تازہ ترین

شجرکاری کی اہمیت فریقین کی روایات کی روشنی میں

شجرکاری کی اہمیت فریقین کی روایات کی روشنی میں
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی
“شجر” کا معنی درخت اور” کار” کا معنی کام کے ہیں۔شجر کاری سے مراد درخت لگانا ہے۔شجر سے انسان کا رابطہ اٹوٹ انگ ہے کیونکہ درخت انسانوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے ۔ شجر کاری کم اور جنگلات کی اندھا دھند کٹائی نے نہ صرف ماحول کو مسموم کیا ہے بلکہ یہ قبیح فعل ماحولیاتی آلودگیوں اور موسمی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔موسمی تبدیلی کی وجہ سے صحت کے مسائل، خوراک کے مسائل، صاف پانی کی قلّت، معاشی مسائل، گلوبل وارمنگ اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ان مسائل سے ماحول کو دور رکھنے کے لیے شجر کاری کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

شئیر
50 بازدید
مطالب کا کوڈ: 6035

انسانی جسم میں جس طرح پھیپھڑے اہمیت کا حامل ہیں اسی طرح زمین پر درختوں کی اہمیت ہے۔ درخت قدرتی فضائی فلٹر کا کام کرتے ہیں جس کے ذریعے ہوا کو صاف بنانا ممکن ہے، صرف ایک مربع میل پر پھیلے ہوئے درخت موسمِ سرما کے ایک دن میں 29 ٹن آکسیجن خارج کرتے ہیں جب کہ ایک صحت مند آدمی کو دن میں صرف دو پونڈ آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ماہر نباتات ڈاکڈر ایس کے جین کے مطابق ایک اوسط سائز کا درخت دو خاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کر کے ہوا میں آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی اگر اسی طرح جاری و ساری رہے تو ۲۰۸۰ تک تمام سدا بہار درختوں سے محروم ہونا پڑے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے بعد پاکستان خطے کے کم ترین جنگلات والا ملک ہے اس کا صرف ۴ فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے حالانکہ اس کے پڑوس میں موجود ممالک میں ایران ۷ فیصد بھارت کا ۲۳ فیصد،چین ۲۲ فیصد اورروس کا ۴۴ فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔۱۔
موجودہ جدید ترین سائنس کے مطابق شجرکاری کے ۶۰ مثبت فوائد دریافت کئے گئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ایک درخت ۱۸ افراد کی ایک سال کی آکسیجن کی ضرورت پوری کرتا ہے۔
۲۔درختوں کی لکڑی سے غریب لوگوں کے ایندہن کے علاوہ انسانوں،حیوانوں اور پرندوں کی خوراک پوری ہو جاتی ہے۔
۳۔ درخت لگانے سے سیلاب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
۴۔درخت قحط اوت خشک سالی سے بچاتے ہیں۔
۵۔درخت بادلوں کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔
۶۔درخت ڈیپریشن اورذہنی تناو کا خطرہ کم کرتے ہیں۔
۷۔درخت ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔
۸۔درخت درجہ حرارت کو اعتدال و توازن میں رکھنے کے لئے معاون ، مدد گار بنتے ہیں۔
۹۔درخت آکسیجن فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔
۱۰۔درخت فضائی جراثیم کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔
۱۱۔درخت ادویات کا سن سے بڑا منبع ہیں۔
۱۲۔درختوں کی کمی کی وجہ سے گرمی کی شدت اور دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے۔
۱۳۔درختوں کی کمی پہاڑوں پر لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بنتی ہے۔
۱۴۔مختلف قسم کے درخت ریگستان کو نخلستان میں تبدیل کر دیتا ہے۔
موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت و افادیت کو بیان کر رہی ہے درحالیکہ قرآن مجیداور احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا تھا۔قرآن کریم میں مختلف حوالے سے درخت کا ذکر آیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا :وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیںجن میں تم جانور چراتے ہو۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔۲۔
ایک جگہ درختوں اور پودوں کے فوائد اس طرح بیان کیے گئے ہیں:اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے ۔۳۔
اللہ نے درخت کا ذکر آگ کے حوالے سے کیا ہے:وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو ۔ ۴۔
ایک جگہ شجر مبارکہ کے طورپر ذکر کیا گیا :۔۔۔ جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی اور نہ غربی، اس کا تیل روشنی دیتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بھی بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔۵۔
ایک جگہ تمام مظاہرِ قدرت کو آرایش کائنات قرار دیا گیا ہے :روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے ولا کون ہے ۔ ۶۔
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے :اور جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کوپسند نہیں کرتا۔۷۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص درخت لگاتا ہے ، ہر بار جب انسان یا خدا کی مخلوقات میں سے کوئی اس سے کھاتا ہے تو اسے اس کے لئے صدقہ سمجھا جاتا ہے۔۸۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
خداوند متعال نے اپنے انبیاء اور رسولوں کے لئے درخت لگانے اور زراعت کا پیشہ انتخاب کیا تاکہ وہ آسمان کی مسلسل بارشوں سے نالاں نہ رہیں بلکہ ہمیشہ خدا کی رحمت ( بارش) کا مسلسل انتظار کرتے رہیں۔۹۔
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ پودے لگائیں ، بوئیں ، کاشت کریں ، نیک اور بدکار افراد تمہاری کاشت سے استفادہ کریں گے یہاں تک کہ شکاری اور پرندے بھی کھائیں گے۔۱۰۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: کاشت کرو اور درخت لگاؤ ، خدا کی قسم لوگوں کے اعمال میں اس سے بڑھ کر زیادہ حلال اور پاکیزہ کوئی چیز نہیں۔۱۱۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: پھلدار درختوں کو نہ کاٹو تاکہ خدا کا عذاب تم پر نازل نہ ہو۔۱۲۔
امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند متعال کے نزدیک زراعت سے زیادہ مقبول کوئی شغل اور پیشہ نہیں ہے۔ خداوند متعال نے کسی نبی کو اس وقت تک مبعوث نہیں کیا جب تک کہ وہ زراعت اور درخت کاری کا پیشہ اختیار نہ کرے سوائےحضرت ادریس کے، جو درزی تھے۔ ۱۳۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بغیر کسی ظلم کے کوئی عمارت بنائے یا پودا اور درخت لگائے تاکہ خدا کا کوئی رحم دل بندہ اس سے فائدہ اٹھائے توخداوند متعال اسےثواب اور جزا عطا کرتا ہے۔ ۱۴۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی کسان اس وقت تک درخت کاری نہیں کرتا جب تک کہ اللہ تبارک وتعالی اس کو اس درخت کے پھل کی مقدار میں ثواب سے نواز دیتا ہے۔۱۵۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص شجر کاری کرتا ہے اور صبر ، استقامت کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے یہاں تک کہ پھل پک جائے تو خداوند تبارک و تعالٰی اس شخص کو( جتنی مقدار میں اور جتنےلوگوں نے اس درخت سے استفادہ کیا ہے) صدقہ اور انفاق کا ثواب عطا کرتا ہے۔۱۶۔
امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اپنے کچھ باغات میں اتنی سخت کوشش کرتا ہوں کہ مجھے اس عمل سے پسینہ آتا ہے،درحالیکہ میرے پاس ایسے افراد بھی ہیں جو میرے لئے یہ کام کرے ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ کسب حلال کے لئے خود محنت و مشقت برداشت کروں۔۱۷۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور یا سدر کے درخت کو پانی دیے تو گویا اس نے کسی پیاسے انسان کو سیراب کیا ہے۔ ۱۸۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس کے پاس پانی اور زمین موجود ہواور وہ اس زمین اور پانی سے صحیح استفادہ نہ کرنے کہ وجہ سے فقر اور تنگدستی میں مبتلا ہو گیا ہو تو خداوند متعال اسے اپنے رحمت سے دور کرے گا۔۱۹۔
قال رسول اللہ صلي‌ الله‌ عليه‌وآله‌وسلم:ما مِن رَجُلٍ يَغرِسُ غَرساً إلاّ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِنَ الأجرِ قَدرَ ما يَخرُجُ مِن ثَمَرِ ذلِكَ الغَرسِ
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو بھی کسی پودے کو زمین میں بوتا ہے تو خداوند متعال اس درخت کے پھل کے مقدار(جو حاصل ہوتا ہے) اسے ثواب عطا کرتا ہے۔۲۰۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان درخت لگاتا ہے پھر اس میں سے جتنا حصہ کھالیا جائے وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو اس میں سے چرالیا جائے وہ بھی صدقہ ہو جا تا ہے (یعنی اس پر بھی مالک کو صدقہ کا ثواب ملتاہے) اور جتنا حصہ اس میں سے درندے کھا لیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے جا تا ہے اور جتنا حصہ اس میں سے پر ندے کھا لیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے جا تاہے ( غرض یہ کہ ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ (بھی پھل وغیرہ ) لیکر کم کر دیتا ہے تو وہ اس ( درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔۲۱۔
جناب قاسم سے نقل ہے کہ دمشق میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک شخص گزرا۔ اس وقت حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کوئی پودا لگارہے تھے۔ اس شخص نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ بھی یہ (دنیاوی ) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ (ص) کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے ملامت کرنے میں جلدی نہ کرو۔ میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہوتا ہے۔۲۲۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا : جس آدمی نے بے آباد زمین کو آباد کیا اس کے آباد کر نے کی وجہ سے اسے ثواب ملے گا اور جس قدر اس میں سے جا نور اور پر ندے کھا جائیں وہ اس کے حق میں صدقہ ہے۔۲۳۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجر کاری کو فروغ دینے کے لیے ایمان والوں پر شجر کاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدَقہ شُمار ہوگا۔۱۸۔
آپ (ص) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:جو کوئی درخت لگائے پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ و ہ درخت پھل دینے لگے اب اس درخت کا جو کچھ نقصان ہوگا وہ اس کے لیے اﷲ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔ ۲۴۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: ’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اسے اﷲ تعالیٰ اوندھے مُنہ جہنم میں ڈالیں گے۔۲۵۔
آپ (ص) نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی وہاں دورانِ جنگ بھی، نہروں کو آلودہ کرنے کی اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر ناصرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی بل کہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: ’’کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا۔۲۶۔
اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو یہ دنیا کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتی ہے اور اس کا واحدحل شجرکاری ہے۔ اور اسی کے ذریعہ سے ہی گلوبل وارمنگ کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں ، ان کی دیکھ بھال کریں اورنئے نسل کو شجرکاری کے فوائد اور اہمیت سے واقف کرائیں اور انسان سمیت تمام جانوران کے تحفظ اور بقاء کے لیے نہ صرف ایک دن بلکہ پورا سال شجر کاری کا مہم جاری رکھے اور ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اگرچہ کماحقہ شکر ادا کرنے سے ہم قاصر ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔https://theurdututor.com
۲۔ نحل ،۱۰-۱۱۔
۳۔ نحل ۶۸۔
۴۔یس ۸۰۔
۵۔ نور۲۴۔
۶۔ کہف۱۷۔
۷۔ بقرہ ۲۰۵۔
۸۔نهج الفصاحه ص 597۔
۹۔ وسائل الشیعه جلد 12 ، میزان الحکمه جلد 4 صفحه 214 نقل از وسایل جلد 12 ص 192
۱۰۔الحیاة ص 345
۱۱۔الحیاة جلد 5 صفحه 345 نقل از سفینة البحار جلد 1 ص 549
۱۲۔میزان الحکمه حدیث شماره 1955
۱۳۔ الحیاة ص 345
۱۴۔ الحیاة ،ج ۵،نقل از مستدرک الوسائل جلد 2 ص 501
۱۵۔کنزالعمال ،ج 3، ص 896
۹۔میزان الحکمه حدیث 9143۔
۱۶۔وسائل الشیعه ج 12۔
۱۷۔ الحیاة جلد 5 صفحه 344 ، وسائل الشیعه جلد 12 صفحه 25۔
۱۸۔وسائل الشیعه جلد 4 ، جلد 4 صفحه 213 میزان الحکمه نقل از بحارالانوار جلد 103 صفحه 65 قرب الاسناد صفحه 55۔
۱۹۔ كنزالعمّال، ح ۹۰۵۷
۲۰۔کتاب صحیح مسلم۔
۲۱۔کتاب مسند احمد۔
۲۲۔سنن ترمذی۔
۲۳۔ سنن نسائی
۲۴۔صحیح بخاری
۲۵۔مسند احمد
۲۶۔سنن ابو داؤد
۲۷۔ بیہیقی
۲۸۔ کتاب چهل حدیث درباره درختکاری

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *