ربیع الاوّل کے فضائل اور اعمال
نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں،
ربیع الاول کا مہینہ دیگر تمام مہینوں پر شرافت رکھتا ہے:
تکوینی لحاظ سے انسان کے کمال میں مختلف قسم کا اثر رکھنے والے لمحات، دن ، رات اور مہینوں سے ہٹ کر کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور بعض لمحات اور ایام ایک خاص قسم کے تقدس کے مالک ہوتے ہیں۔
اولیائے الہی نے حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کو ماہ ربیع الاول کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں اور اسی مبارک واقعہ کی وجہ سے ہی اس مہینے کو بہار کا نام دیتے ہیں۔
بنی نوع انسان کو دین اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات اور مہربانیاں حاصل ہوئی ہیں وہ کامل ترین انسان یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے مقدس وجود کی برکت کی وجہ سے ہیں کہ جو اس مہینے میں اس دنیا میں آئے تھے۔
اس مہینےکی شرافت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے اور یہ مہینہ حقیقت میں دیگر مہینوں کی بہار ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کے نورانی وجود کی وجہ سے ہی تمام شرافتیں، رحمتیں، دنیاوی اور اخروی عنایات اور نبوت، امامت ، قرآن اور شریعت نازل کی گئی ہے۔
یہ مہینہ گرانقدر ترین مہینہ ہے۔ باالفاظ دیگر اس مہینے کی مثال دیگر مہینوں کی نسبت ایسے ہی ہے کہ جس طرح دیگر لوگوں کے درمیان حضرت محمد مصطفیٰ علیہ السلام کا مقام ہے۔ نبی اکرم (ص) نے خود دیگر لوگوں کے درمیان اپنی مثال کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
در حقیقت میری اور تمہاری اور انبیاء کی حکایت اس گروہ کی حکایت کی طرح کہ جو ایک بیابان اور تپتے ہوئے صحرا میں جا رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ جتنا سفر طے کیا وہ زیادہ ہے یا ابھی زیادہ باقی ہے۔ وہ تھکے ماندے ہیں اور ان کا ذخیرہ بھی ختم ہو گیا ہوا ہے اور بیابان کے وسط میں پڑے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔ اس وقت اچانک نیا لباس پہنے ایک مرد ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہ مرد ابھی ابھی آبادی سے آیا ہے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچتا ہے تو کہتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں: آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم تھکے ماندے ہیں اور ہمارا ذخیرہ ختم ہو گیا ہوا ہے اور اس بیابان کے وسط میں بے جان پڑے ہوئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ زیادہ راستہ طے کر لیا ہے یا کم۔ وہ مرد کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں ٹھنڈے اور میٹھے پانی اور سرسبز باغات کی طرف لے کر جاؤں تو مجھے کیا دو گے ؟ وہ کہتے ہیں: تم جو کچھ کہو گے ہم تعمیل کریں گے۔ ۔ ۔
وہ مرد انہیں سرسبز باغات اور ٹھنڈے اور میٹھے پانی تک لے کر جاتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ان سے کہتا ہے: اٹھو تا کہ میں تمہیں اس سے بھی زیادہ سرسبز باغات اور زیادہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشموں تک لے جاؤں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ کہتے ہیں: ہم اتنی مقدار پر ہی راضی ہیں لیکن ایک گروہ کہتا ہے: مگر تم نے اس مرد کےساتھ عہد و پیمان نہیں باندھا ہوا تھا کہ اس کی نافرمانی نہیں کرو گے۔ اس نے تم سے سچ بولا تھا اور اب بھی پہلی بات کی طرح اس کی بات سچی ہے۔ پس یہ گروہ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے اور وہ انہیں سرسبز باغات اور مزید ٹھنڈے پانی تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن باقی بچ جانے والے لوگوں پر دشمن شبخون مارتا ہے اور صبح تک ان کی لاشیں ہی باقی بچتی ہیں۔
میزان الحکمہ، حدیث نمبر18425
شب اول ماہ ربیع الاوّل:
بعثت کے تیرہویں سال اسی رات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کا آغاز ہوا، اس رات آپ غار ثور میں پوشیدہ رہے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی جان آپ پر فدا کرنے کے لیے مشرک قبائل کی تلواروں سے بے پروا ہو کر رسول خدا (ص) کے بستر پر سوئے رہے۔ اس طرح آپ نے اپنی فضیلت اور رسول خدا کے ساتھ اپنی اخوت و ہمدردی کی عظمت کو سارے عالم پر آشکار کر دیا۔ پس اسی رات امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:
و من الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ ،
اور لوگوں میں سے کچھ ہیں جو رضا الہٰی حاصل کرنے کے لیے جان دیتے ہیں.
ماہ ربیع الاوّل کا پہلا دن:
علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علیہ السلام کی جانیں بچ جانے پر شکرانے کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور آج کے دن ان دونوں ہستیوں کی زیارت پڑھنا بھی مناسب ہے۔
سید ابن طاووس نے کتاب اقبال میں آج کے دن کی دعا بھی نقل کی ہے۔ شیخ کفعمی کے بقول آج ہی کہ دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات ہوئی ۔ لیکن قول مشہور یہ ہے کہ آپ کی وفات اس مہینے کی آٹھویں تاریخ کو ہوئی ، لیکن ممکن ہے کہ پہلی کو آپ کے مرض کی ابتداء ہوئی ہو۔
آٹھویں ربیع الاوّل کا دن:
قول مشہور کے مطابق 260 ہجری میں اسی دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد امام العصر عجل اللہ فرجہ منصب امامت پر فائز ہوئے۔ اس لیے مناسب ہے کہ اس روز ان دونوں بزرگواروں کی زیارت پڑھی جائے۔
ماہ ربیع الاوّل کی نو تاریخ کا دن:
آج کا دن بہت بڑی عید ہے، کیونکہ مشہور قول یہی ہے کہ آن کے دن عمر ابن سعد واصل جہنم ہوا۔ جو میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلے میں یزیدی لشکر کا سپہ سالار تھا ۔ روایت ہوئی ہے کہ جو شخص آج کے دن راہ خدا میں خرچ کرے تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ نیز یہ کہ آج کہ دن برادر مومن کو دعوت طعام دینا، اسے خوش و شادمان کرنا ، اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت و فراخی کرنا، عمدہ لباس پہننا، خدا کی عبادت کرنا اور اس کا شکر بجا لانا سبھی امور مستحب ہیں ۔ آج وہ دن ہے کہ جس میں رنج و غم دور ہوئے اور چونکہ ایک دن قبل امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات ہوئی ۔لہذا آج امام العصر عجل اللہ فرجہ کی امامت کا پہلا دن ہے۔ لہذا اس کی عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کا دن:
کلینی و مسعودی کے قول کیمطابق ، نیز برادران اہل سنت کی مشہور روایت کے مطابق اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ اس روز دو رکعت نماز مستحب ہے کہ جس میں پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورہ کافرون پڑھے دوسری رکعت میں الحمد کے بعد تین مرتبہ سورہ توحید پڑھے۔ یہی وہ دن ہے، جس میں بوقت ہجرت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وارد مدینہ ہوئے اور شیخ نے فرمایا کہ 130ہجری میں اسی دن بنی مروان کی حکومت و سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
چودہ ربیع الاوّل کا دن:
64 ہجری میں اسی دن رسوائے عالم یزید ابن معاویہ ملعون داخل جہنم ہوا، اخبار الدوّل میں لکھا ہے کہ یزید ملعون دل اور معدے کے درمیانی پردے کی سوجن (ذات الجنب) میں مبتلا تھا۔ جس سے وہ مقام حوران میں مرا۔ وہاں سے اس کی لاش دمشق لائی گئی اور باب صغیر میں دفن کر دی گئی، پھر لوگ اس جگہ کوڑا کرکٹ پھینکتے رہے۔ وہ جہنمی 37 سال کی عمر میں موت کا شکار ہوا اور اس کی بلکہ بنی امیہ کی ظالم، غاصب، فاسد اور باطل حکومت محض تین سال نابود ہو گئی۔
سترہ ربیع الاوّل کی رات:
یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت کی رات ہے اور بڑی ہی با برکت رات ہے۔ سید طاووس نے روایت کی ہے کہ ہجرت سے ایک سال قبل اس رات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو معراج پر لے جایا گیا۔
علماء شیعہ امامیہ میں یہ قول معروف ہے کہ یہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا یوم ولادت ہے اور ان کے درمیان یہ بھی امر مسلّم ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت روز جمعہ طلوع فجر کے وقت اپنے گھر میں ہوئی۔ جبکہ عام الفیل کا پہلا سال اور نوشیرواں عادل کا عہد حکومت تھا۔ نیز سن 83 ہجری میں اسی دن امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ لہذا اس دن کی عظمت و بزرگی میں اور اضافہ ہوا۔
خلاصہ یہ کہ اس دن کو بڑی فضیلت ، عزت اور شرافت حاصل ہے۔
آج کے دن مسلمانوں کو خاص طور پر خوشی منانا چاہیے، وہ اس دن کی بہت تعظیم کریں۔ صدقہ و خیرات دیں اور مومنین کو شادمان کریں۔ نیز آئمہ طاہرین کے روضہ ہائے مقدس کی زیارت کریں۔
سید ابن طاووس نے اپنی کتاب اقبال میں آج کے دن کی تعظیم و تکریم کا تفصیلی تذکرہ کیا اور فرمایا ہے کہ نصرانی اور مسلمانوں کا ایک گروہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کے دن بہت تکریم کرتے ہیں، لیکن مجھے ان پر تعجب ہوتا ہے کہ کیوں وہ آنحضرت کے یوم ولادت کی تعظیم نہیں کرتے کہ جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نسبت بہت بلند مرتبہ ہیں اور ان سے بڑھ کر فضیلت رکھتے ہیں۔
وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول مبارک ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔ یہ مہینہ فیوضات و برکات کے اعتبار سے افضل ہے کہ باعث تخلیق کائنات رحمۃ اللعالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا۔ 17 ربیع الاول شریف بروز پیر، مکۃ المکرمہ کے محلہ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت با سعادت صبح صادق کے وقت ہوئی۔ 12 ربیع الاول ہی میں آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے۔ اسی ماہ کی 10 تاریخ کو محبوب کبریا (ص) نے ام المؤمنین سیدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا تھا۔
مشائخ عظام اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:
حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و سلم کا وقت ولادت باسعادت لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ کیونکہ لیلۃ القدر میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ولادت پاک کے وقت خود رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین (ص) تشریف لائے۔ لیلۃ القدر میں صرف امتِ مسلمہ پر فضل و کرم ہوتا ہے اور شب عید میلاد النبی میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر اپنا فضل و کرم فرمایا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ
وَمَا اَرْ سَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْنَ.
سترہ ربیع الاوّل مبارک کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا۔ مساکین کو کھانا کھلانا اور میلاد شریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے محمد و آل محمد پر صلوات پڑھنا بڑا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام سال امن و امان عطا فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی سترہ تاریخ کو بالخصوص جلوس میلاد النبی اور مجالس منعقد کرنے اور ان میں بھرپور شرکت کر کے وہابیت کے سیاہ اور بدنما مکروہ چہرے اور مزید سیاہ تر کرنا چاہیے۔
حکایت:
ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشتے میں چچا تھا ۔ جب رحمۃ للعالمین کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت با سعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی، تو ابو لہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔
جب ابو لہب مر گیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا۔ تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات میرے عذاب میں کمی ہوتی ہے اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں۔
ابن جوزی نے لکھا ہے کہ جب ابو لہب کافر ( جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشی منائے گا۔ اس کی جزاء خداوند کریم سے یہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنت النعیم میں داخل فرمائے گا۔
میلاد پاک کرنا اور اس میں شرکت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید ،احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ملتا ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں، اور سعودی وہابیوں اور انکی اتباع کرنے والوں کی طرف سے اس میلاد کے جشن اور جلوس کو بدعت کہنا دین سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔
محفل میلاد کی حقیقت:
حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں، سب محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سر شار ہوں اور صحیح العقیدہ علماء یا کوئی بھی عالم دین مسلمانوں کے سامنے حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مبارک ، آپ کے معجزات ، آپ کے اخلاق کریمہ، فضائل اور مناقب صحیح روایات کے ساتھ بیان کرے اور آخر میں بار گاہِ رسالت میں درود و سلام با ادب کھڑے ہو کر پیش کریں۔ اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلا کر فقراء و مساکین کو کھلائیں۔ احباب میں تقیسم کریں پھر اپنی تمام حاجتوں کیلئے دعا کریں۔ یہ تمام امور قرآن و سنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ جل شانہ، کی ہدایت کی ضرورت ہے۔
انعقادِ میلاد، خداوند کی سنّت ہے:
محبوب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا میلاد خود خالق اکبر جل شانہ، نے بیان کیا ہے ۔
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم۔
(ترجمہ) بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان۔
سورۃ توبہ 128
اس آیت شریفہ میں پہلے خداوند نے فرمایا کہ مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی ، پھر فرمایا کہ وہ رسول تم میں سے ہیں، اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے ، پھر فرمایا تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں، یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت بیان فرمائی۔
میلاد مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکار دو جہان کا میلاد شریف بیان کرنا سنت الٰہیہ ہے۔
عید میلاد النبی (ص) کی دوسری دلیل:
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ۔
(ترجمہ) اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی ۔
سورۃ المائدہ آیت 114
مندرجہ بالا دعا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہے کہ انہوں نے خداوند کی بارگاہ میں ایک خوانِ نعمت اللہ کی نشانی کے طور پر نازل ہونے کی دعا کی ، اور نزول آیت و خوانِ نعمت کو اپنے لیے اور بعد میں آنے والوں یومِ عید قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ خوانِ نعمت کے نزول کے دن اتوار کو دنیائے عیسائیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس دن روز مرّہ کے کام کاج چھوڑ کر تعطیل مناتی ہے۔
عید میلاد النبی (ص) کی تیسری دلیل:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے کہ:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔
(ترجمہ) تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ، اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں، وہ ان کی سب دولت سے بہتر ہے۔
سورۃ یونس آیت 58
مفسرینِ جیسے علامہ ابن جوزی (م ۔597ھ) ، امام جلال الدین سیوطی (م۔ 911ھ) علامہ محمود آلوسی (م۔ 1270ھ) اور دیگر نے مذکورہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں فضل اور رحمت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مراد لیا ہے۔
حوالے کیلئے دیکھیں:
زاد المسیر، ج 4، ص 40
تفسیر درِّ منثور ، ج 4، ص 368
تفسیر روح المعانی ، ج 6، ص 205
مفسرینِ کی وضاحت و صراحت کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے عموم میں کائنات اور اس کے لوازمات بھی شمار ہوں گے، لیکن فضل و رحمت سے مطلق نبی کریم کی ذات مراد ہو گی کہ جملہ کائنات کی نعمتیں اسی نعمتِ عظمیٰ کے طفیل میں ہیں اور اس ذات کی تشریف آوری کا یوم بھی فضل و رحمت سے معمور ہے ، پس ثابت ہوا کہ یومِ میلاد، ذاتِ با برکات کے سبب اس قابل ہوا کہ اسی دن اللہ کے حکم کے مطابق خوشی منائی جائے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاد کی خوشیوں کے لیے یوم کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اگر قرآنِ مجید سے مزید دلائل پیش کیے جائیں تو عرض ہے کہ اول تا آخر مکمل قرآن نبی پاک کی نعت اور صفات بیان کرتا ہے۔
سورۃ آلِ عمران ، آیات 81 اور 82 میں اس مجلس میلاد کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں انبیاءِ کرام کو جمع کر کے منعقد فرمائی۔
میلاد بیان کرنا سنت مصطفی (ص) ہے:
بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو اس پر رسول خدا (ص) نے فرمایا:
فَقَالَ النَّبِیُّ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَ خَیْرُہُمْ بَیْتًا۔
(ترجمہ) پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبد المطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کیے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کیے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔
رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف ص 513
اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ حضور پر نور شافع یوم النشور (ص) نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کو رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہیں۔
تعیّن تاریخ پر قرآنی دلیل:
وَ ذکِّرْھمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ۔
(اے موسیٰ) ان کو یاد دلاؤ اللہ تعالیٰ کے دن ،
سورۃ ابراہیم
ہر عام و خاص جانتا ہے کہ ہر دن اور رات اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، پھر اللہ کے دنوں سے کیا مراد ہے ؟ ان دنوں سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ مخصوص دن ہیں جن میں اس کی نعمتیں بندوں پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت کریمہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں جن میں اللہ جل شانہ، نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل فرمایا۔
مقام غور یہ ہے کہ اگر من و سلوٰی کے نزول کا دن بنی اسرائیل کو منانے کا حکم ہوتا ہے تو رسول خدا (ص) کی ولادت پاک (جو تمام نعمتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے) کا دن بطور عید منانا، اس کی خوشی میں جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا ، مساکین و فقراء کے لیے کھانا تقسیم کرنا کیوں کر بدعت و حرام ہو سکتا ہے ؟
حدیث نبوی سے تعیّن یوم پر دلیل:
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَ فِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ۔
(ترجمہ) ابو قتادہ نے فرمایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا تھا اور اسی روز مجھ پر قرآن بھی نازل ہوا تھا۔
مشکوٰۃ صفحہ 179
اس حدیث شریف نے واضح کر دیا ہے کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا نا جائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم (ص) کے لیے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں، ایک ولادت مقدسہ اور دوسری نزول قرآن ، اسی لیے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے معیّن فرمایا۔
ماہِ ربیع الاول کیلئے خصوصی ہدایات:
ربیع الاول کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے ، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہیے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی (ص) کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھیے، کسی سے بھی جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجیے۔
ربیع الاوّل کی فضیلت:
جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی عظمت و شان کے طفیل میں دیگر مہینوں پر انفرادیت اور امتیاز عطا فرمایا ہے، اسی طرح ماہ ربیع الاول کے امتیاز اور شان علو کی وجہ بھی اس میں صاحب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہِ مبارک بلا شبہ حضور نبی اکرم (ص) کی ولادت با سعادت کے صدقے سے ایک انفرادی حیثیت کے ساتھ سال کے تمام مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔
ہر چیز میں فضیلت کی نوعیت جدا ہے مختلف اشیاء کی وجہ فضیلت و شرف مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح ہر ماہ کی انفرادیت اور فضیلت کی ایک جدا جہت ہے۔ اسی طرح ہر شہر، ہر علاقے اور ہر دن کی اپنی اپنی امتیازی صفات اور خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف افراد کو افراد پر، بعض ایام کو دسرے ایام پر اور ماہ و سال بلکہ ہر ساعت کو دوسری ساعتوں پر جدا جدا اعتبارات اور مختلف نسبتوں سے شرف و امتیاز عطا فرمایا ہے۔ اس اعتبار سے بعض انبیاء علیہم السلام کو بھی ایک دوسرے پر مختلف حیثیتوں سے فضیلت حاصل ہے۔
مثلا قرآن حکیم میں ذکر ہوا ہے کہ:
یہ سب رسول (جو ہم نےمبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔
سورہ بقرہ
ماہ رمضان المبارک کی وجہ فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قران اتارا گیا ہے۔
سورہ بقرہ
اسی ماہِ مبارک میں آنے والی لیلۃ القدر کو سال بھر کی تمام دوسری راتوں پر فوقیت عطا فرمانے کی وجہ اور فضیلت کا سبب بھی نزولِ قرآن کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ،
سورہ قدر
کبھی شہر مکہ کی قسم کھا کر دوسرے مقدس مقامات کے با وجود اسے صرف اس لیے دوسرے شہروں پر فضیلت دی کہ حضور اکرم (ص) کی حیات مقدسہ کا بیشتر حصہ اس شہر میں گزرا، ارشاد فرمایا گیا:
میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اےحبیب مکرم) اور اس لیےکہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں،
سورہ بلد
اسی طرح ایمان اور اسلام کے بعد ایک مسلمان کے دوسرے پر شرف و تکریم اور اللہ کے ہاں بزرگی کے لیے تقویٰ کی شرط لگائی۔
ارشاد باری تعالٰی ہوا ہے کہ:
بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی با عزت ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔
سورہ حجرات
الغرض قرآن حکیم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات و اشیائےمقدسہ کی فضیلت اور شرف و تکریم کی وجوہات بھی مختلف بیان فرمائی ہیں۔
نزول قرآن کا سبب ذاتِ مصطفٰی (ص):
قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام اور اس کی صفت ہونے کے اعتبار سے پوری کائنات میں اپنی فضیلت و شان میں یکتا ہے، بے شک اس کا نازل ہونا انسانیت کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا احسان عظیم ہے۔ ہم سب مل کر اس کے ایک کلمے کا شکر بھی عمر بھر ادا نہیں کر سکتے۔ اس کے ذریعے جہالت و ضلالت میں گھری ہوئی انسانیت کو اللہ تعالیٰ نے وہ نور علم عطا فرمایا جس سے جہالت کی تاریکیاں ختم ہوئیں اور انسان پستیوں سے اٹھ کر شرف و تکریم کی بلندیوں پر متمکن ہوا یہ سب کچھ اگر اپنی جگہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ قرآن ہمیں کس کے ذریعے عطا ہوا ؟ اگر قرآنی علم کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ نے لا متناہی عظمتیں عطا کی ہیں تو اس ہستی کی اپنی عظمتوں کا کیا عالم ہو گا جس کی دہلیز سے انسانیت کو اس قرآن کی صورت میں اتنا عظیم ذخیرہِ علم و حکمت اور مصدرِ ہدایت میسر آیا۔
وہ ذاتِ اقدس جس کا قلب اطہر اس وحی الٰہی کا ضبط بنا اور سراپا حسن صورت و سیرت خلق قرآن قرار پایا اس کے مقام علو کا ادراک کون کر سکتا ہے ؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قرآن حضور اکرم (ص) کی دلکش اداؤں اور آپ کی عادات و خصائل کے ذکرِ جمیل کا مجموعہ ہے۔
شب میلاد رسول خدا (ص) لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے:
جس کے اوصاف جمیلہ کے ذکر اور خلق عظیم کو بیان کرنے والی کتاب کے اترنے سے رمضان کو اتنی فضیلت ملی کہ اس کی صرف ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ٹھہری تو اس ماہ مقدس یعنی ربیع الاول کی عظمت و فضیلت کا کیا عالم ہو گا جس کو صاحب کتاب، محبوب کبریا کے ماہ میلاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس رات یہ کلام الٰہی یعنی ذکر خلقِ عظیم اترا، اللہ تعالیٰ نے اس رات کو قیامت تک انسان کے لیے لیلۃ القدر کی صورت میں بلندی درجات اور شرف نزولِ ملائکہ سے نوازا اور فرمان خداوندی ہے کہ:
لَيْلَۃُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ،
اس ایک رات کو ہزار مہینوں پر فائق و برتر قرار دیا گیا۔
تو جس رات صاحب قرآن یعنی مقصود و محبوب کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ورود ہوا اور بزم حسینانِ عالم کے تاجدار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لا زوال سعادتوں سے منور فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی کتنی قدر و منزلت کیا ہو گی۔ اس کا اندازہ لگانا فہم و شعورِ انسانی کے لیے نا ممکن ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزول قرآن اور ملائکہ کی رات ہے۔ اور نزول قرآن مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیلئے ہوا، اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ ہوتے تو نہ قرآن ہوتا نہ شب قدر ہوتی اور نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں میلاد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا صدقہ ہیں۔ سو شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شب قدر سے بھی افضل ہے۔ ہزار مہینوں سے افضل کہہ کر باری تعالیٰ نے شب قدر کی فضیلت کی حد مقرر فرما دی جبکہ شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فضیلت زمان و مکان کے اعتبار سے نا محدود و بے حساب ہے۔
آئمہ و مفسرین نے راتوں کی فضیلت پر گفتگو کی ہے۔ مثلاً لیلۃ القدر، لیلۃ نصف شعبان، لیلۃ یوم العرفہ، لیلۃ یوم الفطر وغیرہ ان میں لیلۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ بہت سے اہل علم و محبت آئمہ و محدثین نے شب میلاد کو شب قدر سے افضل قرار دیا ہے۔
امام قسطلانی، امام زرقانی اور امام نبہانی نے بہت صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شب میلادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب سے افضل ہے۔
امام قسطلانی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
جب ہم نے یہ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال یہ ہےکہ شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افضل ہے یا لیلۃ القدر ؟ تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بنیاد پر لیلۃ القدر سے افضل ہے:
1- حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مبارکہ کی رات وہ رات ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ظہور ہوا جبکہ لیلۃ القدر آپکو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ظہور کا شرف ملا اس رات سے زیاد شرف والی ہو گی جسے اس رات میں تشریف لانے والی شخصیت کے سبب سے شرف ملا پس اس میں کوئی نزاع نہیں، لہٰذا شبِ میلاد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیلۃ القدر سے افضل ہوئی۔
قسطلانی، المواہب الادنیہ،ج1 ص 541
2- اگر لیلۃ القدر کی عظمت اس بناء پر ہے کہ اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شب ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے اور جس وجہ سے شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شرف سے نوازا گیا وہ لیلۃ القدر کو شرف سے نوازنے کی وجہ سے کہیں زیادہ افضل و اشرف ہے، لہٰذا شب ولادت افضل ہو گی۔
زرقائی، شرح المواہب اللدنیہ، ج1 ص 522
3- لیلۃ القدر کے باعث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو اس نعمت کو جمیع کائنات کے لیے عام کر دیا گیا، پس شب ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے لہٰذا اس اعتبار سے یہ لیلۃ القدر سے افضل ہوئی۔
نبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار ج3: ص 424
امام طحاوی نے اس بارے میں کہا ہے کہ :
سب سے افضل راتوں میں سے شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر شب قدر پھر شب اسراء و معراج پھر شب عرفہ پھر شب جمعہ پھر شعبان کی پندرہویں شب پھر شب عید ہے۔
نبہانی جواہر البحار، ج 3 ص 624
امام نبہانی اپنی مشہور تصنیف الانوار المحمدیہ میں رقم طراز ہیں:
اور شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شب قدر سے افضل ہے۔
نبہانی: الانوار المحمدیۃ ص 82
جس رات میں فرشتے اتریں اس رات کی فضیلت یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے افضل ہے اور خود ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فضیلت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مزار اقدس کی زیارت کے لیے ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو اترتے ہیں مزار اقدس کا طواف کرتے ہیں اور بارگاہِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض نیاز کرتے اور چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور ان ایک لاکھ چالیس ہزار فرشتوں میں سے جن کی باری ایک بار آتی ہے دوبارہ نہیں آئے گی۔ فرشتے تو دربار مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خادم اور جاروب بردار ہیں۔ وہ اتریں تو رات ہزار مہینوں سے افضل ہو جائے اور ساری کائنات کی سرکار اترے تو اس کی کوئی فضیلت ہی نہ جانی جائے ؟ آقا کی آمد کی رات اور آپ کی آمد کے مہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان، اور خاص بات یہ ہے کہ شب قدر کی فضیلت فقط اہل ایمان کے لیے ہے باقی انسانیت اس سے محروم رہتی ہے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد باعثِ فضل و رحمت فقط اہل ایمان ہی کے لیے نہیں مومن اور کافر ساری کائنات کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ساری کائنات کی تمام مخلوقات کے لیے اللہ کا فضل اور اسکی رحمت ہے اس پر خوشی کا اظہار کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔
اس مختصر سے تقابل سے مقصود لیلۃ القدر کی عظمت کا انکار نہیں بلکہ ربیع الاول اور بالخصوص ساعت میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہمیت و تقدس کو واضح کرنا ہے۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے یہ بھی حاصل ہوا کہ قرآن حکیم کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنے سے پہلے صاحب قرآن کی قدر و منزلت کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا نا گزیر ہے۔
استاد کی قدردانی در اصل علم کی قدردانی ہے:
اس کی مزید وضاحت اس روز مرہ مثال پر غور کرنے سے ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی علم جیسی نعمت کو حاصل کرتا ہے تو اسے کسی نہ کسی واسطے یا ذریعے کا سہارا لینا پڑے گا اور یہ واسطہ و ذریعہ علم اس کے لیے بلا شبہ اس کا استاد ہے جو اسے علم سکھاتا ہے۔ گویا ﷲ تعالیٰ نے استاد کو انسان تک نعمت علم پہنچانےکا ذریعہ بنایا ہے۔
اس حال میں کتنا عجیب ہو گا کہ اگر انسان علم کی قدر دانی تو کرے مگر اس استاد کی قدر و منزلت اور شرف و تکریم سے عدم توجہی کا مظاہرہ کرے جس کے واسطے سے اسے علم کی دولت نصیب ہوئی۔ کوئی شخص استاد جیسی نعمت کو کمتر جانتے ہوئے اس کی قدر و منزلت غیر ضروری سمجھے اور علم کی دولت کو بہتر جانتے ہوئے اس کی قدر و منزلت کی طرف زیادہ توجہ دے، تو اس نے در اصل علم کی ناقدری کی ہے، استاد کی نہیں۔
نعمتِ قرآن کے شکر کی قبولیت بواسطہ مصطفی (ص):
امت مسلمہ جب قرآن حکیم کے نزول پر شکر بجا لاتی ہے تو یہ اس کے اہم ترین فرائض، قرآن پر ایمان اور اس سے محبت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے۔ لیکن نعمت قرآن کا شکر بجا لانا اس وقت تک شکر نہیں بن سکتا اور ﷲ جل مجدہ کی بار گاہ میں شرف قبولیت حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اس ہستی کی تشریف آوری اور ولادتِ مبارکہ کا شکرانہ ادا نہ کیا جائے جس کی وساطت سے ﷲ تعالیٰ نے اس نعمت قرآن سے دامن انسانیت کو منور کیا۔
ﷲ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہے جس نے اپنی نعمتوں کو دل سے یاد رکھ کر ان پر شکر بجا لانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ قرآن حکیم کے کئی مقامات اس پر شاہد عادل ہیں۔ مثلاً یہ فرمایا گیا:
اور اپنے اوپر (کی گئی) ﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرےکی) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی پس تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
سورہ اٰل عمران
یہ (بلاشبہ) ﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا اور باہم خون کے پیاسوں کو ایک دوسرے کا غمخوار بھائی بنا دیا، ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروتوں سے بدل دیا۔ لیکن یہ بھی تو سوچیے کہ یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے تصدق سے نصیب ہوئی اس نعمت کا مبداء و مرجع بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےحلقہ غلامی میں داخل ہونا تھا کہ سب لوگ خواہ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے تھی، باہم شیر و شکر ہو گئے اور ایک دوسرے کی محبت اور الفت کے اسیر ہو گئی۔
حضور اکرم (ص) کی سب سے بڑی نعمت:
پہلی امتیں ﷲ تعالیٰ کی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں نیز نعمتوں کے شکرانے پر جشن اور عید منانا خود انبیاء کی سنت ہے اور قرآن کی واضح آیات اس پر گواہ ہیں۔ آج تک عیسائی لوگ مائدہ جیسی عام نعمت کے ملنے والے دن کو بطور عید مناتے ہیں۔ اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ وارد نہیں ہونا چاہیے کہ یہ تو پھر غیر مسلموں کےساتھ اشتباہ ہو گا کہ وہ جس طرح نعمت کا شکر بجا لاتے ہیں ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے، نہیں ! بلکہ اس مثال سے مقصود صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سابقہ روایات کے مطابق مخصوص دن مناتے چلے آ رہے ہیں اور ان کے اس فعل کا ذکر تو قرآن نے کرنا مناسب سمجھا۔
غور طلب بات ہے کہ سابقہ امتوں کو جب معمولی سے نعمت پر شکر بجا لانےکا حکم تھا اور وہ اس کی تعمیل کرتی تھیں، تو امت مسلمہ کو کیا ہے کہ وہ اپنے آقا اور مولا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد کے سلسلے میں خوشی منا کر خدا کی اس عظیم ترین نعمت کا شکریہ ادا نہ کرے جب عام نعمتوں کےحصول پر شکر کرنا واجب ہے تو اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا بدرجہ اولیٰ واجب ٹھہرا کیونکہ کائنات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارکہ سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں بلکہ کائنات کو وجود ہی اسی نعمت کے توسط سے ملا۔ دنیا و مافیہا اور آخرت کی جملہ نعمتیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درِ اقدس کی خیرات ہیں۔
ﷲ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا کائنات ہست و بود میں خدا تعالیٰ نے بےحد و حساب احسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہے گا کیونکہ وہ رحیم و کریم ہے۔
اﷲ نے ہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، ﷲ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور سہولتوں سے نوازا لیکن احسان نہیں جتلایا پھر دن رات کا نظام ہمارے لیے مرتب کیا۔ سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا مگر اس کا احسان بھی نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤوف و رحیم نے ہمیں اپنی پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسن تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشک ملائکہ بنایا لیکن پھر بھی کوئی احسان نہیں جتلایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا غرضیکہ انفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہماری عقل و سوچ سے بھی باہر ہیں، اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لیےکہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسانات کو نہیں جتاتا۔
لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ ﷲ تعالیٰ نےجب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سر فراز فرمایا تو اس کا ذکر کیا اور کیا بھی اس طرح کہ پوری دنیائے نعم میں صرف اس پر احسان جتلایا اور اظہار بھی عام الفاظ میں نہیں بلکہ مومنین کو اس کا احساس دلایا اور احسان جتلانے سے پہلے دو تاکیدیں بھی لائیں۔
ارشاد فرمایا گیا:
بے شک ﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔
سورہ اٰل عمران
خداوند فرما رہا ہے کہ امت مسلمہ پر میرا یہ بہت بڑا احسان، انعام اور لطف و کرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے پیدا کیا۔ محض تمہاری تقدیریں بدلنی، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف و تکریم سے نوازنے کے لیے تا کہ تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت و شرف انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو ! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو اب اس پر ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی اسے بھی عام سے نعمت سمجھتے ہوئے، اس کی قدر و منزلت اور علو مرتب سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے اور خداوند تعالیٰ کے اس احسان عظیم کی ناشکری کا ارتکاب کرتی رہے۔ اس احسان جتلانے میں بھی امت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا نیز قرآن حکیم کے اس واضح حکم سے ہر مسلمان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ خبردار ! ﷲ کے اس عظیم احسان کو کبھی فراموش نہ کرنا اس میں خدا اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (نعوذ باﷲ) کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا نہ اس کی شان میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے تم اس کے اس احسان پر شکرانہ ادا کرو یا نہ کرو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر تو خدائی وعدہ کے مطابق روز افزوں ہی رہے گا۔
اے محبوب! ہر آنے والی گھڑی تیرے لیے پہلی گھڑی سے بہتر ہے۔
سورہ ضحیٰ
اور آپ کا ذکر مبارک ہر آن بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا کہ یہ بھی خود خالق کائنات کا ارشاد گرامی ہے:
اور (اے محبوب) ہم نے تیری خاطر تیرا ذکر بلند کر دیا ہے۔
سورہ انشراح
اب کوئی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کرے گا تو اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہے اور اسی طرح ان کی تشریف آوری پر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا، تو یہ بھی اس کی اپنی اپنی آحرت کو صحیح کرنے والی بات ہے، نہ وہ کسی پر احسان کر رہا ہے اور نہ ہی کسی کا فائدہ بلکہ اپنا توشہ آخرت بہتر بنا رہا ہ
دیدگاهتان را بنویسید