سوال: اس روایت ‘‘انّ المیت یعذّب ببکاءاھلہ علیہ،،
بے شک میت کو اس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ملتا ہے ’’۔ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اولا: یہ روایت بہت ساری دوسری احادیث اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ، ائمہ اطہار علیہم السلام اورصحابہ کرام کی سیرت سے متصادم اور متعارض ہے ۔
دوما :حضرت عمر اس حدیث کی تطبیق کرتے وقت اشتباہ کا مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ صحیح بخاری میں صهیب سے منقول ہے کہ میں جناب عمر سے یہ روایت سننے کے بعد حضرت عائشہ کے پاس گیا اور جو سنا تھا ام المؤمنین سے بیان کیا، تو حضرت عائشہ نے کہا: خدا کی قسم !یہ صحیح نہیں ہے۔رسول خدا ؐنے ہرگز یہ نہیں فرمایا کہ کسی کے رونے سے میت کو عذاب ہوتاہے بلکہ فرمایاہے:‘‘ان الکافریزیدہ اﷲ ببکاءاھلہ عذابا۔۔۔۔’’بے شک کافرمیت کو اس کے اہل کے رونے سے، خدا اس کے عذاب میں اضافہ کرے گا۔
اسی طرح ہشام ابن عروۃ نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں حضرت عمر کا واقعہ حضرت عائشہ کے پاس ذکر کیا تو کہاتو انہوں فرمایا: ‘‘عمر نے ایک چیز سنی ہے لیکن صحیح طرح سے یاد نہیں رکھا……’’
سوما: حضرت عمر نے عورتوں کو رونے سے منع کیا تو رسول پاکؐ نے فرمایا:‘‘ دعھنّ یاعمرفان ّالعین دامعۃ والقلب مصاب ۔۔۔’’ چھوڑواے عمر! کیونکہ ان کی آنکھیں رو رہی ہیں اور دل مصیبت زدہ ہیں۔
چہارما:یہ روایت قرآن سے معارض ہے جیسا کہ فرمایا ہے:
«لا تزروازرۃٌ وِزراخریٰ »ترجمہ: اورکوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
پنجم:حضرت عمر کس طرح سے منع کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود نعمان بن مقرن ،زید بن خطاب اورخالد بن ولید کے مرنے پر نہ صرف روئے بلکہ خالید بن ولید کی موت پر رونے کاحکم دیا ۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید