زبان کےگناہ اور آفات قرآن و روایات کی روشنی میں
مقدمہ:
علم اخلاق کے اہم موضوعات میں سے ایک زبان کی آفات اور اس سے مربو ط گناہوں کا بیان ہے اگر چہ زبان کی نعمت مفید اور گرانقدر ہے لیکن زبان کے ذریعے جتنے گنا ہ سرزد ہوتے ہیں اس کے نقصانات کہیں زیادہ وسیع ہے۔
واقعا اللہ تعالیٰ نے یہ زبان حق بولنے کیلئے خلق کیا ہے اما یہ زبان ایسا ذریعہ ہے جس سے بہت سارے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں ۔ علامہ فیض کاشانی نے فرمایا ہے کہ زبان سے مستقیما بیس گناہ سرزد ہو تے ہیں ، من جملہ ان میں سے ۔ جھوٹ ، غیبت ، چغلی، تہمت ، گالی، کسی کی توہین کرنا، غلط القاب سے پکارنا وغیرہ اور غیر مستقیم دوسو سے زیادہ گناہ سرزد ہوتے ہیں ۔
زبان سے گناہ زیادہ سرزد ہونے کی علت یہ ہے کہ بعض گناہ انجام دینے کیلئے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسے شراب وغیر ہ شراب کو پہلے خرید نا پڑتاہے اور بعض گناہ کیلئے آلات آمادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ مثلا موسیقی کیلئے موسیقی کے آلات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن زبان کیلئے پیسے اورآلات وغیرہ کی احتیاج نہیں ہے لذا زبان سے زیادہ گنا ہ سرزد ہوجاتے ہیں اور زبان سے یہ گناہ سرزد ہونا ایک قسم کی بیماری ہے۔
علماء نے اس بیماری کی علاج کیلئے چند وجوہات ذکر کیے ہیں۔
انسان کو چاہیے سکوت اختیار کرے یعنی فضول باتوں سے پرہیز کریں۔
تفکر قبل از تکلم : انسان کو بات بولنے سے پہلے سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے کہ کہیں میں گناہ پر مرتکب تو نہیں ہورہاہوں۔
انسان مخاطب کو دیکھ کر بات کرے کہ سننے والا کس قسم کا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ کیا بول رہا ہے یعنی توجہ ضروری ہے۔
انسان کو یہ بھی توجہ کرناچاہیے کہ ہماری باتیں کراما ًکاتبین(دوفرشتے ) ہر وقت لکھ رہے ہوتے ہیں۔
انسان کو عاقبت پر علم ، یقین اور ایمان ہو نا چاہیے ۔ گناہ زیادہ سرزد ہونے کی سب سے بڑی علت یہی ہے کہ ہمیں آخرت پر یقین محکم نہیں ، انسان کو یقین ہے کہ آگ اسے جلا ئے گی تو اس کے قریب جانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے چہ جائے کہ آگ پرہاتھ لگائے ۔
قرآن مجیدکی آیات اور روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ انسان کو روز محشر اپنی تمام باتوں کا جواب دینا ہوگا اور ان پر ثواب یا عذاب کا مستحق بھی ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: “(انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اسکے پاس (لکھنے والا) نگہبان تیار ہے۔”
انسان کی زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں ہوتی لیکن ہر بات نامۂ اعمال میں محفوظ اور درج ہورہی ہے۔اسی طر ح ایک دوسری جگہ انسان کے اعمال و اقوال کو ضبط کرنے والے فرشتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:” یقینا تم پر نگہبان، عزت والے، لکھنے والے مقرر ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔”
ان آیات اسی طرح قرآن کی اور بھی آیات میں یہ مضمون بصراحت آیا ہے ۔جس سے یہ حقیقت معلوم ہوجا تی ہے کہ کہ ہر انسان کے اعمال اور اقوال سب کچھ اس کے نامہ اعمال میں درج ہورہے ہیں ۔ چھوٹی بڑی کوئی بات اور کوئی معمولی سے معمولی کام بھی درج ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
زبان کے مثبت اور منفی پہلو:
زبان اور بیان کی نعمت خاص اہمیت کی حامل ہے مگر اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ہونا چاہیے کہ زبان جیسے مثبت پہلو رکھتی ہے اسی طرح منفی پہلو کی بھی حامل ہے بغیر سوچے سمجھے ہر قسم کی بات زبان پر جاری کرنا یہ طریقہ درست نہیں بلکہ زبان کو صرف ضروری اور مفید امور کیلئے استعمال کرنا چاہیےصاحب عقل کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ بے جا گفتگو نہیں کرتا کیونکہ زبان سے انسان کی عقل کا اندازہ ہوتاہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:” یعنی بات کرو تا کہ، تمہاری شناخت ہوجائے بیشک انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے ۔”
بقول شاعر : تا مرد سخن نگفته باشد. عیب و هنرش نهفته باشد۔ جب تک آدمی بات نہ کرے اس کی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ نہیں چلتا ۔
یعنی انسان کو بات کرتے وقت احتیاط اور غور فکر سے کام لینے اور فضول باتوں سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر بات کرتے وقت وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے۔ تو اس پر برے اثرات مرتب ہونگے یعنی انسان کو شرعی حد، حدود کے اندر رکھ کر بات کرنی چاہیے ۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :”اے میرے بیٹے : مجھے بات کرنے کے نتیجے میں تو ندامت وپشیمانی اٹھانی پڑی ہے لیکن خاموشی کے باعث کوئی ندامت وپشیمانی اٹھانی نہیں پڑی۔”
مولا کائنات امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں۔کہ متقین کی سب سے پہلی صفت “متقین ہمیشہ سچ بولتے ہیں” جھوٹ کبھی نہیں بولتے ۔
اسی طرح امام باقرعلیہ السلام کا فرمان ہے ۔ ” یہ زبان ہر خیر و شر کی چابی ہے پس ہر مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر مھر لگائیں جس طرح سونا اور چاندی کی حفاظت کرتے ہیں۔”
جیسا کہ پہلے بیان ہوا زبان کے تباہ کن نقصانات ، آفات اور بیماریاں بہت زیادہ ہیں مگر اختصار کا لحاظ کرتے ہوئے ۔ چند اہم آفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
1۔ غیبت:
زبان کے تباہ کن نقصانات ، آفات اور بیماریاں میں سے ایک اہم بیماری غیبت ہے جس کا شمار گناہان کبیرہ میں ہوتاہے۔
غیبت : یعنی دوسروں کی عدم موجودگی میں ان کی بدگوئی کرنا اور انکے بارے میں غیر پسندیدہ بات کرنا۔
قرآن مجید میں غیبت کرنے سے منع کیا گیاہے۔ وَلَایَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًااَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِھتُمُوۡہُ۔
اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو۔
یعنی بہت سے لوگ غیبت کے مرتکب ہوتے ہیں گویا اس کو حرام ہی نہیں سمجھتے ہیں اور اس نکتے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے کہ وہ ایک غیبت کے ذریعے اپنے تمام اعمال نیک اعمال اور حسنات کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔
اور روایات میں بھی غیبت کو عجز وناتوانی کی نشانی اور منافق علا مت کہاقرار دیا ہے ۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:”غیبت کرنا عاجز وناتوان کی کوشش ہے”
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:”غیبت منافق کی علامت وپہچان ہے۔”
غیبت کی حقیقت کے متعلق ایک واقعہ :
انس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے ایک روز لوگوں ایک دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا میری اجازت کے بغیر کوئی افطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھ لیا ۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا : میں سارے دن روزے سے رہا ہوں، آپ مجھے افطار کی اجازت دیں، آپ نے اس کو افطار کی اجازت مرحمت فرمائی۔
پھر ایک شخص حاضر ہوا اس نے عرض کیا آپ کے گھر کی دو کنیزیں صبح سے روزے سے ہیں، آپ انہیں بھی افطار کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص سے اعراض کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا روزہ نہیں ہے، ان لوگوں کا روزہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتے رہے ہوں، جاؤ انہیں جاکر کہو اگر وہ روزہ دار ہیں تو قے کریں، انہوں نے قے کی تو ہر ایک سے جما ہوا خون نکل آیا۔ اس شخص نے جاکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ مرجاتیں اور اگر یہ گوشت کے ٹکڑے ان کے شکم میں باقی رہتے تو جہنم کی آگ ان کو کھا جاتی۔
غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس بچنا آج کل کے معاشرے میں بہت مشکل کام مگر ناممکن نہیں اگر انسان کوشش کرے تو اس سے بچ سکتا ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ پس پشت اپنے برادر مومن کی برائی کرنے کے بجائے عزت کریں اگر کوئی غیبت کرے تو اسے روکیں اگر ایسا کریں گے تو خداوند متعال دنیا وآخرت میں اس کی مددکرے گا ۔ جب خدا وند متعال نے اس کی عیب چھپایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے عیوب کو عیاں کریں ۔ہم اپنے گریبان میں دیکھیں ہمارے اندر کتنے عیوب ہیں اور ستار العیوب نےہمارے عیبوں پر کس طرح پردہ ڈالا ہواہے۔
جب ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اپنے عیوب دوسروں کو پتہ چلیں ۔ تو ہر گز دوسرے بھی اس بات کو پسند نہیں کریں گےاگر ہرکوئی ایسی برائی سے باز آئےگا تو معاشرے سے فساد اور برائی کا خاتمہ ہوگا۔
2۔ جھوٹ :
زبان کی آفتوں اور تباہ کن نقصانات میں سے میں سے ایک جھوٹ ہے جھوٹ گناہ کبیرہ ہے اور تمام گناہوں کی چابی ہے ۔ اور صاحب ایمان کبھی اپنی زبان کو اس بری عادت میں مبتلا نہیں کرتا۔
جھوٹ انسان کی حیثیت کو خراب اور اعتماد کو ضائع اور لوگوں کا اعتماد ختم ہوجاتاہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگ اپنی ایک چھوٹی سی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں بسا اوقات دن میں دسیوں بار جھوٹ بولتے ہیں ۔
جبکہ جھوٹ کے اجتماعی اور انفرادی زندگی میں منفی اثرات اور برے نتائج ہے لوگ اس کی طرف غور وفکر نہیں کرتے یہانتک کہ کچھ لوگ جھوٹ کو اپنی ہوشیاری اور عقلمندی جبکہ سچ بولنے والے کو سادہ لوح تصور کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والے کو بے ایمان کہا ہے ۔”یقینا ًغلط الزام لگانے والے صرف وہی افراد ہوتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور وہی جھوٹے بھی ہوتے ہیں ”
اور قرآن مجید میں بہت سے لوگوں کے گروہوں پر لعنت بھیجی ہے جن میں سے ایک گروہ جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح روایات اور احادیث معصومین علیہم السلام میں بھی جھوٹ کی بہت زیادہ مذمت کی ہے روایات میں جھوٹ کوگناہوں کی چابی نفاق کی علامت ہے اور جھوٹ انسان کی رزق کو کم کرتاہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جھوٹ رزق میں کمی کا باعث بنتاہے۔ ”
3۔ چغلی:
زبان کی آفتوں میں سے ایک اور آفت جو اخلاقی پستی کا ثبوت ہے اور انسان کو خدا سے دور کرتی ہے چغلی اور سخن چینی ہے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس کے بارے میں فرماتے ہیں ۔کہ “وَیۡلٌ لِّکُلِّ ھمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۙ” ترجمہ: ہر طعنہ دینے والے عیب گو کے لیے ہلاکت ہے۔
خدا وند عالم ایک اور مقام پر اپنے رسول سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “وَلاتُطِعْ كُلَّ ۔۔۔۔۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ”یعنی: جولوگ بہت عیب جوئی اور سخن چینی کرتے ہیں ان کی پیروی نہ کرو ۔
اسی طرح احادیث میں چغلی خوری کی بہت مذمت ہوئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہارے بد ترین افراد کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ حاضرین نے کہا کیوں نہیں اے رسول خدا ﷺ آپ نے فرمایا بدترین لوگ وہ ہے جو چغلی خوری کے پیچھے ہوتے ہیں۔دوستوں میں جدائی ڈالتے ہیں اور پاکدامن افراد کے عیوب تلاش کرتے ہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:” چغلی خوری، غیبت اور جھوٹ عذاب قبر کی علت ہے”۔
اسی امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ” بہشت غیبت کرنے والوں اور چغلی خوروں پر حرام ہے”۔
چغلی خور میدان حشر میں:
معاذ نےعرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ : قرآن مجید کی اس آیت ” يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْواجاً ” کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: اے معاذ تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہےپھر آپ کی آنکھوں آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ میری امت کےدس گروہ مختلف شکلوں میں منتشر ہوکر محشور ہوں گے،اللہ تعالٰی ان کو دوسرے مسلمانوں سے جدا کرکے ان کے چہروں کومسخ کرکے مختلف حیوانات کی شکل میں محشور کرے گا۔
بعض بندروں کی شکل میں دوسرے بعض خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے۔ بعض کے سرزمین کی طرف اور پاؤں اوپر کی طرف ہونگے ۔ بعض اندھے بعض گونگے اور بہرے ہوکر محشور ہونگے۔جو کچھ نہیں سمجھتے ہونگے۔
بعض اپنی زبانوں کو چباتے ہوں گے اور پیپ اور گندگی اورخون ان کے منہ سے نکل رہا ہوگا کہ جس سے محشر کے لوگ تنفر کریں گے۔بعض کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہونگے ۔ اور بعض اس حالت میں محشور ہونگے کہ آگ کے ستون سے لٹکے ہوئے ہونگے ۔ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے ۔ بعض مس کے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان کے جسم سے چپکا ہوا ہوگا۔
اس کے بعد رسول خداﷺ نے ان میں سے ہر ایک کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: کہ جو لوگ بندروں کی شکل میں محشور ہونگے وہ چغل خور اور سخن چین تھے اور جو خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام خور تھے اور جو الٹے لٹکے حرکت کر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ جو قضاوت اور حکومت میں ظلم و جور کرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے کردار میں خودپسند تھے اور جو اپنی زبان کو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضی ہونگے کہ جن کا کردار ان کے اقوال کے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں کٹے محشور ہونگے وہ ہمسایوں کوآزار اور اذیت دیتے تھے اور جو آگ کے ستوں سے لٹکے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں کے سامنے لوگوں کی شکایت لگاتے تھے اور جن کی بدبو مردار سے بدتر ہوگی وہ دنیا میں خواہشات اور لذت نفس کی پیروی کرتے تھے اور اموال میں حق تھا ادا نہیں کرتے تھے جن کو خدا نے واجب کیا تھا اور جن لوگوں نے مس کا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستکبر اور فخر کیاکرتے تھے۔
چغلی خوری کے اسباب:
لوگ چغلی کیوں کرتے ہیں ؟ اسکے اسباب کیا ہے بعض وجوہات ذکرکرتے ہیں:
بدگمانی اور بدبینی:
جب کوئی آدمی کسی سے بدگمان ہوتا ہے اور اس کو معاشرے بد نام کرنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف چغلی اور بدگوئی شروع کرتاہے۔
حکام کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش :
کچھ لوگ بڑے لوگوں اور حکام کے سامنے لوگوں کی بدگوئی اورچغلی خوری کے ذریعے ان حکام کو خوش کرنے اور ان سے دوستی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تفریح اور دل لگی:
بعض دل لگی کی خاطر اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
تفرقہ ڈالنے کیلئے:
لوگوں کے درمیان افتراق اور جدائی ڈالنے کی خاطر بھی بدگوئی اور چغلی خوری سے کام لیا جاتاہے ۔
4۔تہمت:
تہمت ایک عظیم گناہ ہے زبان سے کیے جانے والے گناہوں میں سے ایک گناہ تہمت ہے ۔تہمت یعنی وہم وگمان کی بنیاد پر کسی کی طرف غلط بات یا گناہ کی نسبت دینا۔ کتنا براعمل ہے کہ انسان کسی کے سر پر ایسا گناہ تونپے جس سے اس کا دامن پاک ہو اور کس قدر ناپسند ہے کہ انسان اپنی غلطی کو چھپانے اور اپنے آپ صاف شفاف دیکھنا کیلئے یا کسی بے ہودہ چیز کی بنا پر کسی محترم انسان کو ذلیل ورسوا کرے یقیناً ایسا انسان رحمت الہی سے دور ہے۔
آیات:
اپنے گناہ کی نسبت دوسروں کی طرف دینا:” اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ہے وہ بہت بڑے بہتان اور کِھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتا ہے “
جوکچھ نہیں کیا اس کی نسبت دینا: ” اور جو لوگ صاحبانِ ایمان مرد یا عورتوں کو بغیر کچھ کئے دھرے اذیت دیتے ہیں انہوں نے بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے “
روایات :
عظیم گنا ہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”کسی پاکدامن مومن پر تہمت لگانا مستحکم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین و بھاری ہے۔”
سزا:حضرت رسولﷺ نے فرمایا:”جو کسی مومن پر تہمت لگائے یا اس کے بارے میں وہ چیز کہے جو اس میں نہ پائی جاتی ہو تو ایسے شخص کو خداوند عالم آگ کی ایک بلندی پر کھڑا کرے گا تاکہ وہ اپنے مومن بھائی کی شان میں کہی جانے والی بات ثابت کردے “
تہمت کے بارے میں ایک واقعہ:
انسان کو دوسروں پر تہمت لگانے سے ہرحا ل میں بچنا چاہیے یہانتک کی غیر مسلمان پر بھی تہمت جائز نہیں۔
عمرو بن نعمان جعفی کہتے ہیں حضرت امام صادق کا ایک دوست تھا جہاں امام جاتے وہ امام کے ساتھ رہتااور امام سے الگ نہ ہوتا ۔ ایک دن امام کے ساتھ بازار گیا اور اس کا غلام جو کہ مسلمان نہیں تھا وہ بھی اس کے ساتھ تھا لیکن درمیان میں غلام کہیں اِدھر ادھر ہوگیا اس نے تین مرتبہ مڑ کرپیچھے دیکھا مگر غلام دکھائی نہ دیا۔
جب چوتھی مرتبہ دیکھا تو غلام نظر آیا تو اس نے کہا : “اے بد کار عورت کے بیٹے تو کہاں تھا” روای کہتا ہے : امام صادق علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارا اور کہا خدا کی پناہ تو اس کی ماہ پر تہمت لگاتا ہے! میں گمان کرتا تھا کہ تم ایک پرہیز گار شخص ہو لیکن میں تم میں پرہیز گاری کی کوئی نشانی نہیں دیکھ رہا ہوں ۔ اس نے کہا : میری جان آپ پر قربان ! اس کی ماں مشرک ہے ۔ حضرت نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے ہر امت ومذہب میں نکاح ہوتا ہے؟ مجھ سے دور ہوجا! روای کہتا ہےاس کے بعد میں نےکبھی بھی اس کو حضرت کے ساتھ نہیں دیکھا یہانتک کہ وہ اس دنیا سے چل بسا۔
کسی انسان پر تین طرح سے تہمت لگائی جاسکتی ہے:
کسی کی طرف ایسے عیب کی یقینی طور پر نسبت دینا جو اس میں نہیں ہے صرف یہ اس گمان پر کہ یہ عیب ہوگا۔
یہ جانتے ہوئے کہ اس شخص میں یہ عیب نہیں ہے پھر بھی اس کی طرف دشمنی کی وجہ سےاس عیب کی نسبت دینا۔
اپنے آپ کو بچانے کیلئے اپنے عیب اور گناہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرنا۔
بحر حال انسان کو دوسروں پر تہمت لگانے سے ہر حال میں بچنا چاہیے کیونکہ اگر معاشرے کے تمام لوگ ایک دوسرے کی اہانت اور بے حرمتی کرنے لگیں تو ہرانسان صرف اس فکر میں ہوگا کہ اس کا انتقام کس سے لے اور پھر معاشرے میں کسی کا انفرادی یا اجتماعی کمال یا اچھا اخلاق باقی نہیں رہےگا۔
لوگوں سے میل جول رکھنے میں تہمت سے پرہیز کرنے کے علاوہ انسان پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود کوتہمت کی جگہوں سے بھی بچائےیعنی ایسا کام نہ کرے جو دوسروں کی بد ظنی اور شک کا باعث ہو۔
خلاصہ وجمع بندی:
زبان اور بیان کی نعمت خاص اہمیت کی حامل ہے مگر اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ہونا چاہیے کہ زبان جیسے مثبت پہلو رکھتی ہے اسی طرح منفی پہلو کی بھی حامل ہے بغیر سوچے سمجھے ہر قسم کی بات زبان پر جاری کرنا یہ طریقہ درست نہیں بلکہ زبان کو صرف ضروری اور مفید امور کیلئے استعمال کرنا چاہیےصاحب عقل کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ بے جا گفتگو نہیں کرتا کیونکہ زبان سے انسان کی عقل کا اندازہ ہوتاہے ۔
واقعا اللہ تعالیٰ نے یہ زبان حق بولنے کیلئے خلق کیا ہے اما یہ زبان ایسا ذریعہ ہے جس سے بہت سارے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں ۔من جملہ ان میں سے ۔ جھوٹ ، غیبت ، چغلی، تہمت ، گالی، کسی کی توہین کرنا، غلط القاب سے پکارنا وغیرہ ۔
زبان سے زیادہ گنا ہ سرزد ہوجاتے ہیں اور زبان سے یہ گناہ سرزد ہونا ایک قسم کی بیماری ہےاور اس بیماری کی علاج کیلئے چند وجوہات ذکر کیے ہیں۔
انسان کو چاہیے سکوت اختیار کرے یعنی فضول باتوں سے پرہیز کریں۔
تفکر قبل از تکلم : انسان کو بات بولنے سے پہلے سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے کہ کہیں میں گناہ پر مرتکب تو نہیں ہورہاہوں۔
انسان مخاطب کو دیکھ کر بات کرے کہ سننے والا کس قسم کا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ کیا بول رہا ہے یعنی توجہ ضروری ہے۔
انسان کو یہ بھی توجہ کرناچاہیے کہ ہماری باتیں کراما ًکاتبین(دوفرشتے ) ہر وقت لکھ رہے ہوتے ہیں۔
انسان کو عاقبت پر علم ، یقین اور ایمان ہو نا چاہیے ۔ گناہ زیادہ سرزد ہونے کی سب سے بڑی علت یہی ہے کہ ہمیں آخرت پر یقین محکم نہیں ، انسان کو یقین ہے کہ آگ اسے جلا ئے گی تو اس کے قریب جانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے چہ جائے کہ آگ پرہاتھ لگائے ۔
زبان کے تباہ کن نقصانات ، آفات اور بیماریاں میں سےچند اہم بیماریوں کی طرف اشارہ کرتے ہے۔
غیبت : زبان کے تباہ کن نقصانات ، آفات اور بیماریاں میں سے ایک اہم بیماری غیبت ہے جس کا شمار گناہان کبیرہ میں ہوتاہے۔
یعنی دوسروں کی عدم موجودگی میں ان کی بدگوئی کرنا اور انکے بارے میں غیر پسندیدہ بات کرنا۔
یعنی بہت سے لوگ غیبت کے مرتکب ہوتے ہیں گویا اس کو حرام ہی نہیں سمجھتے ہیں اور اس نکتے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے کہ وہ ایک غیبت کے ذریعے اپنے تمام اعمال نیک اعمال اور حسنات کو تباہ وبرباد کرتے ہیں اور روایات میں بھی غیبت کو عجز وناتوانی کی نشانی اور منافق علا مت کہاقرار دیا ہے ۔
جھوٹ : زبان کی آفتوں اور تباہ کن نقصانات میں سے میں سے ایک جھوٹ ہے جھوٹ گناہ کبیرہ ہے اور تمام گناہوں کی چابی ہے ۔ اور صاحب ایمان کبھی اپنی زبان کو اس بری عادت میں مبتلا نہیں کرتاجھوٹ انسان کی حیثیت کو خراب اور اعتماد کو ضائع اور لوگوں کا اعتماد ختم ہوجاتاہے۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگ اپنی ایک چھوٹی سی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں بسا اوقات دن میں دسیوں بار جھوٹ بولتے ہیں ۔
جبکہ جھوٹ کے اجتماعی اور انفرادی زندگی میں منفی اثرات اور برے نتائج ہے لوگ اس کی طرف غور وفکر نہیں کرتے یہانتک کہ کچھ لوگ جھوٹ کو اپنی ہوشیاری اور عقلمندی جبکہ سچ بولنے والے کو سادہ لوح تصور کرتے ہیں ۔
چغلی: زبان کی آفتوں میں سے ایک اور آفت جو اخلاقی پستی کا ثبوت ہے اور انسان کو خدا سے دور کرتی ہے چغلی اور سخن چینی ہے ۔ اسی طرح احادیث میں چغلی خوری کی بہت مذمت ہوئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہارے بد ترین افراد کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ حاضرین نے کہا کیوں نہیں اے رسول خدا ﷺ آپ نے فرمایا بدترین لوگ وہ ہے جو چغلی خوری کے پیچھے ہوتے ہیں۔دوستوں میں جدائی ڈالتے ہیں اور پاکدامن افراد کے عیوب تلاش کرتے ہیں۔
تہمت :تہمت ایک عظیم گناہ ہے زبان سے کیے جانے والے گناہوں میں سے ایک گناہ تہمت ہے ۔تہمت یعنی وہم وگمان کی بنیاد پر کسی کی طرف غلط بات یا گناہ کی نسبت دینا۔ کتنا براعمل ہے کہ انسان کسی کے سر پر ایسا گناہ تونپے جس سے اس کا دامن پاک ہو اور کس قدر ناپسند ہے کہ انسان اپنی غلطی کو چھپانے اور اپنے آپ صاف شفاف دیکھنا کیلئے یا کسی بے ہودہ چیز کی بنا پر کسی محترم انسان کو ذلیل ورسوا کرے یقیناً ایسا انسان رحمت الہی سے دور ہے۔
بحر حال انسان کو دوسروں پر تہمت لگانے سے ہر حال میں بچنا چاہیے کیونکہ اگر معاشرے کے تمام لوگ ایک دوسرے کی اہانت اور بے حرمتی کرنے لگیں تو ہرانسان صرف اس فکر میں ہوگا کہ اس کا انتقام کس سے لے اور پھر معاشرے میں کسی کا انفرادی یا اجتماعی کمال یا اچھا اخلاق باقی نہیں رہےگا۔
آخر میں خدا وند متعال دعا کرتاہوں ۔کہ ہمیں زبان کے تباہ کن نقصانات اورآفتوں سے محفوظ فرمائے۔آمین
فهرست منابع
قرآن مجید ترجمہ: علامہ ذیشان حیدر جوادی
نہیج البلاغہ ترجمہ: علامہ مفتی جعفر حسین
تحف العقول ابو محمد، حسن بن علی بن حسین بن شعبہ
غررالحکم سید حسین شیخ الاسلامی
بحارالانوار علامہ مجلسی ؒ
خصال شیخ صدوق علیہ الرحمہ
گنجینہ معارف محمد رحمتی شہر صفا
تفسیرمجمع البیان حسن طبری
المحاسن والمساوی بیهقی، ابوطالب تجلیل
نهج الفصاحه ابوالقاسم پاینده، نشر دنیای دانش، تهران، 1382 ش، ص 373۔
نورالثقلین شیخ عبد علی بن جمعہ عروسی حویزی
انوار النعمانیہ سيدنعمتالله جزائرى
تنبیه الخواطر شیخ ابوالحسین ورّام بن ابی فراس حلّی
کاوش:
ذاکرحسین ثاقب ڈوروی
Zhdurovi313@gmail.com
Mob no:+989362280326
دیدگاهتان را بنویسید