شیخ انصاری مرحوم کی سوانح حیات/تحریر :ایس ایم شاه
شیخ انصاری مرحوم کی سوانح حیات ” باب علم سے باب علم تک کا سفر”
اللہ تعالی نے انسان کو کمال کے حصول کے لیے خلق کیا ہے۔ اشرف المخلوقات کی سند یافتہ یہ انسان بسا اوقات ملائکہ سے بھی افضل قرار پاکر مسجود ملائکہ قرار پاتا ہے۔ اس مطلوبہ کمال تک پہنچنے کے لیے اسےوقت بھی بہت کم دیا گیا ہے۔ گود سے گور تک کی یہ مخصوص مدت انسان کی ابدی زندگی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
اس کے نتیجے میں یا تو وہ سعادت ابدی سے ہم کنار ہوجاتے ہیں یا ہلاکت ابدی کا سامنا۔ اسی حوالے سے امیر المؤمنین ؑ فرماتے ہیں: “تجھے بقا کے لیے خلق کیے گئے ہو ناکہ فنا کے لیے” خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس مختصر زندگی کو ابدی زندگی کے لیے مقدمہ بناسکے۔ کمال ایک اتفاقی چیز نہیں کہ ہر کوئی بغیر کسی تدبیر اور زحمت اٹھائے اس تک پہنچ سکے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ پلاننگ، دن رات محنت اور خون فشانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ احادیث کی روشنی میں ماں باپ کے عقد ازدواج سے منسلک ہوتے ہی بچے کے لیے کمال کا یہ سفر شروع ہوتا ہے۔ جسے بافضیلت باپ اور باعفت ماں نصیب ہوایسوں کےلیے اس حرکت صعودی میں کمال تک رسائی کے امکانات بہت ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی اسے اگر پاکیزہ معاشرہ اور دیندار و متدین دوست بھی نصیب ہو تو کمال ایسی شخصیات کی قدم چومتا ہے۔
انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے بہت ساری خصوصیات ودیعت فرمائی ہے۔ بعض افراد تو متضاد صفات کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ بہت ہی کم افراد ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں سے کماحقہ استفادہ کرتے ہوں ورنہ اکثر لوگ ان خاصیتوں کی شناخت کئے بغیر ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہر انسان ایک خاص خصوصیت کی بناپر مشہور ہوجاتا ہے۔ عوام تو عوام خواص میں سے بھی بعض افراد ہی صفات کمالی میں سے گنے چنے صفات کو منظر شہود پر لانے میں کامیاب قرار پاتے ہیں۔ کوئی فن سخنوری میں اپنی طاقت فرسائی کرتا ہے تو دوسرا فن تحقیق میں علمی سمندر کی گہرایوں سے موتیاں نکالنے کی ٹھان لیتے ہیں۔بعض افراد انسانیت کی خدمت کو اپنا شیوہ قرار دے کر اپنی پوری زندگی غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں وقف کردیتے ہیں تو دوسرے بعض معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اپنے گردن اٹھالیتے ہے۔ بعض معاشرتی ترقی کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں تو دوسرےبعض افراد تعلیم و تربیت کے ذریعے نئی نسل کے مستقبل کو تابناک بنانے کے درپے ہوتے ہیں ۔ غرض ہر درد دل رکھنے والے باشعور انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے معاشرے کی رشد میں اپنا حصہ ڈالیں لیکن اس کےباوجود ایسے افراد خال خال دکھائی دیتے ہیں جن میں مذکورہ تمام صفات ایک ساتھ جمع ہوں اور ان کی ہر صفت کمالی بارز انداز میں جلوہ گر ہوں۔علاوہ ازیں بعض ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو مذکورہ تمام صفات حمیدہ سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی کو دین مبین اسلام کی سربلندی اور مکتب حقہ کی بالادستی کے لیے وقف کردیتے ہیں اور بغیر کسی دنیاوی حرص و لالچ کے دین کی خدمت کرنے کو اپنے لیے شرف اور مکتب کی سربلندی کو اپنا ہدف قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد دنیاوی چند روزہ زندگی میں منحصر نہیں ہوتے بلکہ اپنے کردار و خدمات کے ذریعے موت کو مات لگاکرہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید بن جاتے ہیں۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک حجة الاسلام و المسلمین شیخ غلام محمد انصاری مرحوم بھی تھے۔
آپ نے ایک متدین، دینی درد رکھنے والے اور محبت اہل بیت علیھم السلام سےسرشار گھرانے میں(1367ہجری کو) آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد گرامی اخوند محمد مرحوم بھی درد دل اور درد دین رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے اور آپ کی والدہ نے بھی عشق اہل بیتؑ کو اپنے دودھ کی شکل میں آپ کے وجود مبارک میں منتقل کیا۔ معاشرہ بھی آپ کو پاکیزہ نصیب ہوا اور دوست بھی باکمال پائے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں رگیول میں ہی حاصل کی۔ کم عمری میں ہی قرآن مجید اور ابتدائی دینی معلومات حاصل کیں۔
خداداد ذہانت، والدین کی تمنا، دین سے لگاؤ، اہل بیت﴿ع﴾ سے عشق،معاشرے کی اصلاح کی آرزو اور خدمت انسانیت کے شوق نے آپ کو تیرہ سال کی عمر میں ہی بلتستان سے باب علم کی بارگاہ میں نجف اشرف تک پہنچا دیا۔ محمد و آل محمد علیھم السلام کے علمی سمندر میں مدت مدید یعنی تیره سال تک آپ نے غوطہ زن رہ کر وہاں سے اپنی استعداد کے مطابق موتیوں کو کو کشف کرکے اپنے آپ کو حوزے کے برجستہ علما کی صف میں تک پہنچانے میں کامیاب قرار پائے۔ اسی دوران آپ کی شادی بھی آپ کے اپنے خاندان کی معروف شخصیت اخوند جواد کی صاحبزادی سے ہوئی۔باب علم کی ماحضر میں آپ نے علمی خوشہ چینوں کے ساتھ ساتھ درج ذیل اہم امور بھی انجام دئیے:
تزکیہ نفس: جس کے بارے میں ائمہ معصومین ع کی روایت ہے کہ “وہ ہم میں سے نہیں جو ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے۔” آپ نے عنفوان شباب میں ہی دقیق انداز سے تزکیہ نفس کاملکہ اپنے اندر پیدا کیا اور اپنے نفس کو کبھی سرکش نہ ہونے دیا۔
نماز تہجد کی عادت: آپ نے ایام بلوغت سے خالق حقیقی سے جاملنے تک نماز تہجد کو کبھی ترک نہیں کیا۔ جس نے آپ کے اندر علمی نورانیت کو ساطع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سادہ زیستی: آپ نے شروع سے ہی سادہ زیستی کو اپنا شیوہ بنالیا اور آخری دم تک اپنی اس بہترین روش پرباقی رہے۔
مشکلات کا مقابلہ: جونہی آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ سکردو سے نجف اشرف کے لیے عازم سفر ہوئے تب کوئٹہ پہنچتے ہی مختلف مشکلات کے پیش نظر آپ لوگوں کو وہاں دو ماہ تک ٹھہرنا پڑا۔ گھر سے جو زاد راہ لے آئے تھے وہ بھی ختم ہوگئی تب آپ ایک ماہ تک وہاں مزدوری کرتےرہے اور اسی مزدوری کو لیکر والد سمیت نجف اشرف کی سمت نکل پڑے۔ آپ جس وقت طالبعلمی کے ایام گزار رہے تھے تب مختلف مشکلات کا آپ کو سامنا تھا۔ آپ ان سختیوں کے سامنے سرتسلیم خم ہونے کے بجائے مضبوط ارادے کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ بعدازاں آپ “مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آسان ہوگئیں” کے مصداق قرار پائے۔ آپ نے سختیوں سے نمٹنے کی خو اپنے اندر پیدا کی۔ دھیرے دھیرے یہی آپ کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ یوں آپ نے کبھی اپنے بلند اہداف کو مشکلات کی نذر نہیں ہونے دیا۔
مرحوم کے عملی دور کا آغاز:
خطابت و تبلیغ دین:
جونہی آپ نے اپنی تعلیمی دور کے تیرہ سال مکمل کئے تب صدام نے تمام علما کو وہاں سے نکلنے کا حکم دیا۔ تب تک آپ مطلوبہ تعلیمی و تربیتی صلاحیتوں سے اپنے آپ کوآراستہ پیراستہ کرچکے تھے۔ بعدازاں انبیا کے پیشے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے ملک پاکستان کا سفر کیا۔
آپ نے کراچی سے اپنی تبلیغی دور کا آغاز کیا۔ تین سال تک وہاں پر امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ گرمی کی شدت آپ کی طبیعت کے ساتھ ناموافق ثابت ہوئی تب آپ نے بلتستان کا رخ کیا پھر وہاں اپنے تبلیغی دور کا آغاز کیا۔ مدرسہ الحجت گمبہ سکردو میں اپنی تدریس شروع کی۔پھر آغا سید علی الحسینی کے اصرار پر مدرسہ قرآن و عترت احمد آباد تشریف لے گئے۔دس سال وہاں گزارنے کے بعد دوبارہ سکردو واپس آئے اور وہاں شب و روز اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ کچھ مدت تک موسی لائن سکردو میں خدمات دینی کرتے رہے پھر کچھ مالی مشکلات کے باعث آپ اپنے آبائی گاوں گیول کی طرف لوٹ آئے۔ وہاں امام جمعہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ساتھ ہی آپ 23 سال تک گنگوپی سکردو کے بھی میر واعظ رہے۔
آپ فن خطابت کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ ایک مشکل اور ظریف علمی مطلب کو آسان اور سلیس لہجے میں لوگوں کے دلوں میں بٹھادینا آپ ہی کا خاصہ تھا۔ آپ دوسرے خطیبوں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جشن کی محفلوں میں جنت کا تذکرہ زیادہ جبکہ شہادت کی مجلسوں میں جہنم کا خوف کثرت سے دلانے کی کوشش کرنا۔ آپ اپنے مقصود کو لوگوں تک منتقل کرنے کے لیے ایسے مقدمہ سازی کرتے کہ جس کے بعدذی المقدمے کو سمجھنا بہت ہی آسان ہوجاتاتھا۔ جشن کی محفلوں میں ایسے واقعات اور کہاوتوں کا سہارا لیتے کہ جسے سننے کے بعد لوگوں میں خوشی کی فضا حاکم ہوجاتی اتنے میں اسی واقعے سے مربوط ایک اصلاحی نکتہ ارشاد فرماتے جس کے بعدلوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور بے اختیار ساکت ہوکر سوچوں میں گم ہوجاتے تھے۔آپ کبھی بھی اپنے سامعین کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کی باتیں بھی مقتضای حال کے عین مطابق ہوا کرتی تھیں۔ عوام کے درمیان آپ ان کے فہم کے مطابق باتیں کرتے اور وہ یہ محسوس کرتےکہ گویا آپ کو ان کے لیے ہی خلق کیا گیا ہے جبکہ آپ حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ نجف اشرف اور حوزہ علمیہ مشہد مقدس کے طلبہ سے مخاطب ہوتے تھے تو ان پرآپ کا رعب ایسا چھاجاتا تھا کہ گویا ایک شفیق اور دل سوز باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کررہے ہوں۔ یہی تو آپ کا کمال ہے کہ ہر صنف سے تعلق رکھنے والا شخص آپ سے چاہت اور ہمیشہ آپ کی زیارت کے محتاج رہتے تھے۔ ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی مجالس کے لیے آپ اتنی دعوتیں آتیں کہ ان سب کی دعوت کو قبول کرنا ضیق وقت کی بناپر آپ کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ ماہ رجب المرجب اور ماہ شعبان المبارک میں تو آ پ کی اتنی مانگ ہوتی تھی کہ اکثر و بیشتر آپ کے گھر والوں کو بھی خبر نہ ہوتی کہ آپ کہاں خطاب کرنے گئے ہیں۔ سکردو شہر میں تو آپ گنگوپی کے میر واعظ بھی تھے علاوہ ازیں بلتستان کے دور دراز علاقوں کھرمنگ، شگر، خپلو،روندو سے لوگ آپ کو لینے آتے اور ایک دوسرے سے پہل کرکے ہر کوئی آپ کے ذریعے اپنی محفلوں کی رونقوں کو دوبالا کرنے کے درپے ہوتے تھے۔ آپ کے اقوال ذریں کو اگر نوک قلم کے حوالے کیا جائے تو شاید چند جلد کتابیں منظر شہود پر آجائیں۔ غرض آپ کی زندگی کا ہر لمحہ تبلیغ دین سے مختص اور ہر کام ترویج دین کے لیے تھا۔
درس و تدریس:
آپ مختلف مدارس میں بعنوان مدرس تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ان میں سے ایک اہم مدرسہ جس میں آپ نے سب سے زیادہ تدریس کا فریضہ انجام دیا“جامعہ قرآن عترت” احمد آباد قلعہ سوبھاسنگھ ہے۔ حجة الاسلام و المسلمین سید علی الحسینی کی فطانت اور شخصیت شناسی کی جس نے آپ جیسے برجستہ مدرس کا انتخاب اپنے مدرسے کے لیے نیک شگوں قرار دیا۔ آپ نے آغا مرحوم کی دعوت کو اپنے لیے شرف اور خدمت دین کا بہترین موقع قرار دیتے ہوئے لبیک کہا اوردس سال تک اسی مدرسے میں علوم آل محمد(ع )کے متلاشیوں کو معارف اہل بیت(ع) سے روشناس کراتے رہے اور بہت سارے برجستہ شاگردوں کی تربیت فرمائی۔ ان میں سے ایک معروف شخصیت سید محمد رضوی ہیں۔ جو کافی عرصے سے اسلام آباد میں خدمت دین و تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ آپ کے کئی شاگرد حوزہ علمیہ قم، مشہد اور نجف اشرف میں تحصیل علم میں مصروف ہیں۔
آپ طلبہ کو تعلیمی سرگرمیوں کی طرف تشویق دینے کے ساتھ ساتھ خودسازی کی بھی خوب تاکید کرتے تھے۔ آپ جیسے استاد کے پاس حاضر ہونا ہی ان کی اصلاح کے لیے کافی تھا۔ آپ سینئر طلبہ سے ہمیشہ فرماتے رہتے تھے کہ معاشرے میں اپنے آپ کو متعارف کرانے کی بجائے دین کو متعارف کرانے کی کوشش کرنا!
قضاوت:
حوزہ علمیہ نجف اشرف سے واپس آتے ہی چند سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جب آپ سکردو تشریف لائے تو علما نے آپ کے علمی استعداد، تقوی و پرہیزگاری، اخلاقی جرأت، نڈر اور صاحب حق کو اس کا حق دلانے کے جذبے کو دیکھا تو انھوں نے آپ کو قضاوت جیسے اعلی و ارفع منصب پر فائز کیا اور قید حیات سے نجات پانے تک آپ اس منصب پر فائز رہے۔ آپ کا کمال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے تک اس حساس ذمہ داری کو نبھانے کے باوجود بھی کسی نے اس حوالے سے آپ میں نکتہ ضعف کو نہیں پایا۔ آپ ہر وقت اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کو مول لینے اور ذی حق کو اس کا حق دلانے کے درپے ہوتے تھے۔ آپ نے اس عرصے میں دسیوں فسادات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، سینکڑوں صاحبان حق کو ان کا حق دلایا، بہت ساروں کے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں عرصہ دراز سے زیر سماعت مقدمات کو وہاں سے خارج کراکےمحکمہ شرعیہ لاکر فوری فریقین کے درمیان تصفیہ کرکے ان کے مال، جان، جائیداد ، عزت و آبرو اور وقت کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔
تلاوت قرآن
قرآن مجید کی تلاوت سے آپ کو خصوصی شغف تھا۔ جب بھی فرصت ملتی تب آپ فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کتاب اللہ کی تلاوت میں محو ہوجاتے اور آیات الہی میں تدبر و تعقل فرماتے۔ خصوصا زندگی کے آخری ایام میں تو آپ دنیا وما فیہا سے کنارہ کش ہوکر اپنا اکثر وقت قرآن کی تلاوت ہی میں گزارتے تھے۔
کثرت مطالعہ:
آپ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود بھی اپنا اکثر وقت عمیق تاریخی، تفسیری، فلسفی، کلامی اور سیرت کی کتابوں کے مطالعے میں گزارتے تھے۔ آپ کی کثرت مطالعہ ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے تھے۔
عبادت و ریاضت:
وہی شیخ انصاری جو دن بھر محفلوں کی زینت بن کر لوگوں کے دلوں میں خوشیوں کی لہریں دوڑاتے رہتے تھے۔ دن ڈھلتے ہی مختصر وقت کے لیے آپ استراحت فرماتے پھر رات بھر محراب عبادت میں محو عبادت رہتے اور اپنے معشوق حقیقی سے لو لگا کر راز و نیاز کی باتیں اور اس کی فراق میں آہ و زاری کرتے رہتے تھے۔ آپ کی باتوں میں اتنی تأثیر کا اصل سرچشمہ شاید یہی عنصر ہو۔
منصب و اقتدار سے دوری:
آپ کی ایک اہم صفت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی منصب کے لیے سعی نہیں کی۔ نہ آپ سیاسی الجھنوں میں پڑے اور نہ ہی کسی اختلاف کی نذر ہوئے۔آپ نے کبھی بھی اپنی شخصیت کو سیاست دانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیا۔ آپ ہمیشہ اپنے پیغمبری پیشے سے ہی سروکار رکھتے تھے یعنی تبلیغ دین اور اصلاح امت۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر دل میں آپ کی یادیں اور ہر گروہ میں آپ کی باتیں جاری و ساری ہیں۔
اپنی محنت کی روزی کھانے کی عادت:
آپ نے زندگی بھر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ آپ بغیر کسی جھجک اور تکلف کے اپنی روزی خود کماتے تھے اور اس پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے فخر محسوس کرتےتھے۔ آپ اپنی بنجر زمینیں خود آباد کرتے اور کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ آپ سے ملنے آتے لیکن آپ کی سادگی اور متواضعانہ حالت دیکھ کر آپ ہی سے سوال کرتے کہ شیخ انصاری صاحب کہاں ہیں؟
زندگی کے آخری چند سال:
باب علم امیر المؤمنین سے آپ کی مودت آپ کو ہر سال ایک مرتبہ کھینچ کر لاتی تھی۔آپ کی دلی آرزو تھی کہ جہاں آپ نے اپنی جوانی کو باب علم کے حضور علمی دریچوں کو کھولنے اور مدارج علمی کو طے کرنے میں گزارا ہے وہاں زندگی کے آخری لمحات بھی اسی بابرکت جگہے پر گزار کر اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کرکے وادی سلام کو اپنا کا مدفن قرار دے۔
اللہ تعالی نے آپ کی اس دلی تمنا کو بھی پورا کیا۔ جونہی آپ پاکستان سے اتنی لمبی مسافت طے کرکے مولا کے ماحضر میں پہنچے تب دو دن بھی ابھی گزرنے نہیں پائے تھے کہ خالق حقیقی کی طرف سے آپ کوبلاوا آیا۔ یوں باب علم سے ہدایت کا چراغ لیے نکلنے والا تابناک ستارہ دوبارہ باب علم کے جوار میں پہنچ کر آخر کار 22صفر المظفر 1437ہجری کو غروب ہوا۔ نجف اشرف، قم مقدسہ اور مشہد مقدس سے زیارت پر آئے ہوئے علما کی کثیر تعداد نے آپ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اور باعزت طریقے سے آپ کو ابدی سفر پر روانہ کیا۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑے ہیں۔ آپ کا فرزند ارشد حجۃ الاسلام بشیر انصاری نجف اشرف میں علوم آل محمد کی خوشہ چینی میں مصروف ہیں اور نذیر انصاری بھی لیکچرار کے طور پر ہماری نوجوان نسل کی تربیت میں کوشاں ہیں۔ آپ کے داماد حجۃ الاسلام شیخ احمد حسین ترابی بھی مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے جوار میں معارف اہل بیت علیھم السلام کے حصول میں مصرو ف ہیں اور ان کا شمار بھی برجستہ خطیبوں میں ہوتا ہے۔
آپ کی زندگی بھی بابرکت ،موت بھی قابل رشک اور مدفن بھی مثالی ہے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں جوار ائمہ میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں آپ کے بابرکت مشن کو زندہ رکھنے اور اسے تقویت دینے کی توفیق دے آمین!
آپ کے ان مخلصانہ اور بے لوث دینی خدمات ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ہر محفل و مجلس سے یہ صدا بلند ہے:
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے
دیدگاهتان را بنویسید