تازہ ترین

ضلع شگر کے نئے سب ڈویژن کا مناسب صدر مقام/ نادم شگری

ضلع شگرکی آبادی کا آغاز “لمسہ” سے ہوتا ہے؛ جہاں سےتقریبا4 کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص میں ضلعی ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔ شگر خاص سے ہی علاقے کی دو بڑی سڑکیں جدا ہوتی ہیں، سیدھی سڑک K.2 کو جاتی ہے جس کا اختتام علاقہ برالدو کے آخری گاؤں “تستے” کے مقام پر ہوتا ہے ، شگر خاص سے “تستے” تقریبا 90کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ؛ جبکہ “نیالی پل” عبور کرکے دوسری سٹرک باشہ کی واحد بلند پہاڑی چوٹی “سپانگ ٹیک ” کو جاتی ہے جو علاقہ باشہ کے آخری گاؤں “ارندو”کے مقام پر ختم ہوتی ہے۔ شگر خاص سے “ارندو “تک کا فاصلہ بھی تقریبا 90کلومیٹر بنتا ہے۔ برالدو روڈ کے عین وسط میں “حیدر آباد” اور باشہ روڈ کے عین وسط میں “تسر” واقع ہے۔ ان دونوں مقامات کو باہم ملانے کے لئے دو معلق پل موجود ہیں، گویا حیدر آباد اور تسر چھ یونین کونسلز کا سنگم ہے۔

شئیر
74 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4642

زمینی حقائق کے تحت ہیڈ کوارٹر سے وزیر پور اور گلاب پورکا فاصلہ 10 سے 15 کلومیٹر پر مشتمل ہے؛ یہاں کے باشندے اپنے ضروری امور کی انجام دہی کے لئے انتہائی کم وقت میں ہیڈ کوارٹر پہنچ سکتے ہیں؛لہٰذا ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 10، 15 کلومیٹر کی مسافت پر سب ڈویژن کا قیام ، بالائی شگر کے چار یونین کونسلز(باشہ، تسر، داسو اور برالدو) کی کثیرآبادی کے لئے پھر وہی “ڈھاک کے تین پات”ہوں گے۔
اس کے علاوہ مذکورہ چار یونین کونسلز کے باسی متفقہ طور پر اپنی جغرافیائی موقعیت کے لحاظ سے حیدر آباد اور تسر کے درمیانی ایریا کو اپنے لئے محفوظ اور مطمئن جگہ قرار دے رہے ہیں.لہٰذا حکومتی فیصلوں کو بھی عوامی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہئے۔
ان حقائق کے پیش نظر باشہ اور برالدو کو منضم کرکے گلاب پور میں ہی ماتحت ہیڈ کوارٹر پر اصرار کرنا کچھ لوگوں کی خودغرضی اور ہٹ دھر می کے سوا کیا ہو سکتا ہے.!؟
مذکورہ جغرافیائی خطوط کی وضاحت اور ضمنی عرائض کو اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ متوقع سب ڈویژن کے صدر مقام کی تعیین کے لئے اگر معاملات عقل ومنطق کی روشنی میں طے پانے ہوں تویہ زمینی حقائق ،ارباب اختیار کے لئے روڈ میپ اور اتمام حجت بن سکتے ہیں؛ لیکن اگر صحیح معنوں میں عوامی رسہ کشی کے ذریعے نتیجہ نکالنا ہے تو ظاہر ہے کہ اکھاڑے میں اترنے والے لحیم شحیم پہلوان ہی کھیل کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوں گے اور کثیر آبادی کو شومی قسمت سے ایک بار پھر اپنے “جرم ضعیفی ” کی سزا ملے گی. ( خدا کی پناہ!)

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *