رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی نامہ
رسول اللہ کی ولادت باسعادت
اکثر محدثین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت محمد کی ولادت باسعادت عام الفیل میں یعنی نزول وحی سے چالیس سال قبل ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ لیکن یوم پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ شیعہ محدثین و دانشوروں کی رائے میں آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو ہوئی اور اہلسنّت کے مورخین نے آپ کا روز ولادت ۱۲ ربیع الاول تسلیم کیا ہے۔
حضرت محمد کی ولادت کے وقت چند حوادث اور غیر معمولی واقعات بھی رونما ہوئے جن میں سے بعض یہ ہیں:
ایوانِ کسریٰ میں شگاف پڑ گیا اور اس کے چودہ کنگورے زمین پر گر گئے، فارس کا وہ آتشکدہ جو گزشتہ ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا یکایک خاموش ہو گیا۔ ساوہ کی جھیل بیٹھ گئی، تمام بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ زرتشتی عالموں اور کسریٰ خاندان کے بادشاہ نے پریشان کن خواب دیکھے، شاہانِ دنیا کے تخت سلطنت سرنگوں ہو گئے، پیغمبر اکرم کے باعث نور آسمان کی طرف بلند ہوا اور بہت وسیع حصے میں پھیل گیا۔
پیغمبر کی ولادت کے وقت ایسے حیرتناک واقعات کا رونما ہونا درحقیقت لوگوں کو خطرے سے آگاہ اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنا تھا بالخصوص ان حکمرانوں کی تنبیہ کرنا مقصود تھی جو اس وقت دنیا میں فرمانِ روائی کر رہے تھے تاکہ وہ ان واقعات کے بارے میں غور کریں اور یہ جانیں کہ ان حادثات کا رونما ہونے کا کیا سبب ہے، نیز خود سے سوال کریں کہ کیونکر بتوں کے ڈھانچے اور بت پرستی کے نشانات منہ کے بل زمین پر آ گرے ہیں، اور وہ لوگ جو خود کو زمین کا آقا و مالک سمجھتے تھے کیوں مضطرب و پریشان ہو گئے، کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے بھی برتر بہتر طاقت کا ظہور ہوچکا ہے؟ اس کے ساتھ ہی بت پرستی اور شیطانی طاقتوں کا زمانی عروج ختم ہوچکا ہے۔
پیغمبر اکرم کا بچپن
رسولِ خدا نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، اسی لیے ایک قول کے مطابق رسولِ خدا کی تربیت بچپن سے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی زیر سرپرستی ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب نے پیدائش کے ساتویں دن بھیڑ ذبح کرکے اپنے پوتے کا عقیقہ کیا اور نام محمد رکھا، اس نومولود بچے کے لیے دایہ کی تلاش ہوئی اور چند روز کے لیے انہوں نے بچے کو ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد طائفہ بنی سعد کے معزز فرد ابوذویب کی مہربان و پاکدامن دختر حضرت حلیمہ نے آنحضرت کو اپنی تحویل میں لے لیا اور صحرا کی جانب لے گئیں تاکہ فطرت کی آغوش اور صحتمندانہ آزاد فضا میں ان بیماروں سے دور جو کبھی شہر مکہ کے لیے خطرہ پیدا کر دیتی تھیں۔ ان کی پرورش کرسکیں۔ قبیلہ بن سعد کے درمیان رسولِ خدا کی موجودگی حضرت حلیمہ اس نونہال کو ان کی والدہ کی خدمت میں لے گئیں تو انہوں نے آنحضرت کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ نے بھی ان سے اتفاق کیا۔
پیغمبر اکرم پانچ سال تک صحراء کے دامن میں طائفہ بنی سعد کے درمیان زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو واپس والدہ اور دادا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ کے مزار کی زیارت سے مشرف ہونے اور دونوں اناؤں سے ملاقات کرنے کی غرض سے یثرب گئیں۔ جہاں کا ایک ماہ تک قیام رہا وہ جب واپس مکہ تشریف لا رہی تھیں تو راستہ میں (ابواء ۳۷) نامی مقام پر شدید بیمار ہو گئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حادثے سے آنحضرت بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کے مصائب میں دو گنا اضافہ ہو گیا، لیکن اس واقعے نے ہی آپ کو دادا سے بہت نزدیک کر دیا۔
قرآن مجید نے ان مصائب و رنج و تکالیف کے زمانے کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
الم یجدک یتیما فاوی
”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا۔“
ابھی آپ نے زندگی کی آٹھ بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں دادا کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق اپنے چچا ابوطالب کے زیر سرپرستی آ گئے۔
حضرت ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو پیغمبر اکرم بہت زیادہ عزیز تھے، وہ لوگ آپ کا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھتے تھے، چنانچہ جس وقت کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ پیارے بیٹے (حضرت محمد) کے آنے کا انتظار کرو۔
رسول خدا حضرت فامہ بنت اسد کے بارے میں فرماتے ہیں:
حقیقی معنوں میں وہی میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اکثر اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا دیتیں کہ شکم سیر ہو کر کھاتا ان کے بچے میلے ہی رہتے مگر مجھے نہلا دھلا کر ہمیشہ صاف ستھرا رکھتیں۔
خدائی تربیت
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بچپن کے بارے میں فرماتے ہیں:
لقد قرن اللہ بہ من لدن ان کان فطمنما اعظم ملک من الملئکة یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلا ونھار
”جس دن رسول خدا کا دودھ چھڑایا گیا اسی دن سے خداوند تعالیٰ نے فرشتے کو آپ کے ہمراہ کر دیا تاکہ آپ کی دن رات عظمت و بزرگواری کی راہوں اور اخلاق کے قابل قدر اوصاف کی جانب راہنمائی کرتا رہے۔“
رسالت کی جانب ایک قدم شام کی طرف پہلا سفر
رسول خدا نے جب حضرت ابوطالب کے گھر میں رہنا شروع کیا تو آپ کی زندگی کی نئی فصل کا آغاز ہوا۔ یہ فصل لوگوں سے ملاقات اور مختلف نوع کے سفر اختیار کرنے سے شروع ہوئی، چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے ہی حضرت محمد کا گوہر وجود اس تاریک و سیاہ ماحول میں درخشاں ہوا، اور یہیں سے آپ کو معاشرے نے امین قریش کہنا شروع کیا۔
بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ہمراہ اس کارواں قریش کے ساتھ، جو تجارت کے لیے ملک شام کی جانب جا رہا تھا سفر پر روانہ ہوئے۔ جس وقت یہ کارواں ”بصری“ پہنچا تو ”بحیرا“ نامی عیسائی دانشور کے قافلہ والوں سے ملاقات کے لیے آیا، اسی اثناء میں اس کی نظر رسول خدا پر پڑی۔ اس نے انجیل مقدس میں پیغمبر آخرالزمان سے متعلق جو علامات پڑھی تھیں وہ اور دیگر نشانیان اسے نبی اکرم میں نظر آئیں تو اس نے آپ کو فوراً پہچان لیا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب کو آپ کے نبی ہونے کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھیں اور مزید کہا:
ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ انہیں گزند پہنچائے بغیر نہ رہیں گے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہو سکے واپس مکہ لے جایئے۔
حضرت ابوطالب نے اپنے کاروبار کے امور کو جلد از جلد انجام دیا اور مکہ واپس آ گئے اور پوری طرح اپنے بھتیجے کی حفاظت و نگرانی کرنے لگے۔
مستشرقین کی افتراء پردازی
راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بدنیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انہی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و براہین سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے، ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:
عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انہیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔
اگر پیغمبر نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی ہوتیں تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آ کر انہیں بیان کرتے۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بعد رسول اکرم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ میں امی ہوں۔
اگر تورات اور انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔
اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟
ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔
حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا کے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔
رسول خدا نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔
کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا، اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔
حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی
حضرت خدیجہ رشتے میں پیغمبر اکرم کی چچا زاد بہن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصیٰ بن کلاب سے جاملتا تھا۔ حضرت خدیجہ کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہٴ کعبہ کا حامی (۸) و پاسدار تھا اور خود حضرت خدیجہ اپنی عفت و پاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دورِ جاہلیت میں انہیں ”طاہرہ“ اور ”سیدہ قریش“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کے لیے بہت سے رشتے آئے اگرچہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کے لیے کثیر رقم دینے کے لیے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئیں۔
جب رسول خدا ملک شام سے سفر تجارت کے بعد واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ سے شادی کرنے کا اظہار کیا۔
رسولِ خدا نے اس مسئلے کو حضرت ابوطالب اور دیگر چچاؤں کے درمیان رکھا۔ سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آپ نے قاصد کے ذریعے حضرت خدیجہ کو اس رشتے کی منظوری کا مثبت جواب دیا۔ رشتے کے منظور کئے جانے کے بعد حضرت ابوطالب اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حضرت خدیجہ کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ کے گھر پر محفل تقریب نکاح منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچاؤں ”حضرت ابوطالب“ اور ”عمر بن اسد“ نے پڑھا۔
شادی کے وقت رسول خدا کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔
حضرت خدیجہ سے شادی کے محرکات
بعض وہ لوگ جو ہر چیز کو مادی مفاد کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں انہوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے:
چونکہ حضرت خدیجہ کو تجارتی امور کے لیے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے پیغمبر اکرم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم یتیم و نادار تھے اور حضرت خدیجہ کی شرافتمانہ زندگی سے وافق تھے اسی لیے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا، اگرچہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا۔
اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو شامل تھے۔ اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا کی اور بعد میں حضرت خدیجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ذیل میں چند نکات بیان کرتے ہیں:
اول تو پیغمبر کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقویٰ و معنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی نظر میں دنیوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی اور آپ نے حضرت خدیجہ کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا۔
دوسرے اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ نے کی تھی نہ کہ رسول اکرم نے۔
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
حضرت خدیجہ عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اور انہیں متقی و پرہیزگار شوہر کی تلاش تھی۔
دوسرے یہ کہ ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ“ غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش“ کے لیے جذبہ محبت و الفت بڑھ گیا چنانچہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا۔
تیسرے یہ کہ پیغمبر اکرم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی۔ اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم کو ضرور سفر پر روانہ کرتیں تاکہ مال و دولت میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے برعکس حضرت خدیجہ نے اپنی دولت آنحضرت کے حوالے کر دی تھی تاکہ اسے آپ ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ نے رسولِ خدا سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے۔
اے میرے چچا کے بیٹے!
چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا تو میں تمہاری جانب مائل ہوئی اور شادی کے لیے پیغام بھیجا۔
پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے
حضر خدیجہ سے رسول خدا کی شادی کے بعد حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام ملک شام سے اپنے ساتھ کچھ غلام لے کر آئے جن میں ایک آٹھ سالہ لڑکا زید ابن حارثہ بھی تھا، جس وقت حضرت خدیجہ ان غلاموں کو دیکھنے کے لیے آئیں تو حکیم نے ان سے کہا کہ پھوپھی جان آپ ان غلاموں میں سے جسے بھی چن لیں گی وہ آپ ہی کو مل جائے گا(۲) حضرت خدیجہ نے زید کو چن لیا۔
جب رسول خدا نے زید کو حضرت خدیجہ کے پاس دیکھا تو آپ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ غلام مجھے دے دیا جائے۔ حضرت خدیجہ نے اس غلام کو پیغمبر اکرم کے حوالے کر دیا۔ پیغمبر خدا نے اسے آزاد کرکے اپنا فرزند (متبنی) بنا لیا لیکن جب پیغمبر خدا پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو قرآن نے حکم دیا کہ انہیں متبنی نہیں صرف فرزند کہا جائے۔
جب زید کے والد ”حارث“ کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا یبٹا شہر مکہ میں رسول خدا کے گھر میں ہے تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا کہ ان کا بیٹا ان کو واپس دے دیا جائے۔ آنحضرت نے زید سے فرمایا:
ہمارے ساتھ رہو گے یا اپنے والد کے ساتھ جاؤ گے؟
اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد کے ساتھ واپس چلے جاؤ، حضرت زید نے پیغمبر اکرم کے پاس ہی رہنا پسند کیا۔ جب رسول اللہ پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام کے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت پر ایمان لائے۔
رسولِ خدا نے ان کا نکاح پاک دامن اور ایثار پسند خاتون ام ایمن سے کر دیا جن سے ”اسامہ“ پیدا ہوئے اس کے بعد آپ نے اپنے چچا کی لڑکی ”زینب بنت حجش“ سے ان کی شادی کر دی۔
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت
شہر مکہ کے اس تاریخ ساز عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت باسعادت تھی، مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش واقعہٴ عام الفیل کے تیس سال بعد ہوئی، خانہ کعبہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش و تولد آپ کے عظیم و ممتاز فضائل میں سے ایک ہے۔ اس فضیلت کا نہ صرف شیعہ دانشوروں نے ذکر کیا ہے بلکہ اہلسنّت کے محدثین و مورخین بھی اس کے معترف ہیں۔
پیغمبر اکرم کے دامن میں تربیت
حضرت علی علیہ السلام نے بچپن اور شیرخوارگی کا زمانہ اپنے مہربان اور پاکدامن والدین حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کی آغوش اور اس گھر میں بسر کیا جہاں نورِ رسالت اور آفتابِ نبوت تاباں تھا۔ حضرت ابو طالب کے اس نونہال پر حضرت محمد کی شروع سے ہی خاص توجہ و عنایت تھی، اسی لیے آپ نے حضرت علی علیہ اسلام کے ساتھ محبت و مہربانی کے سلوک اور تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
رسولِ خدا نے اسی پر ہی اکتفا نہ کی، بلکہ جب حضرت علی علیہ السلام نے اپنی عمر کی چھ بہاریں دیکھ لیں، تو آپ انہیں اپنے گھر لے آئے اور بذاتِ خود ان کی تربیت فرمانے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام سے بے پناہ شغف کی وجہ سے آپ انہیں اپنے سے ہرگز جدا نہیں کرتے تھے چنانچہ جب کھی آپ عبادت کے لیے مکہ سے باہر غارِ حراء میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی علیہ السلام آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔
رسولِ اکرم کے زیر سایہ حضرت علی علیہ السلام کی جو تربیت ہوئی اس کی اہمیت و قدر و قیمت کے بارے میں خود حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ولقد علمتم موضعی من رسول اللہ ابالقرابتہ القریبة والمنزلة الخصیصہ وضعنی فی حجرہ وانا ولد یضمنی الی صدرہ و یکنفنی فی راشہ ویمسنی جسدہ و یشمنی عرفہ وکان یمضغ النبی ثم یلقینی… ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر اہ برفع کانی کل یوم اخلاقہ علما و یامرنی بالاقتداء بہ
”یہ تو تم سب ہی جانتے ہو کہ رسول خدا کو مجھ سے کیسی قربت تھی اور آپ کی نظروں میں میری کیا قدر و منزلت تھی، اس وقت جب میں بچہ تھا آپ مجھے اپنی گود میں جگہ دیتے اور سینے سے لگاتے، مجھے اپنے بستر پر اپنی جگہ لٹاتے، میں آپ سے بغل گیر ہوتا اور آپ کے جسم مبارک کی عطر آگیں بو میرے مشام کو معطر کر دیتی۔ آپ نوالے چبا کر میرے منہ میں رکھتے، میں پیغمبر اکرم کے نقش قدم پر اس طرح چلتا جیسے شیرخوار بچہ اپنی ماں کی پیروی کرتا ہے۔ آپ ہر روز اخلاق کا پرچم میرے سانے لراتے اور حکم فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔“
معبود حقیقی سے انس و محبت
امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔
جناب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ولقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولایراہ غیر
”رسول خدا ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔“
پیغمبر اکرم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔
اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کے والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
رسول اکرم کا ارشاد ہے:
لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام التطھیرات
”میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ہوتا رہا۔“
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=77466
دیدگاهتان را بنویسید