تازہ ترین

سید مرتضی اعلی اللہ مقامہ/ حسن  جعفری کندوسی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

العلماء ورثۃ الانبیاء ۔ والعلماء باقون مابقی الدھر  ۔

 اس مختصر مقالہ میں کندوس کے دو اہم شخصیتوں کا تذکرہ کیا جاے گا ،ما ضی قریب میں کندوس میں دوایسے شخص گزرے  ہیں کہ بزرگان اورخدمت گزاران  قوم  کی خدمات کو سراہنا ، ان کی خدمات  کی قدر  کرنا ،ان کی کوششوں کو یاد رکھنا ،ان کے تجربات  سے استفادہ کرنا عقل اورشرع دونوں کی نظر میں ممدوح ہیں۔

شئیر
21 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4059

زندہ قومیں اپنے دینی ،سماجی شخصیات  اور اسلاف  کو یاد کیا کرتی ہیں  جس کے نتیجے میں وہ  ترقی کے منازل  کو طی  کرتی ہیں ۔قرآن کریم  کی واضح  تعلیم  کے مطابق  کہ باری تعالی فرماتا ہے  :ھل جزاء الاحسان الّا الاحسان  ،اسی اس مشہور  خبر کے تحت  من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق  مناسب  سمجھا  کہ  ان دو بزرگ  ہستیوں  کی خدمات  کا مختصر  ذکر  کروں  ۔

 ذاکر اہل بیت اطہار جناب سید مرتضی  موسوی  اور  جناب آخوند محمد  وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے  اُس زمانے میں ذرائع تبلیغ نہ ہونے کے باوجود  دین اسلام اور احکام شرع کی تبلیغ  وترویج میں پوری کوشش کیےاور کندوس جیسے دور دراز علاقے میں  اسلامی تعلیمات  پھیلائے۔میری درینہ خواہش تھی کہ ان کی دینی اور  ثقافتی  خدمات  پر مختصر  روشنی ڈالوں  تاہم  مختلف مصروفیات کی بناپر کچھ عرصہ تک اس سلسلے میں تحقیق نہ  ہوسکی۔

 ۲۰۰۶  ء   میں جب میں جمہوریہ اسلامیہ ایران سے  وطن عزیز  پاکستان    بلتستان  واپس آیا تو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ میں اس کام کوشروع کروں ۔میں نے اُن دونوں ہستیوں کے قریبی ساتھیوں،شاگردوں  اور ان سے فیض حاصل کرنے والوں میں سے چند بزرگوں سے اُن دو  بزرگوں کے مختلف  حالات  زندگی کے بارے میں سوالات کیااور  ان کے دینی   خدمات کے سلسلے میں  تحقیق کی ۔اور ان تحقیقات کو قلم بند کیا ۔اور مقالے کو دوحصوں  میں تحریر کیا ہے  ۔پہلا حصہ  سید مرتضی  کے بارے میں اوردوسرا حصہ  آخوند  محمد کے بارے  میں  ۔

۱۔ مختصر  شرح حال سید مرتضی مو سوی :

نام: سید مرتضی موسوی 

باپ کا نام : سید محمد موسوی 

ماں کا نام : نساء 

تاریخ ولادت :

تاریخ وفات:

   ولادت :

سید مرتضی ــ خپلو گانچھے کے  گاؤں ـ,, سینو,,  میں  پیدا ہوئے ۔اور یہیں پر  ان کا پرو ان چڑھا۔ یہاں ہی  ان کی شادی ہوئی اور دو بچے  ان کے ہاں پیدا ہوئے  ۔

 سید مرتضیٰ کی تعلیم وتربیت :  

سید  موصوف نے سید مختار کریسی سے کسب فیض کیا ۔سید مختار کریسی پیر نوربخشہ سید عون علی شاہ مرحوم کے باپ تھے۔

علمی مدارج:

سید مرتضی مرحوم فقہ،تاریخ اور روضہ خوانی وغیرہ سے واقف تھے ۔انہوں نے بقول حاجی حیدر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید کاظم یزدی اعلی اللہ مقامہ کی شہرہ آفاق کتاب ’’ عروۃالوثقی ‘‘ کو نصف تک پڑھا تھا  ۔

 علمی فنون:

سید مرتضی فن خطابت ،مجلس عزائے  حسینی  پڑھنے،تبلیغ اور وعظ ونصیحت کرنے  میں مہارت  تام رکھتے تھے۔حاجی حیدر کہتا ہے:کندوس علاقہ میں سید مرتضی سے بڑھ کر کوئی شخص فن خطابت ،سخنوری  اور مجلس عزا  پڑھنے  میں ماہر نہیں تھا۔بزرگان ِکندوس  جیسے حاجی حیدر ،حاجی ممتاز حسین (شیخ سجاد صاحب کا باپ)،حاجی حسین (نقلوفو)وغیرہ کا کہنا ہے کہ: 

اب تک  کندوس علاقہ میں سید مرتضی جیسا کوئی خطیب نہیں دیکھا گیا ہے ۔بلکہ میں کہوں گا کہ  میرے معلومات  کے مطابق  آل بلتستان میں  خطابت  اورر  سیاست  میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا  ۔ سید مرتضیٰ مرحوم ایک بے بدیل ،بینظیر اور ماہر خطیب تھے۔اس کی خطابات کا اثر ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں  باقی ہے۔

  ان کے کلام ،خطابت اور گفتگو میں ایک خاص تاثیر تھی جو کسی اور کے کلام میں نہیں پائی جاتی  تھی جس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھینچے جاتے تھے ۔ان کے  مواعظ اور مجالس  شوق سے سنتے تھے ۔

سید مرتضی اورعزاداری :  

  مصائب محمد و آل محمد  علیہم السلام بیان کرنے میں سید مرتضیٰ مرحوم نہایت زبردست اور ماہر تھے ۔ جب  آپ مجلس پڑھتے تو لوگ زار زار روتے تھے ۔سید مرتضی جب  مجلس ِ سید الشہداءامام حسین  علیہ السلام پڑھتے تو اس میں فارسی اور عربی کے وہ  دلسوزاشعار یا نظمیں جو مصائب کربلا  سے تعلق رکھتے ہیں اور  عربی ادب میں  رجز کہتے ہیں پڑھتے تھے۔ جس کی وجہ سے حاضرین پر مزید رقت طاری ہوجاتی تھی  اور لوگ  اتنے زور سے روتے پیٹتے کہ کبھی کبھارسیدمرحوم اپنے ہاتھ کے اشاروں سے حاضرین کو خاموش فرمانے  پر مجبور ہوجاتے تھے ۔ میں نے خود بچپن میں بارہا بار سید موصوف کو تھنگ ماتم سرا میں پرسوز اور پر جوش مجالس پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔

  محافل جشن  کا انعقاد:

   پیغمبر اکرم ؐ اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے ایام ولادت   کو مومنین  عید کے طور پر مناتے ہیں ۔ایسے  مواقع پر سید مرتضی ضرور تقریر وخطابت فرماتے تھے۔ وہ ان محافل میں ائمہ  علیہم السلام کے فضائل ،مناقب ، معجزات اور کرامات بیان کیاکرتے تھے  ۔وہ اس طریقہ سے لوگوں کا عقیدہ ائمہ علیہم السلام کی امامت ، ولایت ، اور مودت کے بارے میں مضبوط فرماتے تھے ۔حاجی حیدر صاحب نے مجھے بھی کئی بار یہی نصیحت کی ’’بیٹااگر ائمہ کے متعلق  لوگوں کا عقیدہ مضبوط کرنا چاہو تو ان کے معجزات و کرامات بیان کرنے کے ذریعہ سے کرو‘‘ 

 سید مرتضی اور حملہ حیدر ی : 

 سردیوں  میں تقریبا ایک مہینہ تک  سید صاحب مومنین کے لیے ،، حملہ حیدری ،،  پڑھ کر سناتے تھے ۔ وہ ’’ حملہ حیدری ‘‘نامی کتاب سے اسلا می  تاریخی واقعات کو بہت دلکش  اور جذاب طریقہ سے بیان  کیاکرتے  تھے ۔ لوگ بہت شوق و ذوق سے ان واقعات کو سنتے تھے۔ وہ  روزانہ ایک واقعہ سناتے اور ایک شخص اس دن کے مجلس کے تبرکات کا خرچہ اپنے ذمہ لیتا تھا ۔ 

 کبھی کبھار تو  مومنین اس کار خیر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے ۔اور ہر کوئی ا س بات کی خواہش کرتا تھا کہ تبرک بنانے کا موقع اس کو دیا جاے ۔ سید ان محفلوں یا مجلسوں میں ، بدر، احد، حنین ، اور خندق و غیرہ کے واقعات کو نہایت دلکش انداز میں  بیان کرتے تھے ۔انہوں  اس سلسلہ کو کافی عرصہ تک جاری رکھا ۔ اس ذریعہ سے مومنین کندوس  کو اسلامی تاریخ ،معارف ،اور تعلیمات سے آگاہ کیا۔

بوا مرتضی ومختار نامہ:

حاجی  حیدر کے بقول ،سید مرتضی صاحب موسم بہار میں ،،مختار نامہ،، پڑھنے اور سنانے کا پروگرام رکھا کرتے تھے ۔جب لوگ اپنے کام کاج سے فارغ ہوجاتے تھے اور ان کے پاس کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا تو سید مرتضی صاحب کے ساتھ مختار نامہ سننے کا پروگرام انعقاد کرتے تھے۔وہ لوگوں کو اس کتاب  ’’مختار نامہ‘‘سے مختلف واقعات نہایت دلکش انداز میں  سناتے تھے ۔

   ادھر مومنین بھی ان واقعات کو جو سید مرتضی مرحوم بیان کرتے تھے نہایت ذوق و شوق سے سنتے تھے ۔مومنین  بوا صاحب کے بیانات سے مستفیض ہوتے تھے ۔بوا صاحب مرحوم ،،مختار نامہ ،، کے واقعات کبھی  اس انداز سے پڑھتے اور سناتے کہ لوگ فرط ِسرور سے خوش ہوجاتے اور کبھی فرطِ غم سے گریہ   زاری کرتے تھے  

  بوا مرتضی و مسیّب نامہ :

  بعض اوقات سید مرتضی مرحوم مومنین کے لیے ’’مسیّب نامہ ‘‘یعنی توّّابین کا قصہ سناتے تھے ۔توابین کا ماجرا واقعہ کربلا  کے بعد کوفہ میں پیش آیا ۔اس ماجرا کے ہیرو  سلیمان بن  صرد خزاعی تھے۔یہ جان گداز واقعہ بھی اپنے اندر ایثار،شجاعت ،ایمان  اور دلیری کے حیرت آنگیز کارنامے اور دروس لیا ہوا ہے ۔

سید مرتضی مرحوم  اس طریقے سے بھی مومنین کے ایمانی جذبات کو طراوت و تازگی بخش دیا کرتے تھے ۔ وہ مسیب نامہ بیان کر کے مومنین کو اسلامی تاریخی واقعات سے آگاہ فرماتے تھے ۔

  سید مرتضی اور حدیث کساء کی قرائت :

  سید مرتضیٰ مرحوم کے دینی و مذہبی سرگرمیوں میں سے ایک یہ تھی کہ : وہ کندوس کے جامع مسجد  میں مومنین کے لیے ،،حدیث کساء ،، پڑھنے کا 

  پروگرام رکھتے تھے۔ وہ حدیث کساء پڑھتے اور اس کے مضمون ومحتوی کی تشریح کیاکرتے تھے۔(حدیث کساء میں پنجتن پاک  علیہم السلام کے فضائل و مناقب مذکورہیں۔ اس حدیث کی سند  پر ہمارے چند جید علماء نے تفصیل سے بحث  کی ہیں )۔

  بوا صاحب اور اصلاحِ معاشرہ:

  سید مرتضیٰ اعلی اللہ مقامہ کے کندوس تشریف لانے سے پہلے یہاں کا معاشرہ بہت خراب تھا۔لہو لعب عام تھا ۔مردار کی کھال کو اکثر استعمال کیا کرتے تھے ۔گالی گلوچ بھی عام تھی  ۔اسی طرح کی اور بھی برائیاں تھیں ۔سید مرتضیٰ مرحوم کے تشریف لا نے کے بعد  کندوس کے اکثر معاشرتی مفاسد کا روک تھام ہوا ۔اور معاشرے کی  خرابیوں کی اصلاح ہوئی ۔ 

  بوا صاحب کا انداز بیان :

  کندوس کے بزرگان  اور وہ حضرات جنہوں نے بو ا صاحب کے مجا لس و تقریرات سن چکے تھےکہتے ہیں کہ :سید موصوف کا انداز بیان  اور خطابت نہایت جذّاب  وجالب تھا۔ان کی تقریروں میں ایک خاص تاثیر تھی جو لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی تھی۔لوگ ان کی مجالس شوق سے سنتے تھے۔سید مسرورحسین صاحب  فرزند سید مرتضی کہتے ہیں :میرے والد مرحوم منبر سے اکثر رجز پڑھ لیا کرتے تھے جس کی وجہ مرد و خواتین پر رقّت طاری ہو جاتی تھی اور لوگ چیخ چیخ کے روتے تھے۔

سید مرتضی مرحوم زیادہ تر چھوغوگرونگ اور تھنگ میں مجالس پڑھ لیا کرتےتھے اور کبھی کبھار خورکنڈو بھی  تشریف لے جاتے تھے۔تھنگ گاؤں میں  چونکہ  مجالس عزا  رات کوبرپا ہوتی تھیں اس لئے سید موصوف رات کو  مجلس پڑھنے کے لئے تھنگ تشریف لے جاتے تھے۔

تھنگ ،چھغوگرونگ  وغیرہ میں  سید مرتضیٰ مرحوم اسد کے مجالس بھی پڑھتے تھے۔مومنین سید مرحوم کو مجالس پرھنے کی اجرت میں  پانچ قفیز گندم فی چولہ دیا کرتے تھے ۔   

سید  مرتضیٰ مرحوم کی فکر و تدبیر :

  بوا صاحب نہایت سمجھدار اور فکر ِصائب کے مالک تھے۔کندوس والے سب اس بات پر متفق ہیں کہ :وہ ایک’’مرد فکر وسیاست ‘‘تھے۔

 وہ اپنی فکرو سیاست کے ذریعے سے کندوس والوں کو سیدھی راہ دیکھانے میں کامیاب ہوئے۔بقول حاجی حیدر ،کندوس والوں کو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے راستہ  پر لانے میں بوا صاحب کی انتھک کوششوں  کے ساتھ آخوند محمد  ولد آخوند علی فو مرحوم بگے والانے بھی زبردست کردار ادا کیا۔

سید مسرور حسین فرزند سید مرتضی کے مطابق بوا مرتضی کی روش یہ تھی کہ اگر کوئی نور بخشی شیعہ ہونے میں دیر کرتا تو اسے ،،مومن ،،کہہ کر پکارتے رہتے ، جس کے نتیجے میں نوربخشی فرد تھوڑی مدت کے بعد شیعہ مذہب اختیارکرتاتھا ۔(شیعہ اور نور بخشیہ دونوں پیغمبر گرامی کے بارہ اوصیا ء کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے ہیں ،اور اکثر  اعتقادی اور فرعی مسائل میں ایک جیسے نظریات رکھتے ہیں )۔

کندوس میں سید مسرورحسین کے بقول  شیعہ مذہب قبول کرنے والوں میں سر فہرست آخوند محمد ولد آخوند علی فو ہے ۔ان کے بعد دوسروں نے شیعہ مذہب قبول کرنا شروع کیا ہیں جیسے  ترانگپہ زہلّہ ،آخوند ابراہیم ایپہ ،اپو علی خان ،اپو ہلوا کریم  ،اپو عیسی یارکنپہ ،اپو قربان ،اپو جورجور کریم ،اپو عسکری،وغیرہ۔ 

 نقد:جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے تو شاید بوا صاحب کی بات درست ہوگی۔لیکن آخوند محمد کے بارے میں بزرگان کندوس کا کہنا ہے کہ وہ خپلو سے شیعہ مذہب اختیار کر کے آئےتھے۔چونکہ آخوند محمد مرحوم نے  خپلو کے نامدار اور مشہور  عالم دین آغا سید عبّاس موسوی صاحب  اعلی اللہ مقامہ ونور مرقدہ سے تعلیم حاصل کی تھی ۔اور ان کی تربیت کی وجہ سے ،آخوند مرحوم نے زندہ مجتہد کی تقلید پر عمل کرنے نظریہ اپنایا تھا۔ ۔

چونکہ اصول و فروع کے حوالے سے شیعہ مکتب اور نوربخشی مکتب میں زیادہ اختلاف نہیں ہے بنیادی طور پر دیکھاجائے تو صرف تقلید ابتدائی  میں فرق ہے یہ بھی کوئی اساسی اختلاف شمار نہیں ہوتا ۔اس قسم کے فقہی اختلافات جس طرح سے ایک ہی مکتب ِفکر کے  علماء اور اور فقہاء کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔اسی طرح مختلف مکاتب فکر کے فقہاء کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں ۔

 سید مرتضیٰ مرحوم کی کندوس تشریف آوری:

  سید مرتضی مرحوم اصل میں سینو  گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ سینو سے کندوس تشریف لائے تھے۔سینو گاؤں میں سادات کافی تعداد میں تھے ۔وہ حضرات وقتا فوقتا اپنے اپنے نذورات جمع کرنے کے لیے کندوس تشریف لاتے رہتے تھے۔تا ہم ان کی کوئی مذہبی سرگرمی یا تبلیغ نہیں تھی(البتہ ان کا یہاں کندوس میں صرف نذورات کے لئے تشریف لانابھی بے اثر نہیں تھا )۔

لیکن سید مرتضی کے بارے میں کندوس والوں  نے سن رکھا تھا یا تو ان کو معلوم تھا کہ وہ ایک زبردست اور توانا خطیب ہے ۔اس لیےکندوس والوں نے سید مرتضی  مرحوم   کو بعنوان پیر اور خطیب  دعوت دے کر کندوس  لایا  اور  یہاں ہی بسایا ۔

سید مسرورحسین کے مطابق کندوس تشریف لاتے وقت  بوا صاحب بالکل جوان تھے۔ان کو بعنوان میرواعظ نوربخشیہ لایا گیا تھا ۔وہ تقریبا تیس سال تک کندوس میں تبلیغ کرتے رہے۔ اس دوران تین تہائی نوربخشی، شیعہ ہو چکے تھے ۔(چونکہ درحقیقت شیعہ اور نور بخشیہ کے درمیان مذہبی ،فقہی اور اعتقادی اختلافات بہت ہی کم ہیں ۔اس لئے ہر ایک دوسرے کے مکتب کا جلد پیرو ہوجاتا ہے ۔

مثلاً اگر کوئی نوربخشی شیعہ ہونا چاہے تو اُسے صرف میت کی تقلید  چھوڑنی پڑتی ہے لیکن اگر ایک شیعہ یا نور بخش سنی یا وہابی ہونا چاہے تو انہیں  اپنے مذہب کی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہیں)۔سید مرتضی مرحوم نے بالآخر کندوس میں ایک طولانی عرصہ تقیہ میں رہنے کے بعد اپنی شیعیّت کا اعلان کیا ۔

سید مسرورحسین کا مطلب   یہ ہوسکتا ہے کہ : بوا مرتضی نے اتنا عرصہ روا داری سے کام لیا۔کیوں کہ بعض کے مطابق بوا مرحوم بہت ہی روا دار شخص تھا۔حقائق کو بیان کرتے تھے لیکن کسی پر اپنا عقیدہ نہیں ٹھونستے تھے۔یہ بالکل قرین صحت ہے کہ سید صاحب نے کسی کو بھی  اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا  ۔جو کچھ تبدیلیاں یہاں آئیں وہ سید مرحوم کے مخلصانہ اور جذبات سے بھر پور تقاریر وخطابات کا اثر تھا جیساکہ اس سے قبل بھی اس بات کی طرف اشارہ ہوا )۔

  اُس وقت کندوس میں اکثریت نوربخشیوں کی تھی ۔اس وقت امامیہ اور صوفیہ کا چکر نہیں تھا۔ بلکہ سب نور بخش امامی تھے ۔نوربخشی  مومنین شیعہ مومنین  کی طرح مجالس اور محافل منعقد کیا کرتے تھے ۔ائمہ اہل بیت سے دوستی و مودت اور ان کو اولیا و اوصیا ء برحق سمجھنے میں شیعہ اور نور بخشیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا ۔  تمام شیعہ اور نوربخش مل کر  عزاداری کیا کرتے تھے ۔ مجالس  عزا کے لئے تبرکات اور نذورات لانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے ۔

پھر کندوس کے اکثر نور بخشی جو جلد شیعہ ہوئے ہیں تو اُس کا ایک موثر سبب یہ ہوسکتا ہے کہ چونکہ سید مرتضٰی صاحب ایک شعلہ ور خطیب اور نامور  ذاکر تھے کہ ان کی شعلہ ور تقاریر اور خطابات  نے ان میں تاثیر کی ہو !۔ چونکہ عام و خاص سب ایسی تقاریر کو پسند کیا کرتے ہیں ۔ایک شعلہ ور خطیب  قلیل مدت میں عوام میں انقلاب برپا کر سکتا ہے اور یہ چیز دنیا کی بہت سی جگہوں میں واقع  ہوئی ہے ۔اس کی بہت سی  مثالیں دی جاسکتی ہے  لیکن اختصار کے پیش نظر  یہاں  چند مثال  درج کی جاتی ہیں  :

۱۔علامہ حلی  کی تبلیغ کی وجہ سے  ایران  کے بہت سے  سنی مذہب  والے  شیعہ امامیہ ہوگئے ۔

۲۔ علامہ شرف الدین  عاملی کی مدلل گفتگو کے نتیجے میں مصر کے مفتی اسبق  جناب شیخ سلیم  نے مذہب امامیہ  اثنا عشریہ  قبول کیا ۔علامہ  کی المراجعات  کے مطالعے  بہت سے سنی  شیعہ  ہوگئے ۔

۳۔ حال ہی میں   نیجریا میں  شیخ زکزاکی  کی مساعی  جمیلہ  کی  روشنی میں ڈھائی کڑور  افراد نے شیعہ مذہب  قبول  کر لیے ہیں ۔

۴۔ علامہ امینی  کی کتاب الغدیر کے مطالعے سے عرب دنیا میں لاکھوں کے تعداد  میں لوگوں نے مذہب امامیہ  قبول  کر لیے ہیں ۔

۵۔ علامہ  مرتضی عسکری کی کتاب  معالم المدرستین  کے مطالعے  سے  عرب دنیا میں لاکھوں  کی تعداد میں لوگ امامیہ مذہب قبول کر چکے ہیں ۔

 حاجی حیدر کہتا ہے :کندوس میں سید مرتضی  کے قیام کے دوران انہوں نے مختلف مذہبی سرگرمیوں اور تبلیغات کے ذریعہ سے لوگوں کے خفتہ اذہان کو بیدار کیا اور آہستہ آہستہ ان کو محمد و آل محمد ؐکی محبت ،امامت ،فضائل ومناقب  اور تقلید جیسے مسائل سے آگاہ کیا۔ 

البتہ  نوربخشی برادران بھی ائمہ اطہار کو مانتے ہیں اور ان کی ولاء و محبت میں مجالس عزا و محافل میلاد منعقد کیا کرتے ہیں ۔ائمہ اطہار علیہم السلام کے عشق و محبت میں  ان کا جذبہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔تاہم اسلام اور مسلمین سے کے  خلوص  نہ رکھنے  والے افراد  کی شیطانی  سیاست  کے نتیجے میں  ان دو مذہب  کے ماننے والوں کے درمیان   کچھ سطحی اور عوامانہ  اختلاف  پیدا  ہوا ۔اور اب  بھی کچھ لوگ  اس قسم کے  بے بنیاد اختلافات  کو ہوا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں  جو یقینا  ان دین مبین  اسلام  سے یا تو نا آشنائی  کے باعث ہے یا تو  دین سے  کچھ اور  سبب  کا  باعث ہے ۔

تعصب اور فرقہ بندی دین  اسلام کی رو سے حرام ہے ۔دین سے معمولی آشنائی رکھنے والا  بھی  اس بات کو  بخوبی جانتا ہے کہ دینی حوالے سے  دین میں تعصب  کی کوئی گنجائش  نہیں ہے ۔اس کے باوجود  بعض  لوگ  مختلف وجوہات کی بنا پر  تعصب پھیلانے   کو ہی دین  سمجھے ہوئے ہیں ‼

  حاجی حیدر کہتا ہے:کبھی کبھار بوا صاحب مجالس محافل میں اور کبھی تو اپنے آپ سے سوال کیا کرتے تھے کہ تقلید کیا چیز ہے ؟اس کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر خود جواب دیتے ہوئے کہتے تھے اس سوال کا جواب تمہیں آخوند محمد سے مل جائیگا جاؤ اور آخوند سے سوال کرو ۔

یہ روش بوا صاحب کی ہمیشگی تھی ۔اس طریقہ سے بواصاحب نے لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کیا۔بعض کے مطابق بوا صاحب اور آخوند کے درمیان طی ہوتاتھا کہ بوا صاحب لوگوں کے لیے سوال اٹھائے اور آخوند کے پاس بھیج  دے۔ادھر آخوند محمد صاحب جب کوئی نوربخشی ان پاس آتا تو تقلید اور دوسرے شرعی مسائل کے بارے میں خوب توضیح دیا کرتے تھے۔ 

آخوند ایسارویہ  اختیار کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان کے پاس آنے والے نوربخشی حضرات وہیں پر شیعہ مذہب  اختیار کر تےتھے۔خود بوا صاحب بھی تقلید کے مسائل  کو وضاحت کیساتھ بیان کرتے تھے ۔وہ کہاکرتے تھے کہ :تقلید کا مطلب مجتہد پرستی نہیں ہے بلکہ مجتہد خدا کے احکام کو ہمارے لیے بیان کرتے ہیں ۔

(یعنی تقلید  مجتہد  کے فتوی پر عمل کرنا ہے اور مجتہد وہ ہے جو قرآن و سنت ،اور عقل و اجماع سے شرعی احکام کو استنباط کرے ۔دوسرے لفظوں میں مجتہد کے بارے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ : وہ دین کا ماہر  ہے ۔ عقل و شرع ہمیں حکم دیتی ہے کہ  ماہر  کا کہنا مانیں ۔ یہ مسئلہ کوئی   باعث اختلاف  نہیں ہوسکتا  کیونکہ  اس قسم کے  اختلافی مسائل  فقہ  میں تمام مذاہب کے  علما اور فقہا کے درمیان  موجود ہیں ۔)

  بوا صاحب کہا کرتےتھے:کہ یہ درست ہے کہ سید محمد نور بخش اپنے زمانے میں مجتہد اور مرشد تھا ۔لیکن ہمارے زمانے کے لیے وہ فائدہ مند نہیں ہے ۔ہمیں چاہیے کہ زندہ مجتہد کی طرف رجوع کریں ۔ ۔(بوا صاحب کا مطلب  یہ ہوسکتا ہے کہ  روز مرہ کے  پیدا ہونے والے جد ید مسائل  کا جواب  یقنا ایک  وفات یافتہ  شخص  نہیں دے سکتا  ،یہ صرف سید محمد نور بخش  کی بات نہیں ہے بلکہ  نوع انسانی  کا مسئلہ  ہے ۔ اس میں اختلاف  کی  کوئی وجہ نہیں ہے ۔)

کندوس میں بوا  مرتضی کا  طریقہ  تبلیغ:

  حاجی حیدر کہتا ہے کہ: سید مرتضی ٰ صاحب کا یہ طریقہ تھا کہ جو شخص شیعہ ہونا چاہتا تھا اس کو آخوند محمد کے پاس بھیجتا تھا ۔کیوں کہ آخوند مرحوم  شرعی مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔اور فقہی مسائل بیان کرنے میں ماہر تھے۔آخوند اس شخص کے لیے تقلید کی بخوبی وضاحت کرتے تھے اور وہ شیعہ مذہب اختیار کرتا تھا ۔ 

سید مسرورحسین صاحب سے بھی میں نے جب بوا صاحب کے تبلیغ کرنے کے  طریقہ کار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے حاجی حیدر کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ:بعض دفعہ بوا صاحب ان لو گوں کو جو شیعہ ہونا چاہتے تھے  اپوترانگپہ زہلّہ کے پاس بھیجتے تھے کیونکہ وہ ایک با نفوذ اور قدرتمند شخص تھا۔اگر وہ اجازت دیتے تو تقلید لینے کے لیے اپو آخوند کے پاس جاتے تھے۔

پھر بوا حسین صاحب کے مطابق اپو زہلّہ خود بھی پہلے سے شیعیت کی طرف مائل تھا ۔اس لیے جو بھی اس کے پاس آتا تھا  اس کو شیعہ مذہب قبول کرنے سے نہیں روکتا تھا۔ 

  بوا صاحب کے اخلاق حمیدہ :

  بوا صاحب بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔سخی،شجاع،اور متواضع تھے۔لوگوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور سلوک اتنا اچھا تھا کہ کندوس والے ہمیشہ ان کی خدمت کے لیے حاضر رہتے تھے ۔ان کی بہت عزّت واحترام کرتے تھے۔

اگر بوا صاحب کے لیے کوئی گھریلو کام پیش آتاتو لوگ اپنے کاموں کو چھوڑ کر سب سے پہلے  سید مرتضی مرحوم کے کام  سرانجام دیتے تھے ۔ بوا صاحب جس کام کے لیے بلاتے وہ لوگ  جلد حاضر ہوتے تھے اور اپنے کام کاج چھوڑ کر ان کی خدمت کے لیے تیّار رہتے تھے  ۔ 

  بوا حسین کے بقول سید مرتضی سخی اور کریم النفس تھے ۔وہ کسی کو گھر سے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے ۔جب کوئی مہمان آتا تو وہ اس کی بہت عزّت کیا کرتے تھے۔ اگر وہ عام مہمان ہوتا تو دروازے تک اور اگر کوئی خاص مہمان ہوتا تو دس قدم تک اس کی مشایعت میں جاتے تھے۔کسی پر بھی کبھی غصّہ نہیں کرتے تھے۔بلکہ وہ اپنے غصّے کو پی جاتے تھے۔وہ بہت زیادہ دعا پڑھنے والے تھے اکثر دعائے جوشن کبیر اور جوشن صغیر پڑھ لیا کر تے تھے ۔ 

    بوا صاحب اور آخوند کی دوستی:

  سید مرتضیٰ  اور آخوند محمد صاحبان کے درمیان گہرا تعلق اور دوستی تھی۔مذہبی ،سماجی اور معاشرتی بلکہ دوسرے حوالے سے بھی ان کے درمیان اتفاق وہماہنگی تھی۔ وہ  دونوں سخاوت  کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مہمانی پر بلاتے تھے۔ایک دوسرے کا خیال ،عزّت اور احترام رکھتے تھے ۔ 

سید مرتضی (نور اللہ مرقدہ )کا لوگوں کو آخوند محمد صاحب کے پاس بھیجنا بھی اس بات کی ایک اور دلیل ہےیعنی وہ دونوں ایک دوسرے  کا احترام اور وقار رکھا کرتے تھے۔ یہاں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بو ا صاحب تواضع وفروتنی کےکس درجہ پر فائز تھے۔یہ وہ مقام ہے جو با عمل علماء کے لیے بہت ہی زیب دیتا ہے۔حاجی حیدر کہتا ہے:بوا صاحب آخوند کو مجلس پڑھنے کی دعوت بھی  دیتے تھے۔ ۔(چونکہ آخوند محمد صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ہرگز مجلس عزا نہیں پڑھتے تھے )۔

سید مرتضیٰ صاحب کی کامیابی کا راز:

  سید مرتضیٰ صاحب اعلی اللہ مقامہ اپنے دینی اہداف اورتبلیغی مقاصد میں کیوں کامیاب رہے؟

  جیسا کہ گزر چکا ہےکہ سید مرتضی  کی کامیابی کے متعدد عوامل ہوسکتے ہیں۔ایک تو  ان کا اخلاص ، دیانتداری  اور حسن خلق ہے ۔دوسرا بڑا راز یہ تھا کہ وہ تاریخی حقائق اور واقعات کو جذّاب  اور دلکش طریقے سے بیان کرتے تھے ۔یعنی دینی تعلیمات اور تاریخی حقائق احسن طریقہ سے لوگوں تک پہنچانے کا ان کے پاس گُر تھا ۔

اور سب سے بڑا راز یہ تھا کہ وہ  لوگوں کے لئے انبیاء و ائمہ اطہار  علیہم السلام کے کرامات ،فضائل ،اور مناقب بیان کیا کرتے تھے ۔جس کی وجہ سے لوگوں کا عقیدہ محمد آل محمد اورمکتب اہل بیت علیہم السلام پر مضبوط ہوتا جاتا تھا ۔اس بات پر حاجی حیدر نے کئی بار تصریح کی ہے۔

  بوا حسین فرزند بوا مرتضی کے بقول ،سید مرتضی صاحب بہت برد بار اور کاظم الغیظ شخص تھے۔وہ  ہر گز غصہ نہیں کرتے تھے۔اگر کوئی شخص اسے سختی سے بات کرتا تو وہ مسکرا کر جواب دیتے تھے۔یہ بھی ان کی کامیابی کا ایک اور بڑا راز تھا   

(یہ ہمارے پیغمبر  اور ائمہ ہدیٰ صلوات اللہ علیہم اجمعین کی سیرت طیبہ ہے کہ وہ سب کے سب کاظم الغیظ ،برد بار،حلیم اور خوش خلق تھے ،پیغمبر کے بارے میں اللہ نے فرمادیا : انّک لعلی خلقٍ عظیمٍ ۔اسلام کا پرچار بھی پیغمبر اسلام کے حسن خلق سے ہوا ہے )

سید مرتضیٰ صاحب کی اہم تعلیمی خدمت:

 سید مسرور حسین کے مطابق ،سید مرتضی نے کندوس والوں کے حق میں جو سب سے بڑی  علمی اور سماجی خدمت کی ہے وہ ان کے لئے ایک سکول کی منظوری لانا ہے۔  یہ ا س طرح سے کہ ایک دفعہ وزیر غلام مہدی کندوس بوا صاحب سے ملنے آیا۔وزیر موصوف حکومت کا ملازم تھا ۔

بوا نے ان سے درخواست کی کہ وہ یہاں بچّوں کے لیے ایک پرائمری سکول کی منظوری لائے !وزیر نے بوا صاحب سے عرض کیا کہ :اس سے آپ کی عزّت کم ہوجائیگی !بوا صاحب نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہے!اگر انہیں تعلیم مل کر میری عزت کم ہوجائے تو ہونے دے۔ 

ماتم سرا کے بارے میں بوا کا نظریہ:

  بوا کا کہنا تھا کہ ماتم سرا مسجدوں کا محافظ ونگہبان ہے۔بوا صاحب اور ان سے پہلے کے ادوار میں مجالس عزا مسجدوں میں برپاہوتی تھیں۔جن میں مرد عورت اوربچے سب شرکت کیا کرتے تھے۔مسجدیں بار بار نجس اور ان کی حرمت پائیمال ہوتی رہتی تھی۔بوا مرحوم بار بار خود ہی مسجد کو پاک کیا کرتے تھے۔

ان مسائل کے پیش نظر بوا نے ماتم سرا بنانے کا عزم کیا ۔ماتم سرا بننے کے بعد ،انہوں نے مجالس عزا اس میں منعقد کرنا شروع کیا۔ان پر اعتراض کیا گیا کہ آپ نے خانقاہ کیوں چھوڑ ا ہے؟ ماتم سرا کیوں بنائی ہے ؟

 بوا صاحب  ان کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ: مسجد اللہ کا گھر ہے۔ماتم سرا امام کاگھر ہے ۔ماتم سرا مسجد کی حفاظت  کے لیے ہے۔اس کی وجہ سے سے مسجد کی حرمت باقی رہتی ہے۔ (کیونکہ ماتم سرا پر مسجد کے احکام لاگو  نہیں ہوتے ہیں ۔جنب  ،حائض اور نفاس والے شخص پر مسجد ٹھہرنا   حرام ہے جبکہ حالت جنب  وغیرہ میں ماتم سرا  میں جاسکتے ہیں ۔)

سید مرتضیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز افراد:

  حاجی حیدر کے مطابق اگرچہ بوا صاحب کندوس کے تمام مومنین سے محبت کرتے تھے۔تا ہم حاجی صاحب کو دوسروں سے زیادہ چاہتے تھے ۔ان کے بعد بوا صاحب اپو زہلّہ،اپو کریم ،اپو دروا محمد اور چند دوسرے افراد کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ 

سید مسرور حسین کےبقول ،مندرجہ ذیل افراد بوا مرتضی کے نزدیک عزیز اور معتمد تھے:ترانگپہ زہلّہ،سودے،درو وا محمد، کریم ،اپو علی خان ،اپو محمد ،اپو چھن چھو کریم ،کریم ولد عبد الرحیم  ،اپو علی سکلبوا ،آخوند محمد ،ہلوا کریم ہنوا ،اپو بیاغتہ غلام ،اپو احمد تلچوا۔

کرمنی سے اپو حسن علی ،اپو حسین ،اپو گوروا ، اپو قربان ،آخوند علی ،غلام پا ،سلمان یروا ،ترانگپہ حسین ،لہرپہ آخوند ،سلام ،اپو علی فو ،خورکنڈو سے مروا علی ،ترانگپہ روزی ،اپو وتھول ،اپو شلٹوق ،محمد علی ،غلام علی ،غلام محمد ۔

تھنگ سے آخوند محمد ،اپو کریم پہ ،اپو مراد ،اپو روزی ،اپو دربیس ،اپو علی چو رھین ،اپو غہلانگپہ حسین ،حاجی ابراہیم  ولد عبدوا(والد شیخ حسن )،بگے سے حاجی حیدر کو زیادہ چاہتے تھے ۔ 

سید مرتضی کے بارے میں ایک تجزیہ وتحلیل:

 سید مرتضی مرحوم نے سید مختار کریسی سے تعلیم حاصل کی تھی ۔سید مختار نوربخشیوں کا پیر تھا ۔وہ سید عون علی شاہ پیر نوربخشیہ کا والد تھا۔

 بعض کے مطابق ،آغا سعد جان مرحوم اور سید مرتضی دونوں نوربخشی تھے ۔سید سعد جان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سخت اور متعصب نوربخشی تھا۔انہوں نے بھی سید مختار کریسی ہی سے تعلیم حاصل کی تھی ۔سید مرتضی کی نسبت آغا سعد جان نےعلم زیادہ  حاصل کیا تھا ۔دوسرے الفاظ میں وہ ایک عالم دین تھا ۔جبکہ سید مرتضی نے زیادہ علم نہیں سیکھا تھا۔لیکن وہ ایک زبردست  اور بینظیرخطیب تھے۔اس لیے کندوس والوں نے ان کو بعنوان خطیب وعالم دین  اپنے ہاں مدعو کیا ۔

سید مسرور حسین کے مطابق کندوس والوں نے ان کو بعنوان پیر دعوت کیا تھا۔اور ان کو کافی کافی سہولیات بھی فراہم کیے تھے۔بعض کے مطابق بوا مرتضی مرحوم نے یہاں جتنی زندگی فرمائی وہ روادارانہ تھی ۔انہوں نے مذہبی رواداری کی بنیاد پر ایسےافراد کو جو شیعہ مذہب اختیار کرتے جاتے تھے کچھ نہیں کہتے تھے ۔اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوںنے کوئی مذہبی منافرت اس علاقہ میں پھیلائی ہو،یا اپنا عقیدہ دوسروں پر ٹھونسا ہو ۔یہ ایک طرف سے۔

 دوسری طرف سے ،بوا صاصاحب اپنے خطابات ،تقریرات اور گفتگوں میں ’’شیعیان علی ‘‘علیہ السّلام کی اصطلاح زیادہ ہی استعمال کرتے تھے۔وہ ’’حملہ حیدری ‘‘پڑھنے کا پروگرام رکھ کر اس میں صدر اسلام کے جنگی واقعات کوجن میں علی ؑنے بھر پور شرکت کی تھی۔ اور مسلمانوں کوفتح وکامیابیاں نصیب ہوئی تھیں ،برے جذّاب طریقے سے بیان کرتے تھے ۔اور باربار شیعیان علی کی اصطلاح کو تکرار کرتے تھے ۔

چنانچہ روایات میں وارد ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’یا علی انت وشیعتک ھم الفائزون  ‘‘  تو شاید لوگوں نے یہ مطلب درک کیا ہوگا کہ علی ؑکے  نقش قدم پر چلنے والوں کو شیعہ ہی کہا جاتا ہے۔ اس لئے تدریجا لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنا شروع کیا۔

ایک حوالےسے دیکھا جائے تو اُس وقت کندوس میں آخوند محمد مرحوم جو ایک پڑھا لکھا عالم دین تھے۔شیعیت کی خوب تبلیغ کر رہے تھے ۔آخوند موصوف ،آخوند علی فو ،جو نوربخشی تھا ،کا بڑا بیٹا تھا ،لیکن خپلو آغاسید عباس موسوی بزرگ عالم دین کے ہاں سے شیعہ مذہب اختیار کر کے آئے تھے۔

بوا صاحب کو کندوس لانے کابھی ایک مقصد یہی تھا کہ آخوند علی فو کا بیٹا شیعہ مذہب اختیار کرچکا ہے۔ لہذااس کی جگہ کسی اور کو لانا چاہیے!بعض کے مطابق،آخوند صاحب کی تبلیغ کی وجہ سے چھوغوگرونگ،خرکنڈو،کرمنی وغیرہ میں بہت سے لوگ شیعہ ہوچکے تھے۔

اس کے ساتھ بوا صاحب کی مذہبی رواداری،اثر کر گئی۔وہ ایسے افراد کو جو شیعہ ہونا چاہتے تھے ،مذہبی رواداری کی بنا پر کچھ نہیں کہتےتھے۔ بلکہ ان کو آخوند محمد کے پاس بھیج دیتے تھےتاکہ وہ ان کو تقلید کے مسائل سے آگاہ کرے۔ 

  بوا صاحب کی اولاد :

 سید مرتضی نے سینو میں ارچو نساء سے شادی کی تھی جس کے نتیجے میں ان کے ہاںسید  ذاکر، سید محمد ، سید سخاوت ،سید مسرور حسین اور سیدہ  روقیہ پیدا ہوئی۔ان میں سے دو تو سینو ہی  میں پیدا ہوئے تھے۔جبکہ باقی اولاد کندوس میں پیدا ہوئے ہیں۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ

بواصاحب کی نسل  ،سید مسرور حسین اور ارچو روقیہ کے ذریعہ سے پھیلی ہے ۔ارچو روقیہ کی شادی سینو میں آغا سیّد سعد جان کےبیٹے سید جعفر شاہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں دو بچّے سید مظاہر اور مہرو پیدا ہوئے ۔

جبکہ سیدمسرور حسین نے دو عورتوں سے شادی کی پہلی بیوی  ہاجرہ  (کنڈق پا حسن کی بیٹی )سے ان کے ہاں ایک بیٹا سید ناصر علی اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں سیدہ صدّیقہ اور سیدہ عابدہ  ۔اوردوسری بیوی  صدّیقہ  دخترِ ابت پا علی سے بھی ان کے ہاں تین اولاد ہوئیں۔ ایک بیٹاسید تقی اور دوبیٹیاں سیدہ خاتون اور سیدہ گلشن آراء۔

بوا مرتضی مرحوم اور ان کے خاندان سے وفاداری:

 بوا اور ان کے خاندان کے ساتھ کندوس والوں کی وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔بوا صاحب کی دینی خدمات اورزحمات کے صلے میں انہوں نے بواصاحب کو زندگی کے تمام مایحتاج ولوازمات زندگی فراہم کیے تھےجیسے گھر،کھیت مزرعہ،خوبانی کے درخت،لکڑی،مکھن ،خوبانی کا تیل،گندم،جواورگوشت وغیرہ ۔

اس کے علاوہ بوا کو اگر کام کاج کی ضرورت پڑتی تو اس میں بھی پوری پوری مدد کرتے تھے۔اُس وقت  کندوس میں شکاری زیادہ تھے ۔اگر ان کو کوئی شکار مل جاتا تو اسے بھی بوا صاحب کے لیے ضرور گوشت لاکے دیتے تھے۔اگر یہاں گھروں میں کوئی جانور ذبح ہوجاتا تو بھی ،بوا کے لیے گوشت بھیج دیتے تھے۔اس کے علاوہ ان کو مہمانی پر دعوت کیاکرتے تھے۔

 کھیتی باڑی کے ایّام میں اگر بوا صاحب کو مدد کی ضرورت پڑتی تو  لوگ اپنے کا م کاج چھوڑ کر ان کی مدد کرتے تھے۔  ( بوا صاحب کے فرزند ،بوا مسرور حسین کا کہنا ہے کہ:بوا صاحب کو جب کندوس لایا گیا تو کندوس والوں نے ان کے لیے ،گھر بناکر دیے۔اسد ماتم کے وقت کندوس کا ہر ایک چولہ بوا صاحب کو پانچ قفیز گندم دیا کرتاتھا۔ 

سید مرتضی اعلی اللہ مقامہ کی اولاد کے لئے کندوس والوں کی جانب سے جتنی خدمت کی جائے کم ہے ۔کیونکہ ان کی خدمات سید مرتضی مرحوم کی ان زحمات اور تکلیفات کے مقابلے میں جو انہوں نے کندوس کے مومنین اور عوام کے لئے اُٹھائی تھی  کچھ بھی نہیں ہے ۔ھل جزاء الاحسان الّا الاحسان کے تحت حتی الامکان سید مرتضی مرحوم کی ذریت کا خیال رکھنا قرآن کریم کی اس واضح تعلیم کا تقاضا ہے ۔

سید مرتضی مرحوم  کے بیٹے سید مسرور حسین موسوی صاحب  نہایت سخی ،خیر خواہ اور خوش خلق ہیں ۔کوئی بھی مہمان ان کے گھر سے خالی منہ نہیں جاتا جوں ہی کوئی مہمان آیا تو سید کے حکم سے جلدی چائے ،کھانےوغیرہ  مہمانوں کے لئے تیار  ہوتے ہیں ۔

سید مسرور حسین کی آواز بہت اچھی ہے وہ بہت اچھے انداز میں قصیدہ پرھتے ہیں ۔ان کو تجارت اور کار وبار کرنے کا شوق بھی  بہت شوق تھا  اپنے شوق کو عملی جامہ پہنانے کےخاطر عرصہ تک وہ گائے وغیرہ کی تجارت کرتے رہے۔

اس وقت وہ کہولت سن کی وجہ سے ایسا کوئی کام نہیں کرپاتے  ،بلکہ مسجد میں نماز پابندی سے پڑھتے ہیں ،مجالس عزا  اور محافل ِجشن میں بھرپور شرکت کرتے ہیں ۔ہر ایک کے ساتھ ہنس مکھ میں بات کرتے ہیں ۔

سید مرتضی مرحوم کا پوتا سید ناصر علی حفظہ اللہ بھی اپنی وسع کے مطابق دینی ،سماجی خدمات میں مصروف ہے ۔وہ کئی سالوں سے بچیوں کو پڑھانے ،نماز جماعت قائم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں ۔کندوس چھغوگرونگ کی جامع مسجد کی تعمیر میں بھی انہوں نے بھر پور حصہ لیا ہے ۔

انہوں نے اپنی دینی تعلیم جامعہ امام صادق کوئٹہ سے حاصل کی ہے ۔کندوس کے دینی اور سماجی حلقوں میں سید ناصر  کا خاص احترام کیا جاتا ہے ۔سید صاحب خوش اخلاق اور متین ہیں ۔کبھی کبھار نماز جمعہ بھی پڑھاتے ہیں ،ان کی خطابت میں بھی خاص متانت ہے ۔

سید مرتضی کے بھائی کاتعارف:

سید مرتضی صاحب کےبھائی حجۃ الاسلام والمسلمین جناب آقای سید سعد جان مرحوم اعلی اللہ مقامہ بھی ایک با عمل عالم دین تھے۔ آپ سینو میں رہتے تھے۔ اور وہاں اپنے دینی فرائض انجام دیتے تھے۔آغا مرحوم فارسی ،عربی  زبانوں سے بخوبی آشنا تھے  ۔سید سعد جان  نے اعلی تعلیم آغا مختار کریسی اور سترونپی خپلو کے ایک مولوی سے حاصل کی تھی ۔

جب ۸۴۔۱۹۸۳میں ’’جامعہ جوہریہ ‘‘وجود میں آیا تو وہ اس جامعہ میں بعنوان مدرس درس دیتے رہے ۔وہ مدرسہ جوہریہ کے طلّاب کو کتاب ’’تنبیہ الغافلین ‘‘، ’’توضیح المسائل ‘‘وغیرہ کا درس دیا کرتے تھے ۔میں نے بھی اپنی ابتدائی تعلیم آغا صاحب سے حاصل کی ہے۔

جب جامعہ جوہریہ کا افتتاح ہوا تو آغا سعد جان مرحوم ،آغا سید جعفر شاہ مرحوم دونوں کو مدرّس کے طور پر مدرسے میں لائے گئے۔آغا سعد جان ہمیں کلمہ،تنبیہ الغافلین سیکھاتے تھے ۔جبکہ آقای سید  جعفر شاہ تو ضیح المسائل  اورپندنامہ سیکھاتے تھے۔آغا سید سعد جان مرحوم بلند اخلاق کے مالک تھے۔وہ ایک نڈر اور دلیر خطیب بھی  تھے ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ 

انہوں نے ایک دفعہ سینو پولو گراؤنڈ میں ختہ پلو کھیلنے والوں   کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کے طور پر کافی وعظ و نصیحت  فرمایا ۔ آغا سعدی جان صاحب سخی بھی  تھے۔ سادہ زیستی  میں بھی  مشہور  تھے ۔ان کا کھانا اکثر  گندم کی روٹی اور لسّی  ہوا  کرتا تھا  ۔

1. الشافی ترجمہ اصول کافی ج۱ص۸۱،باب ۶

2. نہج البلاغۃ حکمت نمبر

3. حاجی حیدر  کندوس چھغوگرونگ ،سال ۲۰۰۷۔

4. حاجی حیدر سے گفتگو۔ہسپتال ایریا سکردو ۲۰۰۷ ء۔

5. سید مرتضی مرحوم کے فرزند سید مسرور حسین صاحب سے گفتگو سکردو کشوباغ نزد جامع مسجد ۔مورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳۔

6. سید مرتضی مرحوم کے فرزند سید مسرور حسین صاحب سے گفتگو سکردو کشوباغ نزد جامع مسجد ۔مورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳۔

7. سید مسرور حسین  سے انٹریو ۔ سکردو مورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳۔

8. حاج حیدر ،کندوس چھغوگرونگ۔سال ۲۰۰۶۔

9. حاجی حیدر سے گفتگو سکردو مورخہ :موسم خزاں سنۂ ۲۰۰۷ ء۔

10. حاجی حیدر سے انٹریو مورخہ ۲۰۰۷ء سکردو ہسپتال ایریا۔

11. حاجی حیدر سے انٹریو مورخہ ۲۰۰۷ء سکردو ہسپتال ایریا۔

12. سید مسرور حسین صاحب فرزند سید مرتضیٰ مرحوم سے گفتگو۔مورخہ ۳؍۵؍۲۰۱۳ء۔سکردو کشو باغ نزد جامع مسجد ۔

13. حاجی حیدر سے گفتگو مورخہ ۲۰۰۷ء۔سکردو ہسپتال ایریا ۔

14. سید مسرور حسین سے گفتگومورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳ء۔سکردو کشوباغ۔

15. حاجی حیدر سے گفتگو ہسپتال ایریا  سکردو، سنہ ٔ۲۰۰۷ء۔

16. حاجی حیدر سے گفتگو مورخہ ۱۸؍۸؍۲۰۱۳ ء۔کندوس چھغوگرونگ۔

17. سید مسرور حسین سے گفتگو سکردو کشوباغ مورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳ء۔

18. سید مسرور حسین سے گفتگو مورخہ ۳۰؍۴؍۲۰۱۳ ء۔سکردو کشوباغ۔

19. سید مسرور حسین ،حاجی ممتاز حسین ،حاجی حیدر ،شیخ سجاد حسین مفتی وغیرہ سے گفتگو۔سال ۲۰۰۷۔۲۰۱۳ء۔

20. سید مسرور حسین سے گفتگو،مورخہ ۴؍۵؍۲۰۱۳ء،سکردو۔

21. حاجی حیدر سے گفتگو سال ۲۰۰۷ء۔

22. سید مسرور حسین فرزند سید مرحوم مرتضی سکردو کشو باغ مورخہ :۴؍۵؍۲۰۱۳ء۔

23. مولف کے تاثرات۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *