حضرت زہرا کوثر کی آئینے میں
سورہ کوثر کی تلاوت کا ثواب
عَنِ الصَّادِقِ ع مَنْ قَرَأَهَا فِي فَرَائِضِهِ وَ نَوَافِلِهِ سَقَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْكَوْثَرِ وَ كَانَ يُحَدِّثُهُ النَّبِيُّ ص فِي أَصْلِ طُوبَى. (مصباح کفعمی ص 453)
ترجمه : حضرت امام صادق علیه السلام سے روایت هوی هے جو کوئی اپنے واجب اور مستحب نمازوں میں اس سوره کو پڑھے گا، الله تعالی اس کو کوثر کے پانی سے سیراب کریگا اور رسول خدا (ص) اس کے ساتھ درخت طوبی کے پاس گفتگو فرمائے گا.
ایک اور روایت میں آیاهے که رسول خدا (ص) نے فرمایا
من قرا ها سقاه الله من انهار الجنه واعطی من الا جر بعدد کل قربان قربه العباد فی یوم عید ویقربون من اهل الکتاب والمشرکین. ( سنن النبی جزء 4 ص 9)
ترجمه : جو کوئی اس سوره مبارکه کوپڑھے گا خداوند عالم اس کو جنت کی نهروں سے سیراب فرمائےگا اور عید کے دن قربانی کرنے والوں کی قربانیوں اور اهل کتاب اورمشرکین کی قربانیوں کی تعداد میں اجر وثواب عطا کریگا.
سوره مبارکه کوثر
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (3)
ترجمه: اے میرے حبیب به تحقیق هم نے تجھے کوثر عطا کیا پس تو نمازپڑھ اور قربانی کر بتحقیق تیرا دشمن هی ابتر اور دم کٹا هے.
کچھ الفاظ کے متعلق
الکوثر:کوثرکے معانی خیرکثیر. نهربهشتی.حوض کوثر.اولاد رسول.پیروکاران واصحاب تا قیامت.علماء امت.قرآن شریف.نبوت.تفسیرقرآن وتخفیف شرایع. توحید.علم وحکمت.فضائل رسول.مقام محمود.نورقلب.رجل کثیر لعطاء
هیں کوثرکے معنی کثرت اور خیرکثیرکے هیں اوریقینی بات هے اس کے کئی مصادیق هوسکتے هین؛ وحی، نبوت، قرآن، مقام شفاعت، علم کثیر و اخلاق نیکو. لیکن سوره مبارکه کی آخری آیه شاهد هے اس بات کا که کوثرسے کثرت اولاد مرادهے کیونکه دشمن نے بڑی جسارت کے ساتھ آن حضرت کو ابترکها تو خداوند عالم نے بھی اپنے رسول کی دفاع کرتے هوے فرمایا تیرا دشمن هی ابترهے.اگرکثرت نسل مراد نه لیں توآیه ان شانئک هو الابترکیلئے کوئی مناسب توجیه نهیں کرسکتے هیں.
علامه طباطبائی رحمه الله علیه صاحب المیزان ، کوثر کے معانی بیان کرتے هوے فرماتے هیں جس کا خلاصه یه هے که:
کوثر اولاد فاطمه پر دلالت کرنے سے خالی نهیں هے یعنی اولاد فاطمه پر دلالت کرتاهے یه قرآنی ملاحم میں سے هے خداوند عالم نے نسل فاطمه کو اتنا پھیلا دیا که گنتی سے باهر هوگئی یه بات لفظ ابترهمیں بتادیتاهے. ( تفسیر المیزان ذیل سوره.)
فخررازی اپنی تفسیرمفاتح الغیب میں کوثر کے معانی سے متعلق اقوال کو ذکر کرتاهے اور قول ثالث کو نقل کرتے هوئے لکھتاهے
والقول الثالث : الكوثر أولاده قالوا : لأن هذه السورة إنما نزلت رداً على من عابه عليه السلام بعدم الأولاد ، فالمعنى أنه يعطيه نسلاً يبقون على مر الزمان ، فانظر كم قتل من أهل البيت ، ثم العالم ممتلىء منهم ، ولم يبق من بني أمية في الدنيا أحد يعبأ به ، ثم أنظر كم كان فيهم من الأكابر من العلماء كالباقر والصادق والكاظم والرضا عليهم السلام والنفس الزكية وأمثالهم ( تفسیر مفاتیح الغیب ج 17 ص 141)
ترجمه کوثر کے متعلق تیسرا قول اولاد رسول هے اس کی دلیل یه هے که یه سوره نازل هوا هے ان لوگوں کی رد میں که جنهوں نے رسول خدا (ص)کو بے اولاد هونے کے بناپر طعنے دئیے تھے پس اس آیه کا معنا یه هوگا که هم نے تجھے ایک ایسی نسل دے دیاوقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ باقی رهے گی، آپ دیکھیں که کتنے محب اهلبیت مارے گئے اس کےباوجود دیکھو عالم ان سے بھری هوئی هے اور بنی امیه میں سے کوئی ایک بھی باقی نه رها که جن کی طرف اعتنا کیا جائے اس کے بعد یه بھی دیکھ لو که اس اولاد رسول میں کتنے بڑے بڑے علم لدنی کے مالک نکلے مثل امام باقر اور امام صادق اور امام کاظم اور امام رضا (علیهم السلام) اورنفس زکیّه اور ان جیسے هزاروں علماء نکل گئے.
ان شانئک: شانی بمعنای مبغض اور دشمن هے جو عاص بن وائل کی طرف اشاره هےجیساکه ذکر کیا گیا.
الابتر: ابتر اسے کها جاتاهے که جس کی نسل منقطع هوی هو.والابترمن لاعقب له عقب له یعنی جس کی کوئی اولاد ذکور نه هو.
فصلِّ: یعنی نمازپڑھو ایک قول کے مطابق نمازعید هے.
وانحر: بمعنای رفع الید یعنی هاتھوں کواٹھانا حذاء وجک چھرے کے برابرمیں اورایک قول کے مطابق قربانی هے.
عطاء یعنی دینا علی وجه التملیک ( ایک ایسے طریقے سے دینا که اس کی ملکیت میں آجائے جس قسم کا تصرف کرنا چاهے کرسکے کسی کو اعتراض کرنے کا حق نه هو)که یهاں ایک قسم کا امتنان هے .( امتنان یعنی منت چڑهانا یهاں خداوند عالم نے اپنے حبیب پر بطور منت یه کها که هم نے تمهیں کوثر دی البته یه واضح رهےکه یهاں الله تعالی کا منت چڑهانا اسلئے نهیں هے که کسی احتیاج رکهتا هویا احسان جتانا هو بلکه منت کا معنا یه هے خداوند اعلان فرما رهاهے یه جونعمت تمهیں دی هے ایک عظیم نعمت هے. جیسے خداوند عالم نے مومنوں پر رسالت کا منت چڑایا اور فرمایا لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا…آل عمران 164) امتنان کا هونا صیغه جمع اوراعطاء سے سمجھا جاتاهےنماز واحب کیلئے.
فخر رازی کهتاهے یهاں اعطیناک استعمال هوا آتیناک استعمال نهیں هوا اسلئے که آتیناک میں ممکن هے عطای واجب مراد هو اور ممکن هے تفضل مراد هو لیکن اعطیناک میں صرف تفضل هی مراد هے(الفائدة العاشرة : قال : { أعطيناك الكوثر } ولم يقل : آتيناك الكوثر ، والسبب فيه أمران الأول : أن الإيتاء يحتمل أن يكون واجباً وأن يكون تفضلاً ، وأما الإعطاء فإنه بالتفضل أشبه تفسير الرازي – (17 / 240)) بنابراین «کوثر »رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کیلئے تفضل کے طور پر عطا کیا گیا هے.
شان نزول
ویسا توحضرت رسول پاک صلی الله علیه وآله وسلم کو اس زمانے کے لوگ مشرکین اور منافقین طرح طرح کی اذیتیں پهنچاتے تھے آن حضرت کو کاذب ساحر جادوگر شاعر مفتری مجنون کهتے تھے ان میں سب سے سخت اور دلخراش مصیبت جو لوگوں کے هاتھوں سے آنحضرت کو برداشت کرنی پڑی، زخم زبان اور طعنےتھے. زخم زبان بهت سخت اورغیرقابل برداشت مصیبت هوتی هے جیسا که شاعرکهتاهے نیزے کی زخم کیلئے علاج هے لیکن زبان سے آنے والی زخم کا کوئی علاج نهیں هوتاهے.( جراحات السنان لها التیام ولا التام لجراحات اللسان.) خداوند نے اپنے حبیب کا دفاع خودهی نے فرمائی کها تمهارا دشمن هی ابتر اور دم بریده هے تم ابترنهیں هو کیونکه هم نے تجھے کوثرجیسی نعمت عطاکی هے.
اب یهاں پر اس سوره مبارکه کے شان نزول سےمتعلق ایک روایت نقل کرتے هیں
عن جعفربن محمد عن ابیه قال توفی القاسم بن رسول الله بمکه فمر رسول الله وهو آت من جنازته علی العاصی بن وائل وابنه عمرو فقال حین رءا رسول الله ص انی لاشنئه فقال العاصی بن وائل لاجرم لقد اصبح ابتر فانزل الله ان شانئک هو الابتر. ( تفسیر المیزان ج 20 ص 212 نقل از تفاسیر اهلسنت.)
ترجمه :جعفربن محمد نے اپنے والدگرامی سے نقل کیاهے جب قاسم بن رسول الله کا مکه میں انتقال هوا رسول الله کی اپنے بیٹے کے تشییع جنازه سے واپسی پر عاص بن وائل اور اس کا بیٹا عمرو سے گذرے عاص نے جب رسول خدا کو دیکھا تو اپنے بیٹے سے کها میں اس کو بغص رکھتاهوں اور اس نے یه بھی کها وه تو اب سے ابتراور بے اولاد هوگیا تو خداوند عالم نے یه سوره نازل فرمایا.
ایک اور روایت کے مطابق سوره کا شان نزول یوں لکھا گیاهے.
عاص بن وائل نے دروازه بنی سهم کے نزدیک آنحضرت سے ملاقات کی کچھ مدت باتیں هوتی رهیں رسول الله مسجد سے باهرگئے اور عاص مسجد میں آیا اور صنادید (سرکردگان )قریش میں سے بعض وهاں بیٹھے هوے تھے اس سے سوال کرنے لگے تم کس کے ساتھ مصروف گفتگوتھے کهنے لگا اس ابترصنبور کے ساتھ گفتگو کر رها تھاعرب کی عادت یه تھی جس کا بیٹا نه هوتا اس کو ابترکها جائے یعنی یه اقطع هے اس کے پیچھے کوئی عقب اولاد باقی نهیں رهے گا.
صنبور اسے کهتے هیں جس کا کوئی بھائی یا بیٹا نه هواس دوران آنحضرت کا بیٹا جسکا نام عبد الله اورلقب طاهرتھا حضرت خدیجه کے بطن سے تھا، الله کو پیارے هوگئے. جب یه خبر(ابتر، صنبور) کهنے کی رسول الله تک پهنچی آنحضرت کے قلب مبارک کو بهت دکھ هوا ، خداوند تبارک وتعالی نے اپنے نبی کی تسلی کی خاطر اور دل بهلانے کیلئے اس سورے کو نازل فرمایا.
مهم نکته
میرے معزز قارئین کبھی کسی کو کسی بھی وجه سے طعنه نه دینا حتی کسی دوسر ے سے گناه بھی سرزد هوجائے اسے کچھ نه کهنا روایات میں هے اگرکوئی کسی کوکسی بھی کناه کی وجه سے مورد طعنه قراردے تووه خود ا سی گناه میں مبتلا هوجائے گا.
اس روایت سے یه بھی استفاده هوتاهے که اگرکسی کوکسی فقروناداری یا کسی مریضی کی وجه سے طعنه دی شاید طعنه دینے والا هی اس میں مبتلا هوجائے بلکه اس سے بھی بدترهوجائے اگرکسی کو اسکی فقرکی وجه سے بات یا حرکت کے ذریعے طعنه دے یه کام الله اور رسول کو پسند نهیں هے جییے ایک دن مسجد میں رسول الله ص وعظ و نصیحت بیان فرما رهے تھے جب ایک فقیر شخص مسجد میں وارد هوا اورکسی غنی شخص کے کنارے بیٹھاتھا اس غنی شخص نے اپنے آپ کو اس بے چارے غریب شخص سے جداکیا اس غنی شخص سے رسول خدا(ص)نے ناراض هوکر فرمایا کیا توسوچا اس کی فقر تمھارے ساتھ سرایت کریگا ؟ امیرشخص نے شرمنده هوکر عذرخواهی کی اور عرض کیا یارسول الله میں حاضرهوں اپنا آدھا مال اس کودوں رسول الله نے اس غریب شخص سے سوال کیا کیا تمهیں قبول هے عرض کیا نهیں یارسول الله اسلئے که مجھے ذر لگتاهے کهیں میں بھی اسکی طرح مغرور نه هوجاو ں.
ادھرعاص بن وائل اپنے آپ کواولاد نرینه والا اور رسول خدا کو بغیر اولاد نرینه والادیکھ رها تھا توقرآن نے دو طرح سے اس کا جواب دیا ایک یه که اس کی اولاد کونفی کیا یعنی اسکی اولاد نه هونے کے برابرهے کیونکه بے ایمان اولاد هے بے ایمان اولاد نه هونے کے برابرهے اور ادھر سے خداوند متعال نے اپنے رسول کو کوثرجیسی عظیم نعمت سے نوازا، چاهے کوئی بھی مصداق هو خواه وه اولادهو خواه وه حوض کوثر هو خواه وه قرآن هو لیکن دشمن کیلئے ابترهونےکے علاوه کوئی اورچیزنهیں هے. اورجونعمتیں رسول خدا کو دی گئی هیں ان نعمات میں سے کسی نعمت سے بهره نهیں لیتاهے.
کوثر کا معنا فریقین کی روایات کی روشنی میں
فخر رازی کوثرسے متعلق معانی اور اقوال کوبیان کرتے هوےتیسرےقول کو اسطرح بیان کرتاهے؛
قلنا إنّ الكوثر له معنى واسع يشمل كل خير وهبه اللّه لنبيّه(صلى الله عليه وآله وسلم)، ومصاديقه كثيرة، لكن كثيراً من علماء الشيعة ذهبوا إلى أنّ فاطمة الزهراء(عليها السلام)» من أوضح مصاديق الكوثر، لأنّ رواية سبب النزول تقول: إنّ المشركين وصفوا النّبي بالأبتر، أي بالشخص المعدوم العقب، وجاءت الآية لتقول: (إنّا أعطيناك الكوثر). ( مفاتیح الغیب فخررازی ج 32 ص 124 تفسیر الامثل آیه الله مکارم شیرازی. ج ص)
ترجمه :کوثرکے بهت سارے معانی هیں جس میں هر وه خیر جو خداوند عالم نے اپنے رسول کیلئے عطا فرمایاهے شامل هیں اور اس کے بهت سارےمصادیق موجود هیں لیکن بهت سارے شیعه علماء قائل هیں که حضرت زهرا واضح ترین مصداق هے کوثر کیلئے کیونکه روایت سبب نزول کهه رهی هے که مشرکین نے رسول الله کو ابتر کهکر توصیف کی یعنی شخص معدوم العقب لذا اسی لئے یه آیه اتری.
اسکے بعد اس بات کو جاری رکھتے هوئے کهتاهے
ومن هنا نستنتج أن الخير الكثير أو الكوثر هو فاطمة الزهراء(عليها السلام)، لأن نسل الرسول(صلى الله عليه وآله وسلم) انتشر في العالم بواسطة هذه البنت الكريمة… وذرية الرسول من فاطمة لم يكونوا امتداداً جسمياً للرسول(صلى الله عليه وآله وسلم) فحسب، بل كانوا امتداداً رسالياً صانوا الإسلام وضحوا من أجل المحافظة عليه وكان منھم أئمّة الدين الإثني عشر، أو الخلفاء الإثني عشر بعد النّبي كما أخبر عنھم رسول اللّه(صلى الله عليه وآله وسلم) في الأحاديث المتواترة بين السنة والشيعة، وكان منھم أيضاً الآلاف المؤلفة من كبار العلماء والفقهاء والمحدثين والمفسّرين وقادة الاُمّة. ( مفاتیح الغیب فخررازی ج 32 ص 124)
ترجمه : یهاں سے هم یه نتیجه لیتے هیں که خیر کثیر یا کوثر وهی فاطمه زهرا سلام الله علیها هے کیونکه نسل رسول منتشر اور پهیل گئی پورے عالم میں اسی کرامت والی بیٹی کے واسطے سے ذریه واولاد رسول فاطمه سے جاری هوا اورهم یه کهیں که امتداد جسمی بھی نه هوں تو یه بھی کافی ہے که امتداد رسالی هوی هو اسلام کی حفاظت انهوں نے کی اور دین کی محافظت کی راه میں قربان هوے اور انهیں میں سے ائمه دین اور ائمه اثناعشری یا یوں کهیں خلفاء اثناعشری بعد نبی تھے، چنانچه رسول الله نے ان کے متعلق خبر دی اور روایات متواتره سے ثابت هے جو دونوں فریقین سے روایتیں نقل هوچکی هیں اور ان ائمه میں سے هزاروں علماء وفقهاء ومحدثین ومفسرین اور امت کے راهنما نکل آئے.
نتیجه اقوال
مذکوره اقوال کا نتیجه یه هوا که اس میں کوئی شک نهیں هے که کوئی بھی شخص کسی چیز کی کمی کی وجه سے جب کسی طعنے کا شکارهوجاتاهے تواس طعنه سننے والے شخص کو دکھ هوجاتاهے اورغیرقابل برداشت هوجاتاهے لذا اسکے متناسب جواب دیکرهی اس کوتسلی هوجاتی هے متناسب جواب اس طرح سے هے که طعنه سنے والا شخص دوطرح کے جواب دے گا ایک یه که جس چیزکی اپنے پاس دیکھ کردوسرے کو طعنه دیاتھا اس کے وجود کو کم اهمیت یانفی کیا جائے اوردوسرا یه که طعنه سننے والے کے پاس ایک ایسی چیز آجائے که که طعنه دینے والے شخص کی نعمت کے برابر یا اس سے بالاترهو. کوئی
الله تعالی نے ان شانئک هو الابتر نازل فرماکر یه سمجھا نا چاها که اے میرے رسول تو ابتر نهیں هو کیونکه آپ کثرت اولاد اورحوض کوثر اور بهت ساری چیزوں کے مالک هو اور تمهارا دشمن اور طعنه دینے والا خود ابتر هے اگر چه دشمن ظاهر میں اپنے آپ کو صاحب اولاد دیکھ رهاهے لیکن اس کی یه اولاد نه هونے کے برابر هے اس لئے که یه اولاد ناصالح هے دوسری بات یه که اس کی یه اولاد اس کی آخرت کیلئے کوئی سود مند نهیں هے تیسری بات یه که جو کچھ تمهارے پروردگارنے تجھے عطا کیاهے اسکو کچھ بھی نهیں ملاهے اور ان کے کوئی آثار باقی نهیں رهیں گے لیکن تمهاری اولاد همیشه ان کے آثار کے ساتھ باقی وجاری رهے گی اور یه تمهاری اولاد رهتی دنیا تک تمهارے دین اور آئین کی ترجمانی کرتی رهے گی.
حوض کوثر
سوره کوثر کے شان نزول مختلف هوسکتے هیں لیکن اس میں کوئی شک نهیں هے که حضرت زهرا (سلام الله علیها) اور انکی اولاد کوثر کے اعلی مصادیق میں سے ایک مصداق هے جیسے اس کے سیاق اور شان نزول سے پته چلتاهے، لیکن حوض کوثر جومعروف هے وه بھی اپنی چگه پر ایک مسلمه حقیقت هے اور کوثر کے معانی میں سے ایک مهم معناهے. حوض کوثر، جو خداوند عالم نے اپنے خاص بندوں کیلئے تیار کرکے رکھا هواهے اور امیر المومنین علیه السلام کا ساقی کوثر هونا روایات کے رو سےمشهور ومعروف مسئله هے الله رب العزت نے اس حوض کوثر کو آماده وتیارفرمایا هے تاکه روزقیامت انکی زیاده سے زیاده مهمانی کی جائے روایات اسلامی میں اس کے اوصاف بیان کئے گئے هیں. تین روایات اسی مناسبت سے یهاں ذکر کیا جاتاهے.
پهلی روایت
و في الخصال عن أمير المؤمنين عليه السلام قال انا مع رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله و مع عترتي على الحوض فمن أرادنا فليأخذ بقولنا و ليعمل عملنا فانّ لكل أهل نجيباً و لنا نجيب و لنا شفاعة و لأهل مودّتنا شفاعة فتنافسوا في لقائنا على الحوض فانّا نذود عنه أعدائنا و نسقي منه احبّائنا و أوليائنا من شرب منه شربة لم يظمأ بعدها ابداً حوضنا فيه مشعّبان ينصبّان من الجنه أحدهما من تسنيم و الآخر من معين على حافتيه الزّعفران و حصاه اللّؤلؤ و هو الْكَوْثَرَ. ( شیخ صدوق ، خصال ج 2 ص 624)
ترجمه:
کتاب خصال میں امیرالمومنین سے روایت هوی هے فرمایا میں رسول الله ص کے ساتھ اورمیری اولاد بھی حوض کوثر پرهونگے جو شخص همیں چاهتاهے، هماری اقوال کو لے لے، اورجیساهم عمل کرتے هیں ا سی طرح سے عمل کرے هرایک اهل کیلئے ایک نجیب هے اورهمارے لئے بھی ایک نجیب هے یعنی هرکسی کیلئے کوئی نه کوئی نمونه عمل هے اورهمارے لئے بھی کوئی نمونه هے اورهمارے لئے شفاعت هے اور دل میں هماری محبت رکھنے والوں کیلئے بھی شفاعت هے پس اس دن همارے شیعه هم تک پهنچنے اورهماری ملاقات کیلئے دوڑتے هوے ایک دوسرے سے سبقت لیتے هوے حوض کوثرتک پهنچ جائینگے اورهمارےشیعوں کے دشمنوں کو وهاں سے هٹا دیئے جائیں گے اور هم اپنے دوستوں، محبت والوں کو کوثرکا پانی پلادینگے جوکوئی ایک دفعه اس کوثر کا پانی پی لے گا اس کے بعد سے کوئی تشنگی اس کے کنارے نهیں آئے گی اس کوثر کی خصوصیت یه هے دوقسم کے پانی اس میں ملے هوےهیں دونوں جنت سے هیں ایک تسنیم کا اور دوسرا معین کا هے اور اس نهرکے کنارے کا سبزه زعفران سے هوگا اور اس کی کنکریاں لوء لوء ومرجان کی هونگی.
دوسری روایت
و في الامالي عن ابن عبّاس قال لمّا نزل على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله إِنَّا أَعْطَيْناكَ الْكَوْثَرَ قال له عليّ بن أبي طالب عليه السلام ما الكوثر يا رسول اللَّه قال نهر اكرمني اللَّه به قال عليّ عليه السلام ان هذا النهر شريف فانعته لنا يا رسول اللَّه قال نعم يا عليّ الكوثر نهر يجري تحت عرش اللَّه تعالى ماؤه اشدّ بياضاً من اللّبن و احلى من العسل و ألين من الزّبد حصاه الزّبرجد و الياقوت و المرجان حشيشه الزّعفران ترابه المسك الأذفر قواعده تحت عرش اللَّه عزّ و جلّ ثم ضرب رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله على جنب امير المؤمنين عليه السلام و قال يا عليّ هذا النّهر لي و لك و لمحبّيك من بعدي. ( علامه مجلسی، بحار الانوارج 8 ص 18)
ترجمه
کتاب امالی صدوق میں ابن عباس رضی الله عنه سے روایت هوی هے جب یه سوره نازل هوا علی علیه السلام نے سوال کیا یارسول الله کوثر کیاچیز هے فرمایا ایک نهر هے جس کے ذریعه خدانے مجھے نوازاهے علی علیه السلام نے سوال کیا یه تو کوئی شریف نهر هوگی اس کی اوصاف همیں بیان فرمائیں اے رسول خدا .
فرمایا کرتےتھےکه یا علی کوثر ایک نهرهے جو عرش الهی کے نیچے سے گذرتی هے اس کا پانی دوده سے بھی زیاده سفید هے اور شهد سے زیاده میٹھا هے اورمکھن سے زیاده نرم هے اس دریا کی کنکریاں زبرجد اور یاقوت اورمرجان کی هیں اور اس کا گھاس زعفران اور مٹی مشک کی هوگی جس کی خوشبو تمام اطراف کو پھیلی هوئی هوگی اس دریا کا منبع عرش الهی کے نیچےسے هے اس کے بعد رسول الله نے علی علیه السلام کے شانه پر هاتھ رکھتے هوے فرمایا اے علی یه نهر میں اور آپ اور میرے بعد آپ کے دوستوں کیلئے هے.
تیسری روایت
و في المجمع عن النبيّ صلّى اللَّه عليه و آله انّه سئل عنه حين نزلت السورة فقال نهر وعدنيه ربّي عليه خير كثير هو حوضي ترد عليه امّتي يوم القيامة انيته عدد نجوم السّماء فيختلج القرن منهم فأقول يا ربّ انّهم من امّتي فيقال انّك لا تدري ما أحدثوا بعدك. (قیض کاشانی ، تفسیر صافی ج 5 ص 382)
تفسیرمجمع البیان میں رسول اسلام (ص) سے روایت هے جب یه سوره مبارکه نازل هوا کوثرکے متعلق پوچھا گیا فرمایا ایک نهرهے یه وهی خیرکثیر هے جس کا میرے پروردگارنے مجھے وعده دیاهے اس میں آسمان کے ستاروں کی تعداد میں برتن (پیالے) هونگے پھر اس میں سے ایک پارٹی اهل زمان کی لایی جائے گی اور کھینچ کر نکالاجائےگا میں عرض کرونگا خدایا یه تو میری امت میں سے هیں؟ جواب میں کها جائےگا تجھے نهیں معلوم تمهارے انتقال کے بعد انهوں نے کیا کیا واقعات برپا کئے.
حوض کوثر کی خصوصیات
ان روایات کی رو شنی میں معلوم هوا که کوثر کا پانی مختلف خصوصیات کا حامل هے ان میں سے بعض یه هیں.
1. دوقسم کے کوثرهیں ایک صرف بهشت میں اور ایک محشرمیں .
2. محشروالاکوثر دونهروں سے مرکب هے ایک آب تسنیم سے دوسرا معین سے هے.
3. اس کا منبع اصلی عرش الهی هے.
4. اس کے پینے والا کبھی تشنگی میں مبتلانهیں هوگا همیشه کیلئے سیراب رهے گا.
5. یه کوثر صرف پیغمبر اورعلی اوران کی اولاد کے اختیارمیں هوگا.
6. اس میں سے شیعیان ومحبان علی هے پیئنگے اور علی اورانکے شیعوں کے دشمن اس سے محروم هونگے.
7. دشمنان محمد وآل محمد کو اسکےکنارے آنےنهیں دئیے جائینگے اورنزدیک هوبھی جائیں تو وهاں سے بھگا دیئے جائینگے.
8. اسکا رنگ دودھ سے بھی زیاده سفید اورشهد سے بھی زیاده میٹھا هوگا.جس کا ایمان جتنا پخته هوگا اتنا کوثرکا پانی میٹھا هوگا.
9. اس دریا کے کنارے کا سبزه زعفران هوگا اور اسکی کنکریاں لولو مرجان سے هونگی.
10. اس کے کنارے درختیں هونگی اور ان درختوں کے شاخوں پرخوبصورت لڑکیاں هونگی ایک هی اشارے سے مسکراتی هوی پیالوں سے پانی بھر بھرکردوستان علی کوپلائینگی.
مالکان حوض کوثر ائمه اهلبیت هی هیں
پیغمبر اور اهلبیت کا مالک کوثرهونا تمام مسلمانون کے درمیان ایک مسلمه حقیقت هے.
روی الحاکم الحسکانی باسناده عن محمد بن یحیی قال خطب الحسین علیه السلام عائذه بنت شعیب بن بکاربن عبد الملک فقال کیف نزوجک علی فقرک فقال الحسین بن علی ابی طالب ع تعیرنا بالفقرو قد نحلنا الله الکوثر. (شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، ج2، ص: 485)
ترجمه : حاکم حسکانی نے محمد بن یحیی سے روایت کی هے که حسین بن علی نے عائذه بنت شعیب بن بکار بن عبد الملک سے رشته کا تقاضا فرمایا تو عائذه کے باپ نے جواب دیا که هم کیسے ایک فقیر شخص کو اپنی بیٹی دیدیں؟ حسین بن علی علیه السلام نے فرمایا تم هماری فقرکی وجه سے هماری عیب جوئی کرتے هو جب که خداوند عالم نے همیں کوثر عنایت کر رکھاهے.
شیعیان علی کیلئے خوش خبری
عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَأَلْنَا النَّبِيَّ ص عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَغَضِبَ ص ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَذْكُرُونَ مَنْ مَنْزِلَتُهُ مِنَ اللَّهِ كَمَنْزِلَتِي أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَحَبَّنِي فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ مَنْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَافَأَهُ الْجَنَّةَ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يَشْرَبَ مِنَ الْكَوْثَرِ وَ يَأْكُلَ مِنْ طُوبَى وَ يَرَى مَكَانَهُ فِي الْجَنَّة …( فضائل الشیعه ، ابن بابويه، محمد بن على، فضائل الشيعة، 1جلد، أعلمى – تهران، چاپ: اول، بى تا.(
ترجمه: ایک سلسله روایت میں نافع نے عبدالله بن عمرسے روایت کیاهے عبدالله نے کها هم نے رسول خدا سے علی بن ابیطالب کے بارے میں سوال کیا رسول خدا (ص) غضبناک هوے اور فرمایا کیا هواهے کچھ لوگوں کو ایک ایسی شخصیت کا تذکره کرتے هیں که جس کی منزلت میری منزلت جیسی هے آگاه رهنا جس نے علی (ع)سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی الله تعالی اس سے راضی هوگا اورجس سے خدا راضی هو جائے وه جنت میں جائےگا آگاه رهنا جس نے علی سے محبت کی دنیا سے خارج نهیں هوگا مگریه که کوثر کے پانی پی لے گا اور درخت طوبی کے میوه سے کھائے گا اور اپنی جگه جنت میں دیکھ لے گا.
ذکرمنابع
1. تفسیرنورج 10
2. تفسیر المیزان ذیل سوره.
3. تفسیر نمونه
4. تفسیر مفاتح الغیب ج 17 ص 141
5. مفاتح الغیب فخررازی ج 32 ص 124
6. تفسیر الامثل آیه الله مکارم شیرازی. ج ص
7. شیخ صدوق ، خصال ج 2 ص 624
8. علامه مجلسی، بحار الانوارج 8 ص 18
9. قیض کاشانی ، تفسیر صافی ج 5 ص 382
10. شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، ج2، ص: 485
دیدگاهتان را بنویسید