تازہ ترین

شوال کا پہلا دن الہی تحفوں کا دن

شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے اور یہ دن عالم اسلام کی مشترک عید ہے ۔ مؤمنین رمضان مبارک کے گزرجانے اور اس مہینے میں عبادت وتقوی پرہیز گاری و تہذیب نفس کے ساتھ گزارنے پر خوشی اور اللہ سے ان نعمات کا شکریہ کرنے کیلۓ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرتے ہوئے عید کی نماز پڑھتے ہیں ۔

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 650

  پیغمبر اسلام (ص) نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا: اذا کان اول یوم من شوال نادی مناد : ایھا المؤمنون اغدو الی جوائزکم، ثم قال : یا جابر ! جوائز اللہ لیست کجوائز ھؤلاء الملوک ، ثم قال ھو یوم الجوائز ۔
    یعنی جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے، آسمانی منادی نداء دیتا ہے: اے مؤمنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو ، اس کے بعد فرمایا: اے جابر! خدا کا تحفہ بادشاھوں اور حاکموں کے تحفہ کے مانند نہیں ہے ۔ اس کے بعد فرمايا” شوال کا پہلا دن الھی تحفوں کا دن ہے ۔
امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے عید فطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
اے لوگو! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور برے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اور اس دن کی قیامت کے دن کے ساتھ کافی شباھت ہے اس لیے گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد کرو جس دن قبروں سے نکال کرخدا کی بارگاہ میں حاضر کۓ جاؤ، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آنے میں اس وقت کو یاد کرو جس وقت  بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور خواتین  کو رمضان المبارک کے آخری دن عطا کی جاتی ہے  وہ یہ فرشتے کی بشارت ہے جو صدا دیتا ہے :
اے بندہ خدا مبارک ہو! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گۓ ہیں اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے ۔
بزرگ عارف ربانی ملکی تبریزی نے عید کے دن کے بارے میں فرمایا ہے :
عید فطر ایسا دن ہے کہ جس کو اللہ نے دوسرے دنوں پر منتخب کیا ہے اور اس دن کو اپنے بندوں کو تحفے دینے کیلۓ انتخاب کیا ہے، تاکہ اس دن حاضر ہوکر امید رکھتے ہوئے آئے اپنے خطاؤں کی معافی مانگے، اپنی حاجات طلب کرے اور اپنی آرزو بیان کرے، اور خداند عالم  نے بھی وعدہ کیا ہے کہ جو مانگو گے وہ عطا کروں گا۔ اور توقع سے زیادہ دوں گا، اور خداوند عالم اس کے حق میں اس قدر مھربانی، بخشش اور نوازش کرے گا جس کا اسے تصور بھی نہیں ہو گا ۔
شوال کے پہلے دن کو اس لۓ عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے  کا ہے، کھانے پینے کی آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے ۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جاۓ تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لۓ رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کہولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے ۔
عید فطر کیلۓ اعمال اور عبادات مخصوص بیان ہوۓ ہیں جن کو انجام دینے  کی معصومین (ع) نے بہت تاکید فرمائی ہے ۔
معصومین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عید فطر اپنے اعمال اور عبادات کا انعام حاصل کرنے کا دن ہے اس لۓ مستحب ہے کہ اس دن بہت زیادہ دعا کی جاۓ ، خدا کی یاد میں رہا جاۓ ، لاپرواہی نہ کی جاۓ اور دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کی جاۓ ۔
عید کی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں :
“… اسئلك بحق ھذا اليوم الذى جعلتہ للمسلمين عيدا و لمحمد صلى اللہ عليہ و آلہ ذخرا و شرفا و كرامۃ و مزيدا ان تصلى على محمد و آل محمد و ان تدخلنى فى كل خير ادخلت فيہ محمدا و آل محمد و ان تخرجنى من كل سوء اخرجت منہ محمدا و آل محمد، صلواتك عليہ و عليہم اللہم انى اسالك خير ما سئلك عبادك الصالحون و اعوذ بك مما استعاذ منہ عبادك المخلصون‏”
بار الھا ! اس دن کے واسطے کہ جسے  مسلمانوں کیلۓ عید اور محمد صلی اللہ علیہ والہ  کیلۓ شرافت ، کرامت اور فضیلت کا ذخیرہ قرار دیا ہے ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں  محمد و آل محمد پر درود بھیج اور مجھے اس خیر میں شامل فرما جس میں محمد و آل محمد کو شامل فرمایا ہے اور مجھے ہر بدی سے نکال دے جن  سے محمد و آل محمد کو نکالا ۔ ان پر آپ کا درود وسلام  ہو، خدایا تجھ سے وہی کچھ مانگتا ہوں جو تیرے نیک بندے تجھ سے مانگتے ہیں ، اور تجھ سے ان چیزوں سے پنا ہ مانگتا ہوں کہ جن سے تیرے مخلص بندے مانگتے تھے ۔
صحیفہ سجادیہ میں امام زین االعابدین علیہ السلام کی ماہ مبارک رمضان اور عید فطر کے استقبال کیلۓ دعا بیان ہوا ہے :
«اللهم صل على محمد و آله و اجبر مصيبتنا بشهرنا و بارك لنا فى يوم عيدنا و فطرنا و اجعله من خير يوم مر علينا، اجلبه لعفو و امحاه لذنب و اغفرلنا ما خفى من ذنوبنا و ما علن … اللهم انا نتوب اليك فى يوم فطرنا الذى جعلته للمؤمنين عيدا و سرورا و لاهل ملتك مجمعا و محتشدا، من كل ذنب اذنبناه او سوء اسلفناه او خاطر شرا اضمرناه توبة من لا ينطوى على رجوع الى.»

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *