تازہ ترین

شہید علی ناصر صفوی … زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تحریر: ساجد علی گوندل Sajidaligondal88@yahoo.com 1۔ شہید و شہادت: ارشاد خداوندی ہوتا ہے ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل للہ امواتاً بل احیاء عند ربّھم یرزقون[1]: خبردار خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے یہاں رزق پا رہے ہیں؛ خدا کی راہ میں […]

شئیر
17 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1271

تحریر: ساجد علی گوندل

Sajidaligondal88@yahoo.com

1۔ شہید و شہادت:

ارشاد خداوندی ہوتا ہے ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل للہ امواتاً بل احیاء عند ربّھم یرزقون[1]:

خبردار خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے یہاں رزق پا رہے ہیں؛ خدا کی راہ میں قتل ہونے والا موت کی طرف نہیں بلکہ حیات ابدی کی طرف سفر کرتا ہے، شہادت انسان کے لئے تاجِ افتخار ہے، شہادت معراج عشق کا مرحلہ ہے، شہادت سراپا فیض ہے، رسول اکرم فرماتے ہیں کہ اشرف الموت قتل الشہادۃ[2] یعنی باعزّت ترین موت یہ ہے کہ انسان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے۔ الغرض شہادت معیارُ و پیمانہِ شرافتِ انسانیت ہے۔

2۔ شہید علی ناصر صفوی

علی ناصر صفوی بھی دیگر عظیم شہداء کی طرح قتلوا فی سبیل للہ کا مصداق قرار پائے اور شہادت کے بے مثال مرتبے پر فائز ہوئے۔ شہید علی ناصر صفوی 5 جون 1965ء کو ضلع چنیوٹ کے ایک گاوں بنام ٹھٹھہ محمد شاہ میں پیدا ہوئے۔ شہید کے والد کا نام نور محمد تھا۔ شہید کی ولادت سے قبل ہی آپکے والد نور محمد کا انتقال ہوگیا، اس طرح شہید دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنے والد کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد شہید کے ماموں نے پرورش کی ذمہ داری اٹھائی۔

3۔ تعلیمی مصروفیات و اجتماعی  فعالیت

بچپن سے ہی شہید علی ناصر  عام بچوں سے الگ طبیعت کے مالک تھے، ہر وقت سوچوں میں گم رہنا، کسی بھی شئی کو بہت دیر تک دیکھتے رہنا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہید کو کسی خاص چیز کی تلاش ہے۔ لہذا اپنے اندر موجود خداداد صلاحیتوں کی قدر کرتے ہوئے شہید نے اپنے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز ٹھٹھہ محمد شاہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے کیا۔ یہاں سے پرائمری پاس کرنے کے بعد تحصیل بھوانہ کے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایف ایس سی کے لئے گورنمنٹ کالج جھنگ چلے گئے۔ کالج کے زمانے میں ہی شہید علی ناصر صفوی نے I.S.O  جوائن کی اور اس پلیٹ فارم  سے اپنی ملت و قوم کے لئے بے انتہاء خدمات انجام دیں۔ یہاں سے ایف ایس سی مکمل کرنے کے بعد شہید نے بی ایس سی کے لئے اسلامی یونیورسٹی فیصل آباد کا رخ کیا اور وہیں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ بی ایس سی کے بعد گھر واپسی پر شہید کو علاقے میں تحصیلدار کی نوکری کی آفر کی گئی تو شہید نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میرے ارادے اس سے کہیں تر بلند ہیں۔

اسی دوران شہید کی ملاقات قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی و علامہ افتخار نقوی صاحب سے ہوئی۔ شہید علی ناصر کے جذبہ تعمیر و تعلیم کی قدر کرتے ہوئے علامہ افتخار نقوی صاحب آپکو اپنے ساتھ ماڑی انڈس لے آئے۔ اس طرح شہید نے ماڑی انڈس سے اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ انہی دنوں میں ہی شہید کی ملاقات شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے بھی ہوئی، جو ان دنوں وہاں میڈیکل کیمپ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ المختصر یہ کہ کچھ عرصے کے بعد تعلیم و تربیت کے ذوق نے شہید کو ایران آنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں آنے پر اپنی فعالیت کی بناء پر شہید، امام راحلؒ کے سفیر منتخب ہوئے اور اپنی فعالیت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایران سے واپسی پر پاکستان میں شہید نے مختلف رفاہی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ جن میں بیواؤں کی مالی معاونت و غرباء کی امداد وغیرہ سرفہرست ہیں۔ شہید ایک درد دل رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے اور ساتھ ساتھ ایک باتدبیر و بابصیرت انسان تھے۔ شہید کو بخوبی علم تھا کہ مظلوم و مظلومیت کا ساتھ دینے کے لئے جو علم شہید نے اٹھایا ہے، اس کا یقینی انجام موت ہے، مگر شہید کربلا والوں کے راستے پر گامزن تھے اور کربلا والوں کی طرح موت سے بالکل بے خوف تھے۔ شہید کی خدمات کو ضبط تحریر لانا ممکن نہیں۔ آخرکار شہید کی حق گوئی و حق پرستی سبب بنی کہ علی ناصر کا وقت پرواز قریب آگیا۔

4۔ شہادت کا منظر

شہید نے اپنی آخری ملاقاتیں اسلام آباد میں بالکل ایسے کیں کہ جیسے انہیں اپنی پرواز کا یقین ہوگیا ہو۔ اسی دوران امانتیں سونپیں اور دوستوں کو وصیتیں بھی کیں۔ 25 نومبر 2000ء کی وہ خوفناک و سیاہ رات آج بھی اسی طرح آنکھوں میں گھومتی ہوئی وحشت و خوف کا وہی منظر پیش کر رہی ہے، اسی رات شہید اسلام آباد سے جوہر آباد اپنے کواٹر پہنچنے پر کافی دنوں بعد اپنی بیوی، بچوں و اپنی بوڑھی ماں سے ملے تھے، جو کہ انہی دنوں اپنے بیٹے سے ملنے جوہر آباد آئی ہوئی تھی۔ آج کی رات شہید کی ماں اپنے بیٹے، دو کم سن پوتیوں و اپنی بہو کے ساتھ بے حد خوش تھی۔ شہید رات کو اسلام آباد سے گھر پہنچے تو حسب معمول اپنی گاڑی ہمسائے کے گھر کھڑی کی، کیونکہ شہید کا یہ گھر کرائے کا تھا اور محض دو کمروں پر مشتمل تھا۔ گھر آتے ہی شہید نے اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا، بچوں سے کہا کہ وہ آج جلدی سو جائیں، تاکہ علی الصبح یہاں سے کوچ کرسکیں۔ آج رات شہید کے غیر معمولی کاموں و حرکات سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ شہید کو اپنے مالک سے ملاقات کا یقین ہوگیا ہے۔

اچانک رات کے وقت شہید کی زندگی میں اس لمحے نے قدم رکھا کہ جس کا عاشقان خدا کو شدت سے انتظار ہوتا ہے، رات کو شہید کے گھر کا محاصرہ کیا گیا، ضلع بھر کی ناکہ بندی کی گئی، امریکی کمانڈ میں اسلام آباد سے فورس کا ایک دستہ لایا گیا اور ساتھ ہی فورسز شہید کے گھر میں داخل ہوگیئں۔ داخل ہوتے ہی گولیوں کی برسات کر دی نہ صرف علی ناصر صفوی کو شہید کیا بلکہ ان کی حاملہ بیوی پروین اختر کو بھی بڑی بے دری کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس لمحے کا خیال آتے ہی انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے کہ جس میں ایک بوڑھی ماں کے سامنے اس کے جوان بیٹے اور دو کم سن بچیوں کے سامنے ان کے والدین کو درندگی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ آج بھی شہید کی قبر پر لکھا ہوا وہ مختصر جملہ شہید کی زندگی کا مکمل عکاس ہے (علی ناصر صفوی شہید والد نور محمد، تاریخ شہادت 25 نومبر 2000ء جوہر آباد ) یہ مختصر جملہ بظاہر تو خاموش ہے، مگر اپنے دامن میں ناقابل فراموش تاریخ کو سموئے ہوئے ہے۔

5۔ شہید کے  یادگار  الفاظ:

راستوں کی ویرانیوں اور جلتی ہوئی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

[1] (آل عمران۔169)

 

[2] بحار جلد100 صفحہ8

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *