تازہ ترین

طلاب کو اپنی علمی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرے میں اپنی فیصلہ کن اور تقدیر ساز ذمہ داریاں ادا کرنا چاہیے.رہبر معظم

رہبرانقلاب اسلامی نےفرمایا ہے کہ میدان میں علما اور عوام کی مسلسل موجودگی نے ہی اسلامی انقلاب کی بقا کو ممکن بنایا ہے۔ تہران کے دینی تعلیم کے مرکز یا حوزہ علمیہ کے اساتذہ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد نے ہفتے کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات […]

شئیر
14 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1988

رہبرانقلاب اسلامی نےفرمایا ہے کہ میدان میں علما اور عوام کی مسلسل موجودگی نے ہی اسلامی انقلاب کی بقا کو ممکن بنایا ہے۔

تہران کے دینی تعلیم کے مرکز یا حوزہ علمیہ کے اساتذہ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد نے ہفتے کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں رجعت پسندانہ، متعصب اور معنوی حقائق کے ادراک سے عاری اور ظاہری اعتبار سے جمود کے شکار اسلام کو انحرافی افکار کا حقیقی مصداق قرار دیا۔

آپ نے فرمایا کہ آج انحرافی افکار کا حامل اسلام اور امریکی ماڈل والا اسلام، دونوں اصل اسلام کے مقابلےمیں آ کھڑے ہوئے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فکری اور دینی رہنمائی، سیاسی اور بصیرت میں اضافہ کرنے والی ہدایت اور مختلف سماجی میدانوں میں رہنمائی اور موجودگی کو علما کی تین اہم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ طلاب علوم دینیہ کو چاہئے کہ وہ ضروری علمی صلاحیتیں اورمعلومات حاصل کر کے آج کی مختلف دنیا میں خود کو معاشرے میں اپنی فیصلہ کن اور تقدیر ساز ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے تیار کریں۔

آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے دینی ہدایت و رہنمائی کو اصلی اسلامی افکار کی تشریح قرار دیا اور دین میں روز افزوں شبہات پیدا کرنے کے سلسلے میں سائبر اسپیس کے اثرات اور نوجوانوں کے ذہنوں میں غلط اور منحرف افکار ڈالنے کے لئے انجام دیئے جانے والے سیاسی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میدان، حقیقی جنگ کا میدان ہے اور علما اور طلبا کو چاہئے کہ وہ غلط و انحرافی افکار و شبہات کے مقابلے کے میدان میں پوری طرح تیار ہو کر اتریں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تمباکو، آئینی انقلاب اور تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت میدان میں علما کی موجودگی کا سلسلہ باقی نہ رہ سکا جس کی بنا پر یہ تحریکیں اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکیں، لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا ہنر یہ تھا کہ انہوں نے انقلابی تحریک کے دوران اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں بھی میدان میں علما کی موجودگی کو روکنے کے سلسلے میں دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

آپ نے فرمایاکہ اگرمیدان عمل میں علما کی موجودگی کا سلسلہ ختم ہو جاتا تو اس صورت میں نہ تو اسلامی انقلاب کامیاب ہو سکتا تھا اور نہ ہی اسلامی جمہوری نظام آگے بڑھ سکتا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا اسلامی انقلاب کے آغاز میں بھی آج ہی کی طرح ایران کے عوام کی انقلابی تحریک سے علما کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتا تھا تاکہ بعد کے مرحلے میں انقلاب کو ناکام بنا سکے لیکن اب تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور اللہ کے فضل و کرم سے آئندہ بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی بیداری کے زلزلے میں بھی دین نے عوام کو میدان میں اتار دیا لیکن چونکہ دینی مراکز ان ملکوں میں منتشر اور پراکندہ تھے، اس لئے یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکی اور اسلامی بیداری کی تحریک لازمی نتیجہ حاصل نہ کرسکی مگر ایران میں مختلف میدانوں میں علما کی موجودگی کے باعث عوام کی موجودگی نے اسلامی انقلاب کی بقا اور تسلسل کو ممکن بنا دیا۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *