سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جہانگیرترین نے جائیداد خریدنے کے لیے 50 کروڑ روپے باہر منتقل کیے، رقم کی منتقلی جہانگیر ترین کو آف شور کمپنی کا بینیفشری ظاہر کرتی ہے لہذا جہانگیرترین نے آف شور کمپنی اور اثاثے چھپا کر کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی جب کہ جہانگیر ترین کے بینکوں سے قرضے معاف کرانے کے شواہد نہیں ملے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جہانگیر ترین نے ان ہاؤس ٹریڈنگ کا اعتراف کیا جب کہ ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کا معاملہ خود ختم کیا اور فوجداری کارروائی نہیں کی، ان ہاؤس ٹریڈنگ سابقہ اور بند معاملہ ہے جس کو نمٹا دیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جہانگیر ترین کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے ڈی نوٹیفائی کردیا ہے۔ جس کے بعد ان کی خالی قرار دی گئی نشست پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : عمران خان نااہلی سے بچ گئے

دوسری جانب سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لئے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اثاثہ جات کے مطابق عمران خان کی کوئی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی، بنی گالا کی جائیداد عمران خان کی ملکیت ہے، جو انہوں نے بیوی اور بچوں کے لئے خریدی، عمران خان نا تو آف شور کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے اور نا ہی ڈائریکٹر، ایمنسٹی اسکیم کے تحت عمران خان پر اثاثے ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اور جہانگیر ترین کی بھی پاناما لیکس میں آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں جسے انہوں نے چھپائے رکھا لہذا انہیں نااہل کیا جائے

express news

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے