تازہ ترین

سوفٹ وار کے عہد میں سیرتِ حضرت فاطمہ (س) قسط 1

حضرت فاطمۃ الزہراؑ (س) تمام مسلمانوں کیلئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ اپنے پدر بزرگوار کی مانند صرف گھریلو زندگی میں ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ حتیٰ کہ معرکہ حق و باطل میں بھی آپ کی شخصیت قابل تقلید ہے۔ حق و باطل کا معرکہ جب تک […]

شئیر
54 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10418

حضرت فاطمۃ الزہراؑ (س) تمام مسلمانوں کیلئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ اپنے پدر بزرگوار کی مانند صرف گھریلو زندگی میں ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ حتیٰ کہ معرکہ حق و باطل میں بھی آپ کی شخصیت قابل تقلید ہے۔ حق و باطل کا معرکہ جب تک انسان زنده ہے، یہ جاری رہے گا۔ اگر میدان میں یہ جنگ نہ ہو تو انسان کے وجدان اور باطن میں ہمیشہ یہ جنگ جاری رہتی۔
آج ہم چاہتے ہیں کہ دور حاضر یعنی سوفٹ وار کے عہد میں سیرتِ حضرت فاطمہ ؑکے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کریں۔ چنانچہ پہلے سوفٹ وار کا مختصر تعارف بیان کرنا ضروری ہے۔

سوفٹ وار کا مختصر تعارف

ہارڈ وار کی طرح سوفٹ وار میں بھی وقت کے تقاضوں کے ساتھ طرز ِعمل و طریقہ کار اور سلوگن بدلتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب عسکری طاقت اور سخت جنگی ہتھیاروں سے جنگیں لڑی جاتی تھیں۔کمزور ملکوں کو ایک ہی وار سے صفحہ ہستی سے ناپید کردیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہارڈ وار کا سلسلہ کم ہونا شروع ہوگیا۔ اسوقت یہ جنگ نہ ہونے کے برابر ہے، چونکہ یہ طرز جنگ اب زیاده کار آمد نہیں رہا، کیونکہ طاقت سے کسی سر زمین کو تو فتح کرسکتے ہیں، لیکن دلوں اور دماغوں کو مفتوح نہیں کرسکتے۔ اس لئے سوفٹ وار کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سوفٹ وار کے خطرات اور اثرات سے نمٹنا ہر ذی شعور مسلمان مرد و خواتین کی شرعی، دینی اور اخلاقی زمہ داری ہے، کیونکہ ان کے اثرات کئی نسلوں پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے جس طرح ہمارے افکار اور عقائد کی حفاظت کی، ہماری بھی زمہ داری ہے کہ آنے والی نسلوں کی ان چیلنجز سے محفوظ کریں۔
سوفٹ وار کا نظریہ حالیہ دہائیوں میں سیاسی لیٹریچر میں داخل ہوا۔ علم سیاست میں اس سے مراد، نفسیاتی جنگ، یا نامحسوس انقلاب کہہ سکتا ہے۔ اس کے لئے “رنگین انقلاب” “انقلابِ مخملی” جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جوزف نائی کا خیال ہے کہ ہارڈ وار “نظریہ زبردستی” اور سافٹ وار “القائی فکر” پر مبنی ہے۔ ویسے نفسیاتی جنگ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ماضی میں بھی دوسرے فریق پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف طریقوں اور چالوں کا سہارا لیا جاتا تھا، لیکن نفسیاتی جنگ کی اصطلاح کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ اور یورپ میں کافی پذیرائی ملی اور زیادہ استعمال ہونے لگی۔سابقہ برطانوی فوجی، مورخ اور تجزیہ کار فلر نے 1920ء میں سب سے پہلے نفسیاتی جنگ کی اصطلاح کا استعمال کیا۔
جنوری 1940ء میں یہ اصطلاح پہلی بار امریکی ادب میں ایک مضمون کی اشاعت کے ساتھ داخل ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یہ اصطلاح “ویسٹر ڈکشنری” میں شامل کردی گئی۔ 1950ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد، اس وقت کے امریکی صدر نے کوریا میں فوجی کارروائیوں کی تیاری کے لیے “نبرد حق” کے نام سے مسودے کی منظوری دے دی۔ اس جنگ میں با قاعده اس نظریئے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت سے اب تک امریکہ نفسیاتی اور نرم جنگ کو اہم ہتھیار کے طور پر مسلسل استعمال کرتا آرہا ہے۔ آج پوری استعماری طاقتیں مختلف ملکوں میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، اسلامی افکار کی تبدیلی اور دیگر مقاصد حاصل کرنے کیلئے اسے استعمال کر رہی ہیں۔

سافٹ ویئر کے چار اہم بنیادی مقاصد ہیں

مذہبی تفکر میں تبدیلی

جب تک کسی معاشرے میں مذہبی عقائد و نظریات قائم ہیں اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن و متحرک ہے، مغربی اقدار کے لئے وہاں کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ عقیدہ ایسا عنصر ہے، جس سے انفرادی اور سماجی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ یوں مذہبی تفکر تمام حربے ناکام بنانے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔

سوچ و خیالات پر کنٹرول

استعمار طویل المدتی اہداف کے مطابق نظریات کی تخلیق اور فکری تھیوریز پیش کرکے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کوشش کرتا ہے۔ مغرب کی مختلف یونیورسٹیز اور فکری مراکز کے نصاب تعلیم اس بات کی بخوبی نشاندھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ احساسات اور جذبات بھی شخصیت کے وہ پہلو ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کے علاوہ جلد اور آسانی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ احساسات کو ابھارنا اور پھر احساسات کو کنٹرول کرنا نرم جنگ کے اہم اہداف و مقاصد میں سے ہے۔

رفتار کی تبدیلی

فکری میدان میں تبدیلی نتیجہ بخش تب ہوگی، جب رفتار میں تبدیلی آئے۔ نرم جنگ میں انفرادی اور سماجی رفتار کی تبدیلی کی بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن فقط یہی تبدیلی مدنظر نہیں ہوتی، بلکہ ان تبدیلیوں کو فیصلہ سازی کی سطح، سیاسی نظام اور پورے معاشرے کی تشکیل نو تک پہنچانا مقصود یے۔ یوں پوری ریاست اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور ہو جائے یا یہ منہدم ہو کر متبادل سیاسی نظام کی تشکیل کی بنیاد فراہم ہوسکے۔

ساخت اور بنیاد میں تبدیلی

 

تمام اہم بنیادیں، سماجی، نفسیاتی اور دیگر تمام جہات میں تبدیلی۔ استعماری قوتوں کی نظر میں مرغوب اور اچھی فصل وہ ہے، جس کی بنیاد میں تبدیلی سے نکلی ہو، اس لیے اہم اور بنیادی تبدیلی آراء اور افکار میں تبدیلی ہے۔ یہی تبدیلی دیگر تبدیلیوں کے لئے زمینہ فراہم کرتی یے۔ عصر حاضر میں استعمار غیر محسوس طور پر مختلف وسائل اور طریقوں سے دماغ سازی کرتا ہے۔ جیسا چاہتا ہے، ویسا ہی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ سوشل نیٹ ورک کے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے اور نت نئے ایجادات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں۔ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ

استعماری قوتیں نرم جنگ کیسے جیت جاتی ہیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کردیا کہ استعمار نرم جنگ کے ذریعے چار قسم کی تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے بنیادی مرکز یعنی عائلی نظام خاص کر خواتین کے کردار کو اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ اگر ان دونوں کی بنیاد میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائے تو مقاصد خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ استعمار نے جب بھی کوئی جنگ جیتی ہے ، انہی دو عناصر کے ذریعے ہی جیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران میں ہونے والے واقعات دیکھ لیجئے۔ کردستان کی ایک چھوٹی نیشنل پارٹی کوملہ نے جو نعره لگایا “زن، زندگی، آزادی” یہ درحقیقت وہی نعرہ یے، جسے سنہ 1918ء میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ لنین نے لگایا کرتا تھا۔ “روٹی، صلح ، آزادی” اسی نعرے کے ذریعے سوویت یونین کو تقسیم کر دیا تھا ۔ کوملہ پارٹی کی بنیاد بھی کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوکر بنی۔ یہ دہشت گرد تنظیم ایران میں ایسی جنایت کا ارتکاب ہوئی کہ جسے سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نمونے کے طور پر عام شہریوں کو قتل کے بعد سروں کو نو بیاہ لڑکیوں کو تحفے میں دیے جاتے تھے۔
سوریہ اور ترکی میں بھی داعش کے خلاف اسی نعرے کا خوب استعمال کیا گیا۔ ہمارے ملک عزیز پاکستان میں بھی حالت ناگفتہ بہ حال ہے۔ جہاں چند محدود خواتین میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کیا اس طرح کا سلوگن لگانا درست ہے یا نہیں، ریاست اور حکمرانوں سے تو یہ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ایسا نعرہ لگانا مذہبی توہین شمار نہیں ہوتی؟ افسوس تب دوبالا ہو جاتا ہے، جب کسی علمی گفتگو کو اس کے سیاق و سباق کو توڑ کر توہین مذہب کے پرچے کٹوائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں کوئٹہ شہر کے خطیب علامہ حسنین وجدانی کی گرفتاری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس توہین مذہب کو حق کی کسوٹی میں نہیں بلکہ اپنی کسوٹی میں پرکھا جاتا ہے۔ جب ہم ان نعروں کی کھوج لگاتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ سب کی حقیقت ایک چیز نظر آتی ہے وہ ہے خواتین کا استحصال اور مردوں کی تسکین کا ذریعہ بنانا۔ کسی بھی طریقے سے ان کو شہوت کی کھائی میں دھکیلنا ہے ۔ تخلیقی حسن اور جسم کی نمائش سے اشرافیہ کی تجوریاں بھروانا و۔۔ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی آئیڈیالوجی اور مستحکم عائلی نظام ہے۔ جب تک یہ دونوں اپنی جگہے پر قائم ہیں،کسی کے لیے بھی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار انہی دونوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں ، کبھی حقوق نسواں کے نام سے تو کبھی مذہبی آزادی کے نام پر ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ استعمار خواتین کے نام پر یہ سب کرتا ہے
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ”نہ شرقی نہ غربی جمہوری اسلامی” کے پرچم تلے مرد و خواتین جمع ہوگئے ۔ انقلاب کی کامیابی میں مسلمان خواتین حضرت فاطمہ زہرا (س) کی پیروی کرتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں۔ بعض جگہوں پر مردوں سے زیادہ خواتین کا کردار زیادہ پررنگ نظر آتا ہے، جیسے مائیں گود میں بچہ اٹھا کر ٹینک اور گولے سے مقابلہ کرتیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں پوری دنیا کی خواتین اپنی حقیقی آزادی کے لئے اٹھ کھڑی ہو جائیں گی۔ یہ باحجاب خواتین پوری دنیا کی مسلم خواتین کے لئے رول ماڈل بنیں گی کیونکہ ایرانی خواتین صرف خود باہر نہیں نکلیں بلکہ اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کو مبارزه کرنے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتی تھیں۔
تاریخ میں حق طلبی کی تحریک میں حضرت فاطمہ زہرا (س) اور ان کی لخت جگر حضرت زینب (س) پیش پیش رہی ہیں۔ ان دونوں سے بڑھ کر کوئی مدافع نبوت و ولایت ابھی تک نہیں آیا ہے۔ ابھی آپ (س) کی عمر چھوٹی تھی، جب قریش نے پیغمبر اکرم (ص) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ آپ (س) نے فوراً یہ خبر حضرت خدیجہ (س) اور پیغمبر (ص) تک پہنچا دی، یوں قریش کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ احد میں آپ (ص) کے دندان مبارک شہید ہوگئے تو کم سن بچی ماں بن کر آپ (ص) کی تیمارداری کرنے لگیں۔ انہی خدمات اور جذبات دیکھ کر حضور اکرم (ص) نے ام ابیہا کے لقب سے آپ (س) کو نوازا۔ جب بیوی بن کر حضرت علی (ع) کے گھر تشریف لائیں تو امیر المومنین (ع) آپ (س) کو دیکھ کر سکون محسوس کرتے اور ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی۔ کبھی امیر المومنین (ع) سے کوئی چیز طلب نہیں کی، تاکہ علی (ع) پورا نہ کرسکیں تو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
عائلی نظام اور بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام نہ صرف زن، زندگی اور آزادی کو قبول کرتا یے بلکہ اس سے بڑھ کر خواتین کو پھول سمجھتا یے۔ پھولوں کی حفاظت کرنی پڑتی یے، تاکہ پوری فضا(معاشرہ) میں خوشبو پھیلے۔ پھولوں کی قیمت ہی حفاظت اور اس کی طراوت میں ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ لگنے سے نہیں۔ پھولوں کی طراوت اور تازگی تبھی باقی رہتی ہے، جب کوئی نیک، دیکھ بال کرنے والا مالی موجود ہو، وگرنہ پژمرده ہوکر بکھر جائیں گے۔ وہی فاطمہ جو ہر میدان میں سب سے آگے ہوتی تھیں، فرماتی ہیں: “بہترین عورت وہ ہے، جس پر کسی نامحرم کی نظر نہ پڑے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔” یعنی معاشرے میں بھی رہے اور غیر اخلاقی و شان نسواں کے منافی محافل سے بھی پرہیز کریں، یہی ہے دانشگاہ فاطمہ (س) سے ملنے والا انسان ساز علم ۔ اسی میں انسانیت کی بقاء اور معاشرے کا استحکام پوشیدہ ہے ۔دور حاضر میں سوفٹ وار کا واحد حل تربیتی اور فکری ارتقاء میں ہے ۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *