبیح زہرا کا بھی حکم دیتے ہیں۔ اس ذکر کو پابندی سے جاری رکھو جو بندہ اس ذکر کی تلاوت کرے گا کبھی بدبخت نہیں ہوگا ۔
دعا میں دوسروں کا خیال
جناب سیدہ کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر ہمیں کہیں پر بھی یہ نہیں نہیں آتا کہ زندگی کے کسی امور میں بھی دوسرے کے اوپر خود کو اہمیت دی ہو بلکہ جناب سیدہ کی ہمیشہ یہی سیرت رہی کہ دعا میں خود پر دوسروں کو مقدم رکھا جیساکہ جناب حسنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ : رَأَيْتُ أُمِّی فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِی مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّى اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا أُمَّاهْ لِمَ لَا تَدْعِينَ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعِينَ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَّ الدَّارَ ؛ایک شب جمعہ میں نے اپنی مادری گرامی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو محراب عبادت میں کھڑے ہوکر مسلسل رکوع و سجود کی حالت میں دیکھا اسی رات صبح کی سفیدی طلوع ہونے تک آپ دعا و عبادت میں مشغول رہیں اس پوری مدت میں میں نے سنا کہ تمام مومنین کے لیے آپ نے دعا فرمائی لیکن اپنے لئے کوئی دوا بھی می کی میں نے پوچھا اے ماں ! جس طرح آپ دوسروں کے لیے دعا کر رہی ہیں اپنے لیے بھی ایسے کوئی ڈسا کیوں نہیں کرتیں؟ فرمایا: میرے بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر والے ۔ 6
اسی طرح جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا مختلف اوقات میں اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی دعا فرماتی تھیں آپ کا یہی معمول زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا حضرت جعفر طیار علیہ السلام کی زوجہ اسماء فرماتی ہیں کہ جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے اخری ایام میں ایک دن ان کی خدمت میں تھی۔ آپ ع نے غسل کیا ، لباس تبدیل کیا اور مصلے عبادت پر اللہ سے راز و نیاز میں مشغول ہوگئیں۔ میں نزدیک گئی تو جناب سیدہ زہرا کو دیکھا کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے تشریف فرما ہیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہیں اس طرح دعا کر رہی ہیں :قالَتْ اِلهي وَ سَيدي اَسْئَلُكَ بِالذَّينَ اصْطَفَيتَهُمْ وَ بِبُكاءِ وَلَدَي في مُفارَقَتِي اَنْ تَغْفِرَ لِعُصَاةِ شيعَتِي وَ شيعَةِ ذُرِّيتِی ؛خداوندا! تجھے واسطہ ہے ان تمام پیغمبروں کا جہنیں تو نے منتخب کیا اور میری جدائی میں میرے بیٹوں کی گریہ و زاری کا واسطے میرے گناہگار شیعوں کو اور میری میری ذریت کے چاہنے والوں کو بخش دے. 7

——————————-


1۔ سہ دستور العمل عرفانی از آیت الله علی آقا قاضی رحمه الله، مبلغان، بهمن 1381، شماره 37، به نقل از محمد حسین حسینی طهرانی، روح مجرد، ص 175۔
2۔ سورہ فرقان ، 25۔
3۔ سورہ غافر ، 60۔
4۔ سورہ بقرہ، 186۔
5۔ مناقب، ج 3: ص 341.
6۔ علل الشرائع، شیخ صدوق ج‏1 ص 181 ح 1 ۔
7۔ کوکب الدّریّ: ج 1 ، ص 254۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *