سید المسلمین امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت
امام علیہ السلام کا اٹھنا بیٹھنا انداز گفتگو ہرطرح سے مومنین کے لیےاسوه تھا۔ امام علیہ السلام کا طریقه تربیت انسان کی زندگی کو بدل دیتاتھا۔
امام علیہ السلام نے میدان جنگ میں بھی انسانی اصولوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ لوگوں کو شجاعت و جوانمردی کا درس دیا. امام کی زندگی میں بے شمار تربیتی نکات موجودتھے. امتیازات پر مسلسل اہل قلم نے لکھا اور لکھتے رہیں گے ہیں ان میں سے بعض کو یہاں پر ذکر کر رہا ہوں۔
امام علیہ السلام نے اپنی حکومت کے پانچ سالہ دور میں تاریخ کو بتایا کہ عدل و انصاف کسے کہتے ہیں اور اسلامی حکومت کے اصلی خطوط کیا ہیں الفاظ اور نعروں سے ہٹ کر عدل و انصاف کی حقیقی تصویر پیش کی۔
آپ کی حکومت علم وتقوی و پرہیزگاری اور فداکاری پر قائم تھی. قانون کے مطابق آپ کے فرزندان رشتہ دار اور دوسرے تمام افراد آپ کی نظر میں برابر تھے۔
امام علیہ السلام نے خود ارشاد فرمایا۔
” بیت المال سے جو مال لے گئے ہیں ان سے واپس لوں گا اگرچہ اس سے عورتوں کا مهر هی کیوں نہ ادا کیا گیا ہو یا اس سے کنیزیں خریدی گئ ہوں. 1
اپنے افسروں کو برابر کی ہدایت فرماتے تھے کہ لوگوں کے ساتھ برابری اور نرمی سے پیش آنا لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہرگز نا انصافی نہ کرنا۔
یہ باتیں انہیں انسانیت کے ناطے تعلیم دیتے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتے تاکہ لوگوں کی مشکلات حل کرنا تمہارا انسانی فرض ہے تم افسر ہو یا نہ ہو یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے مسائل حل کرو۔
ان سے فرماتے کسی کو بات کرنے اور غرض مدعا کی رو سے ان کو روکو نہیں ٹیکس حاصل کرنے کے لیے سواریاں یا دیگر سامان کو فروخت نہ کرنا وصولیوں کے لیے کسی کو نہ مارنا۔
زکوۃ وصول کرنے والوں سے فرمایا.
ادب و احترام کے ساتھ لوگوں کے پاس جاؤ پہلےان کو سلام کرو پھر یوں کہو کہ اے بندگان خدا ہمیں خدا کے ولی اور خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ وہ حقوق حاصل کریں جو خدا نے تمہارے اموال میں قرار دیا ہے
کیا تمہارے اموال میں خدا کا کوئی حق ہے تاکہ اس کے ولی کو ادا کرو اگر انہوں نے نہیں کہا تو واپس چلے آؤ اور اگر کہا ہاں تو جس قدروه دیں ان سے لے لو اگر دینے کے بعد واپس لینا چاہیں تو انہیں واپس کردیں۔
فرمایا کرتے تھے جن زمینوں کا ٹیکس حاصل کر رہے ہو ان کی آبادی اور خوشحالی کی کوشش کرو اگر ٹیکس حاصل کر لیا اور اسے خوش حال اور آباد نہیں کیا تو تم نے شہروں کو برباد اور لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔
زمین کی ویرانی صاحبان زمین کی تنگدستی کی بنا پر ہے اور ان کی تنگدستی کا سبب یہ ہے کہ حکمرانوں نے پیسوں کے انبار لگا لیے ہیں.
جو لوگ گورنر ہونے والے تھے ان سے فرماتے تھے کہ ان کے ایمان و عمل کو دیکھنا نسلوں اورقبیلے کو نہیں یعنی کردار و تقویٰ مھم تھا۔
امام علیہ السلام خود ان لوگوں کی نگرانی کرتے تھے اگر تھوڑا سا انحراف دیکھتے تو فورا ہی سرزنش کر دیتے تھے اور ان کی اصلاح فرماتے تھے امام علیہ السلام نے جو خط بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کو لکھا تھا اس روش کا مکمل ترجمان ہے
“میں نے سنا ہے کہ شہر کے بڑے لوگوں نے تمہیں ایسی دعوت میں مدعو کیا جہاں نرم و لذیز کھانے تھے اور پر تکلف دسترخوان تھا مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تم اس طرح کی دعوت کو قبول کرو گے اور شرکت کرو گے جہاں تنگدست اور فقیروں کی کوئی جگہ نہ ہوھوش میں آؤ ہوشیار رہو اور مشتبہ چیزوں کے استعمال سے پرہیز کرو” 1
قاضی شریح نے80 دینار کا ایک گھر بنوایا تھا امام علیہ السلام نے اس کی سرزنش کی اور فرمایا کہ ایسا گھر کیوں بنوایا ہے امام علیہ السلام نے اس کو کافی ڈانٹا اس سے مراد یہ ہے کہ امام علیہ السلام خود اپنے وزیر وں آفیسروں کی نگرانی کرتے تھے.2
امام الاتقیاء حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا عدل و انصاف
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عمارہمدانی کی بیٹی سوده امیر شام کے پاس گئی جنگ صفین کے موقع پر سوده حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں جو کام کیے تھے اور جو خدمتیں کی تھیں. وه امیر شام نے ساری باتیں یاد دلاکر سوده کی سرزنش کی اور اس کے بعد پوچھا کہ تم یہاں کس کے لئے آئی ہو.
اے امیر شام: ہمارے جو حقوق تو نے ہم چھین لیے ہیں خدا تمہیں اسکا بدله ضرور دے گا. آپ نے ہم پر ہمیشہ ایسے لوگو ں کو مسلط کرتے رہے ہو جو ہمیں تیار فصل کی طرح کاٹتے تھے ہم پر عرصہ حیات تنگ کرتے تھے ہر وقت موت کی دھمکیاں دیتے تھے اس وقت تم نے بسر بن ارطاته کو وہاں تعینات کیاهے کہ ہمارے مردوں کو قتل کرے اور ہمارے موا ل لوٹ لے اگر تم اسےمعزول کردو تو بہت اچھا ہے ورنہ ہم خود کو ہی اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔
یہ سن کر امیر شام کو غصہ آگیا اور کہا:
تم مجھے اپنے قبیلے سے ڈراتی ہو میں تمہیں بدترین حالت میں بسر کے پاس بھیجوں گا پھر وہ جو مناسب سمجھے گا ویسا ہی برتاؤ تمہارے ساتھ کرے گا۔
تھوڑی دیر سودہ خاموش رہیں گویا اپنے ذہن میں پرانی شان و شوکت اور عزت و سربلندی کی تصویر کھینچ رہی تھی پھر کہا
خدا کا سلام ھو اس ذات پاک پر جو قبر میں محو خواب ہے.
جس کے بعد عدل و انصاف مردہ ہو گئے.
اس نے حق کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا.
اس نے کسی بھی چیز کو حق کا بدل قرار نہیں دیا.
اس کی ذات حق و ایمان سے بھرپور تھی.
اس وقت امیر شام نے پوچھا تم کس کا ذکر کر رہی ہو۔۔۔۔؟
سوده نے جواب دیا
” میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام امام المتقین کو یاد کر رہی ہوں ایک مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ شخص کی شکایت کروں جو زکوۃ جمع کرنے پر مامور تھا جب میں پہنچی اس وقت امام نماز پڑھنے جا رہے تھے مجھے دیکھ کر انہوں نے نماز شروع نہیں کی اور بہت ہی خندہ پیشانی سے فرمایا:
کوئی کام ہے؟
عرض کیا ہاں اور اپنی شکایت پیش کی۔
یہ سن کر وہا ں مصلے پر کھڑے ہوگے اور اپنے خدا سے کہنے لگے خدا یا تو گواہ رہنا میں نے ہرگز اس شخص کو یہ حکم نہیں دیا کیا کہ وہ تیرے بندوں پر زیادتی کرے ایک کاغذ نکالا حمدوثنا خدا اور قرآن کی ایک آیت لکھنے کے بعد تحریر فرمایا:
میرا خط پڑھتے ہیں اپنا مال و اسباب سمیٹ لو اور انتظار کرو یہاں تک کسی اور کو وہاں بھیجو تاکہ وہ تمہاری ذمہ داریوں کو سنبھال لے”
یہ خط مولا نے مجھے دیا خدا کی قسم نہ اس خط کو بند کیا اور نہ ہی اس پر مہر لگائی میں نے خط معمور زکوۃ کوجاکر دیا. وہ وہاں سے معزول ہوا اور چلا گیا یہ واقعہ سننے کے بعد مجبورا امیر شام نےحکم دیا کہ جو یہ کہے وہ لکھ دو2
منبع
1 . رھبران معصوم علیہ السلام صفحہ 118 ۔119
فضائل امام علی علیہ السلام صفحہ 153 اور 154
3 . فضائل الامام علی علیہ السلام صفی 153 ۔154
سفینۃ البحار جلد 1 صفحہ 171 اور 172
دیدگاهتان را بنویسید