تازہ ترین

ذوالفقار احمد چیمہ کا آیۃ اللہ خامنہ ای کے نام شکوہ پر نقد و نظر

جناب ذوالفقار احمد چیمہ  صاحب پاکستان کی ایک معروف شخصیت ہیں جو مختلف نظامی اور غیر نظامی عہدوں پر فائز ہونے کے علاوہ ایک اہم تجزیہ نگار اور قلمکار بھی ہیں۔ اگرچہ ان کا خطاب ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے ہے اور اس کا بہتر جواب یا توجیہ ان کے دفتر یا قریبی افراد ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن  رہبر انقلاب صرف ایرانی حکومت یا عوام کے رہبر نہیں بلکہ ولی فقیہ ہونے کے ناطے ہم سب کے بھی رہبر ہیں اور ان پر کوئی ناروا الزام یا تہمت آئے تو ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کا دفاع کریں لہذا ایک وظیفہ اور ذمہ داری ہونے کے ناطے اس مختصر تحریر میں یہ  کوشش کی گیی ہے

شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 228

کہ  اس قلم کار کو جواب دیا جائے۔ البتہ اب تک اس انتظار میں تھا مجھ سے بہتر اور متقن لکھنے والے موجود ہیں وہ زحمت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا جبکہ ہم سب کا وظیفہ تھا کہ اپنی اپنی بساط کے مطابق سعی کریں۔ ممکن ہے اس تحریر میں بہت سے نواقص ہوں لیکن اس توقع کے ساتھ ان الفاظ کو قرطاس کے سپرد کر رہا ہوں کہ آپ نواقص کو دور کرتے ہو‎ئے اسے تکمیل کریں گے۔
جناب چیمہ صاحب، بروز بدھ 13 جولائ 2016کو آپ کا ایک شکوہ نامہ اپنے ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے سپریم لیڈر آیۃ اللہ خامنہ ای کے نام پر” ایران کے رہبر علی خامنہ ای صاحب کی خدمت میں” پڑھا۔ اور اس کے چند ایک نکات جن سے میں اتفاق نہیں کرتا انکی طرف اشارہ کرتا ہوں
چیمہ صاحب جیسا کہ اسلام میں ہمسایہ کا حق دوسروں سے زیادہ ہے اور معاشرے میں بھی ہمسایہ دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی ہمسایہ ملک توقعات پر نہ اترے تو شکوہ و شکایت کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن یہ شکوہ واقعیت پر مبنی ہو اور حقیقت کے مطابق ہونا چاہئے۔ لیکن آپ کے شکوہ نامہ میں چند نکات قابل تامل بلکہ بعض مورد غیر واقع اور مبالغہ آمیز ہیں۔ جس کی وضاحت اور جواب ضروری ہے۔ جسے مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاتا ہے:
1۔ آپ نے ایران عراق جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ”اگر حملہ آور یا متحارب ملک غیر مسلم ہوتا تو ایران کی مزاحمت صرف اسلام کے نام پر ہوتی، صرف اسلامی نعروں اور نغموں سے فوج اور قوم کا لہو گرمایا جاتا اور اسلامی انقلاب کا رنگ غالب رہتا۔ مگر متحارب عراق چونکہ مسلمان ملک تھا اور صدّام سُنّی مسلک سے تعلق رکھتا تھا اس لیے سُنّی جارح کے خلاف نیشلزم، مسلکی جذبات اور شیعہ عصبیت کو ہوا دی گئی، شیعہ مسلک اور ایرانی نیشنلزم یکجا ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلاب کو اسلامی رکھنے کے وسیع النظر حامی کمزور ہو گئے اور تنگ نظر فرقہ پرست زور پکڑتے گئے جس سے انقلاب کا اسلامی رنگ دھندلا گیا اور مسلکی رنگ غالب آ گیا۔”
آپ کی یہ بات بالکل واقع کے خلاف ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے صدام حسین مسلمان سنی کا نمایندہ بن کر ایران شیعی کے مقابلے میں نہیں آیا تھا بلکہ در حقیقت یہ جنگ انقلاب اسلامی کے خلاف استعمار اور استکبار کی جانب سے مسلط کی گئی تھی اور صدام حسین حقیقت میں استعمار کا آلہ کار بنا ہوا تھا اس لیے یہ جنگ اسلام اور دشمنان اسلام کی جنگ تھی  لہذا انقلاب اسلامی کو ایک فرقہ کے ساتھ محدود کرنا اور اس پر فرقہ پرستی کا الزام لگانا سراسر نا انصافی ہے۔ اگر بانی انقلاب اسلامی اور موجودہ رہبر کے بیانات اور تقریروں کا مطالعہ کر چکے ہوتے تو معلوم ہوتا کہ کسی ایک بھی تقریر یا تحریر میں فرقہ پرستی کی طرف ایک اشارہ بھی نہیں ملتا ہے۔ آج تک کسی نے بھی اسے شیعہ اور سنی جنگ سے تعبیر نہیں کی ہے۔ ایران کے تمام لیڈروں نے ہمیشہ فرقہ پرستی کی مذمت اور نفی کی ہیں اور ہر وقت اسلام، مسلمان اور مظلوموں کی بات کی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران استعمار کیلیے خصوصا امریکہ اور اسرائیل کے لئے پر امن ترین منڈی حساب کیا جاتا تھا لیکن جس وقت اسلامی انقلاب آیا اسرائیل اور امریکہ دونوں کے سفارت خانے تک بند ہوگیے اور آج تک ان کے ساتھ نہ صرف ڈیپلومیٹک رابطہ نہیں بلکہ حالت مبارزہ اور جنگ میں ہے۔ آپ اس بات سے آگاہ ہوں گے اور اس کا انکار بھی نہیں کرسکیں گے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لیکر اب تک فلسطینی سنی مظلوم مسلمانوں کی مادی اور معنوی حمایت ایران کے علاوہ کون کررہا ہے آپ جس ملک کے احسانات کی تمجید کررہے ہے وہ آج اسرئیل کے ساتھ نہ صرف خفیہ رابطہ کر رکھا ہے بلکہ اعلانیہ رابطہ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے اور اب ڈا‌‎ئریکٹ پرواز کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ حملہ اور 33 دن کی بمباری کے دوران کس نے ان مظلوموں کی حمایت کی اور کن اسلامی اور سنی حکمرانوں نے ان مظلوموں کی پشست سے خنجر گھونپا؟! اب تک فلسطین کی حمایت کون کررہا ہے اور ان کے خلاف سازشوں میں کوں مصروف ہے؟
2۔ آپ نے لکھا ہے کہ ایران کا جھکاو بھارت کی طرف زیادہ ہورہا ہے اور ہمسایہ ملک پاکستان کے لئے ایران کے دامن میں سرد اور مخاصت کے سوا کچھ نہیں ہے!”ایران کا دامن، بھارت (جہاں آئے دن بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے) کے لیے محبتوں اور پاکستان کے لیے شکایتوں سے لبریز ہو تو یہ باعثِ تشویش ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ایرانی انقلاب کے ہمدرد یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اﷲ اور رسول(ص) کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان کا اپنے برادر اسلامی ملک پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا انقلابِ ایران کا دل و جان سے خیر مقدم کرنے والے پاکستان کے لیے ایران کے دامن میں سرد مہری اور مخاصمت کے سوا کچھ نہیں ہے؟”
جناب چیمہ صاحب ایران پاکستان کی نسبت سرد مہری کر رہا ہے یا ان دونوں ممالک کے دشمن ان دونوں کو ایک دوسرے سےدور کر رہے ہیں؟ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور اسی طرح ایک ہاتھ میں دو خربوزے بھی نہیں سنبھال سکتے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ اور آل سعود، ایران اور پاکستان کا ایک دوسرے کے قریب آنے سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ اس کے بہت سے شواہد پیش کرسکتے ہیں لیکن آپ جیسے اہل مطالعہ اور دنیا پر نظر رکھنے والے دانشوروں کے لئے اشارہ کافی ہے۔ آپ صرف گیس پائپ لائن کی مثال لیجئے، اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچانے میں قصور کس کا ہے؟ ایران یا پاکستان؟ اس پروجیکٹ کی تکمیل میں کون رکاوٹ ڈال رہا ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جب ایران کے صدر خود چل کر پاکستان، تعلقات بڑھانے کے لئے آئے تو اس کے ساتھ ہماری حکومت، انجنسیوں اور میڈیا نے کس طرح سے انکا استقبال کیا؟ کیا یہ ایک اسلامی اور ہمسایہ ملک کے سربراہ کے ساتھ ایک اسلامی سلوک اور مہمانوازی کا طریقہ ہے؟ آپ نے بھارت کا ایک جاسوس پکڑا بھی ہو تو اولا اس کا ایران کے ساتھ کیا ربط تھا؟ ثانیا، اگر ربط بھی ہو تو کیا یہ مناسب وقت تھا اس ایشو کو برملا کیا جائے؟ اور اس دورے کے مقصد کو تحت شعاع قرار دے اور اپنے ہمسایہ اسلامی ملک کو دشمن کے ساتھ سازباز کرنے کا الزام لگائے؟ کیا آپ کو پتہ نہیں ہے کہ امریکا اور سعودی عرب ایران کے ساتھ دشمنی میں پیش پیش ہیں اور ہمارے ملک پاکستان کے حکمران انہی کے اشاروں پر چلتے ہیں؟! کیا یہ “یک بام دو ہوا نہیں ہے” کہ ایک طرف ہم اپنے اسلامی ہمسایہ ملک کو شکوہ کریں کہ بھارت کی طرف جھکاؤ کیوں کیا جارہا ہے؟ کیونکہ وہ ملک ہمارا دشمن ہے جب کہ ہم خود ایران کے دشمنوں کے بالکل غلام بنے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ ہمسایگی کا حق ادا کررہے ہیں کہ ہم اس اتحاد کا عضو بن گئے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف ایران کو کمزور اور انقلابی اسلامی ملک کے خلاف بنا ہے؟ کیا یہ “بغل میں چھری منہ پر رام رام” کا واضح مصداق نہیں ہے؟
3۔ جناب چیمہ صاحب آپ نے لکھا ہے:”ہمیں توقع تھی کہ اسلامی ایران کے سب سے گہرے مراسم ہمسایہ اسلامی پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور ایران مسلمانوں پر ظلم روا رکھنے والی اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگانے والے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والی متعصّب بھارتی حکومت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے بجائے ECO جیسے ادارے کو ایک مضبوط اور توانا تنظیم میں بدل دے گا ، مگر برادر ایران کا رویّہ ہمارے لیے صدمے اور تشویش کا باعث بنا ہے۔ “
بالکل صحیح ہے بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پھاڑ ڈھارہا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر ایران نے اس کی حمایت کی ہے تو واقعا قابل مذمت ہے بلکہ ایران اور خصوصا امام خمینی اور امام خامنہ ای نے ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کی جد جہد کی حمایت کی ہیں اور اس ظلم کے خلاف بھارت کو کئی بار متنبہ بھی کیا ہے۔ لیکن کیا آپ کی نظر میں بحرین، یمن، عراق اور سوریہ میں ذبح ہونے والے ہزاروں بچے، عورتیں اور بوڑھے مسلمان نہیں ہے جن کے خون میں ہمارا محسن سعودی عربیہ براہ راست ملوث ہے! اور آپ کو وہاں اسلامی اخوت اور برادری اور مظلومیت کیوں نظر نہیں آرہی ہے؟  اور ہم انہی خونخواروں کی غلامی پر فخر محسوس کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہمارے ملک خدادا میں کوئی کم مسلمان دہشت گردی اور تکفیریوں کی جاہلانہ اور احمقانہ جہادی فتواؤں کے نتیجے میں شہید ہوئے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے؟ یہ سب کچھ کس کی ایما پر ہورہا ہے اور آپ نے اب تک اس کے خلاف کتنے آرٹیکل لکھنے کی زحمت کی ہے۔ شیعہ ٹارگٹ کلینگز اور امتیازی سلوک کے خلاف ایک شیعہ لیڈر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 60 دنوں سے زیادہ عرصے سے  بھوک ہڑتال کیے بیٹھے ہوئے ہیں اس مدت میں آپ کی اسلامی اور انسانی حمیت کتنی بار جاگی اٹھی؟ کیا یہ آپ کے پاکستانی اور مسلمان بھائی نہیں ہیں؟ ہم دوسروں پر الزام تراشی سے پہلے اپنے گریبانوں میں بھی جھانگنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں؟ پاکستان میں اب تک کتنے ہزارلوگ فرقہ واریت کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں؟ یہ سب کون اور کن کے اشاروں پر ہورہا ہے؟
4۔ آپ نے لکھا ہے” ماضی میں امریکا کے تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان نے ایران کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی اور اس کا حِصّہ بننے سے انکار کر دیاَ” اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا بہت سارے مواقع پر ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور یہ بات قابل تحسین ہے لیکن ایک بات ضرور مد نظر رکھا جانا چاہئے کہ اگر ہم کسی سے اچھائی کی توقع رکھتے ہیں تو پہلے ہمیں خود بھی تو اچھا بن کر دکھانا ہوگا۔ ایران اور پاکستان ایک ہمسایہ ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دو اسلامی ملک ہیں ان دونوں کے درمیان جتنے اچھے تعلقات اور روابط ہوں گے یہ نہ صرف دونوں ممالک کے فایدہ میں ہے بلکہ عالم اسلام کے نفع میں بھی ہے لہذا ہماری کوشش ہونی چاہئے نفرت بڑھانے کے بجائے الفت بڑھانے کی کوشش کریں۔
اگر ایران کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم سے ایسی کونسی غلطی سرزد ہو‎ئی ہے کہ ایک اسلامی ملک ہمیں چھوڑ کر ہمارے دشمن کے ساتھ رابطہ بڑھا رہا ہے؟
5۔ جناب چیمہ صاحب آپ نے لکھا ہے:”اگر ایران کے مذہبی پیشوا، امام خمینی کی پالیسی پر چلتے ہوئے توحیدِ الٰہی کی عطا کردہ وسعتِ نظری برقرار رکھتے اور قافلۂ انقلاب کو اسلام کی وسیع اور کشادہ شاہراہ سے اتار کر فرقے اور مسلک کی تنگ گلیوں میں نہ ڈال دیتے تو ایران ایک ارفع مقام پر فائز ہوتا پھر ایران، تنہائی کا شکار ہونے کے بجائے دنیائے اسلام کا لیڈر ہوتا اور شاعرِ مشرق کے خواب اور خواہش کے عین مطابق تہران عالمِ مشرق (Eastern World) کا ہیڈ کوارٹر ہوتا اور کرّۂ ارض کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہوتا۔”
جناب چیمہ صاحب آپ کا یہ پیراگراف پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ ایران  جو پوری دنیا میں اسلام، مسلمانوں اور مستضعفین کی آواز بنا ہوا ہے اور تمام کفر و نفاق کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر اسلام کا دفاع کررہا ہے۔ آپ نے اس پر فرقہ واریت کا بہت بڑا الزام لگادیا۔ میں تو صرف یہی کہہ سکتا ہوں یا تو اسلامی انقلاب کے بارے میں آپ کا مطالعہ نہ ہونے کا برابر ہے یا تو جان بوجھ کر اس قسم کے ناروا الزام لگا رہے ہیں اور دونوں صورتوں میں آپ جیسے ایک قلم کار کے لئے مناسب نہیں ہے۔ 
در حقیقت آپ نےاپنی فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کا اظہارکیا ہے۔ کیا اسلامی انقلاب اور اس کے پیشواؤں کا پوری دنیا میں مظلومین کی بلا تفریق حمایت کرنا اور اپنے تمام تر اقتصادی اور سیاسی نقصانات کے باوجود ہمیشہ فلسطینی مسلمانوں، بوسینایائی، بحرینی ، سوریہ اور یمن کے مظلومین کی حمایت کرنا فرقہ پرستی ہے؟ آپ کے نزدیک فرقہ پرستی ہی کیا ہے؟ کیا ایران کا امریکہ، اسرائیل سے دشمنی اور پورپی ممالک سے اختلاف فرقہ پرستی کی وجہ سے ہے یا اسلام کے دفاع میں ہے؟ آپ کی بات درست ہے علامہ اقبال کو ہم سے زیادہ ایرانیوں نے سمجھا ہے اور ہم سے زیادہ ان کے افکار پر انہوں نے عمل کیا ہے در حقیقت انقلاب اسلامی اقبال کے خوابوں کی صحیح تعبیر ہے۔ آج بھی اسلامی ممالک اپنے فرقہ تعصبات اور استعماری غلامی سے نکل کر ایران کا ساتھ دیں تو علامہ اقبال کا یہ خواب بھی پورا ہوگا:” تہران ہوگر عالم مشرق کا جنوا  شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے” لیکن ہم نے نہ اقبال کو سمجھا ہیں اور نہ ان کے افکار پر عمل کرنے کی کوشش کی ہیں۔
6۔ جناب چیمہ صاحب آپ نے لکھا ہے:”پاکستان کے کسی قصبے یا گاؤں میں اگر کسی اہلِ تشیعہ کا اکلوتا گھر ہے تو اس نے وہاں بھی اپنی مسجد بنا لی ہے اور اسے کبھی کسی نے نہ روکا ہے نہ منع کیا ہے مگر آپ کی حکومت تمام مسلم ممالک کو پورے تہران میں ایک مسجد بنانے کی اجازت نہیں دے رہی!”
 جناب چیمہ صاحب آپ نے یہاں پر بھی مبالغہ سے کام لیا ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ  پاکستان میں جہاں پر شیعہ ایک گھر بھی کیوں نہ ہو وہاں مسجد بنا سکتے ہیں۔ یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ بلکہ ہماری اطلاع کے مطابق بعض جگہوں پر اگر پتہ چلے کوئی شیعہ کسی سنی نشین علاقے میں گھر بنا رہا ہے تو بعض متعصب افراد کی طرف سے سر توڑ کوشش ہوتی ہے وہ گھر نہ بننے پائےلیکن آج تک کم از کم  میرے علم میں نہیں ہے کہ شیعہ آبادی نہ ہونے کے باوجود وہاں کوئی مسجد بنی ہو بلکہ اسلام آباد ہی میں کم از کم دو مسجدوں کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ مسجد شیعوں کی ہے لیکن ان کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے اہل سنت برادری قبضہ کرکے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ چاہے تو نام کے ساتھ ایڈرس بھی دے سکتا ہوں۔
لیکن آپ کا یہ کہنا کہ تہران میں اتنے اسلامی ممالک کے سفارت خانےہونے کے باوجود ایک مسجد بنانے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ سب سے پہلے آپ کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے سفارتکار وہاں مسجد بنانے جاتے ہیں یا سفارت کاری اور سیاسی کام انجام دینے کے لئے؟
دوسری بات یہ ہے انقلاب اسلامی کی سیاست اور پالسی یہ ہے کہ مسجدوں کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم نہ ہونے دے۔ لہذا حکومت اور رہبر انقلاب کی پالیسی یہ ہے جہاں شیعہ اکثریت ہے اور اہل سنت اقلیت میں ہو وہ شیعوں کی مساجد میں جائے اور جماعت اور جمعہ میں شرکت کریں اور جہان اور جن صوبوں یا شہروں میں اہل سنت کی اکثریت ہے وہاں شیعہ ان کی مساجد مین نماز اور جمعہ میں شرکت کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ کردستان میں اہل سنت برادری 90٪ ہیں جبکہ شیعہ 10٪ ہیں وہاں شیعوں کی ایک بھی مسجد نہیں ہے اور نہ بنانے کی اجازت ہے۔ جو شیعہ آبادی ہے وہ سب اہل سنت کی مساجد میں جاکر نماز پڑھتی ہیں حتی ان کو  الگ نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اب آپ تہران میں آئے تہران میں اہل سنت 1٪ فیصد بھی نہیں ہے پھر یہ لوگ شیعہ مساجد میں کیوں نہیں جاتے کیا پاکستان کی طرح ایران میں ایک مذہب والوں کو دوسرے مذہب کی مسجد میں جانے پر پابندی ہے یا جانے پر ضرب و شتم کرتے ہیں یا کافر قرار دیتے ہیں؟ جناب چیمہ صاحب یہ سب دشمنوں کے پروپگنڈے ہیں آپ جیسے با بصیرت اور اہل مطالعہ اور قلمکاروں سے یہ توقع نہیں ہے بغیر تحقیق کے عالم اسلام کے دشمنوں کی زبان میں بات کریں اور قلم اٹھائے!
7۔ آپ نے لکھا ہے:”اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے اور ہمیں معاشی طور پر سہارا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے عوام کے دلوں میں حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کے لیے عقیدت اور محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لیے اس کے ساتھ ہمارے خصوصی مراسم ہیں اور قائم رہیں گے۔”
آپ کی یہ بات بجا ہے کہ سعودی حکومت نے برے حالات میں پاکستان کی مدد کی ہے لیکن سوال یہ ہے اس مدد کی مد میں آپ سے کیا تقاضا کیا ہے یا کیا جارہا ہے۔ کیا آل سعود نے پاکستان کو ایران کے مقابلے میں لا کھڑا نہیں کیا؟ کیا پاکستان میں جتنی دہشت گردی ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس میں سعودی ریال کے کرشمے نہیں ہے؟ کیا پاکستان میں فرقہ واریت میں وہابیت کا دخل نہیں ہے کیا سعودی حکومت سالانہ دس کڑوڑ ڈالر پاکستان میں بد امنی پھلانے اور دہشت گردوں کی تربیت کے لئے ان کے سہولت کاروں کے لئے فنڈ مہیا نہیں کررہے ہیں؟ حرمین شریفین کا سعودی عرب میں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آل سعود جو خود آثار پیغمبر، اصحاب اور اہل بیت کے قبور تک کو نابود کرنے پر تلے ہو‎ئے ہیں ان کی محبت بھی دل میں رکھیں اور ان کے اشاروں پر ناچنے لگیں
اگر سعودی عرب پاکستان کی مدد کرتا ہے تو پارلیمنٹ سے یمن پر حملے کے اتحاد میں شامل نہ ہونے کا کہنے اور گورنمنٹ کی مخالفت کے باوجود پاکستان کا پرچم ہمیشہ اس اتحادی گروپ میں کیوں شامل رہا؟
ایران اگر پاکستان کا پرچم اس طرح سے استعمال کرتا تو تب بھی پاکستان اسیطرح سے خاموش رہتا؟ ہرگز نہیں
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی ریال اپنا کام کر دکھایے ہیں کہ اس حد تک ہم اپنی بات کہہ بھی نہیں سکتے ہیں۔
تحریر ڈاکٹر فدا حسین عابدی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *