تازہ ترین

زندگی نامہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

حضرت فاطمہ معصومہ(س) جو کہ کریمہ اہل بیت کے نام سے مشہور ہیں، حضرت امام کاظم(ع) کی بیٹی، امام رضا(ع) کی بہن اور اہل بیت عصمت و طہارت کی بافضیلت اور برجستہ خواتین میں سے تھیں۔ آپ شہر مقدس قم میں مدفون شخصیات اور امام زادوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں […]

شئیر
23 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2593

حضرت فاطمہ معصومہ(س) جو کہ کریمہ اہل بیت کے نام سے مشہور ہیں، حضرت امام کاظم(ع) کی بیٹی، امام رضا(ع) کی بہن اور اہل بیت عصمت و طہارت کی بافضیلت اور برجستہ خواتین میں سے تھیں۔ آپ شہر مقدس قم میں مدفون شخصیات اور امام زادوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اہل تشیع کے ہاں آپ کی زیارت کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے یہاں تک کہ ائمہ سے منقول احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والوں کا اجر بہشت قرار دیا گیا ہے۔

آپ مدینہ سے سنہ 201ھ ق کو اپنے بھائی امام رضا(ع) کے دیدار کی خاطر ایران کے شہر مشہد کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن راستے میں بیماری کی وجہ سے قم میں اس دنیا سے چل بسیں.

ولادت اور نسب

قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہ(س) کی ولادت کا ذکر نہیں هوا ہے لیکن جدید کتابوں کے مطابق آپ کی ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ173ق کو مدینہ میں ہوئی. شیخ مفید کی نظر میں امام موسی کاظم(ع) کی دو بیٹیوں کا نام فاطمہ تھا، ایک فاطمہ صغری اور دوسری فاطمہ کبری ۔ ابن جوزی کی نظر میں امام کاظم(ع) کی دو بیٹیوں کا نام فاطمہ وسطی اور فاطمہ اخری تها۔ آپ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضا(ع) کی والدہ بھی ہیں۔

تاریخ ولادت اور وفات

مجلہ نور علم میں آیت الله رضا استادی لکهتے ہیں کہ قدیمی‌ ترین جس کتاب میں حضرت معصومہ کی ولادت اور وفات کی تاریخ ذکر ہوئی ہے وہ کتاب نور الآفاق(تاریخ نشر ۱۳۳۴ق) تالیف جواد شاه عبدالعظیمی (م ۱۳۵۵ق) ہے ۔رضا استادی بہت سے مطالب ذکر کر نے کے بعد اس نتیجه پر پہنچے ہیں کہ اس کتاب کے بہت سے مطالب ساختگی اور جعلی ہیں اور ان کا کوئی مستند مدرک نہیں ہے ۔ ان جعلی مطالب میں سے ایک حضرت معصومہ کی تاریخ ولادت اور وفات بھی ہے نیز دیگر کتابوں میں بهی اسی کتاب سے مطلب منقول ہوئے ہیں۔[1]رضا استادی کے اس مقالے کے منتشر هونے کے چند سال بعد تاریخ اسلام کے محقق رسول جعفریان نے تاریخ اسلام کی تقویموں میں آ‍‍ب کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے ثبت هونے پر اعتراض کرتے ہوئے رضا استادی کی ان تحقیقات کے خلاصے کو دوبارہ منتشر کیا ۔[2] سید ضیاء مرتضوی بھی ا‍‍‍‍پنے ایک مقالہ میں جس کا فارسی عنوان تاریخ ولادت و وفات حضرت فاطمہ معصومہ (س) شرحی بر یک سندسازی بی‌پایہ[3] اسی نکته پر تاکید کرتے ہیں ۔ حضرت معصومہ کی تاریخ ولادت اور وفات کے حصول کیلئے بلا ثمر کوششوں کے ذکر کے دوران جواد شاه عبدالعظیمی کے مورد استناد منابع کو ساختگی یا غیر قابل اعتماد معرفی کرتے ہیں ۔[4]

 

آیت الله سید موسی شبیری زنجانی نے حضرت معصومہ کی تاریخ ولادت اور وفات کے جعلی اور ساختگی ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے نیز اس کے جعلی هونے کے واقعه کو بهی ذکر کیا ہے [5] ریاحین الشریعہ کے مؤلف نے بھی ان تاریخوں کو بے بنیاد کہا ہے۔ نیز عبد العظیمی کے بیان کردہ منبع میں یہ مذکور نہیں تھا اور جب اس نے یہی مطلب آیت الله شہاب الدین مرعشی کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بھی ان تاریخوں کو جعلی اور ساختگی کہا اور آیت الله مرعشی اس جعل کرنے والے شخص کو جانتے تھے اور اس کے جعل کرنے کی وجہ سے بھی آگاہ تھے ۔[6]

 

نام اور القاب

معصومہ، طاہرہ، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اور اخت الرضا (یعنی امام رضا کی بہن) آپ کے القاب ہیں[7] اور آپ کے زیارت نامے میں آپ کے دو لقب صدیقہ اور سیدۃ النساء العالمین کا ذکر بھی ہے.[8]

معصومہ

آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔ یہ نام امام علی بن موسی الرضا(ع) کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: جس کسی نے قم میں معصومہ کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی. اسی طرح خود آپ نے اپنا تعارف معصومہ اور امام رضا(ع) کی بہن کے نام سے کروایا ہے۔

کریمۂ اہل بیت

معصومہ کے حرم کی قدیمی تصویر

حضرت معصومہ (س)، آج کل بطور خاص ایرانی معاشرے میں کریمہ اہل بیت کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ ظاہرا یہ لقب ایک خواب سے منسوب ہے جسے سید محمود مرعشی نجفی جو کہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی کے والد تھے، نے دیکھا اور اس میں کسی معصوم نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیت کے نام سے پکارا اور آیت اللہ مرعشی کو آپ کی زیارت کی تاکید فرمائی۔ حکایت کچھ یوں ہے آیت اللہ مرعشی کے والد گرامی بہت اشتیاق رکھتے تھے کہ جس طریقے سے ممکن ہو حضرت زہراء(س) کی قبر مطہر سے آگاہ ہو سکیں، اس مقصد کے لئے آپ نے ایک مجرب چلہ شروع کیا، اور چالیس رات تک اس مخصوص ذکر کا ورد کیا۔ اس امید پر کہ شاید خداوند کسی طریقے سے ان کو حضرت زہراء کی قبر مبارک سے آگاہ فرمائے، چالیسویں رات جب آپ ذکر اور توسل سے فارغ ہو کر آرام کر رہے تھے تو عالم خواب میں امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

 

امام(ع) نے ان سے فرمایا:”علیک بکریمة اھل البیت” کریمہ اہل بیت کے حضور میں جاؤ۔ آپ نے سوچا کہ کریمہ اہل بیت سے مراد حضرت زہراء(س) ہیں، اس لئے کہا: میں نے یہ ختم اسی لئے کیا ہے کہ آپ کی قبر مبارک کا نشان مل سکے تا کہ میں آپ کی زیارت سے مشرف ہو سکوں. امام(ع) نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ(س) کی قبر مبارک ہے جو قم میں ہے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو سفر کی تیاری کا ارادہ کیا اور حضرت معصومہ(س) کی زیارت کے لئے قم کی طرف روانہ ہوئے۔ کریمہ اہل بیت نامی کتاب کے مولف رقمطراز ہیں :آیۃ اللہ مرعشی (رہ) نے اس واقعے کو کئی بار مؤلف کے لئے بیان فرمایا ہے . . .

شخصیت

دینی متون اور منابع میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ موسی بن جعفر (ع) کے تمام فرزندوں میں امام رضا(ع) کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہ(س) کے ہم رتبہ نہیں ہے[9]۔ شیخ عباس قمی کہتے ہیں: امام موسی کاظم(ع) کی بیٹیوں میں سب سے افضل، سیدہ، جلیلہ اورمعظمہ فاطمہ ہیں جو معصومہ کے نام سے مشہور ہیں۔[10]

علمی مقام

آپ کے علمی مقام کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے کہ ایک دفعہ اہل تشیع کے کچھ افراد مدینہ میں داخل ہوئے جو امام کاظم(ع) سے کچھ سوالات کے جواب دریافت کرنا چاہتے تھے لیکن آپ(ع) کسی سفر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت فاطمہ معصومہ(س) نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر ان تک پہنچا دی۔ وہ جواب لے کر مدینہ سے باہر نکلے کہ راستے میں امام(ع) سے ملاقات ہوئی جب امام(ع) نے ان کے سوالات اور حضرت معصومہ(س) کے جوابات کو ملاحظہ فرمایا، تو تین بار فرمایا: تمہارا باپ تم پر قربان ہو جائے۔ [11]

فاطمہ معصومہ(س) نے آل محمد(ص) کی محبت، امام علی(ع) کے مقام اور آپ کے شیعوں کے بارے میں بہت سی احادیث نقل فرمائی ہیں۔[12]

شادی

یعقوبی کے نقل کے مطابق امام موسی بن جعفر نے وصیت فرمائی تھی کہ ان کی بیٹیاں شادی نہ کریں۔ لیکن بعض دیگر مورخین اس روایت کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس نظریے کو رد کرتے ہیں۔

حضرت معصومہ(ع) کی شادی نہ کرنے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ ہارون الرشید اور مامون کے زمانے میں اہل تشیع اور علوی بالخصوص امام کاظم(ع) سخت اذیت اور آزار کی حالت میں زندگی گزارتے تھے اور آپ(ع) کا معاشرے کے ساتھ رابطہ بہت محدود ہو گیا تھا، کوئی اہل بیت کے نزدیک ہونے کی جرات نہ رکھتا تھا، آپ کے ساتھ شادی بیاہ کے رشتے برقرار کرنا تو دور کی بات تھی۔

ایران کی طرف ہجرت اور قم میں داخل ہونا

تاریخ قم کے مؤلف نے یوں لکھا ہے: سنہ200 ہجری میں مامون عباسی نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینے سے “مرو” بلایا۔ مامون کا اصلی مقصد امام(ع) کو اپنے نزدیک رکھ کر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا لیکن اس نے افکار عمومی میں یہ مشہور کرایا کہ مامون نے امام رضا(ع) کو اپنی ولایت عہدی(جانشینی) کیلئے بلایا ہے۔ سنہ 201 ہجری میں آپ کی بہن حضرت معصومہ نے اپنے بھائی کے دیدار کی خاطر “مرو” کا سفر کیا. کہا جاتا ہے کہ فاطمہ معصومہ(س) نے اپںے بھائی کا خط دریافت کرنے کے بعد خود کو سفر کے لئے تیار کیا۔ اس سفر میں حضرت معصومہ نے اپنے خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی جانب سفر کیا۔ جب ساوہ کے مقام پر پہنچیں تو اہل بیت کے دشمنوں نے اس کاروان کے اوپر حملہ کیا ان کے ساتھ لڑائی میں آپ کے سب بھائی اور بھتیجے شہید ہو گئے۔ فاطمہ معصومہ نے جب اپنے سب عزیزوں کے جنازوں کو خون میں غلطاں دیکھا تو سخت بیمار ہو گئیں. اور آپ نے اس حادثے کے بعد اپنے خادم سے فرمایا کہ انہیں قم کی طرف لے جائے.

دوسرے قول کے مطابق جب آپ کی بیماری کی خبر آل سعد تک پہنچی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے قم تشریف لانے کی درخواست کریں۔ لیکن موسی بن خزرج جو کہ امام رضا(ع) کے اصحاب میں سے تھے، نے اس کام میں پہل کی اور فاطمہ معصومہ کی خدمت میں جا کر آپ کے اونٹ کی مہار پکڑی، آپ کو قم کی طرف لے آئے اور اپنے گھر میں ٹھرایا۔ آخرین منابع کے مطابق آپ 23 ربیع الاول کو قم میں وارد ہوئیں. فاطمہ معصومہ 17 دن اس گھر میں عبادت اور راز و نیاز میں مشغول رہیں. آپ کی عبادت گاہ موسی بن خزرج کا گھر تھا جو کہ اب ستیہ یا بیت النور کے نام سے مشہور ہے۔

وفات

قدیمی کتابوں میں آپ کی وفات کی کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن آخری مآخذ کے مطابق آپ کی وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری قمری، 28 سال کی عمر میں ہوئی۔[13] بعض مورخین نے 12 ربیع الثانی نقل کی هے.[14]

 

اہل تشییع نے آپ کی تشیع جنازہ کی اور آپ کو موسی بن خزرج کی ملکیت بابلان نامی جگہ پر دفن کیا۔[15] نقل ہوا ہے کہ جب قبر تیار کی گئی اور مشورہ ہو رہا تھا کہ کون قبر میں اترے اور سب نے ایک بوڑھے شخص جس کا نام قادر تھا اس کا انتخاب کیا اور کسی کو اس کی طرف بھیجا ایسے میں اچانک دو نقاب پوش آئے جنہوں نے آ کر آپ کو دفن کیا اور دفن کرنے کے بعد کسی سے بات کئے بغیر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.[16] اس وقت موسی بن خزرج نے آپ کی قبر مبارک پر نشان بنایا اور سنہ 256 میں امام جواد(ع) کی بیٹی اپنی پھوپھی کی زیارت کرنے کے لئے قم آئیں تو انہوں نے آپ کی قبر پر مزار بنوایا.[17]

زیارت کی فضیلت

اصل مضمون: زیارت نامہ حضرت معصومہ(س)

حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں.امام صادق(ع) نے فرمایا: خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے۔ امام صادق(ع) نے ایک اور روایت میں فرمایا: میری اولاد میں سے موسی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی ۔ اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ ایک اور بیان کے مطابق آپ کی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ [18] [19] امام رضا(ع) کی حدیث میں یوں آیا ہے کہ جو کوئی اس کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی۔[20] اور دوسری روایات کے مطابق: بہشت اس کی ہے۔[21] امام جواد(ع) نے فرمایا: جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت کے ساتھ میری پھوپھی کی زیارت کرے گا وہ اہل بہشت میں سے ہو گا.[22]

 

حوالہ جات

امینی، علامہ عبدالحسین،الغدیر، ترجمہ: جمعی از نویسندگان، تہران: بنیاد بعثت، بی‌تا.

بحرانی، شیخ عبدالله، عوالم، قم، ۱۴۰۹ق.

تستری، محد تقی، تورایخ النبی و الآل، تہران، ۱۳۹۱ق.

تشید، علی اکبر، قیام سادات علوی، تہران، ۱۳۳۱ش.

خوانساری، مولی حیدر، زبده اتصانیف، قم، ۱۴۱۵ق.

داخل بن سید، سید حسین، من لایحضره الخطیب، بیروت، ۱۴۱۲ق.

شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہ ای از دریا، ج۲، موسسہ کتاب‌شناسی شیعہ، قم، ۱۳۹۰ش.

شوشتری، قاضی نورالله، مجالس المؤمنین، تہران، بی‌تا.

شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون اخبار الرضا، بیروت: مؤسسہ الاعلمی، ۱۴۰۴ق.

شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، بیروت: دار المفید، ۱۴۱۴ق.

طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، ۱۴۱۳ق.

قرشی، باقر شریف، حیاة الإمام موسی بن جعفر علیہما السلام، بیروت: دار البلاغہ، ۱۴۱۳ق.

قزوینی رازی، عبدالجلیل، النقض، تہران، ۱۳۵۸ش.

قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم: جامعہ مدرسین، ۱۴۲۲ق.

کاتوزیان، محمد علی بن حسین، انوار المشعشعین، چاپ سنگی، تہران، بی‌تا.

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ش.

مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.

محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعہ، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، بی‌تا.

مہدی‌ پور، علی‌اکبر، کریمہ اہل بیت (س)، قم، نشر حاذق، چاپ ۱، ۱۳۷۴ش.

ناصر الشریعہ، محمد حسین، تاریخ قم، بی جا: علامہ طباطبایی، ۱۳۸۳ش.

نمازی شاہرودی، علی، مستدرک سفینہ البحار، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۹ ق.

نوری، میرزا حسین نوری، دارالسلام، قم، بی‌تا.

یعقوبی، ابن واضح اخباری، تاریخ یعقوبی، نجف، ۱۳۸۴‌ق.

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *