عصمت حضرت زهرا مرضیه سلام الله علیها از آیه تطهیر و حدیث ثقلین /راجه مظفر عباس
ہمارے نزدیک متواتر احادیث سے حضرت زھرا ۖ کی عصمت ثابت ہے اور متعدد روایات میں حضرت زھرا ۖ کی فضیلت اور عظمت کوبیان کیا گیا ہے اور دوسرے فریق کے بزرگ اور جید علماء کا اتفاق ہے کہ آیہ تطھیر حضرت زھرا ۖ اور اہل بیت کی عصمت اور طہارت پر دلالت کرتی ہے ۔ ہم آئندہ کی سطور میں انہیں مسائل پر گفتگو ، اور دلائل ذکر کرینگے دور اندیش ، موحد ، حکماء ، محققین اور بر جستہ فقہا ء کے بقول؛ اس دنیا اور آخرت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اس دنیا میں ظاہری شکل و صورت اور ظاہری حسن ، سیرت اور کردار کے مقابلہ میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے ، ممکن ہے کہ ایک انسان ظاھراً عام انسان کی طرح ہو لیکن باطن میں درندہ صفت ہو ، لہذا ظاھری شکل و صورت کے اعتبار سے عام انسانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ ( ہاں بعض خوبصورت اور بعض بد صورت لیکن ظاھرا ً سب انسان ہیں ۔ )
لیکن آخرت کا نظام دنیا کے نظام کے بالکل بر عکس ہے بعض افراد کے بارے میں خدا وند متعال فرماتا ہے ۔
و غشرھم یوم القیامة علی وجوھھم عمیا بکما و صما ۔
یعنی قیامت کے دن ہم انہیں اوندھے منہ ، اندھے گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے ۔
اور بعض افراد کے متعلق فرماتا ہے ۔ وجوه یو مئذ ٍ ناضرة الی ربها ناظرة ۔ بہت سے چہرے اس روز شاداب ہونگے وہ اپنے رب ( کی رحمت ) کی طرف دیکھ رہے ہونگے ۔
اور اسی طرح ان ہستیوں کے چہرے شاداب ہونگے جنہوں نے فرمایا : انما نطعمکم لوجه الله لا نریدمنکم جزاء ولا شکورا ۔ (اہل بیت علیہم السلام فقراء سے فرماتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے خاطر کھلا رہے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکر گذاری کے خواہاں ہیں ۔
ذلک الیوم الحق ۔ قیامت کا دن بر حق ہے ۔ الملک یو مئذ لله ۔ اس دن فقط اللہ کی بادشاہی ہوگی ۔
عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صادق ، مصدق ، اور امین ہیں ، یعنی نہ تو کبھی جھوٹ بولا ، اور نہ ہی کبھی اللہ کے اوپر جھوٹی تہمت باندھی ، اور ان کی صداقت و امامت ، کی گواہی قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں بیان فرمادی ۔ ارشاد رب العزت ہے ۔
وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ۔ وہ وہی بولتے ہیں جو وحی بولتی ہے ۔
اسی طرح قرآن کی دیگر آیات بھی ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی کا حکم بھی دیتی ہیں ۔
اب ہم ان مقدمات کی روشنی میں حضرت محمد مصطفی ۖ کی ایک حدیث کو نقل کرتے ہیں اور پھر یہ بیان کرینگے کہ یہ حدیث کیسے ہمارے دعوی کی دلیل بن سکتی ہے ۔
تحشر ا بنتی فاطمة و علیها حلة الکرامة قد عجنت بماء العیوان ، فینظر الیها الخلائق فیتعجبون منها ، ثم تکسی ایضا من حلل الجنة الف حلة ، مکتوب علی کل حلة بخط اخضر ، ادخلو ا بنت محمد الجنة علی احسن الصورة و احسن الکرامة ، و احسن فنظر ……(١)
میری بیٹی فاطمہ ۖ قیامت کے دن با وقار لباس میں ملبوس وارد محشر ہونگی ، ایسا لباس جو آب حیات سے بنا ہوا ہو گا ۔ تمام لوگ اس منظر کو دیکھ کر تعجب میں پڑ جائینگے ، پھر حضرت زھرا کو ہزاروں بہشتی حلوں سے مزین کیا جائے گا ، ہر حلہ پر سبز رنگ سے یہ عبارت مرقوم ہوگی اے محمد بن عربی کی دختر نیک اختر ، بہترین صورت ، باوقار انداز اور خوش نما منظر کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جائیں ۔
اور قیامت جیسے برحق دن ممکن نہیں کہ خدا کی عدالت کے نظام میں ذرا برابر تبدیلی واقع ہو ، اور انسان کو جو صورت عطا ہو گی وہ اس کے دنیاوی اعمال کا نتیجہ ہو گی ۔ پس اس شخص کو انتہائی خوبصورت ، کامل ترین ، اور مثالی صورتسے نوازا جائے گا ، جو پاکیزہ ، کامل ، اور مثالی سیرت اور نیک کردار کا مالک ( اس دنیا میں )رہا ہو ۔
پس اگر انسان عملی اعتبار سے سب سے بہتر اخلاق سے آراستہ افراد میں سب سے بر تر اور عملی میدان میں سب سے بڑھ کر نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اسے قیامت کے دن سب سے بہترین صورت میں لایا جائے ۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میں یہ فرمانا کہ فاطمة بضعة منی (2) فاطمہ میرا ٹکڑا ہے
و فاطمة روحی التی بین جنبی ، مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔ (3) حضرت زھرا ۖ کی عظمت ہمارے ناقص اذھان میں سما ہی نہیں سکتی ۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ اس حیرت انگیز تشبیہ جو حضرت زھرا ۖ اور رسول خدا ۖ میں پائی جاتی تھی ، کی طرف متوجہ ہوئیں تو بت ساختہ کہہ دیا ، میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، جو سیرت ، صورت ، گفتارر ،کردار میں حضرت زھرا ۖ سے زیادہ رسول پاک سے مشابہ ہو (4)
اور جب حضرت عائشہ کو اندازہ ہوا کہ حضرت زھرا ۖ کی رسول پاک کے نزدیک کیا قدر و منزلت ہے تو روایت کی کہ جب حضرت زھرا تشریف لاتیں ، پیغمبر ۖ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ،بیبی حضرت زھرا کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے ۔اور اپنی مسند پر بٹھاتے (5)
جب اکثر اوقات حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کے حق میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وطیرہ تھا تو یہ احترام اس شخصیت کے لئے سزاوار ہے جو ایک لحظہ بھی حق سے جدا نہ ہو ، اور یہ رتبہ عصمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔
اب ہم کچھ ایسے دلائل ذکر کرتے ہیں جن سے حضرت زھرا علیہا السلام کی عصمت ثابت ہوتی ہے ۔
آیت تطہیر :
انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا
اس آیت مبارکہ میں اہل بیت سے کیا مراد ہے ، اسکو واضح کرنا ضروری ہے ، چنانچہ اس میں چند احتمال پائے جاتے ہیں ۔
(1) اہل بیت سے مراد فقط ازواج مطہرات ہوں کیونکہ آیت کے تمام خطابات انھیں کے متعلق ہیں
(2) ازواج مطہرات اور حضرت محمد ۖ حضرت علی حضرت فاطمه ۖ اور امام حسن و امام حسین مراد ہوں
(3) فقط پنجتن مراد ہوں
قرطبی کہتا ہے آیت کریمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل بیت جس میں ازواج اور غیر ازواج تمام شامل ہیں اور ( ویطہرکم ) اس لئے استعمال ہوا کہ افراد کی تعداد غالب ہے اور جب مذکر و مؤنث جمع ہو جائیں تو مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے (6)
اور فخر الدین رازی بھی اسی قول پر متفق ہے (7)
مگر ہمارا فریضہ یہ ہے کہ آیت کریمہ کے متعلق جستجو کریں تاکہ معلوم ہو جائے کہ آیات کے الفاظ اور معانی کس حد تک ان کے دعوی کو ثابت کرتے ہیں آیت کے شروع میں کلمہ ٫٫ انما ،، ذکر ہوا ہے ، جو اپنے بعد والے کلام کو ثابت اور غیر کی نفی کرتا ہے ، اور اس انداز سے کلام میں استحکام اور پختگی پیدا ہو جاتی ۔
ہے جیسا کہ کلمہ توحید ہے ۔ لا الہ (نفی ) الا اللہ اثبات ہے ۔ پس آیہ کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ، تطہیر ( پاک کرنا ) اور پلیدی سے دور ی میں منحصر ہے ۔ اور کلمہ اہل بیت ،کو جس معنی میں بھی استعمال کیا جائے ، وہ مخاطبین سے پلیدی کی دوری اور (ان کی ) باطنی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔
تطہیر کا مطلب ، یعنی گناہ اور برائی سے منزہ اور پاک ہونا ۔ الرجس : اس کلمہ میں الف و لام یا تومعھود ذہنی کے لئے ہے ، یا جنس کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معھود ذہنی کے لئے نہیں ہے کیونکہ گذشتہ کلام میں ( یعنی آیہ تطھیر سے پہلے ) رجس کا ذکر نہیں ہے کہ جس کی طرف الف و لام کی باز گشت ہو لہذا ، الف و لام ،جنس کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ کلمہ رجس میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اگر رجس کا ایک مصداق بھی متحقق ہو جائے تو کلام خدا صادق نہیں رہتا کیونکہ خدا کا ارادہ ہر قسم کی پلیدی سے دور اور طہارت میں منحصر ہے ۔
اب کلمہ رجس کو قرآن کی رو سے پرکھتے ہیں ۔
ارشاد رب العزت ہے ، و من یرد ان یضله یجعل صدره ضیقا حرجا یصدفی السماء کذلک یجعل الرجس علی الذین لا یو منون ۔ (8)
اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا بنا دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو ، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس قسم کی نا پاکی مسلط کر دیتا ہے ۔اور
و اما الذین فی قلوبهم مرض فزادتهم رجس الی رجسهم وما تو اهم کافرون (9)
اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے ۔
پھر ارشاد رب العزت ہے : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم الا ان یکون میتة او دما مسفو حا او لحم خنزیر فانه رجس ، (10)
کہہ دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو سور کا گوشت کیونکہ یہ نا پاک ہیں ۔
آپ نے آیات کریمہ کو ملاحظہ فرمایا ، پہلی دو آیات میں رجس معنوی نجاست اور آخری آیت میں رجس کو مادی نجاست کے لئے استعمال کیا گیا ہے لہذا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل بیت ہر قسم کی نجاست سے پاک و منزہ ہیں ۔
اسی بنا پر علماء فرماتے ہیں رجس سے دوری سے مراد یقیناً عصمت ( اہل بیت علیہم السلام) ہیں ۔اور آیہ تطہیر ( و یطھر کم تطھیرا جس کے مصدر کے ذریعہ تاکید بھی ہوئی کہ جس تطہیر سے مراد ، اصل پلیدی سے دوری کے بعد رجس کے تمام اثرات کا قلع قمع کرنا ہے ۔ )میں اس مقام عصمت پر فقط اہل بیت علیہم السلام ہی فائز ہیں ،
اس سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آیت تطہیر میں فقط حضرت محمد مصطفی ۖ امام علی امام حسن اور امام حسین اور حضر ت فاطمہ زہرا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس میں اور کوئی بھی ان کے ساتھ شریک نہیں تھا ۔
اس سلسلے میں ستّر احادیث اہل سنت نے نقل کی ہیں اور یہ تعداد شیعہ روایات سے بھی زیادہ ہے
اہل سنت نے ام سلمہ ، عائشہ ، ابی سعید خدری ، سعد ، واثلہ بن اسقع ، ابی حمراء ، ابن عباس ، ثوبان مولی النبی ، عبد اللہ بن جعفر ، علی علیہ السلام ، حسن بن علی علیہ السلام ، سے تقریبا ً چالیس طریق سے ان روایات کو نقل کیا ہے ۔
اور شیعہ نے حضرت امام علی علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام ، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام ، ام سلمہ ، حضرت ابو ذر ، ابو لیلی ، ابو الاسود الدوئلی ، عمر وبن صیمون الاودی ، سعد بن ابی وقاص ، سے تقریبا ً تیس طریق سے روایات کو نقل کیا ہے (11)
شداد بن عبد اللہ ابی عمار نے واثلہ بن الاسقع سے روایت کی کہ میں حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کے متعلق پوچھا ، آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں ہیں تشریف لے گئے ہیں ۔ حتی کہ پیغمبر ۖ حضرت علی اور حسنین علیہم السلام کے ہمراہ تشریف لائے ، حضرتۖ نے حسنین علیہما السلام کو اپنے مبارک ہاتھوں پر لیا ہوا تھا ، جب تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت فاطمہ ۖ کو اپنےزانوئو ں پر بٹھایا ، پھر ان پانچ ذوات مقدسہ نے ایک چادر اوڑھی پھر اس آیت کریمہ :
(انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا)
کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا اللهم هولاء اهل بیتی ، اے خدا یہی میرے اہل بیت ہیں (12)
اور پیغمبر ۖ نے اس انداز سے اس لئے بٹھایا تاکہ دیکھنے والوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی پنجتن پاک ہیں ۔
عبد اللہ الجیار بن عباس شبامی نے عمار دھنی سے ، اس نے عمرة بنت افعی سے اس نے ام سلمہ ۖ سے روایت کی ہے ۔ کہ آیت تطھیر میرے گھر میں نازل ہوئی اور گھر میں سات ہستیاں موجود تھیں ، جبرئیل ، میکائیل ، اور پنجتن پاک ، اور میں گھر کے دروازے پر کھڑی تھی اور رسول پاک ۖ سے سوال کیا ، کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں ، تو پیغمبر ۖ نے فرمایا٫٫ انتِ علی الخیر، ، تو بھلائی پر ہے ، تو پیغمبر کی ازواج مطہرات میں شامل ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تو اہل بیت میں شامل ہے (13)
گویا پیغمبر ۖ یہ چاہتے تھے کہ زبانی اور عملی طور پر لوگوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی ذوات مقدسہ ہیں ۔ اور ام سلمہ والی روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج اس مقدس عنوان میں داخل نہیں ہیں ۔
حقیقت کو قبول کرنے کے لئے اس کے بعد کیا عذر باقی ہے ، ہاں مگر دشمنی اور عناد کا کوئی علاج نہیں ۔
آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ۖ اس حقیقت کو لوگوں کے اذھان میں مزید پختہ کرنے کے لئے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے دروازے پر یشریف لاتے اور بلند آواز سے پڑھتے :
السلام علیکم و رحمة الله و برکاته اهل البیت انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطهرکم تطهیرا ۔
اور یہ عمل چھ سات یا نو مہنے ہر روز پانچ مرتبہ انجام دیتے اور یہ عمل ہر روز کا وطیرہ تھا (14) اس کی تفصیل اور تصدیق کے لئے طبری ، ابن کثیر اور سیوطی کی تفاسیر کو ملاحظہ کیا جائے ۔
ابن حجر کہتا ہے اکثر مفسرین قائل ہیں کہ یہ آیت حضرت علی فاطمہ ۖ ، اور حسنین علیھما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( 15)
حدیث ثقلین :
انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی ابدا ……
اس حدیث شریف سے بھی آیت تطھیر کی طرح استدلال ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ، معصوم ہیں ، اور گذشتہ دلائل کی روشنی میں یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت زھراء سلام اللہ علیہا بھی اھل بیت میں شامل ہیں ۔
اس حدیث شریف میں اہل بیت علیھم السلام کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے اور وحی کی زبان سے بولنے والی ذات نے گواہی دی کہ جو شخص ان سے تمسک کرے وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگا ، اور مطلق تمسک کا حکم عصمت کے بغیر ایک نا ممکن امر ہے ۔
اہل حق کے لئے یہ حدیث اور اس کے مفاہیم روز روشن کی طرح واضح ہیں ، دشمنی اور عناد کا علاج کسی حکیم کے پاس بھی نہیں پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انّ الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک (16)
اے فاطمہ اللہ آپ کی ناراضگی اور غضب سے غضب ناک اور آپ کی خوشنودی سے خوشحال ہوتا ہے ۔
من اذی فاطمة فقد اذانی و من اذانی فقد اذی الله (17)
پیغمبر ۖ نے فرمایا : جس نے حضرت زھراء ۖ کو رنجیدہ خاطر کیا گویا اس نے مجھے رنجیدہ کیا اور جس نے مجھے رنجیدہ کیا بتحقیق اس نے خدا کی ناراضگی اور غضب کو مول لیا ۔ حضر ت زھراء سلام اللہ علیہا کی ناراضگی اور غضب کو غضب خدا کے ساتھ پیوستہ کرنا ، اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حضرت زھرا ۖ کا غضب اور ناراضگی ہمیشہ حق اور صداقت پر مبنی ہے، اور یہ عظیم مقام انسان کو عصمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ، اور یہی کیفیت ان کی خوشنودی کی بھی ہے۔
ہم اپنی گفتگو کا خاتمہ اس بات پر کرتے ہیں کہ حضرت زھرا ۖ کی عصمت پر مفصّل دلائل موجود ہیں جن سے چشم پوشی کرنا ممکن نہیں ، ہاں اگر کو ئی غیر معتبر روایات کے پیش نظر کتاب و سنت اور عقل کی مخالفت پر اتر آئے یا اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دے کہ حضرت زھرا ۖ کا معصوم ہونا مشکل نظر آتا ہے تو اس کے ساتھ بحث کرنا غیر مفید ہے ۔ ناقص اور قاصر عقل ہر حقیقت کو اپنی معلومات کی روشنی میں پرکھتی ہے اور انہیں معلومات کی بنا پر حکم صادر کرتی ہے ۔
یہ بعید و غیرہ کہنا ظن پر مبنی ہے اور ظن کبھی بھی حق کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی حق سے بے نیاز کر سکتا ہے اور علم و یقین جب اپنی تمام تر قوت کے ساتھ میدان میں موجود ہو تو ظن دم نہیں مار سکتا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ظاہری کلمات سے دستبردار ہو جائیں اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ بعض افراد پر خدا وند کریم خصوصی فضل و کرم کرتا ہے ۔
این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
منابع :
(1) تاریخ دمشق ابن عسا کر ج١٢ ص ٨٦ ۔ مقتل الحسین والخوازمی ج١ ص ٥٢
(2) المستدرک احمد بن حنبل ج ٤ ٥ ص ٣٣٣ و صحیح البخاری ج٥ ص٩٢۔ ١٥٠ و صحیح مسلم ج٤ ص ١٩٠٢ و سنن ترمذی ج٥ ص ٦٩٥ و المستدرک ج ٣ ص ١٥٤ ، ١٥٨
(3) بحار الانوار ج٢٧ ص ٦٣ کتاب الامامة ٢٨ ، ٣٨ ۔ اکتاب الفتن والمحن
(4) البخاری ج٥ ص ٢٦ ج٧ ص ٤٧ و مسلم ج٧ ص ١٤١ و مسند احمد ج٤ ص ٣٢٣ ، ٣٢٨ ، ٣٣٢
(5) سنن الترمذی ج٥ ص ٧٠٠ والمستدرک ج٣ ص ١٦٠
(6) الجامع لاحکام القرآن قرطبی ج١٣ ص ١٨٣
(7) التفسیر الکبیر البرازی ج٢٥ ص ٢٠٩
(8) سورہ انعام ٦ ١٢٥
(9) سورہ توبہ ٩ ١٢٥
(10) سورہ انعام ٦ ١٤٥
(11)المیزان طبا طبائی ج١٦ ص ٣١٠ ، ٣١١ ، معمولی فرق کے ساتھ۔
(12) مسند احمد بن حنبل ج٤ ص ١٠٧ و ١٣٥ کتاب فضائل ، فضائل امیر علیہ السلام ، ط ۔ ١ اور تاریخ دمشق ، ابن عساکر ج ١٣ ص ٧٦ فی ترجمة الامام الحسین علیہ السلام
(13) شواہد التنزیل الحسکانی ج٢ ٨١ ط ١ ۔ اس آیت کی تفسیر میں متعدد اسانید کے ساتھ
(14) مسند ابی دائود ج٨ ص ٢٧٤ ۔ اسد الغابہ ج٥ ص ٥٢١ و طبقات ابن سعد ج٧ ص ٢٠٦ والبدایة والنھایہ ابن کثیر ج٨ ص ٢٠٥ والمنتخب طریحی ص ١٨٦ ۔ طبع نجف
(15) الصواعق المحرقة ، ١٤٣
(16) الشافی السید مرتضی ، ٢٣٥ الطبعة الحجر یة اور تلخیص الشافی الشیخ الطوسی ج٣ ص ١٢٣ طبع نجف و امالی شیخ صدوق ، ص ٢٣٠ ۔ معانی الاخبار باب معنی الشحنة باسنادہ عن ابن عباس ، مجالس شیخ مفید شیخ مفید باسنادہ عن الامام الباقر گیارہویں مجلس از ابن حمزہ ثمالی ۔ مستدرک الحاکم نیشاپوری ج ٣ ص ١٥٤ باب مناقب فاطمہ ۖ مجمع الزوائد ج٩ ص ٢٠٣ باب مناقب فاطمہ ۖ الذخائر المحب الطبری فی ترجمہ فاطمہ ۔ اسد الغابہ ابن اثیر در ترجمہ فاطمہ ۔ مجمع البیان ج٢ ص ٤٥٣ ( اس میں روایت یوں ہے ۔ انّ الله لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضا ها )
(17) صحیح البخاری کتاب ابتدائے خلقت ، باب مناقب فاطمہ ، بخاری نے اسے دو مقامات پر ذکر کیا ہے ۔ کتاب نکاح ، اور باب ذب الرجل عن ابنتہ ، اور صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ، باب فضائل فاطمہ، مسند احمد ج٤ ص ٣٢٨ ۔ اور کتاب ترمذی الجامع الصحیح ج٥ ص ٦٩٨ کتاب مناقب فضائل فاطمہ (س)
دیدگاهتان را بنویسید