سوانح حیات شیخ مہدی مقدسی
سرسبز و شاداب وادیوں، سربہ فلک چٹا نوں، گنگناتی آبشاروں،لہلہاتے پھولوں، صاف زلال چشموں اور قدرت کے بے شمار نعمتوں کا دوسرا نام وادی شگر ہے جو قدرت کے شاہکاروں سے مالا مال شمالی علاقہ جات کے مرکزی شہر سکردو سے تقریبا ۳۰ کلیو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے. اسی شگرخاص سے تقریبا پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع، دور افتادہ، دشوار گزا ر، مگر جنت نظیر اور حسن فطرت سے مالا مال جگه یعنی وادی سیسکو، صبر و تقوی کا پیکر، بانی مدرسہ حیدریہ سیسکو، حجہ الاسلام والمسلمین شیخ مہدی مقدسی کی جائے ولادت ہے.
خاندانی پس منظر:
خاندانی ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ ولادت 1941ہے ـ آپ کے مرحوم والد صاحب کو اللہ نے دو بیٹے اور دو بیٹیوں کی نعمت سے نوازا. مگر آپ کے ایک بھائی اور ایک بہن کم سنی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئےاور اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے آپ والدین کا بہت لاڈلا اور پیارا بچہ تھاـ آپ کے والد محمد حسین ایک متقی پرہیز کار، واجبات و محرمات کے پابند ایک مخلص اور نیک سیرت انسان تھےـ وہ گرچہ عالم دین نہیں تھے مگر واجبات اور محرمات،مکروہات اور مستحبات کے مسائل اور قرائت قرآن وغیرہ پر ان کو عبور حاصل تھا نیز دینی مسائل خاص کرمال حرام وغیرہ کے متعلق بہت حساس تھے اور اپنے بچوں کو روزانہ دوسروں کے پھل فروٹ بغیر اجازت کھانے سے سختی کے ساتھ منع کیا کرتے تھے. اسکی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کو علما کی صحبت اوران کے ساتھ نشست و برخاست بہت پسند تھی .یہی وجہ تھی کہ جب بھی ان کو گھر کے کام کاج سے فرصت ملتی، احکام اور اعتقادات کے متعلق بہت سارے سوالات لیکر فورا مرحوم آخوند مہدی (جو کہ اس زمانے کےبہت متقی اور پرہیز کار عالم اور مبلغ تھے) کے پاس پہنچ جاتے تھے.
علما دوستی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زراعت ،کھیتی باڑی وغیرہ کے کاموں میں شدید ضرورت محسوس کرنے کے باوجود اپنے اکلوتے بیٹے کو علوم دینی حاصل کرنے کیلئے بھیجا اور خودتمام امور و سختیاں تن وتنہا نمٹاتے رہے . آخر میں بعض دشمنوں کے اشارے پر خدا نشناس کرائے کے غنڈوں نے شدید زد و کوب کا نشانہ بنایا اوراسی زد و کوب کے نتیجے میں اکلوٹے بیٹے کی دیدار کا شوق دل میں لئے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے.
آغاز تعلیم
آپ نے کم سنی میں ہی اپنے والد صاحب سے تعلیم قرآن کا آغاز کیا اور بہت شوق و رغبت کے ساتھ حصول علم کے سلسلے کو جاری رکھا۔ قلیل مدت میں قرآن و تعلیم قرائت سے آپ فارغ ہوگئے اور کچھ مدت تصحیح قرائت کے لئے آپ مرحوم آخوند مہدی کے پاس جایا کرتے تھے، ختم تعلیم قرآن کے کچھ مدت کےبعد آپ کے والد گرامی نے آپ میں دینی علوم کے متعلق موجود شوق و رغبت کے علاوہ آپ کے کردارو رفتار میں موجود کچھ خاص نیک خصلتوں کو محسوس کیا تو تمام تر مشکلات اور سختیوں کے باوجود آپ کو علوم آل محمد کے حصول کی خاطر گھر بار چھوڑنے کی اجازت دے دی جو آپ کیلئے اپنے والد کی طرف سے ایک بہترین تحفہ تھا آپ کو ایک طرف خوشی تھی کہ آپ کی دل کی تمنا پوری ہوگئی کہ آپ کو علوم دینی کی تحصیل کی اجازت مل گئی مگر ایک طرف والدین کی جدائی کی وجہ سے آپ بہت اداس بھی تھے مگر کسی کو دل کی حالت سے باخبر ہونے نہیں دیا اور خوشی خوشی رخت سفر باندھ لیا اورآپ نے مدرسہ قائمیہ چھوترون سے دینی تعلیم
کا آغاز کیا جو کہ اس دور کے بہترین اور پر رونق ترین
حوزات میں سے تھا. وہاں آپ نے جید اور مخلص
اساتذہ حجہ الاسلام والمسلمین حافظ شریعت آغا طہ الموسوی اور آخوند مولوی اعلی اللہ مقامہما کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اور آپ نے تمام مادی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے علوم آل محمد جیسی پاک اور مقدس راہ کو نہایت خلوص اور جدیت کے ساتھ جاری رکھا
بلتستان سے کراچی اورحوزہ علمیه نجف کا سفر
شیخ صاحب پوری یک سوئی کے ساتھ ارض بلتستان پرچمکتے اور دمکتےمرکز علم، حوزہ علمیہ چھوترون میں زیر تعلیم تھے تاہم انکے چشم تصور میں حوزہ علمیہ نجف جگمگاتا دکھائی دینے لگاـ مزید تعلیم کے لئے حوزہ نجف کی خواہش پورے آب و تاب کے ساتھ دل میں بڑھتی گئی ـ والد صاحب مالی حالات کی وجہ سے پورا کرایہ نہیں دے سکتے تھے ،نہ ہی خود میں حوزہ نجف جانے کے لئے پورا زاد راہ فراہم کرنے کی استطاعت تھی ایسے میں ان کے لئے نجف جانے کا ارادہ مشقت اور سختی سے خالی نہ تھا. مگر ان کے عزم راسخ، پختہ ارادے اور توکل نے حصول علم کی راہ میں موجود تمام وکاوٹوںور مشکلات کو انکے لئے شہد کی طرح شیرین کردیا، بے سرو سامانی کے عالم میں یہ عاشق علم دین، وسائل سفر اور نجف تک کا کرایہ اپنے ہاتھوں سے حاصل کرنے کی ٹھان کر والدین اور اکلوتی بہن سمیت اپنے ابتدائی درسگاہ مدرسہ قائمہ میں موجود دوستوں سے الوداع کرکے شہر کراچی کی طرف نکل پڑےـ ان کےخیال میں اس وقت نجف جانے کا فیصلہ بروقت تھا ۔بہر حال علم دین کی راہ میں خرچ کرنے اور زاد سفر فراہم کرنے کیلئے پورے شوق اور جذبے کے ساتھ ایک سال تک مزدوری کرتے رہے۔مگر آب وہوا کی ناسازگاری کے باعث کئی بار بیمار پڑگئے اورعلاج وغیرہ کے لئے خرچہ بھی برداشت کرنا پڑا ۔لہذا ایک سال میں زاد سفر فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر ہمت نہ ہاری ،کام بھی جاری رکھا اور اپنے والد صاحب کو خط لکھ کر اپنے حال و احوال سے آگاہ کرتے ہوئے تھوڑا پیسہ بھیجنے کے لئے کہا چونکہ مزید اپنی عمر کو مزدوری کرنے میں گنوانا نہیں چاہتے تھے. ان کےوالد صاحب نے علم دین سے والہانہ عقیدت کی وجہ سے خود مالی مشکلات میں گرفتار ہونے کے باوجود انکی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی بضاعت کے مطابق ایک مختصر رقم شیخ صاحب تک پہنچادیا (حوزہ علمیہ نجف جانے کا خواب پورا ہوتا دیکھ کر شیخ صاحب خوشی سے جھوم اٹھے ) جسے لیکر تقریبا 1960 میں خدا کے سہارے یہ مجاہد فی سبیل اللہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ گئے.
حوزہ علمیه نجف میں قیام
جیسے نجف اشرف میں حوزہ علمیہ نجف اور امام المتقین حضرت امام علی علیہ السلام کے جوار میں پاکر ایسا سکون قلب اور فرحت محسوس کیا جیسا کہ بچہ اپنی ماں کے گود میں محسوس کرتاہے اور اللہ تعالی کی اس کرم نوازی پر شکر کرتے ہوئے حوزہ علمیہ نجف کے دریائے علم و حکمت میں غواصی کرکے موتیوں کو چننا شروع کیا دن رات ایک کرکے محنت کی ۔چنانچہ سیسکو کے ایک زوار کا کہنا ہےکہ: میں زیارت کے لئے گیا تھا اور شیخ سے گہری رفاقت کی وجہ سے میں رات ان کے ساتھ رہا مختصر گفتگو کے بعد شیخ مطالعے میں مشغول ہوگئے اور میں سوگیا ۔ جب فجر کے قریب میری آنکھیں کھلی تو شیخ صاحب کو اسی طرح مطالعے میں غرق پایا. حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران کے طلبا ہوتے تھے اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے جو فارسی میں دروس پڑھاتے تھے اسی وجہ سے آپ کو فارسی پر بھی عبور حاصل تھا اور آپ کو مرحوم شیخ علی مدرس ، مرحوم مدرس افغانی آیہ اللہ حکیم اور دیگر بعض جید علما کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہواـ مختلف اساتذہ اور جوار امام علی علیہ السلام سے کسب فیض کا سلسلہ تقریبا دس سال تک طول پکڑا.
بلتستان کا سفراوردینی اور فلاحی خدمات کا آغاز
شیخ صاحب نے پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ خرمن
علم سے خوشہ چینی کی اور اس سلسلے کو تقریبا دس سال
تک جاری رکھا در ایں اثنا قوم میں تبلیغ دین کے متعلق موجود خلا کو محسوس کرتے ہوئے، قوم اور ملت کی درد کو دل میں لئے ہوئے ان کوتعلیمات قرآنی اور فرامین معصومین ع سے روشناس کرانے کا نیک ہدف دل میں لئے ہوئے، تقریبا 1970میں جوار ائمہ ششگانہ ع اور حوزہ علمیہ نجف کو خیر باد کہہ کراپنے گاوں سیسکو کواپنے خالصانہ تبلیغی فعالیتوں کا مرکز بنادیا. گاوں پہنچتے ہی شیخ صاحب کو معلوم ہوا کہ ان کے والد گرامی ان کے آنے سے کچھ ماہ قبل وفات پاگئے ہیں یہ خبر انکے لئے بہت درد ناک اورناقابل فراموش ثابت ہوئی مگر اللہ کی مرضی پر شکر کرتے ہوئے صبر و بردو باری کا مظاہر ہ کیا.بہر حال مرحوم شیخ نے آیہ (وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ( توبہ/۱۲۲) پر مکمل عمل کیا . اور زندگی حوزہ نجف یا قم گزارنے کے بجائے واپس معاشرے میں تشریف لائے.
تبلیغ دین کے لئے اپنے هی علاقے کا انتخاب
آپ کے گاوں میں قیام کے دوران آّ کے ایران میں موجود دوستوں نے آپ کو ایران میں قیام کا مشوره دیا گیا. مرحوم شیخ حسن مہدی آبادی نے مہدی آباد مدرسے میں تدریس کے لئے بلایا مگر آپ نے الدار ثم الجار کی بنیاد پر ، دینی خدمات سر انجام دینے کیلئے اپنے علاقہ کو ہی ترجیح دیا اورایک محدود دنیاوی وسائل اور لامحدود مسائل کے ساتھ، تمام رکاوٹوں کا اپنے ایمانی طاقت سے مقابلہ کرتے ہوئے خالصانہ طور پر اس طرح دین کی خدمت اورتبلیغ کے فرائض انجام دیا جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ عمل بن گیا. اور اس دور افتادہ گاوں میں مدرسہ، مسجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرکے محروم گاوں کو حوزے کی شکل میں تبدیل کردیا اور ہر عمر
کے افراد ، بچوں سے لیکر بوڑھوں تک کو دینی تعلیمات جیسے احکامات، اعتقادات اور قرآنیات سے فیضیاب کردیا. اور مختلف دینی پروگرامز اور مقابلہ
قرآن جیسے مقدس امور کو وسیع پیمانے پر فروغ دیکر امن و اخوت، دینی اور قرآنی ماحول ایجاد کر کے سیسکو کی فضا کو ایسا رشک آور بنادیا کہ آج بھی اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے لوگ شیخ صاحب کو دعائیں دیتے ہیں اور اپنی، دینی تعلیمات ، حرام و حلال اور نجاست و طہارت کے مسائل سے آگاہی کو شیخ مہدی صاحب کی مرحون منت سمجھتے ہیں.شیخ صاحب کی تبلیغی جد و جہد اورتسلسل سے نہ فقط سیسکو والے مستفیذ ہوئے بلکہ اسکے گرد و نواح علاقوں کے مومنین بھی فیضیاب ہوئے.
مختصر یہ کہ اپنے علم و عمل سے دين اسلام کی بہترين خدمت کی اور معاشرے ميں دينی اقدار و تعليمات کا فروغ ، غلط نظريات پرتنقيد اور ان کا تجزيہ و تحليل اورعملی میدان میں متعدد اور مفيد شاگردوں کی تربيت ، معاشرے کے لئے شیخ صاحب کی خدمات کا ايک حصہ ہيں لہذا کسی محروم منطقہ میں تبلیغ کا طریقہ کوئی ان کی بابرکت زندگی سے سیکھ لے.
تعلیمات دین کی نشرواشاعت اور قریہ قریہ کا سفر
سماج میں دین کی شمع جلانے اور لوگوں تک دینی تعلیمات کو فروغ دینے کی احساس ذمہ داری جیسے مقدس افکار اور جذبوں نے شیخ صاحب کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور وقتا فوتا سیسکو کی مضافاتی علاقوں میں بلکہ دور دارز مناطق تک کبھی آخوند حسین کو ساتھ لیکر ،کبھی کسی اور کو ساتھ لیکر میلوں پیدل سفر کرکے قریہ قریہ پہنچ جایا کرتے تھے اور مومنین کے ساتھ مومنات کو وضو، غسل اور نماز سکھاتے تھے باری باری حمد و سورہ اورنماز سنتے تھے اور سب کی اصلاح کرتے تھے اور انہی مناطق میں نماز جماعت کے قیام کا بندوبست بھی کرتے تھے اور کتنے لوگوں کو کلمہ،طہارت، نجاست وضو، غسل ،نماز، اصول اور
فروع دین سیکھانے والے آپ ہی تھے. بہر حال شیخ صاحب نے قرآن و اہلبیت ع کے پیغام کو آسان مگر مختلف اندازمیں تبلیغ کے ذریعے قریہ قریہ پہنچانے کا بیڑا اٹھایا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب
رہے. نماز اور دینی تعلیمات پھیلانے کے متعلق شیخ صاحب کے کا وشیں قابل تحسین ہونے کے ساتھ آج کے مبلغین کے لئے نمونہ عمل بھی ہے ـانہی کاوشوں کے پیش نظر شیخ صاحب کو اقامہ نماز کمیٹی کی مسؤلیت سونپ دیا گیا اور شیخ صاحب بنحو احسن اس ذمے سے عہدہ برآ ہوگئے.
بے سروسامانی میں کار خیر(تاسیس مدرسہ حیدریہ) کا آغاز
شیخ صاحب جب پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اس خستہ حال اور محروم علاقے میں علم دین پھیلانے کے لئے اپنے گھر کے ایک کمرے کو دینی مدرسے کی شکل دیکر درس و تدریس اور تبلیغ دین کا آغاز اسی کمرے سے ہی کیا اوریہ سلسلہ نہ فقط سیسکو تلک محدور رہا بلکہ گردو نواح کے علاقوں سے تشنگان معارف اہلبیت ع و قرآن نے جوق در جوق شرکت کرنا شروع کیا. یوں یہ تعلیم اور معارف قرآن وآل محمد کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچا اور کسب فیض کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا. اس روز بروز بڑھتی تعداد کے پیش نظر، انہیں سیسکو میں ایک دینی ادارے کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی مگر اس محروم علاقے میں مدرسے کا قیام ناممکن نہ تھا تو ایک بہت مشکل کام ضرورتھا چونکہ وہاں کے لوگ مالی اعتبار سے اس مرحلے میں نہ تھے کہ پورا تعاون کرسکے اور نہ ہی باہر سے کوئی تعاون کرنے والا تھا سوائے خدا کے انہیں کسی کا کوئی آسرا نہ تھا. انکی یہ حالت لمبے عرصے تک رہی یہاں تک کہ انہوں نے توکل کرکے بے سرو سامانی کے عالم میں مدرسے کی تاسیس کا آغاز کیا. خدا کے فضل و کرم شامل حال رہا اور شیخ صاحب کے اخلاص عمل کے پیش نظر سیسکو کے مومنین نے اپنی بضاعت کے حساب سے تعاون کرنے میں دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ جو مالی معاونت کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ مفت میں کئی دن کام کرتے تھے بہر حال سیسکو کے مومنین خاص کر حجہ الاسلام شیخ احمد صاحب کی مالی معاونت اورمرحوم شیخ مہدی صاحب کی مسلسل جدوجہد اور انتھک کوششوں سے مدرسہ حیدریہ سیسکو کے تین کمرے معرض وجود میں آئے جہاں زن و مرد پیر و جوان سب علم دین سے فیضیاب ہورہے تھے .اسکے نور علم سے سیسکو اور اسکے گر دو نواح کے علاقے بھی منور ہورہے تھے مگرجگہ کی تنگی اور ایک مکمل دینی مدرسہ بنانے کی سوچ نے شیخ صاحب کو مزید جدوجہد کرنے پر مجبور کیا اور باہر کے بعض اہل خیر افراد کا تعاون میسرآیا جس کے ذریعے مدرسے کے دیگر کمرے بنانے کی توفیق اللہ نے انہیں نصیب کیا یوں ایک عرصے کے بعد مدرسہ دالعلوم الحیدریہ مکمل هوکر ایک مکمل دینی مدرسے کی شکل میں معرض میں آیا اور پورے آب و تاب کے ساتھ تشنگان معارف قرآن و اہلبیت ع کو فیضیاب کرتا رہا اور آج بھی نسل نو کو دین کی تعلیم اور تربیت سے فیضیاب کررہا ہے.
آج بھی دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں مرحوم شیخ کے شاگرد دینی خدمات انجام دینے یا تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں .
ثقافتی کاموں کا احیا کرنا
معاشرے میں اسلامی ثقافت کے مظاہر کو زندہ کرنے یا رکھنے میں کوتاہی کرے تو اس کی جگہ شیطانی ثقافت لے لیتی ہے لہذا اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے مدارس دینیہ امام بارگاہیں ، مساجد وغیرہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت و شہادت کے ایام منانے اور ان کی سیرت کو اجاگر کرنے میں کوئی فرصت ہاتھ سے جانے نہیں دیا.
سماجی اور فلاحی خدمات
دینی خدمات کے علاوہ شیخ صاحب نے متعدد قابل ذکراجتماعی خدمات انجام دئے ہیں جن میں سے بعض کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں
بجلی وپانی کی فراہمی کے لیے کوشش:
سیسکو تک بجلی لانے کیلئے لئے مرحوم شیخ محمد حسن نجفی اور بعض دیگر علما و عمائدین کے ساتھ مختلف محکموں سے مطالبہ کرنا اور قوم کو بجلی کی نعمت میسرکرنا، اگر ان علمائے ماسلف کی کوششیں نہ ہوتی تو سیسکو کو بجلی اتنی جلدی میسر نہ آتی .
جسکے کے بارے شیخ صاحب کہتے تھے کہ ہم پہلے اس وقت کا نمائندہ حاجی محمد حسین کے پاس گئے پھر ان کو ساتھ لیکر محکمے میں جاکر اپنا مطالبہ پیش کی ا اور منظور نہ ہونے کی صورت میں بھوک ہڑتال وغیرہ کی دھمکی بھی دی تب جاکر یہ بجلی میسر آئی.
سیسکو میں پانی کی قلت کے پیش نظر نہر کے پانی کے مقدار کو بڑھانے کے لئے حاجی شیر اور مرحوم حاجی علی محمد ،مرحوم حاجی احمد وغیرہ کو ساتھ لیکرجد وجہد کیا اوراپنے گھر سے ایک بھیڑ لے جاکر گانگچن کے قریب مژھیک نامی پہاڑ پر ذبح کردیا اور جو وافر مقدار میں پانی دوسری طرف بہہ رہا تھا اسکا رخ گانگچن کی طرف موڑ دیا نتیجتا پانی کےمقدار میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ جہالت کے اس دور میں مرد وں کے علاوہ عورتوں کو بھی پڑھنے اور لکھنے کے قابل بنایا، مجالس اور محافل کو وسیع پیمانے پر انجام دینے کے سلسلے کا آغاز کیا۔
جوانوں کو ازدواجی زندگی سے منسلک کرنے کے لئے تگ دو کرنا:
سیسکو اور بیسل کے بہت سارے جوانوں کی شادیاں شیخ صاحب کی وساطت سے ہی انجام پائی ہیں ـ شیخ صاحب خاص کر ان نادار جوانوں کی شادی کرانے کی زیادہ کوشش کرتے تھے حن کے ہاں ان کی فقر و ناداری کی بنا پرلوگ لڑکی بیاہنے سے کتراتے تھے اور جب شیخ صاحب جاکر نصیحت اور موعظہ کرتے تھے تو لڑکی دینے پر تیار ہوتے تھے انہی نادار جوانوں میں سے کسی نے شادی کے بعد شیخ صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اجازت دے آپکے پاوں کا بوسہ لوں . جب شیخ صاحب ایسا کرنے سے منع کیا تو بولا آپ کا یہ احسان میں پتھر پر لکھ کررکھوں گا جو احسان آپ نے میرے حق میں کیا وہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔
شیخ صاحب اس راہ میں درپیش مشکلات اور بے احترامیوں کو اس عمل میں پوشیدہ ثواب، معاشرے کو انحراف سے بچانے، اللہ کی رضایت کو جلب کرنے نیز جوانوں کی ازدواجی مشکل کو حل کرنے کی خاطر خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے تھے اورجس طرح بنا کسی توقع اور اجرت کے شوق و رغبت کے ساتھ دینی خدمات انجام دیتے تھے بالکل اسی طرح کسی چیز کی توقع رکھے بغیر معاشرتی اور فلاحی خدمات بھی انجام دیتے تھے ۔
سیسکو میں ایک مستقل حسینہ کی اشد ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے معرفی فاونڈیشن کی معاونت سے حسینہ زینبیہ کی تعمیر کروائی جہاں بہترین انداز میں مختلف محافل اور مجالس وغیرہ منائے جاتے ہیں ۔
اختلافات اور ناچاقیوں کا حل و فصل کرنا:
اس امر کے دینی اہمیت کے پیش نظر آپ حد ممکن لوگوں کے درمیان موجود اختلافات اور ناچاکیوں کو ختم کرنے کو اپنے تبلیغی پہلو کا ایک حصہ سمجھ کر بھر پور کوشش کرتے تھے۔ انکے علاوہ شیخ صاحب نے اپنی بابرکت زندگی میں اور خدمات انجام دیئے ان سب کا تذکر اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے انشااللہ کسی مناسب فرصت میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے گا.
کسب معاش اور شجر کاری:
شیخ صاحب کا اصلی مقصد سماج میں دینی اور سماجی لحاظ سے موثر اقدام کرنا تھا، جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، مگراس بات پر توجہ رکھتے تھے کہ کسب معاش کے سلسلہ میں سعی و کوشش کرنا ضروری ہے۔تاکہ لوگوں سے بے نیاز رہیں اور عملی طورپر اس میدان میں قدم بھی اٹھایا۔ دینی اور فلاحی خدمات کے ساتھ اپنے گھر کا کام کاج، کھیتی باڑی سے لیکر گھاس اور فصل کی کٹائی تک بھی خود انجا م دیتے تھے ان کاموں میں انکو کسی کی معاونت حاصل نہ تھی بچے کام کاج کے لئے بہت چھوٹے تھے تاہم شیخ صاحب کو بہت محنتیں اور مشقتیں اٹھانی پڑی مگر زمینداری کو بچے پالنے اور لوگوں سے بے نیازی اور اللہ کی رضایت جلب کرنے کا ذریعہ سمجھ کر غالبا لباس روحانیت میں ہی انجام دیتے رہے اور شجر کاری کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر آپ نے کمر ہمت کس لی اورشوق و رغبت کے ساتھ شجر کاری کے عمل کو جاری رکھا جو بعض افراد کے لئے نمونہ عمل بن گیا اور شیخ کی پیروی کرتے ہوئے دوسروں نے بھی زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنا شروع کردیا.
لیکن بتایا جاتا ہے کہ خوبانی کی درخت، تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ شیخ صاحب نے ہی کاشت کیا تھا جسے آج گھر اور سیسکو والوں کے علاوہ دوسرے مناطق کے بعض افراد بھی کھاکر لطف اندوز ہوتے ہیں .
جس طرح دینی اور فلاحی امور کی انجام دہی میں سب سے زیادہ توفیقات اللہ تعالی نے شیخ مهدی صاحب کو نصیب فرمائی، اسی طرح زمینداری اور شجر کاری میں بھی سب سے زیادہ شیخ صاحب ہی کامیاب رہے چونکہ شیخ صاحب ان کاموں کو بھی عبادت ہی سمجھ کر انجام دیتے تھے . کہاکرتے تھے کہ اگر کوئی ان درختوں کا پھل کھائے یا حتی گرمی میں اسکے سائے سے استفادہ کرے تو اس کا ثواب مجھے ملتا رہے گا ۔ شیخ صاحب کے اسی عقیدیت اور خلوص فی اللہ نے تن و تنہا ہونے کے باوجود شیخ صاحب کو ہر میدان میں کامیاب بنادیا۔
یتیموں اور ناداروں کی امداد:
قرآنی تعلیمات اور معصومین علیہم السلام کے فرامین کا ایک بڑا حصہ یتیموں اور محتاجوں کے دیکھ بال پر مشتمل ہے ۔شیخ صاحب کا ہم و غم، قرآنی تعلیمات اور سیرت معصومین ع پر عمل کرتے ہوئے اسےمعاشرے میں وسیع پیمانے پر فروغ دینا تھا اسی لئے عملی طور پر بھی یتیموں اور ناداروں کی ہر ممکن تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے بعض کی ابتر حالت دیکھ کر ہمیشہ ان تک خورد و نوش کے اشیا وغیرہ پہنچاتے تھے سکردو سے آتے ہوئے ان یتیموں کے لئے کپڑے وغیرہ لیکر آتے تھے خاص کر آپ کے ایک رشتہ دار کے یتیموں کی زمین وغیرہ کے حوالے سے محرومیت اور غربت ہمیشہ آپکو کھٹکتی تھی لہذا آپ نے سکردو میں کسی مومن سے انکی محرومیت اور بے سرو سامانی کے بارے میں بتاکر ان کی مدد کی درخواست کا اظہار کیا تو اس مومن نے سکردو میں ایک کنال زمین امام زمان ع کے نام پر انہیں دے دی ۔
روحانی طبابت
شیخ صاحب کے با برکت وجود سے جہاں لوگ دینی تعلیمات اورمختلف دینی مسائل سے فیضیاب ہوتے تھے وہاں ان کا وجود سیسکو اور اسکے گردونواح کے علاقوں کے مکینوں کے لئے بہترین روحانی طبیب کی حیثیت بھی رکھتا تھا. آپ کی دعا اور تعویذ میں ایک محیرالعقول اثر تھا جسکی تعبیر الفاظ میں ممکن نہیں ہے. اپنی ان انکھوں نے دیکھا کہ ایک خاتون روتی تڑپتی ہوئی شدید دانت درد کی شکایت لیکر آئی جیسے ہی آپ نے عمل شروع کیا اس کا دانت درد ایسا غائب ہوگیا جیسا پہلے کبھی درد ہی نہیں تھا.
ایک دن معلوم ہوا کہ رات کو گھر سے گھی اور آٹا کسی نے چرا لیا ہے۔ پھر آپ نے عمل شروع کردیا دوسرے دن آدھی رات کو ایک شخص مال سمیت گھر میں داخل ہوا اور ہاتھ جوڑکر منت و سماجت کرتے ہوئے کہا م جھے معاف کرے میرا پیٹ پھول کر پھٹنے والا ہے آخر آپ نے معاف کردیا۔ اس طرح کے سینکڑوں نمونے پائے جاتے ہیں یہاں سب کا تذکرہ ممکن نہیں ہے بہر حال اسی اثر کے پیش نظر قریبی مناطق کی بات ہی نہیں، دور و دراز، علاقوں سے بھی لوگ کبھی حیوانوں کی مسائل ،کبھی بچوں کی بیماری اور مسائل تو کبھی گھریلو اور از دواجی زندگی کی پریشانیوں کا دکھڑا لیکر آپ کے پاس التماس دعا یا تعویذ لینے پہنچ جاتے تھے اور آپ اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر انکی پریشانی اور مشکلات کو سنتے تھے پھر دعا یا قرآنی تعویذ کے ذریعے ان کی پریشانی کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے تھے ۔
بتایا جاتا ہے کہ سبڑی کا ایک شخص عجلت کی وجہ سے اس وقت آپکے پاس تعویذ لینے کے لئے آنے پرمجبور ہوا جب آپ کا نابالغ اور نوجواں بیٹا محمد کاظم، شہید ہوا تھا مگر وہ دردناک صدمہ بھی خدمت خلق کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا اورآپ نے کشادہ روئی کے ساتھ اس شخص کو تعویذ دے دی . بہر حال جہاں وہ علاقہ طبی سہولیات سے محروم تھا اب بھی کوئی قابل ذکر سہولت فراہم نہیں ہوئی ہے وہاں آپ کا بابرکت وجود وھاں کے باسیوں کے لۓ کسی طبیب حازق سے کم نہ تھا اس کام کے لئے آپ ان سے نہ صلے اور اجرت کی توقع رکھتے تھے اور نہ ہی لیت اور لعل سے کام لیتے تھے۔
اور اس امر کو بھی خدمت خلق سمجھ کرشوق اور پوری توجہ کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
اس حوالے سے بعض کامیاب افراد اپنی ترقی اور کامیابی کواپنی قابلیت اور کاوشوں کے علاوہ آپ کی دعاوں کا نتیجہ سمجھتے تھے ان میں سے بعض جیسے انسپکٹر آف شگرجناب علی صاحب نے آپ کے انتقال کے بعد اظہارافسوس کرتے ہوئے کہا آج ہم ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہوئے ہیں جسکی دعاوں پر ہمیں بڑا یقین تھا ہر موڑ پرانہی سے دعا کرنے کے لئے کہتے تھے اب شیخ صاحب کی کمی کو ضرور محسوس کرینگے.
سیاسی مسائل میں دخالت:
اجتماعی اور سیاسی مسائل سے لگاؤ اور ان کی شناخت ایک عالم دین کے لئے نہایت ضروری ہے اگر ایک عالم دین ان مسائل میں حصہ نہ لے تو معاشرہ فاسد لوگوں کے اختیار میں چلا جائے گا اور دین و شریعت کی کمزوری کا باعث بنے گا، اسی لئے شیخ صاحب نے ہراجتماعی اور سیاسی مسائل میں اپنا موقف واضح رکھا اور اجتماعی و خاص کر سیاسی مسائل میں ان کا موقف ہمیشہ سے دین و شریعت کی بالادستی میں تھا کوئی ذاتی مفاد تا آخرعمر کسی سے نہیں لیا جب تحریک جعفریہ نے الیکشن میں حصہ لیا تو چونکہ یہ تنظیم اس وقت واحد شیعہ پلیٹ فارم تھی لہذا انہوں نے اس تنظیم کی تقویت کو مذہب تشیع واسلام ناب محمدی ص اور دین و ملت کی تقویت کا باعث سمجھتے ہوئے اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور بعض دیگر مناطق کی طرح تحریک مخالف نمائندوں کو ووٹ دینا حرام قرار دے کر اس بیان کی مخالفت کرنے والوں سے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا ، سوائے انگشت شمار افراد کے سب نے آپ کے حکم پر لبیک کہا. اسی زمانے سے بعض افراد نے شیخ صاحب سے دشمنیاں مول لینا شروع کردیا اور آخر عمرتک طرح طرح کے آزار و ازیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگرہر موڑ پر اللہ نے دشمن کی ناک رگڑ کر ایسی فضیحانہ شکست سے دوچار کردیا کہ آخران کیلۓ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا. اس طرح اللہ تعالی نے شیخ صاحب کی حقانیت سب پر واضح کردیا اس کے بعد بھی ان کا موقف سیاسی اعتبار سے یہی تھا کہ اس سمت و سو کو اختیار کیاجائے کہ جہاں علاقے کے مفاد کے ہمراہ اسلامی اقدار اور شریعت کے تحفظ کی توقع رکھی جاسکتی ہو.مختصر يہ کہ شیخ صاحب کی زندگي ميں سياسی جدوجہد کا عنصربالکل واضح ہے.
آخرعمری میں قم المقدسه کا سفر اور رحلت:
کس قدر انکی اس روح پرور زندگی کے آخری لمحات دیدنی اوررشک آور ہے کہ ارض بلتستان پہ شاید انکی ناقدری اور نافرمانی ہوئی.اللہ نے انهیں دنیا میں ہی جنت کا راستہ دکہاکر سرزمین قم المقدسہ کی طرف بلایا جهاں طبق احادیث جنت کے دروازے کھلتے ہیں اسی کے بہانے سرزمین نجف کربلا کی سیر کرائی. گویا خداوند اپنے عبد کو
قاب قوسین او ادنی کا سیر کرارہاتھا ..ایک مهنہ قریب نجف میں اپنےمولاوآقاامیر المومنین علیہ السلام کے جوارمیں رهے اور راز ونیاز کے ساتھ پرانی دوران طلبگی کی یادیں تازہ کی پھربغداد وکوفہ سامرا وکربلا کی زیارات کرکے اپنے مظلوم اماموں سےاخری الوداع کئے اور واپس سر زمین قم تشریف لائےـ قم المقدسہ میں قیام کے دوران حضرت معصومہ کی زیارت بلاوجہ ایک بار بھی ان سے نہیں چھوٹی عمر رسیدہ ہونے کے باوجود حر مطہر میں جاکر زیارت کرنا انکا معمول تھا … بہشت معصومہ کو اپنی زیارت گاہ بنانے سے دو هفتہ پہلے ثامن الحجج امام رضا علیہ السلام سے وداع کے لیے مشهد الرضا تشریف لے گئے ایک هفتہ وہاں امام رئوف کی خدمت میں انکی مہمانی پہ رہیں اور واپسی پر اپنے همسفر حضرات میں سے کچھ بردارن سے کہا کہ یہ مشهد کی میری آخری زیارت تھی ،تمام امور ایسے انجام دیتے جارهے تھے جیسے ابتدا سے ہی سب کچھ انکے علم میں تھا.اپنے آبائی گاؤں سیسکو سے آتے ہوئے سب سے آخری وداع کی اور کہا میں سرزمین قم کو اپنا آخری آرام گاہ بنانے جارهاهوں واپس نہیں آرهاهوں جیسا کہا تھا ویسا ہی ہوا اور ماه مبارک رمضان سے کچھ دن پہلے اچانک مریض ہوگئے ہرممکن دوا اور دعا کی گئی مگر انکی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ایسا جیسا یہ عظیم ہستی ماہ رمضان کے منتظر تھی جیسے ہی ماہ رمضان کے مہینے کا آغاز ہوا یکم رمضان ۲۰۱۹کو فجر کے بعد ہم سب کو سو گوار چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے.
دیدگاهتان را بنویسید