تازہ ترین

عقیقہ  ،اولاد کی تربیت میں موثر شرعی حکم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بیٹا (بچہ) اپنے عقیقہ پر منحصر ہے، جو اس کے لیے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے"۔
شئیر
383 بازدید
مطالب کا کوڈ: 9636
عقیقہ  ،اولاد کی تربیت میں موثر شرعی حکم
تحریر:ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی
اسلام کے نقطہ نظر سے بچوں کو بچپن سے ہی (حتی پیدائش سے پہلے) ایک خاص مقام اور خصوصی حقوق حاصل ہیں اور والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس  کی رعایت کرتے ہوئے ان کی سعادت کا  راستہ ہموار کریں ۔ایک صالح بچے کی پرورش  ، اس کی صحیح تربیت اور اسے مطلوبہ سعادت اور کمال تک پہنچانا پیدائش کے لمحے سے ہی  شروع ہوجاتا ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں ا ذان اور اقامت پڑھنا، اس کا اچھا نام رکھنا اور بچے کی  اچھی تربیت کے لئے سعی و کوشش کرنا  وغیرہ  تا کہ  فرزند کی صحیح تربیت کر کے  اس  کے اندر خالص پاک  انسانی صفات  رشد اورشکوفا ہو سکے۔ یہ  سب  والدین پر اولاد کے  کچھ حقوق  ہیں ۔ دین اسلام نے  جن چیزوں کا حکم  زیادہ تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے ان میں سے ایک   بچے کی ولادت کے بعد اس کے لئے عقیقہ کرنا ہے  ۔
مشہور شیعہ فقہاء کے نزدیک عقیقہ مستحب موکد ہےلیکن بعض فقہاء بشمول سید مرتضیٰ اور ابن جنید اسکافی کے نزدیک عقیقہ واجب ہے۔مشہور فقہاء کے مطابق بچے کی پیدائش کے ساتویں دن ایک گوسفند ذبح کرنا مستحب ہے ۔مستحب ہے کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کیا جاۓ اورکسی وجہ یا بغیر کسی وجہ کے تاخیر کرنے سے عقیقہ ساقط نہیں ہوتا، اور اگر اس کا عقیقہ نہ ہو ا ہوتو وہ بالغ ہونے کے بعد اپنا عقیقہ کرے، اور اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنا عقیقہ نہ کرسکے تو اس کی موت کے بعد اس کا عقیقہ کر سکتا ہے۔ اہل سنت  کے ہاں جیسے شافعی اور مالکی کے مطابق  بھی  عقیقہ کرنا مستحب ہے۔
“عقیقہ” “عق” کے مادہ سے  ہے اور یہ نوزاد بچے کے سر کے بالوں کو کہتے ہیں جن  کے ساتھ یہ نوزاد پیدا ہواہے، چاہے وہ انسانی بچہ ہو یا جانور، لیکن ابھی یہ اس جانور کا نام بن گیا ہے جسے کسی نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے۔
عقیقہ، “عق”  کے مادہ سے ہے  جس کا مطلب کسی چیز کو پھاڑنا ہے ۔ بچے کے بالوں کو  بھی عقیقہ کہتے ہیں کیونکہ بالوں کی وجہ سے  اس  کے سرکی جلد پھٹ جاتی ہے۔
فقہاء کی ایک جماعت کے مطابق عقیقہ  سے مرادبچے کی پیدائش کے وقت بکری کا ذبح کرنا ہے۔بعض دیگر فقہاء کے مطابق عقیقہ سے مرادوہ جانور ہے جو بچے کی پیدائش کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے  چاہے بچہ لڑکا ہو یا لڑکی
عقیقہ کی اہمیت
مشہور شیعہ فقہاء کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے۔ امام خمینی (رہ) تحریر الوسیلہ میں لکھتے ہیں کہ عقیقہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے مستحب موکد ہے۔(من المستحبات الأکیدة العقیقة للذکر و الأنثى‌….) لیکن بعض فقہاء بشمول سید مرتضیٰ(رہ) اور ابن جنید اسکافی(ره) کے نزدیک عقیقہ واجب ہے۔   بعض روایات کے مطابق عقیقہ واجب ہے  جن  میں سے بعض  کی طرف  ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں :(عَنْ عَلِی بْنِ أَبِی حَمْزَةَ عَنِ الْعَبْدِ الصَّالِحِ ع قَالَ: الْعَقِیقَةُ وَاجِبَةٌ إِذَا وُلِدَ لِلرَّجُلِ وَلَدٌ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ یسَمِّیهُ مِنْ یوْمِهِ فَعَل‌) راوی امام کاظم علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عقیقہ واجب ہے، جب بھی کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ اسی دن اس بچے کا نام انتخاب کر سکتا ہے۔(عَنْ أَبِی بَصِیرٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع «قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْعَقِیقَةِ أَ وَاجِبَةٌ هِی قَالَ نَعَمْ وَاجِبَة) راوی نے امام صادق علیہ السلام سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا کیا  عقیقہ واجب ہے؟ حضرت نے فرمایا ہاں واجب ہے۔(عَنْ أَبِی خَدِیجَةَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع «قَالَ: كُلُّ إِنْسَانٍ مُرْتَهَنٌ بِالْفِطْرَةِ وَ كُلُّ مَوْلُودٍ مُرْتَهَنٌ بِالْعَقِیقَة) راوی امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: ہر انسان رمضان المبارک کی فطرہ پر اور ہر نومولود اس کے عقیقہ پر منحصر ہے۔(عَنْ عُمَرَ بْنِ یزِیدَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع «قَالَ سَمِعْتُهُ یقُولُ‌ كُلُّ امْرِئٍ مُرْتَهَنٌ یوْمَ‌ الْقِیامَةِ بِعَقِیقَتِهِ‌ وَ الْعَقِیقَةُ أَوْجَبُ مِنَ الْأُضْحِیةِ) راوی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن ہر شخص اپنے عقیقہ پر منحصر ہے اور یہ عقیقہ قربانی سے زیادہ واجب ہے۔
مشہور فقہاء کے مطابق بچے کی پیدائش کے ساتویں دن ایک بکری ذبح کرنا مستحب ہے ۔ بچے کو آفات سے بچانے کے لیے عقیقہ کرنا اور اس کا گوشت کم از کم دس لوگوں کو کھلانا چاہیے۔مستحب ہے کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کیا جاۓ اورکسی وجہ یا بغیر کسی وجہ کے تاخیر کرنے سے عقیقہ ساقط نہیں ہوتا، بلکہ اگر اسکا عقیقہ نہ ہو اور وہ بالغ ہو جاۓ تو اپنی طرف سے خود عقیقہ کرے، اور خود اپنی زندگی میں اپنا عقیقہ نہ کرے تو اس کی موت کے بعد اس کا عقیقہ کر سکتے ہیں اور ضروری ہے کہ عقیقہ اونٹ ، گاۓ یا دنبے یا بکرے کا ہو۔ عقیقہ کا مناسب وقت ساتواں دن ہے اور اگر کسی وجہ سے ساتویں دن نہ کیا گیا تو اس کے بعد کیا جاتا ہے اور اگر اس شخص کے لیے نہ کیا گیا تو وہ شخص بلوغت کے بعد اپنے لیے عقیقہ کرتا ہے۔ بڑھاپے اور میت کا عقیقہ بھی مستحب ہے۔ عقیقہ کی قیمت میں صدقہ دینا عقیقہ کے لیے کافی نہیں ہے۔
حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق  علیہ السلام  سے پوچھا گیا کہ عقیقہ کے لیے جانور کی بہت تلاش کی ہے لیکن مل نہیں سکا آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اس کی قیمت صدقہ کردی جائے آپ نے فرمایا :پھرتلاش کرو اور کہیں سے حاصل کرو کیونکہ حق تعالی خون بہانے اور کھانا کھلانے کو دوست رکھتا ہے ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ امام(ع) سے پو چھا گیا کہ جو بچہ پیدائش کے ساتویں دن مرجا ئے تو کیا اس کاعقیقہ کرنا واجب ہے؟ فرمایا کہ اگر ظہر سے پہلے فوت ہوتو نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر ظہر کے بعد فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ کرنا چاہیے۔
عقیقہ کے روحانی اور معنوی اثرات کو دیکھتے ہوئے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے خود کو اس کا پابند سمجھا اور اپنی اولاد کو اس کے روحانی و الہی فوائد سے مستفید کیا۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کی زندگی سے جو روایات منقول ہوئی ہیں ان میں ارشاد ہے:«إِنَّ فَاطِمَةَ(س) عَقَّتْ عَنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ(ع) »حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حسن و حسین (علیہماالسلام ) کا عقیقہ انجام دیا۔” اس معاملے کی طرف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خصوصی توجہ اور بچوں کی زندگی اور روح میں اس کی اہمیت اس وقت زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کا عقیقہ کیا تھا، جیساکہ روایت میں ذکر ہوا ہے :” سَمّٰی رَسوُلُ اللهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) حَسَناً و حُسَیْناً (علیهما السلام ) یَوْمَ سٰابِعِهِمٰا وَعَقَّ عَنْهُمٰا شٰاةً شٰاةً”امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن حسن اور حسین علیہما السلام کا نام رکھا اور ان میں سے ہر ایک کی طرف سے  ایک  گوسفند کا عقیقہ کیا۔ لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی اپنی طرف سے عقیقہ  انجام دیا۔  یہ بھی منقول ہے: «عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ(ص) عَنِ الْحَسَنِ بِیدِهِ » پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے امام حسن (علیہ السلام) کا عقیقہ کیا” اس بنا پر شیخ حر عاملی نے  کتاب وسائل الشیعہ میں  ایک فرزند کے لئے متعدد عقیقہ کے جواز کا حکم دیا ہے ۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  کو اسوہ قرار دیتے ہوئے اپنے بچوں کے جسمانی  اورروحانی سلامتی کی خاطر سرمایہ گذاری کریں  جو کہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اپنی  اولاد کی زندگی کا آغاز قرب الٰہی سے کریں۔
 احادیث  میں  عقیقہ کی تاکید سے یہی بات سمجھ میں آتا ہے  کہ اسلامی ثقافت میں عقیقہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے اچھے کام ہوتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام س ایک روایت میں عقیقہ کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں :«کلُ مَوْلُودٍ مُرْتَهَنٌ بِالْعَقِیقَةِ؛» اس روایت کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچے کے جسمانی اور روحانی سلامتی اسی قربانی پر منحصر ہے۔  واضح رہے کہ اس معاملے میں جہاں تک احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ  قربانی صرف بچوں کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی نے بچپنے میں عقیقہ انجام نہیں دیا ہو  تب بھی اس کی صحت و سلامتی  کا انحصار قربانی پر ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کو تکلیفیں اور بیماریاں آتی ہیں جو بہت مسلسل اور پریشان کن ہوتی ہیں اور منطقی طور پر قابل قبول نہیں ہوتیں، اس کی ایک وجہ بچپن میں عقیقہ نہ کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص نے امام صادق  علیہ السلام  سے پوچھا: «إِنِّی وَ اللَّهِ مَا أَدْرِی کانَ أَبِی عَقَّ عَنِّی أَمْ لَا قَالَ فَأَمَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّهِ(ع) فعَقَقْتُ عنْ نَفْسِی وَ أَنَا شَیخٌ»میں اس  بات سے واقف نہیں ہوں کہ میرے والد نے میرا عقیقہ انجام دیا ہے یا نہیں ؟ امام نے فرمایا: اپنے لیے عقیقہ کرو۔ میں نے اپنے لئے عقیقہ کیا جبکہ میں بوڑھا ہو چکا تھا۔ درحقیقت امام کا بڑھاپے میں عقیقہ کرنے کا حکم دینا اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ذمہ داری  انسان کے کندھوں پر ہے اور یہ ذمہ داری  اس وقت تک ساقط نہیں ہوتا  جب تک یہ کام  انجام نہ پائے۔
عقیقہ کے بارے میں  مذکورہ  دعاؤں میں ایسے نکات ہیں جو غیر مادی امور کے حوالے سے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ «اللَّهُمَّ عَقِیقَةٌ عنْ فلَانٍ لَحْمُهَا بِلَحْمِهِ وَ دَمُهَا بِدَمِهِ وَ عَظْمُهَا بِعَظْمِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ وِقَاءً لآِلِ مُحَمَّدٍ(ص)   اے اللہ: یہ اس  شخص کا عقیقہ ہے  اس کا گوشت اس کے گوشت کے مقابلہ میں اسکی ہڈی اس کی ہڈی کے مقابلہ میں  اوراسکا خون اس کی خون کے مقابلہ میں ۔اے اللہ  اس قربانی کو آل محمد (ص) کی حفاظت کا ذریعہ بنا دے۔«إذَا ذَبَحْتَ فَقُلْ. .. الشُّکرَ لِرِزْقِهِ وَ الْمَعْرِفَةَ بِفَضْلِهِ عَلَینَا؛ جب تم ذبح کرو تو کہو کہ اے اللہ میں یہ قربانی اس نعمت کے شکر میں ذبح کر رہا ہوں جو تو نے ہمیں عطا کی ہے اور اس علم اور معرفت کی خاطر جو ہمارے اوپر  تیرا فضل ہے۔«لَک سُفِکتِ الدِّمَاءُ لَا شَرِیک لَک وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ اللَّهُمَّ اخْسَأِ الشَّیطَانَ الرَّجِیم؛اے معبود تیرے لیے خون بہایا  جاتا ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں  آپ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔ اے معبود شیطان کو ذلیل کر دے” ۔
ان دعاؤں میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں  کہ یہ قربانی بچے کی  صحت  اورسلامتی کے مقابلہ میں ایک  فدیہ ہے اور دوسر ا نکتہ یہ کہ یہ قربانی بچے کی طرف سے ہے اور اس کی نیت کے مطابق ذبح کی گئی ہے اور اس کی نیت  قرب خداوند کو حاصل کرنا ہے ۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ عقیقہ کی  اس دعا میں خدا سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ  وہ شیطان کو ذلیل کر دے ۔ درحقیقت عقیقہ اس نیت سے کیا جاتا ہے کہ بچے کی جسمانی اورروحانی سلامتی   کے حصول  کے  ساتھ ساتھ  قرب خداوندی  اور شیطان اس سے  دور ہو ۔
عقیقہ کرنے کی حکمت
اس حکم میں بھی دیگر احکام کی طرح حکمت پوشیدہ ہیں۔ ہم ان میں سے دو حکمتوں کا ذکر احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔
۱۔فرزند کی صحت  و سلامتی
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب تم عقیقہ کرو تو کہو: اے اللہ: یہ اس  شخص کا عقیقہ ہے  اس کا گوشت اس کے گوشت کے مقابلہ میں اسکی ہڈی اس کی ہڈی کے مقابلہ میں  اوراسکا خون اس کی خون کے مقابلہ میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہر بیٹا (بچہ) اپنے عقیقہ پر منحصر ہے، جو اس کے لیے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے”۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : «کلُ مَوْلُودٍ مُرْتَهَنٌ بِالْعَقِیقَةِ؛» ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہے۔
۲۔مسلمانوں کو کھانا کھلانا
بعض روایات کے مطابق عقیقہ کی حکمتوں میں سے ایک  حکمت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے کھانے کا دسترخوان بچھایا جائے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ یہ اچھا سلوک بچے کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اس عمل میں خدا کا ایک قسم کا شکر بھی مضمر ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “تولد کے ساتویں دن بچے کا عقیقہ کرو… عقیقہ کو اس کی ہڈیوں کو توڑے بغیر ٹکڑے ٹکڑے کر دو، اور کھانا پکانے کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کو (تیار شدہ کھانا کھانے کی) دعوت دو۔ “
 عقیقہ  کے گوشت کا ا ایک چوتھائی  دائی کو دے اور اگر دائی نہ ہو تو بچے کی ماں جس کو چاہے دے اور دس مسلمانوں کو کھانے پر بلائے اور اگر زیادہ ہو تو زیادہ  بہتر!” عبداللہ بن بکیر کہتے ہیں: ہم امام صادق علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے چچا کی طرف سے ایک قاصد آیا اور کہا: آپ کے چچا نے پوچھا ہے: ہم نے اپنے بیٹے کا عقیقہ کرنا تھا لیکن ہمیں کوئی حیوان  نہیں ملا۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم یہ رقم صدقہ کر دیں؟ امام نے فرمایا: نہیں؛ خدا کو بچے کی پیدائش کے لیے خون بہانا اور دوسروں کو کھانے کی دعوت دینا پسند ہے”
عقیقہ کی دعا
روایت کے مطابق  عقیقہ کرتے وقت اس دعا کو پڑھنا  چاہیے: «بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ اَللّٰہُمَّ عَقِیقَةٌ عَنْ فُلانٍ، لَحْمُہا بِلَحْمِہِ وَدَمُہا بِدَمِہِ،وَعَظْمُہا بِعَظْمِہِ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہا وِقاءً لاَلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ وَآلِہِ السَّلام »خدا کے نام  سے ،اے معبود یہ عقیقہ فلاں کی طرف سے ہے  اسکا گوشت اس کے گوشت کا اسکا خون اسکے خون کااسکی ہڈیاں اسکی ہڈیوں کا بدلہ ہے اے معبود تو اسے آل محمد کیلئے حفاظت کا ذریعہ بنا ان پر اور ان کی آل پر  درود وسلام ہو۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا جب تم عقیقہ کرنا چاہو تو اس دعا کو پڑھو:«یٰا قَوْمِ إِنِّی بَرِی‌ءٌ مِمّٰا تُشْرِکُونَ إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰاوٰاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِیفاً مُسْلِماً وَ مٰا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إنَّ صَلٰاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیٰایَ وَ مَمٰاتِی لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ لٰا شَرِیکَ لَهُ وَ بِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ اللَّهُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ بِسْمِ اللهِ وَ اللهُ أَکْبَرُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ تَقَبَّلْ مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ»۔
اے میری قوم میں بری ہوں اس سے جسے تم خدا کا شریک بناتے ہو میں نے اپنا رخ اس کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا میں نرا کھرا مسلمان ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں یقینا میری نماز میری عبادت میری زندگی میری موت الله کیلئے ہے جوجہانوں کا رب ہے جس کا  کوئی شریک نہیں یہی حکم مجھے دیا گیا ہے اور میں سر جھکانے والوں میں سے ہوں اے خدا تیرے لئے اور تجھ سے ہے خدا کے نام خدا کے ساتھ اور الله بزرگ تر ہے اے معبود رحمت نازل فرمامحمد و آل (ع)محمد پر اور فلاں ابن فلاں سے قبول فرما۔
عقیقہ کے بعد کی دعا
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :جب  عقیقہ کےجانور کو ذبح کیا جائے تو اس کے بعد اس دعا کو پڑھو:«وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰاوٰاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِیفاً مُسْلِماً وَ مٰا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلٰاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیٰایَ وَ مَمٰاتِی لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ لٰا شَرِیکَ لَهُ اللَّهُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ اللَّهُمَّ هَذَا عَنْ فلاں فلاں کا بیٹا”۔
امام باقر علیہ السلام سے بھی روایت ہے  کہ عقیقہ کے جانور کو ذبح کرتے وقت اس دعا کو پڑھنا چاہیے:«بِسْمِ اللهِ وَ بِاللهِ وَ الْحَمْدُ للهِ وَ اللهُ أَکْبَرُ إِیمَاناً باللهِ وَ ثَنَاءً عَلَى رَسُولِ الله وَ الْعِصْمَةَ لِأَمْرِهِ وَ الشُّکْرَ لِرِزْقِهِ وَ الْمَعْرِفَةَ بِفَضْلِهِ عَلَیْنَا أَهْلَ الْبَیْتِ فَإِنْ کَانَ ذَکَراً فَقُلِ- اللَّهُمَّ إِنَّکَ وَهَبْتَ لَنَا ذَکَراً وَ أَنْتَ أَعْلَمُ بِمَا وَهَبْتَ وَ مِنْکَ مَا أَعْطَیْتَ وَ کُلُّ مَا صَنَعْنَا فَتَقَبَّلْهُ مِنَّا عَلَى سُنَّتِکَ وَ سُنَّةِ نَبِیِّکَ وَ رَسُولِکَ وَ اخْسَأْ عَنَّا الشَّیْطَانَ الرَّجِیمَ لَکَ سُفِکَتِ الدِّمَاءُ لَا شَرِیکَ لَکَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ».
عقیقہ کےتربیتی نکات:
۱۔ فرزندکے لیے عقیقہ کرنا، والدین کے لیے اس کے اخراجات کو مد نظر رکھتے  ہوئے، فرزند کی  دینی تربیت کے لیے ان کی اہمیت کی علامت ہے ۔
۲۔  بچے کا عقیقہ کرنا گویا اس کی شخصیت کا احترام  کرنا ہے  اورگویا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچہ والدین کے لیے کتنا عزیز اور قیمتی ہے۔ اور یہ جب بچہ بڑا ہو جاتا  ہے اور اسے یہ بات معلوم ہو جاتا ہےکہ اس کے والدین  نے معاشی مسائل کے باوجود اس کی سلامتی کی خاطر اتنا خرچہ کیا ہے  تو اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے لئے کس قدر ارزشمند ہیں  ۔اوراس بات اس کے دو اثرات ہو سکتے ہیں: پہلا یہ کہ اس کے اور والدین کے درمیان احترام کا رشتہ مضبوط  سے مضبوط ترہو جاتاہے۔دوسرا یہ کہ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ والدین کے لئے کس قدر قابل ارزش ہیں جس کے نتیجہ میں اس کے اندر  خود اعتمادی کو تقویت مل جاتی ہے۔
۳۔ عقیقہ کی تقریب میں لوگوں کی شرکت اور ان کا مہمان ہونا حاضرین کے لیے بچے اور اس کی پیدائش کے بارے میں ایک خوشگوار یاد پیدا کرتا ہے، اور اس کی وجہ سے وہ مستقبل میں بچے کے ساتھ بہتر انداز میں رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ یعنی اس تقریب کی وجہ سے  مہمانوں کے اندر اس بچے کے ساتھ خاص رجحان اور دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور نتیجتاً جب بھی وہ اسے دیکھیں گے تو فطری طور پر اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے اور  دوسروں کے مقابلہ میں اس کے ساتھ  زیادہ محبت کریں گے۔جس  کے نتیجے میں  بچے کے اندر خود اعتمادی  کو تقویت مل جاتی ہے جس کی بنا پر  زندگی میں وہ  بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
۴۔ عقیقہ کی محفل  میں نیک لوگوں کی موجودگی اور بچے کے لیے ان کی دعا اس کی کامیابی اور نجات کی بنیاد فراہم کرے گی۔
۵۔ عقیقہ بچے کی زندگی کے لیے ایک قسم کا فدیہ ہے اور یہ اس کی صحت و سلامتی  کا سبب  بنتاہے۔ اسی لیے گوسفند کو ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھتے ہیں: (اللهم عظمها بعظمه و دمها بدمه و شعرها بشعره… )
۶۔عقیقہ والدین اور بچے کو خدا کے قریب لاتا ہے، اور یہ والدین کے بارے میں واضح ہےکیونکہ وہ خدا کی رضا کے لیے عقیقہ کرتے ہیں۔ عقیقہ کے دوران  جودعا  پڑھی جاتی ہے اس میں یہ موجود ہیں  🙁 لک سفکت الدماء لا شریک لک و الحمد لله رب العالمین) اے اللہ میں نے یہ خون تیرے لیے انجام دیا ہے۔ بچے  کے لئے بھی قربت خداوند ی واضح ہے کیونکہ یہ قربانی اس کے لئے انجام دے رہا ہے ۔ جیسا کہ عقیقہ کی دعا میں یہ موجود ہیں : (اللهم صل علی محمد و آل محمد و تقبل من فلان بن فلان) اے اللہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس قربانی کو فلاں بن فلان کے لئے قبول کر ۔
۷۔ عقیقہ انسان کے لیے خدا کی نعمتوں کا  ایک شکر انہ ہے ۔ روایات کے مطابق  فرزند خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور یہ عقیقہ اس کی ولادت کا شکر انہ ہے: ( عن ابی جعفر ع : قال اذا ذبحت فقل بسم الله و با الله و الحمد لله و الله اکبر ایمانا بالله و ثناء علی رسول الله و العصمه لامره و الشکر لرزقه)
۸۔ عقیقہ شیطان کو والدین اور اولاد سے دور رکھنے اور اس کے منفی اثرات سے بچانے کا سبب بنتا ہے۔ )لک سفکت الدما لا شریک لک و الحمد لله رب العالمین اللهم اخسأ الشیطان الرجیم(
۹۔والدین کے لئے عقیقہ کا گوشت کھانا مکروہ ہے   اسی لئے وہ اس سے پرہیز کرتے ہیں ۔  والدین کا یہ عمل گویا اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ اورایک قسم کی خود سازی ہے   اور اس کا  معنوی اثر بالواسط خود بچے تک پہنچتا ہےکیونکہ والدین بچوں کے لیے عملی رول ماڈل ہیں  اور شائستہ والدین ہی  شائستہ بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں۔
۱۰۔عقیقہ کرنا  ضرورت مندوں کے لیے ایک طرح کی معاشی امداد ہے اور اس سے معاشرے میں ضرورت مندوں کی عزت نفس بلند ہو جاتی ہے اور معاشرے میں بدعنوانی کم ہو جاتی ہے، اور یہ بالآخر معاشرے کے ماحول کو سالم بنانے میں مدد کرتا ہے۔ سالم  ماحول میں ہی  صحت مند اورسالم  افراد کی تربیت کر سکتا ہے۔
۱۱۔ مومنین کی کسی جماعت کو  کسی محفل میں  مدعو کرنا اور جشن منانا، [جیسا کہ روایات میں   بھی اس کی تاکید کی گئی ہے] مومنین کا ایک دوسرے سے زیادہ مانوس ہونے اور مومنین  کےنیٹ ورک کی تشکیل کا سبب بنتا ہے اور ان میں مزید اتحاد اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ  ایک سالم  اور باایمان معاشرےکی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ بایمان اورسالم معاشرہ ہی اپنے افراد کی تربیت کر سکتا ہے ۔
۱۲۔ والدین عاطفی مسائل کی بنا پر تسلی اور حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں کیونکہ لوگوں نے ان کی خوشیوں میں شرکت کی ہے
اور یہ ان میں مزید خوشی اور مسرت فراہم کرنے کے علاوہ، ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے  کے لئے  ایک تعمیری جذباتی جذبہ پیدا کرتا ہے۔
۱۳۔ یہ  حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی راہ خدا میں قربانی کی یاد دہانی ہے اور تمام والدین  کے لئے  خداوند متعال  کے احکام کی تعمیل کی راہ میں ایک درس ہے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *